امیدیں اور توقعات

2013 کے انتخابات کے بعد گرد بیٹھنی شروع ہو گئی ہے اور مر کز سمیت چاروں صوبوں میں حکومتیں تشکیل پا چکی ہیں۔اب نئی حکومت سے عوام کو جو توقعات وابستہ ہیں وہ بہت زیادہ ہیں کیونکہ پچھلے دورِ حکومت میں انرجی کرائسس،مہنگائی ، کرپشن،لوڈ شیڈنگ،،اقربا پروری اور امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال نے عوام کی مت مار دی تھی۔ گو کہ لوڈ شیڈنگ کا جن اب بھی بوتل میں بند ہونے کو تیار نہیں ہے لیکن اس جن کو کسی نہ کسی طرح سے بوتل میں بند کرنا ہو گا تا کہ عوام سکون کا سانس لیں سکیں۔یہ جن عوام کی خوشیوں کا سب سے بڑا دشمن ہے لہذا س کو ہر حال میں قید کرنا ہو گا تا کہ عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔پی پی پی کی حکومت پچھلے پانچ سالوں میں اسے قید نہ کر پائی جس کی اسے سزا بھگنی پڑی اب اگرمسلم لیگ (ن) کی حکومت بھی اسے قابو نہ کر سکی تو اس کا حشر بھی پی پی پی حکومت سے مختلف نہیں ہو گا ۔عمران خان کی تحریکِ انصاف تبدیلی کا نعرہ لگانے کے بعد اب رنگ کی دوسری جانب بیٹھی اس بات کا انتظا رکر رہی ہے کہ مسلم لیگ (ن ) کسی بڑی غلطی کا ارتکاب کرے اور وہ عوامی طاقت کے مظاہرے سے اسے اقتدار کے ایوانوں سے چلتا کرکے اس مسند پر خود جلوہ افروز ہو جائے۔بہر حال یہ تو ایک سیاسی عمل ہے جسے ہر حال میں جاری رہنا ہے۔حکومتوں کی تبدیلی اور نئی حکومتوں کا قیام جمہوری دور کا خاصہ ہوتا ہے ۔یہ بات باعثِ ا طمنان ہے کہ اس دفعہ بھی تبدیلی ووٹ کی طاقت سے ہی رونما ہو ئی ہے۔پچھلی حکومت کی ناقص کارکردگی پر عوام نے جس طرح اپنے ووٹوں سے پی پی پی کو اقتدار کے ایوانوں سے رخصت کیا ہے وہ سب کو یاد رکھنا چائیے۔وفاق کی ا تنی بڑی اور مضبوط جماعت سکڑ کر صرف ایک صوبے تک محدود ہو گئی ہے۔ووٹر اب اتنا باشعور ہو گیا ہے کہ اسے خالی نعروں سے اب بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔نوجوانوں کی ملکی معاملات میں دلچسپی نے پرانے کھلاڑیوں کو ایک وارننگ دے دی ہے کہ وہ خالی نعروں کی بنیاد پر سیاست کا انداز بدل لیں نہیں تو اگلے الیکشن میں ان کا بھی بوریا بستر بھی گول کر دیا جائےگا۔۔

پی پی پی نے اپنے دورِ حکومت میں مفاہمتی سیاست کا جو تجربہ کیا وہ بری طرح سے فلاپ ہو گیا ہے کیونکہ اندازِ حکمرانی میں مفاہتی سیاست کی اصل روح کو نظر انداز کر دیا گیا تھا۔مفاہتی سیاست برداشت اور تحمل کا درس تو ضرور دیتی ہے لیکن یہ لٹیروں ،چوراچکوں اور مجرمین سے صرفِ نظر نہیں کرتی بلکہ ان کا احتساب کرتی ہے ۔مفاہمتی سیاست کی بدولت جھوٹے مقدمات اور انتقامی کاروائیوں پر عمل نہیں کیا جاتا لیکن اس کے معنی کہیں پر بھی یہ نہیں ہوتے کہ کڑے احتساب کو طاقِ نسیاں کر دیا جائے۔پچھلے دورِ حکومت میں جسطرح کرپشن کی کہانیاں زبان زدہِ خا ص و عام ہوئیں اس نے پی پی پی کی شہرت کو سخت نقصان پہنچایا۔ سید یوسف رضا گیلانی اور را جا پرویز اشرف پر مقدمات نے صاف ستھری حکومت کے قیام کو ایک خواب بنا کر رکھ دیا۔وفاقی وزرا پر جسطرح کرپشن کے الزامات لگے اس نے گڈ گو رنس اور شفافیت کے نظریے کو بھک سے اڑا دیا۔ کرپشن نے ملک کی اخلاقی اور نظریاتی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اگرچہ کرپشن کے معاملے میں ساری حکومتیں برابر کی ذمہ دار ہیں لیکن وفاقی حکومت پر اس کی ذمہ داری زیادہ عائد ہوتی ہے کیونکہ احتساب کا قانون بنانا ا ور اس پر عمل داری کو یقینی بنا نا اس کے د ائرہ اختیار میں ہوتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کرپشن آج کل پورے معاشرے کو دھیمک کی طرح چاٹ رہی ہے جس سے کسی صاحب ِ منصب کا بچ جانا انتہائی مشکل ہے۔ میاں محمد نواز شریف اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ انھیں اسمبلی میں سادہ اکثریت حا صل ہے بلکہ انھیں اپنے اتحادیوں کے ساتھ دو تہائی اکثریت حا صل ہو گئی ہے جو کہ پاکستان کے جمہورں نظام کےلئے نیک شگون ہے۔پی پی پی کے ساتھ ایک المیہ یہ بھی تھا کہ اس کے پاس سادہ اکثریت نہیں تھی اور اسکے اتحادیوں نے اس ا بھر پور فائدہ اٹھا یا ۔مفاہمتی سیاست نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا اور اتحادیوں کی چاندی ہو گئی ۔اتحادیوں کا تو ان انتخابات میں صفایا ہو گیا ہے جس پر کسی کو کوئی ملال نہیں ہے لیکن پی پی پی کو اس کی جو قیمت ادا کرنی پڑی ہے وہ بہت زیادہ ہے کیونکہ اس نے پی پی پی کے وجود پر سوالیہ نشان ڈال دیا ہے ۔مسلم لیگ (ق) تو ایک کاغذی جماعت تھی جو مشرف کے زیرِ اقتدار الیکشن 2008 میں پجاس نشستیں جیتنے میں کامیاب ہو گئی تھی وگرنہ اسکی اپنی کوئی مضبوط بنیادیں نہیں تھیں۔جنرل پرویز مشرف کی جلاوطنی کے بعد چوہدری برادران نے اس جماعت کو یرغمال بنا لیا اور اس پر اپنی سیاسی دوکان سجا لی لیکن حقیقت یہی تھی کہ اس جماعت کی عوام میں کوئی جڑیں نہیں تھیں ۔ مسلم لیگ (ق) کچھ با اثر افراد کا ایک ٹولہ تھا جو چوہدری برادران کے ساتھ کھڑا تھا۔اسے سیاسی جماعت کہنا زیادتی ہو گی ۔جس درخت کی جڑیں زمین میں پیوست نہ ہوں اسکا کسی بھی وقت آندھیوں سے اکھڑ جانا اٹل ہوتاہے اور یہی مسلم لیگ (ق) کے ساتھ ہوا تھا لیکن پی پی پی کی شکست واقعی دل ہلا دینے والی ہے کیونکہ اسکی جڑوں میں ذولفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کا لہو ہے اور پاکستان کے لوگ اس جماعت سے بے پناہ محبت کرتے ہیں لہذا پی پی پی کی شکست اسکے چاہنے والوں کےلئے کسی المیے سے کم نہیں ہے۔اے این پی بھی ایک علاقائی جماعت ہے جو پہلی دفعہ خیبر پختونخواہ کی وزارتِ اعلی پر فائز ہو ئی تھی ۔وہ کوئی اتنی بڑی جماعت نہیں جسکی ہار پر لوگ گفتگو کریں کیونکہ اس کا اثر ایک محدود علاقے تک ہے ۔اسکی پرفارمنس ہمیشہ واجبی سی رہتی ہے لیکن 2008 کے انتخابات میں اسے کافی پذیرائی ملی تھی اور صوبے کی بڑی جماعت بن کر ابھری تھی۔خیبر پختونخواہ میں پی پی پی اور اے این پی اتحادی بنے تھے کیونکہ کسی زمانے میں آصف علی زرداری کے والد حاکم علی زرداری اے این پی میں ہوا کرتے تھے لہذا ان میں جو روائیتی انڈرسٹینڈنگ تھی اس کا بھر پور فائدہ آصف علی زرداری نے اٹھایا اور اے این پی نے پورے پانچ سالوں تک پی پی پی کا بھر پور ساتھ دیا۔ خان عبد لففار خان کی شہرت تو قائدِ اعظم محمد علی جناح کے مخالفین کی وجہ سے تھی اور پھر خان عبدالولی خان ذولفقار علی بھٹو کے سخت ناقدین میں شمار ہو تے تھے کیونکہ ذولفقار علی بھٹو نے ہی نیپ کی ملک دشمن سر گرمیوں کے خلاف سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا تھا جس سے نیپ پر پابندی لگ گئی تھی اور ولی خان کو وطن سے غداری کے جرم میں سپریم کورٹ نے موت کی سزا سنا دی تھی۔۵ جولائی کو جنرل ضیا الحق نے اقتدار پر شب خون مارا توو لی خان جیل میں سزا کاٹ رہے تھے ۔جنرل ضیاا لحق نے ولی خان کو جیل سے رہا کیا توولی خان نے انتخاب سے پہلے احتساب کا نعرہ ببلند کیا جسکی بنا پر جنرل ضیا الحق نے اکتوبر 1977 کے انتخابات ملتوی کر دئے۔بہر حال اقتدار کی حواہش نے اے این پی اور پی پی پی کو پہلی بار یکجا کر دیا اور یہ دونوں یک جان دو قالب کا منظر پیش کرتے رہے۔ (ہم تو ڈوبے ہیں صنم تجھ کو بھی لے ڈوبیں گئے) والا معاملہ ہوا اور اے این پی اپنے ساتھ پی پی پی کو بھی لے ڈوبی۔ اے این پی کی اقتدار سے بے دخلی یقینی تھی کیونکہ اس نے جسطرح خیبر پختو نخوا ہ میں حکومت کی تھی اور ریلوے کی وزارت کو جس بے ڈھنگے انداز سے چلایا تھا اس پر ہر شخص سراپا احتجاج بنا ہوا تھا لیکن پی پی پی اور اے این پی عوامی جذبات کا صحیح ادراک نہ کر سکیں۔ پی پی پی کی اتحادی ایک اور اہم جماعت ایم کیو ایم تھی جس کے بارے میں کہا جاتاہے کہ اس کا کرا چی شہر پر قبضہ ہے اور یہ اس شہر میں کسی کو عوامی رابطے کی اجازت نہیں دیتی ۔یہ جماعت پورے پانچ سالوں میں پی پی پی کے ساتھ بے شمار دفعہ روٹھی اور بے شمار دفعہ مانی کیونکہ اسے علم تھا کہ پی پی پی کے پاس سادہ اکثریت نہیں ہے اور اس کی بیساکھیوں کے بغیر وہ اپنا اقتدار قائم نہیں رکھ سکتی۔ذولفقار مرزا کی شعر ہ آفاق پریس کانفرنس کے بعد ایم کیو ایم قدرے دفاعی پوزیشن میں چلی گئی وگرنہ اس نے تو پی پی پی کا ناک میں دم کر رکھا تھا۔جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے کہ کراچی پر ایم کیو ایم کا راج ہے اس لئے کسی جماعت کےلئے کراچی میں انتخابات جیتنا فی الحال ممکن نہیں ہے کیونکہ ایم کیو ایم پولنگ سٹیشنون پر قبضہ کرکے سب کچھ قبضے میں کر لیتی ہے اور پھر ٹھپے پر ٹھپہ اسکی جیت کو یقینی بنا دیتا ہے۔اسکی حالیہ کامیابی اسی ٹھپہ ازم کا نتیجہ ہے۔مسلم لیگ (ن) کے پاس سادہ اکثریت ہے لہذامیدِ وا ثق ہے وہ کسی سے بلیک میل ہوئے بغیر عوامی توقعات پر پوری اترے گی۔۔۔ (جاری ہے)۔۔۔
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515626 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.