یہ لوڈ شیڈنگ کا عذاب " کیا تاریکی ہمارا مقدر ھے؟ "

آج فیس بک پر پاکستان کے مستقبل کے لحاظ سے گھڑی بنائی گئی ہے گھنٹوں کا نشان ہے بجلی آئی ، بجلی گئی، بجلی آئی ، بجلی گئی -بذ لہ سنج قوم ہے ہر طرح کی صورتحال سے لطف اندوز ہونا بھی خوب جانتی ہے

پاکستان اور پاکستانیوں کو نا عاقبت اندیش اور نا اہل حکمرا نوں نے کن کن مسائل سے دوچار کیا ہے بجلی کی لوڈ شیڈنگ اسمیں سر فہرست ہے اسوقت دارالخلافہ اسلام آباد میں دن میں ہر ایک گھنٹے کے بعد ایک گھنٹے کے لئے بجلی غائب ہوتی ہے - نواز حکومت کے آنے کے بعد یہ دورانیہ رات دس کے بعد دو گھنٹے پر ایک گھنٹہ ہوجاتا ہے - بھارت کی اور دیگر پڑوسی ممالک افغانستان تک کی حالت ہم سے یقینا بہتر ہوگی-- متحدہ عرب امارات میں 1968 میں بجلی لگائی گئی جبکہ اسوقت پاکستان کا گاؤں گاؤں بجلی سے منور تھا ا مارات اور خلیجی ممالک میں بجلی غائب ہونیکا کوئی تصور کوئی ادراک اسوقت نہیں ٓجبکہ وہاں بجلی انتہائی وافر مقدار میں استعمال ہوتی ہے-

جب بھی بجلی غائب ہوتی ہے،دفتروں ،بنکوں ' ہسپتالوں اورمختلف اداروں میں افراد سے یہی فقرہ سننے کو ملتاہے" ہمارا مقدر ہی تاریک ہے، اسلئے تاریکی ہمارا مقدرہے"- مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے میری یہ ہنستی کھیلتی قوم یاسیئت کا شکار ہوگئی ہے--

لوڈ شیڈنگ کے عام معنی تو' بار یا وزن کو ہلکا کرنا یا کم کرنا ہے' لیکن پاکستان میں اسکا مطلب بجلی کا گھڑی گھڑی جانا ٹھرا' یہ اسکا آنا یہ اسکا جانا یہ اسکا آنکھ مچولی کھیلنا
بجلی ہے یا کوئی ظالم اور سفاک محبوب ہے؟ " اس تک بندی کے لئے معاف فر مائیے گا-

یہ اصطلاح میں نے اور کہیںنہیں سنی ہے اس لئے اغلب خیال ہے کہ یہ خالص پاکستانی اصطلاح ہے اور یہ اب یہاں کے باشندوں کی زندگی کا ایک لازمی جز بن چکی ہے-

یہا ں اسکا مطلب سوائے بجلی جانے اور غائب ہونے کے اور کوئی نہیں لیا جاتا ،ہاں البتہ پچھلے چند سالوں سے گیس کی بھی لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے--

بچہ ، بوڑھا ، جوان ،پڑھا لکھا ان پڑھ سب اس سے واقف ہیں بلکہ بخوبی واقف ہٰیں- ایک نسل اس لوڈ شیڈنگ کے ساتھ جوان اور بوڑھی ہو چکی ہے-مجھے یاد ہے کہ تقریبا ٢٠ سال پہلے اسلام اباد میں جب ڈیموں میں پانی کم ہوتا تھا تو ایک یا دو گھنٹے کی لوڈ شیڈینگ ہوتی تھی اب یہاں ہر گھنٹے پر ایک گھنٹہ بجلی غائب ، پچھلے تین برسوں سے میری لگاتار آمد میں مجھے یہ اندازہ ہوا کہ یہ ظلم اور تاریکی بڑھتی چلی جا رہی ہے اور اسکی کوئی انتہا مستقبل قریب میں نظر نہیں آتی-- چیف جسٹس صاحب جو آجکل پاکستان میں فیصلوں کے کرتا دھرتا ہیں اور زیادہ تر معاملات پر سوموٹو یعنی بیک جنبش قلم فیصلے کرتے ہیں انہوں نے اسلام آباد کا استثنیٰ ختم کر دیا - ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز-آج 47 48 ڈگری درجہ حرارت جوحبس اور گرمی تھی کہ اللہ کی پناہ -شام میں ابر رحمت چھایا ، قدرے برسا اور خنک خوشگوار موسم نے ایک تازگی طاری کردی-- بجلی سات بجے شام کے بعد سے جانا بھول گئی ہے اب تو چوتھا گھنٹہ چل رہا ہے - یا الہی یہ ماجرا کیا ہے ؟

کچھ غیر یقینی صورتحال ہے کہ یوں بھی ہو سکتا ہے؟

پرسوں رات بھی ساری رات یہی انتظار رہا کہ ابھی جائے گی اور اب، نجانے کیوں نہیں گئی ۔ نمعلوم کوئی بھول چوک ہوگئی ، کچھ عجیب سی بے کلی اور بیچینی رہی کہ گئی کیوں نہیں؟--ہاں یہ ضرور ہے کہ صبح ہم نے اس انوکھے واقع پر ایک دوسرے کو مبارکبادیں دیں-

اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستانی زندگی مسرتوں سے انتہائی بھرپور ہے- بجلی آنے اور نہ جانے کی خوشی بلکہ خوشیاں انمیں سے ایک ہے-

پرسوں اپنی ایک عزیزہ اور بچپن کی دوست جو موجودہ حکومت میں سینیٹر ہیں سے ملنے گئی اب حکومت تو تقریبا چلی گئی لیکن وہ 2015 تک قائم ہیں ،وہ اور انکے شوہر ایمرجنسی لائٹ جلا کر بیٹھے تھے کہنےلگے "آج دو بجے سے غائب ہے" ہائے اس سادگی پر قربان جاؤں - جہاں مجھے یہ اچھا لگاکہ وہ ہم غریب اور متاثر عوام میں سے ایک ہیں وہاں مجھے ارباب اقتدار کے خلاف پروپیگنڈے پر بھی شک گزرا- حالانکہ انھوں نے بی بی کی ایک بڑی تصویربھی لگا رکھی تھی،صدر صاحب کی تعریف میں بھی رطب اللسان تھیں اور گھڑی خدا بخش آنے جانے کا تزکرہ بھی ہوا-

کہنے لگی' شارٹ فال تو پہلے سے آرہا ہے،ابادی اتنی بڑھ گئی ،وسائیل نہیں بڑھے-آپکی حکومت نے کیا کیا ؟ بلکہ اگر اس بات کی تہہ تک پہنچیں تو یہ سب کچھ کیا کرایا ہی پی پی پی کا ہے - " جی اب نئی حکومت اتنے بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ آئی ہے تویہ مسئلہ حل کر کے دکھائے -- ہم نے تو پانچ سال گزار لئے - اب جمہورئیت پنپنے کے لئے اتنی قربانیا تو دی جا سکتی ہیں-

ارے بھئی صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے- دنیا کہاں جارہی ہے آپ کہاں جارہے ہیں -اسپر بھی بہت سے کہتے ہیں ' بھئ ہم تو قناعت پسند اور صابر قوم ہیں-جیسے تیسے گزارا کر لیتے ہیں -

خیبر پختوں خواہ کے نئے سینئر وزیر سادگی کی مثال قائم کر رہے ہیں اپنے دفتر میں اے سی بند کر رکھا ہے - کوشش کیجئے کہ دوسروں کے اے سی بھی چلوا دیں-

ایوب خان کے زمانے میں وارسک، منگلہ اور تربیلا ڈیم بنے - کراچی کا ایٹمی بجلی گھرشائد بھٹو کے زمانے میں بنا- کالاباغ ڈیم کا مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا- تحریک انصاف کی حکومت اس ڈیم کو بالا خر بنانے کی درپے ہے اب تیل دیکھئے گا اور تیل کی دھار--- چھوٹے چھوٹے چند ڈیم بنے - ثمر مبارک مند نے پیش گوئی کی تھی کہ تھر کوئلے سے گیس اور بجلی دونوں حاصل کی جاسکتی ہے--لیکن جو لوگ بجلی کے متبادلات کی بدولت دن دگنی اور رات چوگنی کما رہے ہیں وہ تو ہرگز یہ نہیں چاہیںگے کہ ہمہ وقت بجلی مہیا ہوٓٓ--اور انکی پانچوںگھی میں انگلیاں سوکھ جائیں---

پاکستان کے بڑے بڑے بحرانوں میں بجلی کا بحران انتہائی اہم بلکہ دہشت گردی کے بعد دوسرے نمبر پر ہے - گرمیوں میں خصوصا جب عوام گرمی سے بلبلا اٹھتے ہیں اور انکے تمام متبادل جواب دے جاتے ہیں تو پھر توڑ پھوڑ اور مظاہرے شروع--اس کوشش میں غنڈے بدمعاشوں کی بر آتی ہے، نتیجتا مذید تباہی و بربادی---

ایک عام صارف کے لئے بجلی انتہائی مہنگی ہے -اب سنا ہے کہ میٹروں میں رد و بدل نہیں ہوسکتا-ورنہ پہلے تو بجلی کے لائن مین خود ہی پیش کش کرکے ،چند ہزار کے بدلے آپکا میٹر سست کردیتے- ایک مرتبہ میری ایک تہجد گزار دوست کا بل دیکھا تو حیرت زدہ گھرمیں 3'4 اے 'سی چلتےتھے اور بل 500 روپے--نمعلوم ہماری ایمانداری کا کیا معیار ہے؟

جگہ جگہ جا بجا کنڈےاسکا کیا حساب ہے بعض اوقات لگتا ہے دھاندلی ہے دھاندلی اسکا آسان حل کہ" نہ ہوگا بانس اور نہ بجے گی بانسری"---

اس لوڈ شیڈنگ نے نت نئے کاروباروں اور متبادلات کو جنم دیا ہے ،جنریٹر تو بہت پرانی چیز تھے ، کراچی میں جب ہمارا بڑا جنریٹر چلتا تھا تو ھمارے پڑوسی الامان والحفیظ پڑھتے تھے -آدھا شور ان بیچاروں کو سہنا پڑتاتھا'رات کو تو خیر وہ اندر ہوتے تھے لیکن دن میں احتجاج کے فون پر فون آنے شروع -مارے شرمندگی اور پڑوس کے حقوق کا خیال رکھتے ہوۓ ہم سبکو گرمی برداشت کرنے کی تلقین کئے جاتے - اب تو صاحب ثروت لوگوں نے سٹینڈ بائی جنریٹر لگا رکھے ہیں اسی طرح دفتروں اور ھسپتالوں میں ہیں- یو پی ایس خاموشی سے چل پڑتا ہے --ادھر بجلی گیئ ادھر خود بخود وہ چل پڑا- یہ ہمیںخوب پسند آیاخاص طور پر جب خاموشی سے یہ اپنے فرائض سنبھال لیتا ہے- لیکن یہ بے چارہ بھی کیا کرے جب اسکی بیٹریاں پوری طرح چارج نہیں ہو پاتیں تو یہ پندرہ بیس منٹں کے بعد ٹیں بول جاتا ہے-اسکا اسقرر ضخیم کاروبار ہے- بیٹریوں ے کارخانے لگ گئے ،باہر سے بھی برآمد کی جاتی ہیں- اس کے علاوہ لالٹین ، گیس بتی، موم بتی ، دئے،ایمرجنسی لائٹ ، ٹارچ پرانی چیزیں ہیں-

مغرب میں ہم موم بتیاں تفریحا خریدتے ہیں ،مقصد گھروں میں خوشبو بکھیرنا ہوتا ہے یا پھر کینڈل لائٹ ڈنر ہوتا ہے پاکیستان میں ہماری موم بتیوں کا بھی شارٹ فال ہوجاتا ہے-

دنیا کے بیشتر ممالک میں بجلی جانے کا کوئی تصور ہی نہیں ہے جبکہ پاکستان میں اسکے متبادل ڈھونڈھنے میں کافی صلاحئیتیں صرف ہو رھی ہیں-

شمسی توانائی -سے بجلی حاصل کرنے کا عمل پوری دنیا میں انتہائی مقبول ہے-پاکستان میں بھی یہ کاروبار زور پکڑرھاہے ایک محترم نے اپنے ای میل میں پاکستان کے لیے شمسی توانائی سے بجلی بنانے کی کوششوں سے آگاہ کیا تھا--- چند جاننے والوں نے اسکے پینل لگائے ہوئے ہیں - اور اسکے کافی کارخانے لگ رہے ۃیں ایک کرمفرما نے دبئی میں اسکے سولر پینل چپ کا کارخانہ لگا یا ہے -

امریکا کے مختلف ریاستوں میں شمسی توانائی کے استعمال پر ٹیکس میں بہت زبردست چھوٹ ملتی ہے-
اسکے علاوہ ہوائی چکیوں ونڈ ملز کے ذریعے بجلی کافی بڑے مقدار میں حاصل کہ جا سکتی ہے - ریاست اریزونا سے کیلیفورنیا کی جانب جاتے ہوۓ میلوں میل پر یہ چکیاں ایستادہ ہیں اسکے لئے ہوا کے رخ کا تعین ہونا چا ہئے- 2003 میں امریکا کے شمال مشرقی ریاستوں اور کینیڈا کے جنوبی صوبوں میں بجلی کا ایک بہت بڑا تعطل وہوا تھا-ریاست اوہائیو میں ایک پاور ہاؤس ٹرپ کر گیا اسکی لپیٹ میں مشیگن، الانوائے،نیو یارک، اونٹاریو اور کوبیک اگئے--ہم سمجھے کہ چند لمحوں کی بات ہے لیکن معاملہ 7،8 گھنٹے تک طویل ہوگیا -بجلی سے چلنے والا تمام نظام مفلوج ہوچکاتھا- عوام لفٹوں،سب وے ٹرینوں اور زیر زمین گزرگاہوں میں پھنس گئے،پانی کی سپلائی معطل ہونے کا خطرہ تھا بلکہ کہیں کہیں تو معطل بھی ہوئی- میرا بیٹا 52 ویں منزل سے سیڑھیاں اترا اور جلدی سے ٹرین میں بیٹھا جس میں ابھی کچھ حرکت تھی
ٹی وی تو بند تھا ریڈیو پر مستقل آرھاتھا کہ روشنی کرنے میں احتیاط سے کام لیں اور موم بتیاں نہ جلائیں بچے جلتی ہوئی مومبتیاں دیکھ کر انتہائی لطف اندوز ہورہے تھے اسلئے کہ یہ انکے لئے بالکل انوکھی صورتحال تھی- وہاں کے مکانوں میں اگر آگ لگ جائے تو ایک دو منٹ میں خاکستر ہو جاتے ہیں- لیکن مجال ہے کہ کوئی بد نظمی یا تشدد ہوا ہو- لوگوں نے رضاکارانہ طور پر چوراہوں پر ٹریفک سنبھال لیا جس سے جو کچھ ہو سکتا تھا کرتا رھا- نہ کوئی حادثہ نہ کوئی بد نظمی--ہمارے ہاں بہی اگر ایسا کبھی کبھار ہو تو شائید ہم انسے بھی بہتر ہوں--

بعد میں انہوں نے اپنی حکومتوں اور بجلی کے کرتا دھرتاؤن کے خوب لتے لئے-بلئین ڈالر کا نقصان ہوچکا تھا لیکن اس فرسودہ نظام کو انہوں نے تبدیل کر ڈالا- اسوقت مجھے پاکستان بہت یاد آرہا تھا ،اسلئے کہ اس دوران ہمارے پاس کوئی متبادل نظام نہیں تھا- بجلی سے چلنے والا چولھا ، مائیکرو ویو سب کچھ بند اور بیٹھے رہے تصور جاناں کئے ہوۓ----- عام طور پر ان ممالک میں جب یہ دکھائی دیتا ہے کہ تمام ڈیجیٹل گھڑیاں صفر صفر پر آگئی ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ بجلی میں چند سیکنڈ کا تعطل آیا تھا -

یہ کیا بجلی کو رہتے ہوئے پانچواں گھنٹہ بھی شروع ہوا ---ہائے یہ بے یقینی کاش یقین میں بدل جائے!

Abida Rahmani
About the Author: Abida Rahmani Read More Articles by Abida Rahmani: 195 Articles with 256320 views I am basically a writer and write on various topics in Urdu and English. I have published two urdu books , zindagi aik safar and a auto biography ,"mu.. View More