یہ 9اپریل 1985 کی بات ہے،اس دن پنجاب کی وزارتِ علیا کی حلف برداری کی
تقریب تھی،میاں نواز شریف پہلی دفعہ وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوچکے
تھے،تقریب کے اختتام کے بعد اسمبلی کی خواتینممبرزکوریڈورمیں سمٹ کر ایک
جانب کو کھڑی تھیں ،اچانک وہاں سے گورنرپنجاب جنرل غلام جیلانی کا گزر
ہوا،وہاں سے گزرتے ہوئے ان کی نظران خواتینپہ پڑی تو انہوں نے ان سے چائے
کا پوچھ لیا،خواتین نے جواب دیا کہ اندر کمرے میں بہت رش ہے ،اس لیے ہم
اندرجاہی نہیںسکے،جواب سن کر جنرل جیلانی ان خواتین کوچائے پلانے کے لیے
ایک سائیڈ روم میں لے کر گئے ،یہ خواتین اندر گئیں تو وہاں ایک عجیب منظر
تھا،کمرہ ایم این ایز اور ایم پی ایزسے بھرا ہوا تھا،یہ سارے لوگ میاں نواز
شریف کووزیر اعلیٰ بننے پر مبارک باد دے رہے تھے اور جنرل جیلانی ہنس ہنس
کر ان سب سے اپنے ”حسنِ انتخاب“ کی داد لے رہے تھے، گورنر جیلانی نے ان
خواتین کو وہاں بٹھا کر ویٹر کو چائے کا آرڈر دیا،میاں صاحب ابھی تک لجائے
اور گھبرائے ہوئے کھڑے تھے ،ان کو شاید یقین ہی آکے نہیں دے رہا تھا کہ وہ
وزیر اعلیٰ بن گئے ہیں،وہ بات بات پہ نروس ہورہے تھے،ایسے میں کمرے میں
مخصوص یونیفارم اور پگڑی پہنے ویٹرزچائے پیش کرنے کے لیے اند رداخل
ہوئے،ایک ویٹرچائے اور دیگر لوازمات کی ٹرے لے کر اس طرف بڑھا،جہاں میاں
صاحب ،جنرل جیلانی اور دیگر چند” شرفاء“کھڑے تھے،نہ جانے اچانک جنرل جیلانی
کو کیا سوجھی ،انہوں نے ایک دم سے ویٹر کی پگڑی لی اور میاں صاحب کے سررکھ
دی،یہ منظر دیکھ کر کمرے میں فلک شگاف قہقہے بلند ہوئے،میاں صاحب اور ویٹر
اپنی اپنی جگہ بوکھلائے ہوئے کھڑے تھے،حاضرین کے قہقہوں کا لامتناہی سلسلہ
دیکھ کر میاں صاحب کے ہاتھ بے اختیارپگڑی کی طرف اٹھے لیکن پھر پگڑی تک
پہنچ کر معلق ہوگئے ،نواز شریف کاچہرہ خشک پڑگیا تھا ،وہ لال پیلے ہورہے
تھے۔
محترم قارئین! یہ واقعہ اس زمانے کی اسمبلی ممبر اورمعروف ادیبہ بشریٰ رحمن
نے روایت کیا ہے،وہ یہ کہانی بیان کرکے کہتی ہیں :” اس وقت میاں نواز شریف
کو سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ یہ”دستارِ فضیلت“ اتاردینی چاہیے یا سر پر
دھری ہی رہنی چاہیے؟ان کو سمجھنے میں دقت ہورہی تھی کہ یہ مربی کی طرف سے
اعزاز ہے یا استہزاءہے؟وہ تذبذب کا شکا ر تھے کہ آقا کی اس حرکت میں ہنسنا
چاہیے یا پھر برسنا چاہیے....“
یہ میاں صاحب کی سیاست کی ابتدا تھی،اس وقت پاکستان میں جنرل ضیاءکی حکومت
تھی،انہوں نے نوے دنوں میں الیکشن کرانے کا وعدہ کیا تھا مگر وہ ایفا تو نہ
ہوسکا ،البتہ اپریل 1985ءکوملک میں غیرجماعتی انتخابات کرانے میں کامیاب
ضرور ہوگئے اور اس نتیجہ میںانہی کی منظورِ نظر کابینہ معرضِ وجود میں
آئی،اسی دوران صوبائی انتخابات میں میاںنواز شریف پہلی بار پنجاب کے وزیر
اعلیٰ منتخب کیے گئے،میاں صاحب صدر جنرل ضیاءالحق کے منہ بولے بیٹے تھے،اسی
ناتے جنرل صاحب کی نظر میں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے ان سے وفادار شخص
کوئی نہیں تھا،بظاہر میاں صاحب نے یہ کامیابی روایتی سیاستدانوں ،وڈیروں
اور جاگیرداروں کے خلاف حاصل کی تھی جو سیاست کو اپنے باپ دادا کی
میراث،اقتدارکو اپنا حق اور اختیار کواپنی رکھیل سمجھتے تھے،لیکن یہ بھی
حقیقت ہے کہ میاں صاحب کو صدر جنرل ضیاءالحق اور گورنر پنجاب لیفٹیننٹ جنرل
غلام جیلانی کی بھرپور حمایت حاصل تھی،اس زمانے میں پنجاب کی 75فیصد آبادی
دیہاتوں ،گاﺅں اور گوٹھوں پر مشتمل تھی،اس لیے میاں صاحب کی کامیابی ان
غریب،پس ماندہ اور جفاکش لوگوں کے لیے خوش آئند بات تھی۔
بہرحال،اس وقت بھی میاں صاحب کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ ان کا اصل
سرمایہ ان کی خاندانی شرافت ہے،میاں صاحب ایک تاجر پیشہ گھرانے سے تعلق
رکھتے تھے،اسی وجہ سے ان کے اندر دیگر امور میں وہ پھرتی نظر نہیں آتی
تھی،میاں صاحب کے بارے میں آج تک یہ بھی کہا جاتا ہے کہ و ہ بلاول کی طرح
سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوئے تھے، اگر ان کے سر پر جنرل ضیاءکا
دستِ شفقت نہ ہوتا توآج ان کو کوئی بھی نہ پوچھتا، ان کے بارے میںیہ بھی
معروف ہے کہ میاں صاحب سے اگر اس وقت میاں محمد شریف مرحوم کی دولت لے لی
جاتی اور کہا جاتا کہ خود محنت کرکے اپنے پیروں پہ کھڑے ہوکر دکھاﺅ،تو آج
میاں صاحب وہیں کے وہیں کھڑے رہتے،جہاں ان کو چیلنج کیا گیا تھا۔
اس میں دورائے ہرگز نہیں کہ میاں صاحب ”سیلف میڈ“نہیں ہیں،یہ دنیا کے دیگر
رہنماﺅں سےقطعی مختلف ہیں،ان کو کسی بھی ادارے کی مینجمنٹ ،کسی بھی سسٹم کی
ڈیویلپمنٹ اورکسی بھی شعبہ کے سیٹ اَپ کی سمجھ بوجھ نہیں ہے،اس
کےباوجودمیاں صاحب نے پنجاب ِ کی وزارت اعلیٰ سمیت دیگر وزارتوں کے مزے بھی
لوٹے،دودفعہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم بھی بنے،پاکستان کی سب سے
بڑی سیاسی پارٹی کے قائد بھی ہیں،میاں صاحب کی کامیابی کی اصل وجہ میاں
محمد شریف مرحوم ہیں،شریف صاحب ایک ایماندار،منجھے ہوئے اورمعروف بزنس
ٹائیکون تھے،انہی کی وجہ سے جنرل ضیاءکی عقابی نگاہ ان پہ پڑی،یہیں سے خوش
قسمتی کی دیوی ان پہ مہربان ہوئی اور آج تک میاں صاحب کے پاس کوئی چیز ہے
تو وہ ہے پارٹی کی قیادت؛میاں صاحب پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی کے قائد
ہونے کی وجہ سے اپنی ”قائدانہ صلاحیت“کا استعمال کرتے ہوئے آج یہاں ہیں ۔
آج میاں صاحب تیسری دفعہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے منتخب وزیر اعظم بن چکے
ہیں،آپ الیکشن کے بعد سے میاں صاحب کے اطوار کو ذرا دیکھ لیں،یہ آپ کو یکسر
بدلے ہوئے نظر آئیں گے،آج میاں نواز شریف میں1988والی کوئی چیز نہیں ،آج یہ
کسی IJIکا سہارا لے کر وزیر اعظم نہیں بن رہے اور نہ ہی فوج کے کسی گروہ کا
ان کے ساتھ تعاون ہے،ہمیں یہ ماننا چاہیے کہ یہ آج پہلے سے زیادہ بدلے ہوئے
اور بہت زیادہ میچور ہوگئے ہیں،ان کو اپنی غلطیوں کا ادراک ،خامیوں کا علم
اور کوتاہیوں کا احساس ہوگیا ہے،ان کی زبان میں پہلے کی طرح تند و ترش
جملوں کے بجائے عاجزی اور انکساری آچکی ہے،یہ پہلے کی طرح اپنے دل میں
مخالف کے لیے بغض و عناد لیے نہیں بیٹھے بلکہ اب تو سارے پاکستان کا درد ہی
ان کے جگر میں سمٹا ہوا ہے،یہ ذاتی انتقام کو ملکی سالمیت پر قربان کرنے کو
تیار ہیں،اپنی انا کوقومی مفاد پر ترجیح دیتے ہوئے نظر آرہے ہیں،اگر چہ اب
بھی میاں صاحب میں بہت سی خامیاں ہیں،لیکن آج ہم میاںصاحب کی لیڈر شپ اور
پارٹی ورکنگ کو دیکھ کر یہ امید کرسکتے ہیں کہ اب کی بار میاں صاحب وہ فحش
غلطیاں نہیں کریںگے ،جن کی وجہ سے پاکستان کو نقصان کے سوا کچھ بھی نہیں
ملا۔
جس طرح 1947میں مسلم لیگ کو ایک نومولود ملک کو سنبھالنے اور ایک بکھری
ہوئی قوم کو یکجا کرنے کا فریضہ سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ کئی
گوناگوںمشکلات کاسامنا تھا،اسی طرح آج کی حکمران پارٹی کو بھی اتنے سارے
مسائل کا سامنا ہے،آج پورا پاکستان دہشت گردی کی آگ میں سلگ رہا ہے،قومی
ادارے تباہ ہورہے ہیں،قوم پے درپے عجب مصائب کی شکار ہے،مسائل کا ایک جمِ
غفیر ہے،میاں صاحب کو ان سارے مسائل سے نمٹنا ہوگا،سب سے پہلے پاکستان کو
خارجی مداخلت اور و داخلی انتشارسے بچانا میاں صاحب کی اولین ترجیح ہونی
چاہیے،اس کے بعد پاکستانی قوم کو کمرتوڑ مہنگائی،لوڈشیڈنگ کے عفریت اور
معاشی بدحالی سے نجات دلاکرقوم کا عمومی سوشلاسٹیٹس بدلنا ہوگا،ڈیپریشن کا
شکارنوجوانوں کے اندر سے مایوسی ختم کرنی ہوگی،قومی اداروں کو خوشحال کرکے
قوم کو IMFکے چنگل سے چھٹکارا دلانا ہوگا،تب کہیں جاکر میاں صاحب اس قوم کا
دل جیت سکتے ہیں،اس ملک کی اکثریت نے 11مئی کو ان پہ اعتبارکرتے ہوئے انہیں
اپنے سیاہ و سفید کا مالک بنایا ہے،اب یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ ان توقعات
پہ پورا اتریں،اگر میاں صاحب قومی امنگوں پہ پورے اترتے ہیں تو ہمیں یہ
سمجھ لینا چاہیے کہ یہ ترکی کے اردگان،ملائیشیا کے مہاتیر اور جنوبی افریقا
کے منڈیلابن جائیں گے ورنہ اگر یہ ان کی امیدوں پہ نہیں اترے تو میاں صاحب
کو پی پی،قاف لیگ اور اے این پی کا حشر یاد رکھنا چاہیئے اور ایسی صورت میں
میاں صاحب کو ابھی سے ہی اگلے 13سالہ” اعتکاف“ کے لیے بوری بستر باندھ لینا
چاہیے۔ |