پچھلے زمانے میں بڑے بزرگ کہتے تھے کہ خواب کبھی حقیقت
نہیں بنتے،لیکن جب سے بزنس منیجمنٹ کی پڑھائی یونیورسٹیوں میں ہونے لگی ہے
تب سے یہ سبق دیاجانے لگا ہے کہ کچھ بننا ہے تو خواب دیکھئے،اونچے خواب
دیکھئے۔ کچھ نہ کچھ بن کر رہیں گے۔کافی عرصہ قبل کسی فلم میں ایک گانا بھی
آیا تھاکہ’ بندہے مٹھی تو لاکھ کی،کھل گئی توخاک کی،پتہ نہیں ان چیزوں سے
نریندرمودی کس حد تک واقف ہیں۔ان کے پیش رو،آر ایس ایس کے بانی ہیڈ گیوار
اور دوسرے ہندو لیڈران ہندی ،ہندو، ہندوستان،کانعرہ لگاتے تھے۔پھر اکھنڈ
بھارت بنانے کا راگ الاپاجانے لگا،پھر’’بابر کی اولادو‘‘بھارت چھوڑو ،کانعرہ
لگانے والے نمودار ہوئے اور اب کہاجارہاہے کہ بھاجپا مودی مئے ہوگئی۔اور
مودی فرما رہے ہیں کہ کانگریس کو اقتدار سے ہٹانا ہی اصل راشٹرواد یعنی قوم
پرستی ہے۔
گوآمیں سنیچر ‘اتوار کوبی جے پی قومی مجلس عاملہ کی نشست میں نریندر مودی
کو2014کے لوک سبھا انتخاب کے لئےپا رٹی کی انتخابی مہم کمیٹی کا چیئرمین
بنانے کا اعلان کئے جانے کے ساتھ ہی بھاجپا حامی میڈیا اور اخبارات اس بات
کی زور دار تشہیر میں مصروف ہوگئے ہیں کہ نریندر مودی ہی بھارت کے اگلے
وزیر اعظم ہونے جارہے ہیں۔حالانکہ اگلا وزیر اعظم کون ہوگا،اس کافیصلہ ملک
کے60کروڑ ووٹروں کوکرنا ہے۔مگر ایسا لگتا ہے کہ ہٹلر کے زمانے میں پروپگنڈہ
کو سیاسی جنگ میں سب سے بڑے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا جو کامیاب
تجربہ کیاگیا،اس کو اپنانے اور بارباردہرانے کی روش اختیار کرنے والی
بھاجپا کو عوامی رائے سے کوئی سروکار نہیں ہے،وہ آنکھ اور کان بند کر کے
بس مودی،مودی کی رٹ لگانے میں مصروف ہے۔مودی کوبھاجپا کا اصل چہرہ بنانے کی
کوشش پارٹی کے ایک بڑے گروپ کی جانب سے پچھلے کئی برسوںسے کی جارہی ہے۔مان
بھی لیا جائے کہ اس میں کوئی خرابی نہیں ہے،بی جے پی والوں کو اس بات کا
فیصلہ کرنے کا پورا اختیار ہے کہ وہ کسے اپنا لیڈر بنائیں،کسے اپنی انتخابی
مہم کی کمان سونپیں،کسے وزیر اعظم کے عہدہ کا امید وار بنائیں،لیکن کسی بھی
سیاسی جماعت کے اپنے فیصلے زمینی حقیقت کی بنیاد پر ہوتے ہیں،ہوسکتا ہے
بھاجپا کو بھی زمینی حقیقت یہی لگتی ہو کہ نریندر مودی پارٹی کو اقتدار تک
پہونچا سکتے ہیں۔لیکن بھاجپا لیڈروں کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ2004کے لوک
سبھا انتخاب میں شرمناک شکست کے بعد اٹل بہاری باجپئی نے کہا تھاکہ ‘‘ہم
لوگوں کو شائننگ انڈیا‘‘کی تصویر دکھاتے رہ گئے اور کانگریس اقتدار پر قابض
ہوگئی۔
جہاں تک مودی کی مقبولیت اور مودی کے ذریعہ لوگوں کو قوم پرستی کاسبق
پڑھانے کا سوال ہے تو،سیاست کے جانکاروں کو یہ سوال پوچھنا ہی چاہئے کہ
نریندر مودی گجرات کے باہر کون سا کرشمہ دکھا پائے ہیں!وہ اترا کھنڈ نہیں
بچا سکے،ہماچل پردیش نہیں بچاسکے،دہلی اور مہاراشٹر سے کانگریس کا اقتدار
ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے،اترپردیش میں کوئی جادو نہیں جگاسکے،بنگال
میں اپنا وجود ثابت نہیں کرسکے،کرناٹک میں اپنی پارٹی کی حکومت کو دوبارہ
برسر اقتدار نہیں لاسکے،تودہلی کے تخت پر پرچم کیسے لہرا پائیںگے؟
ایسا نہیں ہے کہ گجرات سے باہر مودی نے ا نتخابات میں کوئی کم زور لگایا
ہے،جھارکھنڈ میں بہت سے لوگوں کو یاد ہوگا کہ2002میں گجرات اسمبلی کا
انتخاب جیتنے کے بعد2004میں نریندر مودی جھارکھنڈ میں انتخابی مہم چلانے
آئے تھے۔اور یہاں انتخابی جلسوں میں انہوںنے اپنے جارحانہ تیور میں
کہاتھاکہ ’’گجرات بنانے کے لئے مودی جیسا چالیس انچ کا سینہ چاہئے‘‘مگر
انتخابی نتائج نے دکھا دیا کہ جھارکھنڈ کےووٹرجھارکھنڈ کو مودی کا گجرات
بننے دینے کو تیار نہیں ہیں۔
گوا کی بھاجپا مجلس عاملہ میں انتخابی مہم کی کمان سونپے جانے کے بعد
نریندر مودی نے جو سب سے اہم اعلان کیا،وہ یہ کہ کانگریس کو اقتدار سے
ہٹانا ہی قوم پرستی ہے اور کانگریس سے پاک بھارت بنانا ان کا عزم ہے۔مودی
کے اس عزم کو دیش کی کتنی حمایت ملے گی،اس پر فی الوقت کچھ کہنے کی بجائے
صرف یہ یاد دلانا بہتر ہوگا کہ کانگریس نہ تو مسلمانوں کی پارٹی ہے نہ ہی
عیسائیوں کی۔ کئی کروڑ ہندو کانگریس کے عام اور سر گرم ممبر ہیں، جن
ریاستوں میں بھی کانگریس کی حکومت ہے،وہاں وزیر اعلیٰ سے لیکر وزراء تک
زیادہ تر ہندو ہی ہیں۔مرکزی حکومت میں بھی ایک منموہن سنگھ اور سلمان
خورشیدوکے رحمن خان کو چھوڑ کر سب کے سب ہندو ہی ہیں۔کانگریس کی تمام
ریاستی کمیٹیوں کے عہدیداران میں بھی98فیصد ہندو ہی ہیں۔تب نریندر مودی کس
راشٹر واد کی بات کررہے ہیں۔اقتدار بھاجپائی ہندوؤں کے ہاتھ میں رہے تو
راشٹرواد،اور کانگریسی ، ترنمول،جے ڈی یو،اے آئی ڈی ایم کے کےہندوؤں کے
ہاتھ میں رہے تو غیر راشٹر واد ،یہ فلسفہ آخردیش کے کروڑوں ووٹروں کوکیسے
ہضم ہوسکتا ہے؟
سچ پوچھئے تو بھاجپا سیاسی سوچ کے اعتبارسے دیوالیہ پن کا شکار ہے۔وہ صرف
لوگوں میں ہندوؤیت کاجنون بھر کر اقتدار پر قابض ہونا چاہتی ہے۔اور نریندر
مودی ہندووءیت کے جنون کے’ آئی کو ن‘ ہیں۔مگر آج دیش دنیا کے ترقی یافتہ
ملکوں کی صف میں شامل ہونے کی دوڑ میں شامل ہے۔تعلیم کا پھیلا ؤ تیزی سے
ہورہاہے۔لوگوں میں پیسہ کمانے کی للک بڑھی ہے،دولت مندوں کی تعداد بھی تیزی
سے بڑھ رہی ہے۔دیش کے لوگ تعمیروترقی کے لئے جی توڑ محنت کررہے ہیں۔جس کے
نتیجہ میں ملک تیزی سے ترقی کررہاہے،یہ اور بات ہے کہ ترقی کی اس اندھی
دوڑمیںسماج کےکئی طبقات پیچھے بھی چھوٹ رہے ہیں، دلت ،
آدیباسی،مسلمان،پسماندہ سماج کے لوگوں کو ان کا واجب حق نہیں مل
رہاہے۔لیکن کوئی بھی پیچھے مڑکر دیکھنے کو تیار نہیں ہے،فرقہ پرستی نے ملک
کوکافی برباد کرلیا اب دیش کے لوگ ان بربادیوں کودہرانے کو تیار نہیں
ہیں۔لیکن بھاجپا اور نریندر مودی کو لگتا ہے کہ فرقہ پرستی کاجنون ایک ایسا
جنون ہے،جس میں ہندوؤں کے ایک بڑے طبقے کو ڈبودیاجائے تو اسے آسانی سے
اقتدار حاصل ہوسکتا ہے،لیکن بھاجپاکی سوچ اور ملک کے کروڑوں ہندوؤں کی سوچ
بالکل متضادہے ۔دیش کا عام ہندو اپنی ترقی اپنی دولت سے دست بردار ہوکر
مودی، بھاجپا کے پیچھے’’پاگل‘‘ بننے کو تیار نہیں ہیں۔ کم از کم پچھلے دس
برسوں کی سیاسی تاریخ تویہی کہتی ہے۔
میڈیا اور اخبارات میں مودی کو جتنا بھی کامیاب ،مقبول لیڈر ثابت کرنے کی
کوشش کی جائے،لیکن وہ بند مٹھی سے زیادہ کچھ بھی ثابت ہونے والے نہیں
ہیں۔مٹھی جب تک بند ہے اسے لاکھ کاقراردیں یاکروڑ کا۔جب مٹھی کھلے گی،تو یہ
خاک ہی ثابت ہوگی،مودی وزیر اعظم بننے کاسپنا دیکھ رہے ہیں،وہ شوق سے
دیکھیں ،لیکن جب نیند سے وہ جاگیں گے،تو ان کے ہاتھوں میں کچھ بھی نہیں
ہوگا۔ جب وہ لال کرشن اڈوانی سے بھی کوئی سبق حاصل کرنا نہیں چاہتے تو پھر
ان کی سمجھ پر پورادیش کتنا اعتبار کرے گا۔یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اڈوانی
پچھلے۲۵سال کی بھارت کی سیاسی تاریخ کے سب سے بڑے فرقہ پرست لیڈر رہے ہیں۔
لیکن آج ان کی حالت خود بی جے پی کے اندر کیاہے؟یہ دیش جنونیوں کو،بڑ بولے
لیڈروں کو کبھی بھی اپنا قائد تسلیم نہیں کرسکتا ہمارا دیش رواداری اور پر
امن بقائے باہم یعنی’’جیو اور جینے دو‘‘ کے فلسفہ پرعمل کرنے والا دیش ہے
اسی لئے ہٹلر کے پرچم پر بنے نشان ’’سواستک‘‘کی پوجا کرنے کے با وجود بھارت
کے ہندو ہٹلرازم کوبالکل پسند نہیں کرتے۔ |