بتیس سال سیاسی نشیب و فراز سے گزرنے، قید و بند کی
صعوبتوں اور جلاوطنی کے بعد قسمت کی دیوی ایک بار پھر نواز شریف کو اقتدار
کی بلندی تک لے آئی ہے۔ موجودہ حالات میں انہیں مسائل کے انبار اور مخالفین
میں کچھ اپنے ہی ساتھیوں کا سامنا ہے۔ ماضی میں نواز شریف کن سیاسی اتار
چڑھاو کا شکار رہے۔یوں تو نواز شریف نے انیس سو تراسی میں ایک مارشل لا
ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیا الحق کی نوازشات کی بدولت بطور وزیر خزانہ پنجاب اپنی
قابلیت کے جوہر دکھائے اور انکی معاشی پالیسیوں نے سیاسی میدان میں انہیں
آگے بڑھنے کا موقعہ دیا،تاہم انیس سو پچاسی میں وزیر اعلی پنجاب کی حیثیت
سے انہوں نے سیاسی میدان اور ایوانوں میں ایک ہلچل مچا دی جس نے نواز شریف
کے دل و دماغ میں وزارت عظمی تک پہنچے کی آگ بھڑکائی۔انیس سو اٹھاسی میں
جماعت اسلامی، جمیعت علما اسلام ، جمیعت علما پاکستان نیازی، اور جمیعت
اہلحدیث پر مشتمل اسلامی جمہوری اتحاد تشکیل دیا لیکن ایک بار پھر پنجاب کی
قیادت تک ہی محدود رہے۔ انیس سو نوے میں دینی اور دیگر ہم خیال جماعتوں پر
مشتمل اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے ایک نیا سیاسی اتحاد تشکیل دے کر نواز
شریف اس وقت کے عام انتخابات میں ملک کی بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کو
پیچھے دھکیلتے ہوئے وزارت عظمی کے عہدے پر براجمان ہوئے۔ لیکن پہلے ہی دور
اقتدار میں نہ صرف اپنے ہی اتحادیوں، اپوزیشن بلکہ عسکری اداروں سے ٹکراو
کی وجہ سے صرف دو سال آٹھ ماہ کا عرصہ ہی حکومت کر سکے۔ انیس سو ستانوے میں
جماعت اسلامی اور دیگر سیاسی گروپوں کی ناراضگی کے باوجود انتخابات میں دو
تہائی اکثریت سے دوسری بار وزیراعظم منتخب ہوئے لیکن ایک بار پھر سیاسی نا
پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئین میں متعدد ایسی ترامیم کیں جن کا مقصد
اداروں کی مخالفت کا مقابلہ کرنا تھا۔ دوسرے دور اقتدار میں کچھ جذباتی
فیصلوں، عدلیہ اور عسکری اداروں سے ٹکراو کی وجہ سے نہ صرف اقتدار کے ایوان
سے نکل کر اڈیالہ جیل پہنچے بلکہ چودہ ماہ تک کال کوٹھریوں کی صعوبتیں بھی
برداشت کیں۔ بعد ازاں تقریبا چھ سال گیارہ ماہ کی جلاوطنی بھی کاٹی۔ ملکی
سیاست میں دوبارہ قدم جمانے کے لئے آخر کار نواز شریف نے دوہزارپانچ میں
اپنی بڑی سیاسی حریف جماعت، پیپلز پارٹی سے میثاق جمہوریت سائن کیا اور دو
ہزار آٹھ کے انتخابات سے صرف تین ہفتے پہلے سر زمین پاکستان پر قدم رکھا
لیکن عام انتخابات میں انہیں خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی تاہم میثاق
جمہوریت کی زنجیر میں بندھنے کی وجہ سے انکی جماعت پیپلز پارٹی کے ساتھ
مرکز اور پنجاب میں شریک اقتدار رہی لیکن دو اپریل ، دو ہزار دس میں
اٹھارویں ترمیم کے ذریعے تیسری بار وزیراعظم بننے پر پابندی کے خاتمے کے
بعد نواز شریف کو ایک بار پھر کھل کر سیاست کرنے کا موقعہ ملا اور انکی
جماعت نے پیپلز پارٹی سے اتحاد ختم کر کے پنجاب میں سیاسی استحکام کے لئے
بھر پور جدوجہد کا آغاز کیا جس کا ثمر بھی انہوں نے حالیہ انتخابات میں
پایا اور ایک بار پھر وزارت عظمی کی کرسی پر جا پہنچے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ
ماضی کی سیاسی غلطیوں سے انہوں نے کیا سبق سیکھا اس کا اندازہ بطور
وزیراعظم انکے اقدامات سے چند مہینوں میں ہی واضح ہو جائے گا اور اس بار
میاں نواز شریف امیر المومنین بننے سے بھی اجتناب کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے
ارد گرد مفاد پرستوں اور خوش آمدیوں سے بھی بچیں کیونکہ جن غریب پاکستانیوں
کے ووٹ لیکر وہ اقتدار کی تیسری باری لے رہے ہیں سب سے پہلے انکی محرومیوں
کا ازالہ کریں کیونکہ گرمی ،مہنگائی اور غربت کی دلدل میں دھنسی ہوئی غریب
عوام نے میاں نواز شریف کو اس لیے ووٹ نہیں دیے کہ وہ خود ٹھنڈے کمروں میں
بیٹھ کر عوام کے لیے مشکلات پیدا کریں بلکہ اس لیے انہیں وزیر اعظم بنایا
گیا ہے کہ وہ پاکستانی عوام کی محرومیوں کا ازالہ کریں اگر اس بار بھی میاں
نواز شریف نے امیر المومنین بننے کی کوشش کی تو پھر آنے والے پانچ سال دور
نہیں ہیں ۔ |