پاکستانی وزیر اعظم ڈرون حملوں کے خلاف ڈٹ گئے

پاکستان میں دو ہزار چار سے ڈرون حملے جاری ہیں جن کے بارے میں پاکستان کا پہلے دن سے ہی واضح موقف رہا ہے کہ یہ حملے پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری کے خلاف ہیں، ان حملوں سے نہ صرف شدت پسندی میں اضافہ ہوا ہے بلکہ ملک میں دہشت گردی بھی بڑھی ہے۔پاکستان ڈرون حملوں کو بند کرنے کے حوالے سے کئی بار احتجاج بھی کرچکا ہے۔ نومنتخب وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے ایوانِ زیریں سے اپنے اولین خطاب میں امریکی ڈرون حملے بند کیے جانے کا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا تھا: ”ہم دوسروں کی خود مختاری کا احترام کرتے ہیں، دوسرے بھی ہماری خود مختاری کا احترام کریں اور ڈرون حملوں کا باب اب بند ہو جانا چاہیے۔“ اس کے جواب میں امریکی دفترِ خارجہ کی ترجمان جینیفر ساکی نے میاں نواز شریف کی جانب سے ڈرون حملے بند کرنے کے مطالبے پر محض اتنا کہا تھا کہ ’اس کے لیے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے سلسلے میں اپنی سرزمین پر خود ہی دہشت گردی کے خلاف کارروائی کرنے کی استعداد بڑھانے کے لیے اپنے دوست ملکوں کے ساتھ مل کر کام کریں۔‘ اس سے قبل انتخابات میں میاں نواز شریف کی جماعت کی کامیابی کے بعد انتیس مئی کو بھی شمالی وزیرستان میں ایک ڈرون حملہ ہوا جس میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے نائب امیر ولی الرحمن مارے گئے تھے، جس کے بعد تحریک طالبان پاکستان نے احتجاجاً مذاکرات کی پیش کش واپس لے لی تھی۔ اس ڈرون حملے پر بھی نواز شریف کی جانب سے ایک جاری کیے گئے بیان میں ان حملوں کو بند کیے جانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔حکومتِ پاکستان کا مستقل موقف یہی ہے کہ ڈرون حملوں کے نقصانات ان سے حاصل ہونے والے فوائد سے کہیں زیادہ ہیں اور جہاں ان حملوں میں معصوم شہری مارے جاتے ہیں وہیں یہ ملکی سالمیت کے اصولوں اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔

ان تمام قوانین و مطالبات کو پس پشت ڈالتے ہوئے امریکا نے ایک بار پھر جمعہ کے روز شمالی وزیرستان میں ڈرون حملہ کیا جس میں سات افراد جاں بحق ہوئے۔ میاں نواز شریف کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ پہلا ڈرون حملہ ہے۔ شمالی وزیرستان میں ڈرون حملے کے بعد وزیراعظم میاں نواز شریف کی ہدایت پر امریکی ناظم الامور رچرڈ ہوگلینڈ کو دفتر خارجہ طلب کیا گیا۔ دفتر خارجہ کی جانب سے ڈرون حملوں پر وزیراعظم اور مشیر خارجہ طارق فاطمی کی طرف سے شدید احتجاج ریکارڈ کرایا گیا اور احتجاجی مراسلہ امریکی ناظم الامور کے حوالے کیا گیا۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ ڈرون حملے پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سا لمیت کی خلاف ورزی ہیں، امریکا فوری طور پر ڈرون حملے بند کرے۔ ڈرون حملوں میں معصوم شہریوں کی جانیں ضائع ہورہی ہیں۔ ڈرون حملے پاک امریکا تعلقات میں بھی رکاوٹ بن رہے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ پاک امریکا تعلقات خوشگوار اور تعاون پر مبنی رہیں۔ ڈرون حملوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ پرمنفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ امریکا کو بتادیا کہ حکومت پاکستان ڈرون حملوں کی شدید مذمت کرتی ہے۔امریکا کو ڈرون حملوں کے بارے میں اپنی حکمت عملی بدلنا ہو گی۔ہفتے کے روز جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلی سے ملاقات کے دوران بھی وزیراعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ ڈرون حملوں کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ ڈرون حملے ہماری خودمختاری اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں ہم نے ان پر کئی بار احتجاج کیا ہے، یہ حملے بند ہونے چاہئیں۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے ناقابلِ قبول ہیں۔جرمن وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ امریکی صدر اوباما نے ڈرون سے متعلق جو نئی پالیسی مرتب کی ہے اس پر پاکستان امریکا مذاکرات ہونے چاہئیں۔ ڈرون حملے پاکستانی حکومت اور عوام کے لیے بہت حساس معاملہ ہے۔

دوسری جانب تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ڈرون حملے ملکی خود مختاری اور سالمیت کے خلاف ہیں،ڈرون حملوں میں بے گناہ افراد مارے جاتے ہیں، اگر ان حملوں میں مارے جانے والے افراد دہشت گرد ہیں تو ان کی شناخت ظاہر کی جائے۔پنجاب اسمبلی مےں اپوزےشن لےڈرو تحر ےک انصاف کے پنجاب اسمبلی مےں پارلےمانی لےڈر مےاں محمود الر شےد نے کہا ہے کہ ڈرون حملوں پر حکمرانوں کو دوٹوک موقف اختےار کر نا ہو گا ورنہ قوم ان کو معاف نہےں کر ے گی۔پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما ارباب خضر حیات نے کہا ہے کہ ڈرون حملے پاکستان کی سا لمیت پر ضرب ہیں۔ قوم کا پیمانہ صبر لبریز ہوچکا ہے،مزید حملے برداشت نہیں کیے جائیں گے۔ امریکا کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ ڈرون حملے بند نہ ہوئے تو پاکستان اس کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ڈرون حملوں میں بے گناہ مسلمانوں کی ہلاکت کے باعث امریکاکے خلاف نفرت کے جذبات بھڑک رہے ہیں۔ دفاع پاکستان کونسل کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کہا ہے کہ ڈرون حملے میں طالبان کے اہم لیڈر ولی الرحمن کی موت سے طالبان کے اعتماد میں کمی آئی ہے۔

واضح رہے کہ امریکا میںامریکی صحافی جیرمی کیہل نے ایک نئی دستاویزی فلم ریلیز کی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ مشتبہ افراد کے خلاف امریکی خفیہ حملے بے سود قتل کی مہم ہیں جن سے نئے دشمن پیدا ہورہے ہیں اور امریکا کا امیج بھی تباہ ہورہا ہے۔امریکی صحافی جیرمی کیہل نے ڈرون حملوں اور کمانڈو آپریشنز کے ذریعے شدت پسندوں کو مارنے کی مذمت کی ہے۔جیرمی کا کہنا ہے کہ ان حملوں سے امریکا خود اپنے لیے مشکلات پیدا کررہا ہے۔جب لوگوں پر ظلم ہوتا ہے تو وہ نئے عزم کے ساتھ امریکا کے خلاف لڑنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ میں کئی سال اس موضوع پر کام کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہم حقیقی دہشگردوں کو مارنے کی بجائے زیادہ نئے دہشتگرد پیدا کررہے ہیں۔جیرمی نے یمن میں انوراولاکی کا حوالہ بھی دیا کہ وہ ایک عام امریکی شہری تھا مگر نائن الیون کے بعد امریکا میں مسلمان مخالف ماحول کی وجہ سے وہ شدت پسند بن گیا۔امریکا اپنے لیے دشمن پیدا کررہا ہے۔
اسی طرح چند روز قبل برسلز کے ایک معتبر ٹھنک ٹینک انٹر نیشنل کرائسس گروپ نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ڈرون حملوں کے نتیجے میں لوگ انتہا پسندی کی جانب راغب ہوجاتے ہیں اورپاکستان کے سرحدی علاقوں میں جنگجوﺅں کی صفوں میں اضافہ روکنے میں امریکی ڈرون کا کردار آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے، ڈرون حملے کوئی طویل المدتی حل پیش نہیں کرتے۔ ان حملوں میں عسکریت پسندوں سے زیادہ پاکستانی شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، امریکا کی یہ مہم عالمی قوانین کے متصادم ہے اوراوباما انتظامیہ کو اس پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ اوباما انتظامیہ کو عالمی قوانین کا احترام اور انسانی جانوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کی پالیسی اپنانا ہوگی۔ یونائٹیڈ نیشن کی رپورٹس کے مطابق امریکی ڈرون حملوں میں 80 سے 90 فی صد بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں۔اےک بےن الاقوامی اےن جی او کے ڈپٹی ڈائرےکٹر ہےلری سٹوفیر کا کہنا ہے کہ امریکا کے حملوں میں مارے جانے والوں میں شدت پسندوں کی تعداد 3,4 فیصد ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ ڈرون حملے خود کش حملے سے زیادہ ہلاکت خیز ہوتے ہیں۔ اگر امریکا دوسرے ممالک میں من مانی بستیوں پر ڈرون حملے کرتا ہے تو جن کے پاس ڈرون ٹیکنالوجی نہیں ہوتی وہ انتقام میں خودکش حملہ کرتے ہیں، جس کا نشانہ پاکستانی شہری بنتے ہیں۔ اگر خود کش حملے اور بارودی سرنگوں کے دھماکے روکنے ہیں تو ڈرون حملوں کو بھی روکنا ہوگا۔ یاد رہے کہ پاکستان میں ڈرون حملوں کا آغاز 2004ءمیں ہوا تھا، سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اب تک 22 سو سے زاید افراد امریکی ڈرون حملوں میں جاں بحق ہو چکے ہیں۔پاکستانی دفتر خارجہ کے اعداد وشمار کے مطابق 2004ءسے لے کر اب تک پاکستان میں330 ڈرون حملوں میں 2200 سے زاید افراد جاں بحق ہوئے جبکہ غیر سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 366 ڈرون حملوں میں 2537 افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔ ان حملوں میں 411 عام شہری جبکہ 168 کم سن بچے بھی موت کی وادی میں چلے گئے اور 1174 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700801 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.