آج ایک سچی داستان سنا نا چاہ رہاہوں،اس کہانی کے مرکزی
کردار سے ملاقات کے بعد اس نے اپنی کہانی شائع کروانے کی خواہش کا اظہار
کیا تو میں نے فوراََ حامی بھر لی کہ شاید اس سے ہم ناعاقبت اندیش لوگ کچھ
سیکھ سکیں ۔اس مرکزی کردار کا نام فضا(فرضی نام) ہے۔اسکی زبانی کہانی سنیئے:
میں اپنی زندگی کی کہانی وہاں سے شروع کرتی ہوں جب میں تیسری جماعت میں
پڑھا کرتی تھی،انہی دنوں میرے پپا ہمیں چھوڑ کر چلے گئے ۔اور مجھے انکی کمی
بے حد محسوس ہوئی ،ساتھ ساتھ ہی ہمارے گھر کے حالات بھی بہت خراب ہوگئے
تھے۔ان دنوں میری خالہ یو ۔کے جا رہی تھی لیکن انکی نوزائید ہ بچی کا ساتھ
جانا ممکن نہیں ہو پا رہا تھا تو انہوں نے اس کو میری والدہ کے سپرد کر دیا
اور میری والدہ اس کی دیکھ بھال میں مصروف ہوگئیں جبکہ ان دنوں ہمیں انکے
پیار اور توجہ کی ضرورت تھی بالخصوص مجھے یہ بات بہت اندر ہی اندردکھی کر
تی تھی مگر میں ان دنوں اپنے احساسات وجذبات کو دوسروں پر ظاہر کرنا نہیں
جانتی تھی یا اتنی ہمت نہ تھی کہ میں ایسا کر پاتی۔بہرحال خالہ نے یو۔کے
جانے کے بعد وہاں سے پیسے بھیجوانے شروع کئے تو ہمارے گھر کا نظام کچھ بہتر
انداز میں چلنے لگا۔دوسری طرف والدہ صاحبہ خالہ کی بیٹی میں گم ہوئی تھیں
ان کو اس بات کی خبر نہ تھی کہ میں کیا کرتی ہوں، کیا پڑھتی ہوں،کیا محسوس
کرتی ہوں۔وہ نہ مجھے وقت دیتی تھیں اور نہ ہی توجہ دیتی تھی سارا کا سارا
وقت اسی کی خدمت میں ہی گذر جاتا تھا۔
جب خالہ کی بیٹی دو سال کی ہوئی تو وہ یو۔کے چلی گئی ۔اور میری والدہ صاحبہ
اس کی یاد میں بیمار ہو گئیں۔ایک بار پھر میں ان کی توجہ سے محروم ہو
گئی۔آخر کا ر اچھا وقت بھی آیا جب میں پانچویں جماعت میں گئی ۔انہی دنوں
میں پھر ایک طوفان میری زندگی میں آیا جب میرا بہنوئی ہمارے گھر رہنے کو
آئے ۔ان کے آنے کی دیر تھی کہ میری روز شامت ،پٹائی کبھی کبھار انکی وجہ سے
ہونے لگی کہ وہ با ت بے بات میری امی سے شکا یات کرتے تھے ۔وہ ایک ایسے شخص
ہیں جن سے مجھے آج بھی شدید نفرت ہے۔بہرحال وقت گذرتا گیا اور میں چھٹی
جماعت میں چلی گئی اور میں آئے دن کی پریشانیوں کی وجہ سے فالج کا شکار ہو
گئی،مگر پھر بھی کوئی اس کی وجہ نہ جان پایا بہرحال میں ایک سال کے اندر
اندر ٹھیک ٹھاک ہو گئی اور ساتویں جماعت میں آئی تو مجھے میں بہت ہمت اور
حوصلہ آیا ۔اس کے ساتھ ساتھ میں نے اپنے آپ کو خود کسی حد تک سمجھ لیا کہ
میں آخر کیا ہوں؟
ساتویں جماعت میں آکر میں نے پانچ سو طلبہ کو درس دینا شروع کیاتو میرے
اندر خود اعتماد ی اور ہمت زیادہ پیدا ہونا شروع ہوئی اور میں نے حالات سے
کسی طور مقابلہ کرنا شروع کر دیا۔سب لوگ میری تعریف کرتے کہ تمہارے اندر
صلاحیتیں ہیں اور تم یہ کام بہتر طور پر سرانجام دے سکتی ہو تو میں وہ ان
کو کر کے دکھاتی تھی۔مگر افسوس ناک بات یہ تھی میری ذات سے کسی کو دلچسپی
نہ تھی اور کوئی مجھے سمجھنے والا نہ تھا ،میرے گھر میں میری والدہ اور
بہنیں بھی مجھے سمجھنے سے قاصر تھیں کہ میری زندگی پر حالات کیا اثرات مرتب
کر رہے ہیں لیکن میں نے صبر کیا اور اپنے اچھے وقت کا انتظار کیا۔
میرے گھر والے سب مجھے وہ کرنے سے روکتے تھے جو میں کرنا چاہتی تھی،میری
کزنیں ،بہنیں سب مجھ سے نہ جانے کیوں جلتے تھے؟ شاید ا س کی وجہ یہ تھی کہ
میں سب کام کاج اچھا کر لیتی تھی اور باہمت وحوصلہ رکھنے والی تھی۔جب سب
ساتھ چھوڑ گئے تھے تو میرے خالو سجاد نے میرا بھرپور ساتھ دیا تھا اورمیری
ہمت بندھوائی تھی میں انکا احسان کبھی نہیں بھول سکتی ہو۔
ایک دن میری خالہ کی بیٹی نے اپنی استاد کے بھائی کا نمبر میرے موبائل فون
میں ڈال کر مجھے رسوا کرنے کی کوشش کی ۔مجھے سب خالوں نے گھر آکر خوب بے
عزت کیا اور میں اس انسان کی وجہ سے جس کو جانتی تک نہیں تھی کی وجہ سے ایک
بار پھر سب کے ظلم وستم کا نشانہ بن گئی ۔میری والدہ نے بھی مجھے خوب طعنے
دیئے ۔مگر میں خاموش رہی اور خود کو اور مضبوط کر لیا اور اپنی ذات کے اندر
گم ہو کر رہ گئی۔خدا جانتا ہے کہ میں ایک ایسی باہمت لڑکی ہوں جس کو اگر
حوصلہ اور توجہ دی جائے ،بھرپور ساتھ دیا جائے تو اپنے خوابوں کی تعمیر کو
پا سکتی ہوں۔مگر یہاں سب اپنے حال میں گم ہیں کسی کو میری پرواہ نہیں
ہے۔میری پنسل اسکیچ اور کوکنگ بھی بہت اچھی ہے ۔آٹھویں جماعت سے اپنی والدہ
کا انکے کام کاج میں بھرپور ہاتھ بھی بٹا رہی ہوں،قرآن کی تعلیم بھی حاصل
کی ہوئی ہے۔اور ساتھ ہی ساتھ گھر کو بھی سنبھالا ہوا ہے۔اپنے آپ کو دوسروں
سے محفوظ بھی رکھا ہو ا ہے مگر کوئی مجھے سمجھنے والا نہیں ہے اور نہ کوئی
سمجھانے والا ہے ۔کوئی بھی تو میرے خوابوں کو پورا نہیں ہونے دیتا ہے۔اب آپ
ہی بتائیں کہ میں کیا کروں کس راستے پرچلوں؟؟ |