شاہ زیب قتل کیس سزائے موت

مجھے یاد ہے کتنی ہی راتیں میں نے آنکھوں میں کاٹی سونے کی کوششں کرتی تو شاہ زیب کا مسکراتا چہرہ بار بار میری آنکھوں میں آجاتا پھر شاہ رخ جتوئی کی چہرے کی رعونت اس عکس کو دھندلا دیتی غم کی جگہ غصہ لے لیتا افسوس کی جگہ طیش بے وقت بے ثمر بے اثر طیش بھلا غصے اور طیش سے ان زخموں کا مداوا ممکن ہے آہ شاہ زیب-

لوگ کہتے ہیں کہ ہم کالم نگار صحافی لوگ خبر ڈھونڈتے ڈھونڈتے اور خبر بناتے بناتے بے حس ہوجاتے ہیں قارئین میں کوئی صحافی نہیں ہو بس ایسے ہی کم فہمی میں شوق کی بنا پر لکھ لیتاہوں ہاں خواہش ہے اخبار میں لکھنے کی-

لوگوں کے مطابق یہ سب خبریں ہمارے نزدیک محض اخبار کے پنوں پر لگنے والی ایسی خبریں ہیں جنہیں ہم انسانیت نہیں بلکہ دو چار کالم کی خبر کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں مگر پھر بھی خبروں کے اس انبار میں ہم دن رات سر ڈالے بیٹھے رہتے ہیں ان میں کچھ خبر ایسی بھی ہوتی جو آپ کے زہن و دل کو جھنجھوڑ ڈالتی ہے سیدھا آپ کے دل پر وار کرتی ہے-

ایسی ہی ایک خبر گزشتہ برس دسمبر کے جاتے دنوں میں شاہ زیب قتل کیس کی تھی قتل ایک عام سی واردات وہی ہمارے معاشرے کا ایک اور گھیسا پٹا افسانہ بھلا جہاں وڈیرہ اور وڈیرے کا بیٹا آجائے وہاں ہم جیسے کمی کمین کچھ بولنے کے لائق رہتے ہیں کہاں ایک پولیس افسر کا بیٹا کہاں ایک وڈیرے کا بانکا
یہ خبر جیسے میرے دل میں کھب سی گئی مجھے یوں لگا جیسے مقتول سے میرا کوئی قریبی تعلق تھا ہر جگہ شاہ زیب ہی موضوع سخن تھا سب کو اسکا دکھ تھا -

یکم جنوری 2013 کو پتا چلا کہ چیف جسٹس نے اس خبر پر سوموٹو ایکشن لے لیا چیف جسٹس تو بہت سی خبروں کا نوٹس لیتے ہیں مقدمہ چلتے چلتے مقدمے کا رخ بدل گیا 7جون 2013 کو شاہ زیب کے قاتلوں کو سزائے موت کا حقدار قرار دے دیا سزائے موت کا عدالتی فیصلہ نہایت ہی خوش آئیند اقدام ہے اگر چیف جسٹس نوٹس نہ لیتے درست ایف آئی آر درج نہ ہوتی اگر سول سوسائٹی آواز بلند نہ کرتی تو کیا شاہ زیب کے والدین کو انصاف ملنا ممکن ہوتا -

سزائے موت تو سنا دی لیکن اپیل کیلیے ابھی چند روز باقی ہے خدا خیر کرے کہیں ان چند دنوں میں بساط نہ الٹ جائے کہیں شاہ زیب کے اہل خانہ کو زچ کر زبردستی دیت یا معافی کا اعلان نہ کرادیا جائے کہیں انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور نہ کردیا جائے کہیں یہ سزائے موت عمر قید میں نہ بدل جائے کچھ ایسا نہ ہو کہ ملک میں قانون ایک بار پھر وڈیرےکی طاقت کے آگے کمزور تنکے کی مانند بہتا چلا چائے اور امید کی کوئی رمق باقی نہ رہے
بقول علامہ اقبال کے
حزر اے چہرہ دستاں سخت ہیں
فطرت کی تعزیریں
mohsin noor
About the Author: mohsin noor Read More Articles by mohsin noor: 273 Articles with 248028 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.