وزیراعظم نواز شریف کی کابینہ نے حلف اٹھا لیا ہے اور انہیں وزارتوں کے
قلمدان بھی سونپ دیئے گئے ہیں،وزارت امور کشمیر کا قلمدان سابق بیوروکریٹ
اور منجھے ہوئے سیاستدان چوہدری برجیس طاہرکے سُپرد کیا گیا ہے جس کے بارے
میں آزاد کشمیر کے عوام نے ان سطروں کے قلمبند کئے جانے تک کسی رد عمل کا
اظہار تو نہیں کیا گیا مگر چند ایک تحفظات کا اہلیان آزاد کشمیر اور کشمیری
سیاستدان اظہار کرتے رہے ہیں، ان میں کشمیریوں کا ہمیشہ یہ مطالبہ رہا ہے
کہ 1973 ء کے آئین میں ترامیم کر کے کشمیریوں کو با اختیار بنایا
جائے،کشمیر کونسل کشمیریوں کا ایک آئینی ادارہ ہے جس میں کشمیریوں کو
پالیسی سازی، مالیات اوراسی طرح کے دیگر معاملات میں صرف نام کی آزادی دی
گئی ہے جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ اس ادارے کو حکومت پاکستان کا ماتحت ادارہ
بنا دیا گیا ہے۔کشمیری اس بات پر بھی نالاں ہیں کہ کشمیر کونسل کو وہ مقام
نہیں دیا گیا ہے جس کا وہ حق دار ہے اور کشمیری جس آئینی حد تک اس کی
آزادانہ اور خود مختارانہ حیثیت چاہتے ہیں۔ کشمیر کونسل کی حیثیت کشمیریوں
اور کشمیر کاز میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور اس ادارے کی تمام تر
فنڈنگ کشمیریوں کے ٹیکسوں سے ہو رہی ہے، پہلے بھی اور منظور وٹو کی عہد
وزارت میں نہ صرف اس ادارے کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی بلکہ اس کے فنڈز کو
مرکزی حکومتی اللّوں تللّوں میں اڑایا گیا، کشمیرکونسل کے بنیادی و اساسی
قواعد کے مطابق یہاں پر 98 فیصد کشمیریوں کی بھرتی ضروری ہے اور 2 فیصد
پاکستانی شہریوں کو اس میں تعینات کیا جا سکتا ہے مگر گزشتہ دور حکومت میں
ان قواعد و ضوابط کی بھی دھجیاں اڑائی گئیں اور اس سے کشمیریوں پر ملازمتوں
کے دروازے بند کر کے ان کی مایوسی کو انتہائوں تک پہنچایا گیا۔ابھی تک
کشمیریوں نے پاکستان کے 1973ء کے آئین کی روح کے مطابق آزاد کشمیر اور
کشمیر کونسل کیلئے علیحدہ علیحدہ فنڈز ہیں یو این سی آئی پی کی قراردادوں
کے مطابق دونوں فنڈز کو ایک جگہ یکسو کیا جائے،اس کے علاوہ بھی جو دیگر
سفارشات کی گئی ہیں وزیر امور کشمیر کوا ن کا گہرائی سے جائزہ لیکر
کشمیریوں کے تحفظات کا ازالہ کرنا چاہئے۔
کشمیر جنت نظیر کے پانیوں سے پاکستان کے کھیت اور کھلیانوں کی بہاریں ہیں،
سونا اگلتے میدان کشمیر سے بہہ کر آنے والے دریائوں کے مرہون منت ہیں،
المیہ یہ ہے کہ پاکستان کے چاروں صوبوں کو ان دریائوں کے پانی اور جہاں
جہاں ڈیمز ہیں ان کی رائیلٹی ادا کی جا رہی ہے مگر سر زمین کشمیر سے آنے
والے دریائوں کے پانی اور یہاں پر ڈیموں کی نہ تو کوئی رائیلٹی ہے اور نہ
ہی کوئی اہمیت ،مزید دکھ کی بات یہ ہے کہ منگلا جیسا عظیم پراجیکٹ ہونے کے
باوجود آزادکشمیرکے عوام 18 سے 20 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی اذیت برداشت کررہے
ہیں، یہ بات درست ہے کہ آزاد کشمیر کے بالائی علاقے گرمی کی اس حدت اور شدت
سے محفوظ ہیں جو زیریں علاقوں میں ہے مگر لوڈشیڈنگ کے عذاب سے آزاد کشمیر
کی معیشت کا بھٹہ بیٹھ گیا ہے، جو تھوڑی بہت صنعت آزاد کشمیر میں موجود بھی
ہے اس لوڈشیڈنگ کے ہاتھوں وہ بھی قریب المرگ ہے، بیروزگاری پہلے ہی بڑھ رہی
ہے اور قابل ٹیلنٹ پاکستان کے بڑے شہروں میں '' ڈش واشر'' کے فرائض انجام
دے کر اپنا اوراپنے زیر کفالت کا پیٹ پالنے پر مجبور ہے، منگلا ڈیم کے اپ
ریزنگ کے مسئلہ کے متاثرین ابھی تک حکومتی امداد اور سیٹلمنٹ کے منتظر ہیں۔
اگرچہ وزیر موصوف نے بھاشا ڈیم کے اخراجات اور ڈیزائن سے متعلق رپورٹ طلب
کر لی ہے اس لئے یہ امید ہو چلی ہے کہ آنے والے دنوں میں آزاد کشمیر سے
لوڈشیڈنگ کے حوالے سے بہتر خبر سننے کو ملے گی۔اتنے گھمبیر اور پیچیدہ
مسائل کا شکار آزاد کشمیر کے عوام نئے وزیر امور کشمیر چوہدری برجیس طاہر
سے بجا طور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کے محولہ بالا مسائل پر سنجیدگی
سے غور کریں گے، یہ بات تسلیم ہے کہ اس قسم کے مسائل راتوں رات حل نہیں ہو
سکتے مگر ان کے حل کی جانب پیش رفت تو ہو سکتی ہے، کشمیری گزشتہ 64 سالوں
سے الحاق پاکستان کیلئے کوشاں ہیں، وہ اپنے اس نصب العین کے لئے اپنی تین
نسلیں قربان کرا چکے ہیں۔ اذیت کے اس ماحول میں ان کی کوشش ہے کہ حرف شکایت
ان کے لبوں پر نہ ہی آئے مگر بعض تقاضے ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے حصول کیلئے
آگے بڑھنا ہی پڑتا ہے، اس موقع پر ہم توقع کرتے ہیں کہ چوہدری عبدالمجید کی
موجودہ حکومت نئے وزیر امور کشمیرچوہدری برجیس طاہر کے ساتھ مل کر عوام
آزاد کشمیر کو درپیش مسائل کے حل کیلئے کوئی لائحہ عمل طے کریںگے اور عوام
کو ریلیف دینے کیلئے اقدامات بھی اٹھائیں گے۔ |