سید قائم علی شاہ کی نئی مدت کا آغاز ،عوامی حلقے خوش گوار حیرت میں
مبتلا
وزیراعظم نواز شریف نے کراچی میں امن و امان کی صور تحال بہتر بنانے کے لیے
مشاورت شروع کردی
سندھ میں عام انتخابات اور نئی حکومت کے قیام کے باوجود کراچی میں حالات
بدستور دگرگوں ہیں۔ شہر کے مختلف علاقوں میں سیاسی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ
اور بوری بند لاشیں ملنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے کے دوران ایم
کیو ایم، جماعت اسلامی، سنی تحریک سمیت مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے
کارکن بدامنی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں لیکن اربابِ اختیار اس صورت حال پر قابو
پانے میں تاحال ناکام دکھائی دیتے ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ کے ہمدردوں کو اغوا کے بعد قتل کیے جانے پر رابطہ کمیٹی
کی جانب سے جمعرات کے روز کراچی سمیت سندھ بھر میں یومِ سوگ منایا گیا، اس
کے باعث کاروباری اور تجارتی سرگرمیاں معطل رہیں۔ یومِ سوگ سے کراچی کی
معیشت کو پیداواری لحاظ سے 8 ارب روپے کا نقصان ہوا جب کہ کم ازکم 20لاکھ
افراد یومیہ اجرت سے محروم ہوئے۔ ایم کیو ایم اپنے ہمدردوں کے اغوا اور قتل
کیے جانے پر مسلسل سراپا احتجاج ہے، اس کے باعث پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم
کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب سندھ
میں پانچویں بار پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوچکی ہے اور سید قائم علی شاہ
کو تیسری بار وزارتِ اعلیٰ کا منصب سنبھالنے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔
وزیرِاعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے اپنی حکومت کی نئی مدت کا آغاز شہر کے
مختلف علاقوں کے اچانک دوروں سے کیا ہے، انہوں نے مختلف تھانوں پر چھاپے
مارے اور ڈیوٹی سے غیر حاضر ایس ایچ اوز کی سرزنش کی جس سے عوامی حلقے خوش
گوار حیرت میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ حلف اٹھانے کے فوری بعد وزیرِاعلیٰ سندھ نے
لیاری کا دورہ بھی کیا جس پر ایم کیو ایم نے واضح الفاظ میں تنقید کی اور
پیپلزپارٹی پر کالعدم پیپلز امن کمیٹی کی سرپرستی کا الزام لگایا۔
پیپلزپارٹی کی جانب سے لیاری سے منتخب ہونے والے کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے
حمایت یافتہ دو ارکان سندھ اسمبلی ثانیہ ناز اور جاوید ناگوری میں سے کسی
ایک کو صوبائی وزارت دینے پر غور کیا جارہا ہے۔
اس مرتبہ پیپلزپارٹی کے لیے سندھ میں حکومت کرنا پہلے کی طرح آسان نہیں
ہوگا کیوں کہ تاریخ میں پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی
حکومت ہے اور مرکز میں نہیں ہے۔ اب سندھ حکومت بیشتر امور میں وفاق کی
محتاج ہوگی جب کہ ن لیگ کی وفاقی حکومت کراچی میں بدامنی پر سندھ حکومت کو
فری ہینڈ نہیں دے گی لہٰذا پیپلزپارٹی کی حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنا
پڑے گا۔ عام انتخابات میں پیپلزپارٹی حاصل کردہ ووٹوں کے تناسب سے ملک میں
تیسرے نمبر کی پارٹی بن گئی اور ایک بڑی پارٹی کی حیثیت سے اس کی ساکھ کو
دھچکا لگا ہے۔ سندھ کے علاوہ دیگر صوبے اس کے ہاتھ سے نکل جانے پر محسوس
ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی کو اپنی گرتی ہوئی ساکھ اور ناکام پالیسیوں کا احساس
ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب سندھ حکومت کے قیام کے بعد وزیرِ اعلیٰ پہلے کی
نسبت زیادہ فعال نظر آرہے ہیں۔ وزیرِاعلیٰ سندھ نے سرکاری محکموں میں جعلی
بھرتیاں روکنے کے لیے نئی بھرتیوں پر پابندی عاید کردی ہے جب کہ کراچی
سرکلر ریلوے پروجیکٹ کی بحالی کے منصوبے کی بھی منظوری دی ہے۔ اس ضمن میں
وزیرِاعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے سندھ کابینہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ
سرکلر ریلوے سے زیادہ فائدہ نچلے طبقے کو ہوگا، منصوبے کی لمبائی 43 کلو
میٹر ہے اور پورے سفر کا کرایہ صرف 25 روپے ہوگا جو 50 پیسے فی کلو میٹر
بنتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تقریباً 7 لاکھ مسافر روزانہ پبلک ٹرانسپورٹ
استعمال کرتے ہیں اور یہ منصوبہ مکمل ہونے کے بعد تقریباً 30 لاکھ مسافر
سفر کرسکیں گے۔ اس کی لاگت 2.6 بلین ڈالر یعنی 247 بلین روپے ہوگی۔
سید قائم علی شاہ کی ان سرگرمیوں اور فعالیت کو اس تناظر میں دیکھا جائے کہ
ن لیگ بھی سندھ پر بھر پور توجہ دے رہی ہے، اس نے سندھ سے 3 وفاقی وزرا بھی
لیے ہیں، شہباز شریف کراچی میں میٹرو بس شروع کرنے کے بارے میں بیان دے چکے
ہیں، جب کہ نواز شریف نے کہا تھا کہ سندھ میں پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم
حکومت کریں لیکن لاشیں نہیں گرنے دیں گے اور بدامنی برداشت نہیں کی جائے
گی۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی کو اب یقین ہوگیا ہے کہ دیگر صوبے تو ہاتھ سے
نکل چکے ہیں کہیں سندھ (جو اس کا مضبوط قلعہ سمجھا جاتا ہے) سے بھی وہ آﺅٹ
نہ ہوجائے۔ دوسری جانب وزیراعظم نواز شریف نے سندھ کی سیاسی صورت حال
بالخصوص کراچی میں امن و امان کی صور تحال بہتر بنانے کے لیے پارٹی کے
سینئر رہنماﺅں سے مشاورت شروع کردی ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق نواز شریف نے
ابھی سے ہی سندھ کی صورت حال کو زیادہ اہمیت دینا شروع کردی ہے، بطور
وزیرِاعظم حلف اٹھانے کے روز ہی کراچی میں ایم کیو ایم کی ہڑتال کا انہوں
نے سنجیدگی سے نوٹس لیا ہے، اسی سلسلے میں گزشتہ چند روز سے ممتاز بھٹو
اسلام آباد میں تھے جنہیں اپنے شیڈول کے مطابق گزشتہ روز کراچی واپس آنا
تھا تاہم نوازشریف نے انہیں اسلام آباد میں روک لیا۔وزیرِاعظم نواز شریف
اور ممتاز بھٹو کی ہفتے کے روزملاقات ہوئی،جس میں سیاسی صورت حال اور
مستقبل کے لیے لائحہ عمل پر غور کیاگیا۔ نواز لیگی ذرائع کے مطابق پارٹی
قیادت گورنر سندھ کے منصب کے لیے مختلف شخصیات کے ناموں پر غور کررہی ہے جن
میں کراچی کی شخصیات بھی شامل ہیں، تاہم اس سلسلے میں اندرون سندھ سے تعلق
رکھنے والی 3 شخصیات ،سابق وزیرِاعلیٰ و سابق گورنر سندھ ممتاز علی بھٹو،
نواز لیگ سندھ کے صدر سیدغوث علی شاہ اور سابق وزیرِاعلیٰ سندھ ارباب غلام
رحیم کے نام زیادہ زیرِ بحث ہیں۔
وزیرِاعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے امن و امان کو اپنی نئی حکومت کی پہلی
ترجیح قرار دیا ہے ان کے پچھلے دورِ حکومت میں امن و امان کا قیام ایک بڑے
چیلنج کی صورت میں انہیں درپیش رہا جس پر ان کی حکومت قابو پانے میں ناکام
رہی۔ کراچی میں حالات کا انحصار پی پی کی سابق اتحادی جماعتوں پر بھی ہوتا
ہے۔ اس بار پیپلزپارٹی نے ایم کیو ایم اور مسلم لیگ فنکشنل کو حکومت میں
شامل کرنے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی۔ یہ حیرت انگیز بات ہے کیوں کہ ان
دونوں جماعتوں کا اثر و رسوخ سندھ میں زیادہ ہے۔ ایم کیو ایم حکومت میں عدم
شمولیت پر دبے الفاظ میں احتجاج کررہی ہے۔ الطاف حسین نے اپنے ایک بیان میں
کہا کہ سندھ میں سندھیوں کی حکومت ہے لیکن 65 سال سے سندھ میں رہنے والے
مہاجر حکومت سے باہر ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایم کیو ایم گزشتہ ایک طویل عرصے
سے حکومت میں شامل رہی اس وقت تو کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا۔ دوسری بات یہ
ہے کہ اس ایشو کو لسانیت کا رنگ دینے سے ملک و قوم کا نقصان ہوگا۔ عام خیال
یہ ہے کہ ایم کیو ایم اور فنکشنل لیگ کے باہر رہنے سے پیپلزپارٹی کی حکومت
زیادہ عرصے تک نہیں چل سکے گی لیکن پی پی پر امید ہے کہ نواز لیگ سندھ
حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کسی بھی کوشش کی حمایت نہیں کرے گی۔
پیپلزپارٹی عوامی حمایت حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے صرف ترقیاتی کام ہی نہیں
بلکہ امن و امان کے قیام پر بھی خصوصی توجہ دینا ہوگی کیوں کہ لوگ روز روز
کی بدامنی، ٹارگٹ کلنگ اور بھتا خوری سے عاجز آچکے ہیں اور پیپلزپارٹی کو
لوگوں کے بدلتے ہوئے تیور کا اندازہ ابھی سے لگالینا چاہیے۔ |