ایرانی انتخابات میں اب صرف دو دن باقی رہ گئے ہیں ۔
مبصرین کے مطابق انتخابات کے دوسرے مرحلے میں داخل ہونے کے امکانات بہت
زیادہ ہیں۔ مختلف امیدواروں میں مقابلہ بہت سخت ہوتا چلا جارہا ہے ۔ مقابلے
کی شدت کو دیکھتے ہوئے اصول پرست امیدوار اور سابق اسپیکر پارلیمنٹ ڈاکٹر
حداد عادل نے انتخابات سے دست بردار ہونے کا اعلان کیا ہے۔ ڈاکٹر حداد عادل
کے کنارہ کش ہونے کی وجہ یہ رہی ہے کہ وہ اصول پرستوں کے اتحاد کو مزید
مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ اب تک اصول پرستوں کے ووٹ تقریبا تین حصوں میں تقسیم
تھے جن میں سابق وزیر خارجہ ڈاکٹر علی اکبر ولایتی اور تہران کے میئر ڈاکٹر
قالیباف بھی شامل تھے۔ ڈاکٹر حداد عادل کے دست بردار ہوجانے کی وجہ سے اصول
پرست پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگئے ہیں۔
ڈاکٹر حداد عادل کے اس اقدام کی وجہ سے اصلاح پسندوں کے کیمپ میں پہلے سے
زیادہ بے چینی پھیل چکی ہے اور شاید انہیں یہ خطرہ محسوس ہوا ہے کہ اگر
اصول پرست ایک جگہ اکٹھے ہوگئے تو شاید انتخابات کے دوسرے مرحلے کی نوبت ہی
نہ آئے یا ممکن ہے دوسرا مرحلہ منعقد تو ہو لیکن وہ اصلاح پسندوں کے بغیر
منعقد ہو۔ اسی خطرے کا احساس کرتے ہوئے ہاشمی رفسنجانی اور سید محمد خاتمی
کے "چوہدری شجاعت قسم کے" ساتھیوں نے جوڑ توڑ کرکے موجودہ اصلاح پسند
امیدوار اورسابق نائب صدر محمد رضا عارف کو بیٹھنے پر راضی کرلیا ہے اور آج
ہی ان کی طرف سے انتخابات سے دستبردار ہونے کا باقاعدہ اعلان بھی ہوگیا ہے۔
اصلاح پسندوں کی طرف سے محمد رضا عارف کی دستبرداری کا اعلان تو ہوگیا ہے
لیکن اس اعلان کی وجہ سے اصلاح پسندوں میں مزید دوریاں دیکھنے میں آرہی ہیں۔
اس کا سبب ایک طرف محمد رضا عارف کے انتخابی جلسات ہیں جن میں وہ دعوی کرتے
رہے ہیں کہ کسی کے حق میں دستبردار نہیں ہونگے یا ڈاکٹر حسن روحانی کو
اصلاح پسند تسلیم نہیں کرتے اور دوسری طرف اصلاح پسند گروہ ہیں جو مسلسل
ڈاکٹر سید محمد خاتمی سے مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ کھل کر محمد رضا عارف کی
حمایت کریں اور خود کو ہاشمی رفسنجانی سے دور رکھیں۔ رہی سہی کسر خود محمد
رضا عارف نے یہ کہہ کر نکال دی ہے کہ وہ ڈاکٹر حسن روحانی کے حق میں نہیں
بلکہ اصلاح پسندوں کی خاطر دست بردار ہورہے ہیں۔
کہنے کو تو اصلاح پسند ایک مشترکہ امیدوار پر متفق ہوگئے ہیں لیکن اس کے
ساتھ ہی اصلاح پسندوں کو بہت سے اندیشوں نے گھیرلیا ہے ان میں سے ایک یہ ہے
کہ کیا حسن روحانی کامیابی کے بعد بھی اصلاح پسند رہیں گے یا نہیں؟! کیونکہ
چند سال قبل ہونے والی ان ان کی تقاریر اور ان میں اصلاح پسندوں کو لگایا
جانے والا رگڑا اکثر اصلاح پسندوں کو یاد ہے۔ اس تمام صورتحال کو دیکھتے
ہوئے سمجھ نہیں آرہا کہ اصلاح پسندوں کے اس تازہ اقدام کو اتحاد کہا جائے
یا ان کے لیےوبال جان! |