کیا مسلم تنظیموں کا پریشر گروپ بن پائے گا؟

خورشید عالم

گذشتہ دنوں ملک کے دارالحکومت دہلی میں مسلم سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں بشمول مذہبی لیڈروں کی ایک اہم میٹنگ ہوئی جس میں 2014کے لوک سبھا انتخابات سے قبل مسلمانوں کا پریشر گروپ بنانے پر اتفاق رائے سے فیصلہ کیا گیا تاکہ مسلمانوں کو سیاسی پارٹیوں کے استحصال سے بچایا جاسکے۔ راجیہ سبھا کے آزاد رکن محمد ادیب کے گھر پر ہوئی اس میٹنگ میں تقریباً 100اہم شخصیات نے شرکت کی۔ اطلاع کے مطابق محمد ادیب کی رہائش گاہ پر ہونے والی یہ میٹنگ آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کے رکن مولانا سید سلمان حسنی ندوی کے کہنے پر منعقد کی گئی۔ اس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ علمائے کرام سیاست میں پہل کرنے کے لیے تیار ہیں اور مذکورہ میٹنگ دراصل اسی سلسلے کی کڑی تھی جس کے ذریعہ روڈ میپ تیار کرکے مسلم رائے دہندگان کی رہنمائی کی جائے گی اور ان کی اہمیت کو واضح کیا جائے گا۔

اس میٹنگ میں جمعیة العلماءہند کے جنرل سکریٹری اور سابق رکن پارلیمنٹ مولانا سید محمود مدنی، آسام یو ڈی ایف کے سربراہ اور رکن پارلیمنٹ مولانا بدر الدین اجمل، ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے صدر ڈاکٹر مجتبیٰ فاروق، آل انڈیا ملی کونسل کے نائب صدر اور اصلاحی موومنٹ کے صدر مولانا عبد الوہاب خلجی، آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت (سالم قاسمی) کے الیاس ملک، آل انڈیا مدارس بورڈ کے چیئرمین مولانا یعقوب بلند شہری، آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت (شہاب الدین) کے صدر ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں، مولانا سید احمد بخاری کے سیاسی مشیر راحت محمود چودھری، آل انڈیا مسلم پولیٹیکل کونسل کے صدر ڈاکٹرتسلیم احمد رحمانی اور ڈاکٹر اعجاز عرفی وغیرہ شریک تھے۔ میٹنگ کی صدارت مولانا سید سلمان حسنی ندوی نے کی۔ مولانا ندوی نے اپنی تقریر میں کہا کہ آزادی کے 64سال بعد بھی مسلمان ہر میدان میں پیچھے رہے حالانکہ کانگریس نے ہمیشہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کرتی ہے لیکن یہ سب دعوے کھوکھلے ثابت ہوئے۔ سیاسی استحصال ہی کانگریس کی پالیسی رہی جبکہ بی جے پی اقلیتوں کو فسادات میں نشانہ بناتی ہے۔ شرکاءمیٹنگ کا عام احساس تھا کہ اترپردیش میں تیسرا مورچہ بنایا جائے اور پورے ملک میں پریشر گروپ تشکیل دیا جائے۔

تیسرے مورچہ کی قواعد اترپردیش میںسماج وادی پارٹی سپریمو ملائم سنگھ یادو کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے جنرل سکریٹری اے بی بردھن، راشٹریہ جنتادل کے قومی صدر لالو پرساد یادو، لوک جن شکتی پارتی کے سربراہ رام ولاس پاسوان، لوک دل کے سربراہ اجیت سنگھ اور ترنمول کانگریس کے لیڈروں سے رابطہ قائم کیا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کی جانب سے کچھ علماءتیسرے مورچہ کی تشکیل کو لیکر ملائم سنگھ کے ہاتھوں کو مضبوط کرنے کی بات کررہے ہیں، مولانا ارشد مدنی نے لکھنو اور بنارس کے اپنے پروگرام میں ملائم سنگھ کو مدعو کیا جس کے بعد سے یہ بات موضوع بحث رہی کہ کیا مسلم لیڈر شپ کانگریس کا دامن چھوڑ کر سماج وادی پارٹی کے زیر سایہ عام مسلمانوں کو متحد کرے گی۔ لیکن بعد کے حالات نے واضح کردیا کہ کس طرح مولانا ارشدمدنی کو ان کے حوارین نے اندھیرے میں رکھ کر ملائم سنگھ کے ساتھ پروگرام کو شیئر کیا۔ بتایا جا تا ہے کہ اس صورتحال نے مولانا کو بے چین کر دیا اور انھوں نے اپنے بیانات کے ذریعہ ملائم کو کٹہرے میں کھڑا کرتے ہوئے ان کی پارٹی کی حکومت کی سرزنش کی۔

یہاں پر ان تین علماءکی ان کوششوں کا بھی ذکر کرنا غلط نہ ہوگا جس میں ایک مفتی بھی شامل ہے۔ یہ تینوں ملائم سنگھ کے پاس گئے اور ان کی حمایت کے لیے ریاست گیر مہم چلانے کے لیے فنڈ کا مطالبہ کیا۔ ابتدائی طور پر کچھ نذرانہ بھی دیا گیا جو آپس میں تقسیم ہوا۔ لیکن دو علماءکی اس خواہش نے کہ کیوں نہ تیسرے کو راستہ سے ہٹادیا جائے، معاملہ پوری طرح بگڑ گیا اور روایات کے مطابق بات یہاں تک پہونچی کہ خود ملائم سنگھ کے سامنے ہی دوسری میٹنگ میںیہ علماءآپس میں ہی زبانی دست و گریباں ہوگئے اور باہر نکل کر تو باقاعدہ جوڈو کراٹے سے استفادے کے موڈ میں تھے لیکن معاملہ زبانی بحث ومباحثہ تک ہی محدود رہا۔

جہاں تک مسلمانوں کے ذریعہ پریشر گروپ بنانے کی بات ہے۔ یہ خیال نہ تو نیا ہے اور نہ ہی یہ کوشش کوئی پہلی بار ہورہی ہے۔ تقریباً ہر عام انتخابات سے قبل بعض شخصیات وتنظیموں کی جانب سے اس طرح کی کوشش کرنے کی بات سنائی پڑتی ہے۔ پہلی میٹنگ کی روداد جہاں قدرے تفصیل سے سامنے آتی ہے وہاں دوسری اور تیسری میٹنگ کی مختصراً رپورٹ کے بعد کوئی خبر نہیں ملتی کہ اس پریشر گروپ کا کیا ہوا جس میں زعمائِ ملت شامل تھے اور بڑے خوبصورت نعروں کے ساتھ عام مسلمانوں کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس لیے بنیادی سوال یہ ہے کہ اس پریشر گروپ کا مقصد کیا ہے، کیا یہ مسلمانوں کی سیاسی قوت کے لیے تشکیل دیا جا رہا ہے یا پھر مسلم لیڈر شپ کے لیے۔ جہاں تک عام مسلمانوں کا معاملہ ہے برادرانِ وطن کی طرح ان میں بھی بیداری آئی ہے اور وہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرتا ہے جبکہ مسلم لیڈر شپ کی اکثریت ’مسلمان کسی سیاسی پارٹی کے بندھوا مزدور نہیں ہیں‘ کا ورد کرنے کے باوجود چھوٹی برائی کو اختیار کرنے کی بات کرکے اپنی سیاسی وابستگی کا اظہار کرتی ہے۔ مسلم لیڈرشپ دہلی میں بیٹھ کر اپنے چشمہ سے ملی مسائل کو دیکھتی ہے لیکن عام مسلمانوں کے نزدیک وہ مسائل اتنے اہم نہیں ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر بیشتر مسلم تنظیموں اور مسلم لیڈرشپ کی جانب سے فرقہ پرستی ایک بڑا مسئلہ قرار دیا جاتا ہے اور بدعنوانی انکے نزدیک اتنی اہم نہیں ہے۔ گذشتہ دنوں مجھے ایک کانفرنس میں سورت جانے کاموقع ملا۔ وہاں مسلمانوں کی اکثریت کاروبار سے منسلک ہے۔ متعدد پڑھے لکھے اور اصحاب الرائے افراد کے علاوہ عام لوگوں سے گفتگومیں یہ بات سامنے آئی کہ وہ فرقہ پرستی کو اتنا بڑامسئلہ نہیں مانتے جتنا بڑا مسئلہ بدعنوانی کو مانتے ہیں، کیونکہ وہ کاروبار سے وابستہ ہیں اور بڑھتی ہوئی بدعنوانی انکے کاروبار کے لیے نقصاندہ ہے۔ اس لیے وہ اس کے تئیں زیادہ فکر مند ہیں۔ یہ صورتحال اکیلے ریاست گجرات میں ہیں نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کی غالب اکثریت کی سوچ یہی ہے کہ بدعنوانی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ مسلم جماعتیں کبھی بدعنوانی کے خلاف سینہ سپر ہوکر سامنے نہیں آتی ہیں صرف اخباری بیان کی حد تک ہی دکھائی پڑتی ہیں۔

2012میں اترپردیش میں ہوئے اسمبلی انتخابات سے قبل بھی مولانا سید سلمان حسنی ندوی کی قیادت میں تقریباً دودرجن مسلم سیاسی پارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا گیاتھا۔ پہلے اس کا نام ’اتحاد فرنٹ‘ رکھا گیا لیکن بعد میں اس کا نام ’ایکتا مورچہ‘ ہوگیا۔ اس مورچہ میں ریاست کی پیس پارٹی بھی شامل تھی لیکن الزام اور جوابی الزام کے چلتے وہ مورچہ سے باہر آگئی۔مولانا سلمان حسنی ندوی کے ذریعہ اس مورچہ کی تشکیل پر کہا گیا کہ اس کا مقصد مسلم ووٹوں کو بکھرنے سے روکنا ہے۔ سینئر صحافی اور معروف کالم نگار عبد الحفیظ نعمانی نے اپنے کالم میںمولانا سلمان حسنی ندوی کی اس پہل کو برسر اقتدار بہوجن سماج پارٹی کو فائدہ پہونچانے کا مقصد بتاتے ہوئے کہا کہ موصوف جو یونانی کالج چلا رہے ہیں اس میں مالی بے ضابطگیوں کا عالم یہ ہے کہ اس کالج پر چھاپہ پڑ چکا ہے او رلکھنو کے اخبارات میں پورے صفحہ پر اس سے متعلق رپورٹ شائع ہوئی ہیں۔ جب الیکشن کا موقع آیا تو مایاوتی کو فائدہ پہونچانے کی غرض سے اس مورچہ کو قائم کیا گیا۔ حفیظ نعمانی کے ان الزامات پر مولانا سلمان ندوی کی جانب سے کسی طرح کی کوئی وضاحت بھی دیکھنے کو نہیں ملی، نتیجہ یہ ہوا کہ مسلم رائے دہندگان نے انھیں اور ان کے مورچہ کو پوری طرح مسترد کرکے اپنے سے دور کرلیا۔

موجودہ پریشر گروپ کی ہیئت ترکیبی کیا ہوگی،کا کوئی ایکشن پلان ابھی سامنے نہیں آیا ہے۔ لیکن جس طرح مسلم سیاسی جماعتوں بشمول مذہبی لیڈروں کو جمع کیا گیا ہے اس سے یہ بات تو صاف ہے کہ اترپردیش اورمرکز میں برسراقتدار پارٹیوں کے سامنے مطالبات پیش کیے جائیں گے جیسا کہ ان جماعتوں اور شخصیات کی جانب سے ہر الیکشن کے موقع پر ہوتا ہے لیکن ان میں سے کتنے حل ہوتے ہیں یہ بات کسی سے چھپی نہیں ہے۔ ان حالات میں بعض سیاسی مبصرین کی یہ رائے کہ اس پریشر گروپ کا مقصد مسلم مسائل کا حل نہیں بلکہ سیاسی پارٹیوں سے سودے بازی کے لےے ماحول کو بناتے ہوئے خودکو سامنے لانا ہے اور اس حوالے سے اسٹیج تیار ہوگیاہے ، کتنی صحیح ہے یا غلط ،کا فیصلہ قارئین خود کرسکتے ہیں۔

Syyed Mansoor Agha
About the Author: Syyed Mansoor Agha Read More Articles by Syyed Mansoor Agha : 226 Articles with 164852 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.