ریت پر لکھو گے تو مِٹ ہی جائے گا!

آج کل جملوں اورعنوانات پر کون غور کرتاہے۔حالانکہ ٹھنڈے دل سے صرف عنوانات پر ہی صرفِ نظر کر لیا جائے تو پورے مضمون کا خلاصہ مل سکتا ہے۔چونکہ ہم لوگ بہت تیز رفتار زندگی کی طرف مائل ہو چکے ہیں اس لئے پورا مضمون لکھنے کو ترجیح دیتے ہیں وہ اس لئے کہ کب تک بلا عنوان لکھا جائے گا،ذرا ان جملوں کی طرف غور کریں :حکومتوں میں بھی فرقہ پرست عناصر موجود ہوتے ہیں‘ یہاں عوام کو انصاف نہیں مل پاتاہے ‘ یہاں کسی مجبور و بے کس فرد کی داد رسی کوئی نہیں سنتا ‘ اس طرح کے جملے ظاہر ہے کہ میرے نہیں ہو سکتے، اگر یہ میرے ہوتے تب بھی ہمیشہ کی طرح اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اس لئے کہ تجزیہ کاری کی زندگی میں اس قسم کے جملے اتنی بار نظرِ سامعین کر چکا ہوںکہ اب بارِ گراں محسوس ہوتاہے۔ایسے جملے آج کل میڈیا میںبہت زوروں پر سنائی دیتے ہیں مگر ارباب شاید کانوں میں روئی ڈال کر بیٹھے ہیں یا پھر انہوں نے کچھ نہ سننے کی قسم کھا رکھی ہے۔سمجھ میں نہیں آتاکہ اُن ارباب کا شکریہ کس طرح ادا کیاجائے کہ جنہوں نے عوامی مسائل کی طرف اور اس کے حل کے لئے قدم بڑھائے ہیں۔

مَن کَانَ مِنکُم یُو مِن بِاللّٰہ....(الٰلوُ والمرجان، ح:29) ترجمہ: تم میں سے جو شخص اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان رکھے اس کو چاہیئے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے، پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرے، ماں باپ کا احترام کرے۔

اب ذرا غور فرمایئے میرے ہم وطنو!کہ جس کے کاندھے پر حکمرانی کا بوجھ ہو وہ اگر عوام کی داد رسی نہ کرے ،عوام کی فریاد نہ سنے توکیا اللہ اور اس کے رسول ﷺ ایسے حکمرانوں سے ناراض نہیں ہوگا۔یقینا ہوگا۔کیونکہ ایسے حکمرانوں کا محاسبہ عوام توکرتے ہی ہیں مگر اللہ تبارک و تعالیٰ بھی ان سے باز پرس ضرور کرے گا۔ہمارے آج کے حکمرانوں کاکیاکہنا:کہ عوام مشکلات میں گھری ہوئی ہے اور انہیں چین کی نیند آ جاتی ہے۔ بیانات دے کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے عوام کی مشکلات کو حل کر دیا ، یہاں تو ایک طرف لاشے گِر رہے ہوتے ہیں اور حکمران چین کی بانسری بجانے میں محو رہتے ہیں۔ لوگ اغواءہو رہے ہیں اور پھر مار ڈالے جا رہے ہیں مگر سب اچھا ہے کا ترانہ آج بھی ان کے زبان زدِ عام پر ہے۔

کن کن مسائل سے پردہ اٹھایاجائے جبکہ یہ پردہ کامعاملہ ہزارہا بار اٹھایاجاچکاہے میرے علاوہ بھی کئی لکھنے والے روزانہ ہی مسائل گنواتے رہتے ہیں۔مگر کیا ،کیا جائے مخلوقِ خداکے مسائل حل ہی نہیں ہوتے۔سرکاری نوکریاں عام لوگوں کو ملتی نہیں ہیں اور سیاسی جماعتوں کے لوگوں کویا سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے لوگوں کو بلا روک ٹوک سرکار ی نوکری فراہم کی جاتی ہے۔یہ اقربا پروری نہیں تو پھر کیا ہے۔بات اقربا پروری کی چل نکلی ہے تو ایک اور مسئلہ بھی سپردِ قلم کر دوں کہ پچھلے دنوں چند سرکاری ملازمین سے گفت و شنید ہوئی اور اُن لوگوں نے اپنے کئی مسائل بیان کیئے جن میں سرِفہرست جو مسئلہ تھا اسے یہاں گوش گزار کرنے کی سعی کرنے جا رہا ہوں کہ جو لوگ پہلے سے بلکہ کافی پرانے سرکاری نوکریوں پر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں ان کے ساتھ ناانصافیوں کا ایساسلسلہ جاری ہے کہ وہ جس گریڈ میں داخلِ دفتر ہوتے ہیںنوے فیصد اُسی گریڈ میں ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچ جاتے ہیں۔اور نئے لوگوں کو داخلِ دفتر کرکے اُن پرانے لوگوں کی ترقیوں کے راستے پر دیوارِ چین بنادیاجاتاہے۔یہ ایسی ناانصافی ہے کہ سرکاری ملازمت کرنے والے افراد اس سے کافی دلبرداشتہ نظر آتے ہیں۔خدانخواستہ میں یہ نہیں کہتاکہ نئے لوگوں کی بھرتی نہ کی جائے ان کاحق ہے انہیں نوکری دی جائے مگر جو پرانے لوگ ہیں انہیں بھی ان کے حق محروم نہ رکھاجائے۔ہر ادارے میں بیورو کریسی کی طرح ایک دو افسر ایسے ہوتے ہیں جواپنے اوپر والے افسران کی نظروں میں اپنی جگہ بنانے کے لئے اپنے سرکاری ملازم بھائیوں کے حقوق کو غصب کرتے ہیںاور ایسے افسران یہ فرائض بہت احسن طریقے سے انجام دے کر حق داروں کا حق مارا کرتے ہیں ۔ایسے لوگوں کا قلع قمع کیاجاناچاہیئے جو سیٹ پر بیٹھ کر خود کو نعوذ باللہ خدا سمجھتے ہیں۔نئی منتخب حکومت سے اس سلسلے میں نہایت مودبانہ درخواست ہے کہ بجٹ کا مہینہ بھی ہے اور لازمی ہے کہ وہ سرکاری ملازمین کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور کریں گے تواگر کچھ کرنا ہی ہے تو پچھلے دور میں بنے پے اینڈ پینشن کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں کچھ نہیں تو کم از کم ملازمین کو اس بجٹ میں اگلے گریڈ میں ترقی دینے کا کارہائے ضرور انجام دیں تاکہ ان ملازمین کی داد رسی ممکن ہوسکے۔اگر ایسا نہ ہوا اور ہر سال کی طرح وہی روایتی بجٹ ہی پیش کر دیاگیاتوپھر ہم صرف اس شعر کا سہارا ہی لے سکتے ہیں کہ:
یارب! عتابِ عام بجٹ سے بچا ہمیں
گھر کے بجٹ کی، جیب کی، انکم کی خیر ہو
قیمت بڑھے نہ پیاز کی، چینی کی اور اب
کپڑے کی ، دال، روٹی کی، شلجم کی خیر ہو

کبھی کبھی ہوتاہے ناکہ آپ بہت زیادہ مشکل میں گرفتار ہوتے ہیں اور اس سے نکلنے کا کوئی بھی راستہ آپ کو سجھائی نہیں دیتا۔ آپ ہرطرف سے لاچار اور بے بس ہوتے ہیں۔روز بروز زندگی کاگھیرا تنگ ہوتاجاتاہے اور آپ کی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی ایسا ہوجو اس مشکل سے نکلنے میں آپ کی مددکرے یاآپ کی ہمت بندھائے اور آپ کی ساری پریشانی، دکھ اور تکلیف کو سمیٹ لے اور آپ ہر پریشانی سے آزاد ہو جائیں۔اس کرہ ¿ ارض پر ایسی ایک ہی ہستی ہے،بے غرض محبت کرنے والا،بے شمار چاہتیں لٹانے والا اور آپ کے ہر دکھ کا مداوا کرنے والا ”اللہ “ ۔ تو کیوں نہ اللہ سے ہی مدد مانگا جائے ۔اور اگر دنیاوی لوگوں سے وسیلہ کے طور پر مدد مانگنی ہے تو اس وقت ملک میں نئے منتخب وزیراعظم موجود ہیں ۔کل اور آج میں بڑا فرق ہوتاہے۔آج کل ان کے تیور کام کرنے اور مسائل حل کرنے کے نظر آتے ہیں۔اس لئے ہم اور آپ سب یہ کہہ سکتے ہیں کہ وزیراعظم صاحب! ہماری زندگی تو دھوپ کی مانند ہے مگر آپ اس پر گھنا سایہ بن جائیں تاکہ اس ملک کے عوام کی پریشانیاں ختم نہ سہی کچھ کم توہوں۔

مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ نے ہر طبقہ کی ناک میں دم کر رکھاہے۔پاکستان بھر کے عوام کی زبان پرایک ہی بات ہے مہنگائی نے مار ڈالا،لوڈ شیڈنگ نے جینا حرام کر دیاہے۔خیر ! عوام کا تو کام ہی چیخنا چلاناہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ ان تمام مسائل سے شدید دوچار ہیں ورنہ کسی کی چیخ خواہ مخواہ کہاں نکلتی ہے۔بہرحال اُمید پر دنیاقائم ہے دوستو! ابھی کل کی بات تو ہے کہ نئی حکومت نے اپنی پہچان آپ سے کروائی ہے اور کل ہی وزیراعظم صاحب نے اپنے عہدے کا حلف بھی لیاہے۔تو ذرا ٹھہریئے مسائلستان سے مسائل تک پہنچنے میں کچھ وقت تو درکار ہوتاہی ہے نا۔کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں اس لئے یہاں پرانگریزی کے اس جملے کاسہارالینا پڑے گاکہ Wait & Watch.

بہرِکیف! موجودہ نئی حکومت سے عوام نے بہت سی امیدیں وابستہ کر لی ہیں اور انہیں کرنابھی چاہیئے کیونکہ الیکشن سے پہلے کے وعدوں کو اب نبھانے کے دن آچکے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت وہی پرانے ڈگر پر چلتی ہے یا پھر گرما گرم قرار دادوں کو پاس کروا کر عوام کے مسائل کم کرتی ہے۔ عوام اپنی اصلاح و احوال کی امید اُس وقت تک نہیں کر سکتے جب تک انہیں اپنے مسائل کے تئیں کچھ کمی نظر نہ آجائے۔جن خواہشوں کو عوام نے اپنے اندر پِرو لئے ہیں انہیں ٹھوکروں پر نہیں رکھاجاسکتا اور نہ ہی آنکھوں کا سُرمہ بنایاجاسکتاہے کہ جب جی چاہا لگا لیا اور جب جی چاہا دھو دیا۔آج کا معاشرہ اور عوام تو واقعی مسائل کا حل چاہتی ہے اورموجودہ حکومت نے بھی ابھی تک مسائل کے حل کے لئے سر توڑ کوششیں کرکے اجلاس در اجلاس کا معاملہ جاری رکھا ہواہے۔بس دیکھئے کس روز سے آپ کے مسائل میں کمی کا رجحان آتاہے۔ہماری دعا ہے کہ عوامی حکومت عوامی کی فلاح و بہبود کے لئے ضرور اقدامات کرے گی ۔خدا میاں صاحب کو عوام کے توقعات پرپورا اترنے کی صلاحیت عطا کرے۔وگرنہ تو اس مضمون کے عنوان کی طرح ہر لکھائی ریت پر لکھنے کے مترادف ہی ہوگا کہ چاہے جو کچھ بھی لکھ دیا جائے وہ مٹ ہی جائے گا۔
Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 367971 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.