تجدید و احیائے دین میں نمونہ ٔ
جناب رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعدباجماع امت خلفائے راشدین مجددیت کے
مقام پرفائزہیں، ان کے بعدمختلف محققین نے مختلف فہرستیں مرتب کی ہیں ،جن
میں حضرت حسین ،عمربن عبدالعزیزؒ،امام احمدبن حنبل ؒ،امام شافعی ؒ،امام
ابوالحسن اشعری ؒ،امام غزالی ؒ،ابن حزم الظاہری ،علامہ ابن رشد،حافظ ابن
تیمیہ ،حافظ ابن القیم ،صلاح الدین ایوبی ،سلطان محمودغزنوی ،مجددالف ثانی
،شاہ ولی اﷲ ،شیخ محمدبن عبدالوھاب نجدی ،جمال الدین افغانی ،شیخ محمدعبدہ
، مولانا نانوتوی ،شیخ الہندمولانامحمود حسن، مولانامحمدالیاس ،ابوالکلام
آزاد، مولاناحسین احمدمدنی ، مولانااشرف علی تھانوی ،ترکی کے شیخ بیرم
اورسعودی عرب کے شیخ ابن بازشامل ہیں۔
بہرحال ہمیں چونکہ شہیداسلام حضرت مولانامحمدیوسف لدھیانوی رحمۃ اﷲ علیہ کے
حوالے سے یہاں بحث کرنی ہے ،لہٰذاہم ان کے چیدہ چیدہ صفات اورکارنامے
ذکرکرکے یہ ثابت کریں گے کہ اﷲ تعالی نے ان سے بھی تجدیدواحیائے دین کاکام
لیاہے ،ان کی حیات ِمبارکہ ،کارنامے اوربچپن سے پیرانہ سالی اور شھادت تک
جدوجہدبعدمیں آنے والوں کیلئے صحیح معنوں میں ایک نمونہ ،اسوہ ٔ،ماڈل
اورسنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
دوران تعلیم درجہ سابعہ کے سال شہرہ ٔآفاق اورکلیدی حیثیت کی حامل حدیث کی
کتاب مشکاۃ المصابیح کی شرح ’’التقریرالنجیح‘‘ لکھی، یہ شرح کسی استاذکی
آمالی نہیں بلکہ طبع زادتھی ،میرے ناقص مطالعے کے مطابق شایدہی آج تک کسی
طالب علم نے دورانِ تعلیم اتنی بڑی عظیم الشان اورمہتم بالشان کتاب کی اس
طرح شرح لکھنے کی ہمت کی ہو۔ قاری سعیدالرحمن صاحب مرحوم نے ایک بات نقل کی
ہے :رفیق درس ہونے کی وجہ سے بڑی بے تکلفی کاسلوک رہا،افغانستان کے سفرمیں
فرمایا’’وہ واقعہ یادہے کہ ایک بارہم دونوں امتحان دے رہے تھے ،کہ کسی نے
امتحان گاہ میں پرچی پھینکی اورہم دونوں نے اس کوہاتھ بھی نہ لگایا۔
مثال ِزیست سرِراہ جلادی ہم نے ایسی دنیاتونہ تھی جیسی بنادی ہم نے لائے
کوئی اس زمانے میں ایسا دیانتدارطالب علم ،میں عرصۂ درازتک وفاق المدارس
العربیۃ پاکستان کے امتحانات کامنتظم رہاہوں ،مختلف مراکزِامتحان کے دورے
بھی کئے ،بڑے بڑے سورماؤں کونقل کرتے کراتے سرگوشیاں کرتے اوروفاق کے
نگرانوں سے پوچھ پوچھ کران کی ناک میں دم کرتے دیکھاہے ،امتحانی پرچہ جات
کی آؤٹنگ کی کہانیاں اس پرمستزادہیں ۔جدید عصری اداروں کاحال تواس بارے میں
بہت تباہ کن حد تک پہنچ گیا ہے۔
تعلیم سے فراغت پرلائلپورمیں مشکاۃ شریف تک تمام کتابیں پڑھانے کی نوبت
آئی،اس کے بعد ماموں کانجن میں قریباًدس سال مدرس رہے۔۱۹۶۶سے ۱۹۷۴تک جامعہ
رشیدیہ ساہیوال میں بھرپورتدریسی خدمات انجام دیں ،پھر دفترختم نبوت ملتان
کے روح رواں رہے ۱۹۷۷ء میں جامعہ بنوری ٹاؤن سے بطور استاذ الحدیث منسلک
ہوئے اورتادم شہادت یہاں اکناف واطراف عالم سے آئے ہوئے تشنگان علوم نبوت
کی آبیاری فرماتے رہے ۔
ابتدائی دوسالوں میں مشکاۃ تک تدریس ، مدرس حضرات اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ
ہرایرے غیرے نتھوخیرے کاکام نہیں ۔مشکاۃ تک تدریس کیلئے اچھے خاصے مدرسین
گل سڑکرکبھی پہنچ جاتے ہیں اورکبھی ان کی یہ حسرت یوں ہی رہ جاتی ہے ۔ان کی
تدریس کتنی جامع مانع اورتیربھدف تھی ا س کا اندازہ آ پ ان کے حدیث کے
متعلق درسی مجموعے ’’جواہرالحدیث ‘‘سے بخوبی لگاسکتے ہیں ۔
ایسے ائمہ وخطباء پرنکیرواردہوئی ہے جن سے ان کے مقتدی نالاں ہوں ،حدیث کے
اس مفہوم کے تناظرمیں اگرحضرت شہیداسلام کے اس گوشے پرنگاہ ڈالی جائے ،توحیرت
واستعجاب کی انتہاء نہیں رہیگی، ان سے ان کے مسجدوالے اوردوردرازسے ان کے
جمعہ ،عیدین کی خطابت سننے کیلئے کتنے بے تابانہ حاضرہوتے تھے ،الفلاح
مسجدکوایک عظیم اصلاحی ،دینی رہنمائی اوررشدوہدایت کی مرکزیت حاصل ہوگئی
تھی ۔حضرت ہی کے الفاظ میں ذرہ امام مسجدکودیکھئے کیاکرناہوتاہے :
’’تہجدمیں جب اٹھتاہوں ،توروزانہ صلوۃ التسبیح اسی وقت پڑھ لیتاہوں ،پھرذکرکامعمول
پورا
کرتاہوں ،پھراگروقت ہوتاہے تومناجات مقبول اورذریعۃ الوصول کی منزل بھی پڑھ
لیتا
ہوں ،اتنی دیر میں اذان فجرہوجاتی ہے ،تودورکعت فجرکی سنت پڑھ کرمسجدمیں
آجاتا
ہوں اورجماعت ہونے تک تلاوت کرتارہتاہوں،، (بینات شہیداسلام نمبرص۳۳۰ )
خطبات میں حضرت کی زبان وبیان کااندازہ ان کے اصلاحی خطبات سے
لگایاجاسکتاہے ۔تقریباًدس جلدوں میں خطبات شہیداسلام ہمارے آج کے ائمہ کرام
کیلئے ایک عظیم اورگرانقدرسوغات ہے ۔
زمانہ ٔطالب علمی ہی میں درجہ تکمیل کے سال حضرت اقدس مولاناخیرمحمد سے
سلسلۂ اشرفیہ ،امدادیہ ،صابریہ میں بیعت کی ،اورعلوم ظاہری کے ساتھ
تعمیرباطن میں ان کے انواروخیرات سے استفادہ کیا۔حضرت جالندھری کی وفات کے
بعدشیخ الحدیث مولانامحمدزکریا سے رجوع کیا، شیخ نے خلافت واجازت کی خلعت
سے سرفرازفرمایا ۔
’’التقریرالنجیح فی شرح مشکاۃ المصابیح ‘‘ ان کی پہلی کاوش ہے ، صحیح بخاری
اورجامع ترمذی پراساتذہ کرام کی آمالی بھی زیب قرطاس کیں ۔فراغت کے
بعدماہنامہ ’’بینات ‘‘ ،ہفت روزہ ’’ختم نبوت‘‘، ماہنامہ ’’اقرأڈائجسٹ ‘‘کے
علاوہ ملک کے مشہورعلمی رسائل وجرائدمیں شائع شدہ سیکڑوں مضامین ومقالات
آپکی قلمی تحریری اوراعلی صحافتی معیارکے شاہدِعدل ہیں ،یہ مضامین ومقالات
مختلف ناموں سے خوبصورت اوردیدہ زیب کتابوں کی صور ت میں زیورطبع سے آراستہ
ہوچکے ہیں ۔
حضرت شہیداسلام کی تصنیفات وتألیفات :تحفۂ قادیانیت(مکمل چھ حصے)اختلافِ
امت اور صراطِ مستقیم(حصہ اول)۔اختلافِ امت اور صراطِ مستقیم(حصہ دوم)۔دنیا
کی حقیقت(جلد اول)۔ دنیاکی حقیقت( جلد دوم)۔آپ کے مسائل اوران کاحل ۔رسائل
یوسفی ۔ترجمہ فرمان علی پرایک نظر۔انکارحدیث کیوں ؟۔انتباہ المومنین(ایک
شیعی مغالطے کا حل)۔ عورت کی سربراہی ۔کیاذکری مسلمان ہیں ؟ تنقید اور حق
تنقید ۔شیعہ سنی اختلافات اور صراط مستقیم ۔اصلاحی موا عظ ۔شخصیات وتأثرات
:جلداول۔شخصیات وتأثرات : جلد دوم : اطیب النغم فی مدح سید العرب و العجمﷺ
۔رجم کی شرعی حیثییت۔ حسن یوسف ۔خاتم النبیےن ﷺ ۔عصر حاضر حدیث نبوی ﷺ کے
آئینہ میں ۔عہد نبوت کے ماہ وسال ۔دور حاضر کے تجدد پسندوں کے افکار ۔دعوت
وتبلیغ کے چھ بنیادی اصول ۔ذریعۃ الوصول الی جناب الرسولﷺ ۔قطب الاقطاب
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہا جر مدنیؒ ۔حجۃ الوداع وعمرات النبی
ﷺ ۔ بولتے حقائق۔ اسلام کا قانون زکوٰۃ وعشر۔معاشرتی بگاڑکاسدّباب ۔ مقالات
وشذرات۔ارباب اقتدارسے کھری کھری باتیں۔علامہ تورپشتی کی کتاب ـ ِ عقائد کا
آسان اور دلنشین اردوترجمہ ۔جواہر الحدیث ۔
حضرت شہیداسلام کے قلم میں بلاکی روانی تھی ،طوفان کی تیزی تھی اورتلوارکی
کاٹ تھی ،انہوں نے جس موضوع پربھی قلماٹھایالکھنے کاحق اداکردیا،وہ نہایت
انوکھے اوراچھوتے اندازمیں لکھتے اوردلائل وبراہین کے انبارلگادیتے ،فریق
مخالف کوچاروں خانے چِت کرکے فتح وکامرانی کاجھنڈا لہرادیتے ۔
لیکن غضب کی گرفت بھی تھی ،چنانچہ آپ کے قلم میں جہاں اعداء اسلام دین
بیزاروں اورباطل پرستوں کے لئے فولادکی سی سختی اورضرب ید اللّٰہی
کااثرتھا،وہاں احباب واکابرکے حق میں وہ ابریشم سے زیادہ نرم وگدازتھا۔
جناب مودودی صاحب پر جرح کر تے ہوئے ان کے مقام ومنصب کا بھی خیال رکھتے
ہیں ہوئے لکھتے ہیں :’’ مولانا مودودی صاحب کی تمام ذاتی خوبیوں اور صلا
حیتوں کا کھلے دل سے اعتراف کر تے ہوئے مجھے موصوف سے بہت سی باتوں میں
اختلاف ہے اول مولانا کے قلم کی کاٹ اور شوخی ان کی سب سے بڑی خوبی سمجھی
جا تی ہے مگر اس نا کارہ کے نزدیک ان کی سب سے بڑی خامی شاید یہی ہے ان کا
قلم مومن وکافر دونوں کے خلاف یکساں کاٹ کر تا ہے‘‘ ۔
دار العلوم دیوبند پر تجدید واحیائے دین کے حوالے سے کتنا حسین تبصرہ
فرمارہے ہیں :’’دار العلوم دیو بند آپ چا ہیں تو کہہ سکتے ہیں ،
مجددین امت کا جو سلسلہ چلا آرہا تھا دار العلوم دیو بند اپنے دور کے لئے
مجددین امت کی تر بیت گا ہ تھی ، یہیں سے مجدد اسلام حکیم الامت تھا نوی ؒ
نکلے ، اسی سے دعوت وتبلیغ کی تجدید کی تحریک ابھری ، جس کی شا خین چار
دانگ عالم میں پھیلی ہوئی ہیں ، یہیں سے تحریک حریت کے دا عی تیار ہو ئے ،
یہیں سے فرق باطلہ کا توڑ کیا گیا ، یہیں سے محدثین ، مفسرین ، فقہأ ، اور
متکلمین کی کھیپ تیار ہوئی ، مختصر یہ کہ دارالعلوم دیو بند نے نہ صرف یہ
کہ نابغہ شخصیتیں تیار کیں ، بلکہ اسلام کی ہمہ پہلو تجدید واحیأ کے لئے
عظیم الشان اداروں کو جنم دیا ۔ اس لئے دار العلوم کو اگر تجدید اور احیائے
دین کی یونیورسٹی کا نام دیا جائے تو شاید یہ اس کی خدمات کا صحیح عنوان
ہوگا ‘‘۔
ان کے والد ماجد اور دادا جان سے لیکر ان کے برادر بزرگوار جناب جی عبد
الستار صاحب تک ہر ایک اپنے اپنے دور میں غریبوں ، مسکینوں ، بے کسوں ،
بیواؤں اوریتیموں کے ماوی وملجا رہے ہیں ، اپنے گھر میں اپنی اولاد کیلئے
کچھ ہے یا نہیں مگر ان بے سہارالوگوں کیلئے ان کے دونوں ہاتھ ہر وقت فیاض
وسیال ہوتے تھے ، والد گرامی کی وفات پر خاندان کو تسلّی دینے کے بجائے خود
خاندان والے ان بے چاروں کی تعزیت کر تے جو ان کے وصال پر دھا ڑے مار مار
کر روتے رہے کہ تنگی اور مشکل اوقات میں اب ہم کس سے رجوع کرینگے ، محترم
طلحہ طاہر صا حب نواسۂ حضرت اقدس ؒ نے مجھے بتا یا کہ ایک بار ایک صاحب نے
حضرت اقدسؒ کا دروازہ کھٹکھٹا یا ، حضرت خود ہی باہر تشریف لے گئے تو دیکھا
کہ خیرات مانگنے والا ہے، آپ اندر تشریف لائے اور پانچ روپے لیکر ان کو
پکڑاتے ہو ئے فر مانے لگے ـ:دو اسمیں سے واپس کر دو ، اس نے واپس کر دیئے،
تھو ڑی ہی دیربعد ایک اور صاحب نے دروازہ کھٹکھٹایا ، آ پ تشریف لے گئے ،
دیکھا کہ کو ئی سوالی ہے ، آپ اندر تشریف لائے اور بیس تیس ہزار کی ایک گڈی
انہیں پکڑادی ، گھر والوں نے پوچھا کہ پہلے والے سے تو آپ نے پانچ میں سے
بھی دو روپے واپس کر نے کو فرمایا اور دوسرے کو اتنی خطیر رقم عطا کی ،
فرمایا : اس کا پیشہ ہی مانگنا تھا ، دو تین سے اس کا کام چل جا ئے گا ،
دوسرا بھکاری نہیں ہے وہ صرف میرے ہی پاس آئے تھے ، اس لئے اسے زیا دہ
دیئے،یہ خیرات میں بھی فرق مراتب اور حیثیت شناسی کا حسین نمونہ اور مثال
ہے ۔ جمعہ ، عیدین، رمضان ، اور بالخصوص ایام اعتکاف میں ان کی مسجد
ٹھاٹھیں مارتی ، آپ فرائض سے فارغ ہو کر گیٹ پر جو چا لیس پچاس چندہ جمع کر
نے والے بیٹھے ہوتے ، ان کے پاس آکر کھڑے ہوجاتے ، اور نمازیوں کو تر غیب
دیتے رہتے کہ بھا ئی ان کی مدد فرمائیں، بعض اوقات کسی کے پاس چندہ کم
ہوجاتا تو ان ہی کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے کہ ارے بھائی ان کی چادرمیں تو
نہ ہو نے کے برابر ہے، انہیں دیدو، کیا عجب تواضع ، انکساری ، ہمدردی ، اور
مکارم اخلاق کی جیتی جا گتی مثال ہے ۔
عشق رسول کے حوالے سے کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے ، ایک تو اس لئے کہ ان کی
خدمات ومواقف کا یہ باب بہت طویل ہے ، دوم اس لئے کہ یہ اظہرمن الشمس فی
رابعۃ النھار ہے ، اتنا کہناکا فی ہو گا کہ اس بارے میں ان کا نام ہی کا فی
ہے ، وہ اس میدان میں ’’ من تو شدم تو من شدی ‘ ‘ کا مصداق تھے ۔
وہ جس محفل یا کارواں میں ہوتے آ قا ، قائد، اورمیرِ کا رواں ہی ہو تے ،
لیکن اپنے آپ کو ہمیشہ توا ضع اور عجز وانکساری میں چھپائے رکھتے ، گو یا
وہ فرماتے :
ہم سا کو ئی گمنام زمانے میں نہ ہوگا
گم ہو وہ نگیں جس پر کھدے نام ہمارا
دورۂ حدیث کے سال پہلی پوزیشن اور بعدمیں دسیوں عر بی مشکل ترین کتب کے
اردو تراجم وحوالے ، ان کے رسوخ فی العلم جسکا تعلق ہی عر بی زبان وأدب سے
ہے پر دال ہیں ، حر مین شریفین کے علماء سے تفصیلی فی البدیہہ عر بی زبان
میں انتہائی پیچیدہ مو ضوعات پر مکالمے اور مباحثے ان کی عبقریت فی الأدب
العربی کی روشن مثالیں ہیں ، حرمین شریفین میں علوی مالکی اور ان کے
متوسلین کے بر یلویت وابتداع کی طرف میلان کی وجہ سے سخت مخالف اور ناقد
تھے ، بقیہ تمام شیوخ ائمہ حرمین اور سعودی حکمرانوں کی جوار بیت اﷲ ،
تکریم ضیوف الرحمن اور خدمت حرمین کی وجہ سے بے انتہاء معترف اور قدرداں
تھے ، انہوں نے جن کتابوں کے تراجم لکھے ہیں ، ان میں بعض عبارتیں ایسی ہیں
کہ بڑے بڑے ماہرین عر بیت وہاں تر جمے کی تعبیر کیلئے حیران و پریشان ہو تے
اور حضرت اقدس نے جس ’’ سہل ممتنع‘‘ اندازمیں انہیں پیش کیا ،یہ انہی کاطرۂ
امتیازتھا۔
انہوں نے جن جن گوشہائے دین میں کام کیا ہے ، ایسا لگتاہے کہ انہوں نے گویا
اپنی پوری زندگی اسی پر تج دی ہے، لیکن ایسا نہیں ہے ، بلکہ دین کے ہر شعبے
میں اپنا بھرپور اور توانا حصہ ڈالنے کی کو شش نے انہیں جامعیت کے مقام پر
فائزفرمایا ہے ، البتہ ’’ دعوت و تبلیغ ‘‘ اور اشاعت دین ‘‘ کاکام ان کے
تمام جد وجہداور مساعی کا کریم ہے ، اسی مقصد اعلیٰ کیلئے انہوں نے دامے ،
درمے،سخنے ، اپناتن، من ،جا ن ، وقت ، مال ، اولاد ، اور تلامذہ ومتوسلین
کو وار دیا ہے ، حضرت مولانا محمد الیاس رحمۃ اﷲ علیہ کے کام اور مشن سے
انہیں عشق اور والہانہ لگاؤتھا ، مستر شدین ومریدین اور عامۃ المسلمین کو
اس کی طرف اپنے مواعظ وبیانات اور خاص مجالس میں متوجہ فر ماتے ، تبلیغی
اجتما عات ، جوڑوں اور شبہائے جمعہ میں بنفس نفیس شر کت فرماتے ،الفلاح
مسجد میں اگر کوئی جماعت آ ئی تو خادمانہ اور مشفقانہ انداز میں ان کی خدمت
، حوصلہ افزائی اور رہنمائی کرنااپنافرض سمجھتے تھے، دعوت کے کام پر اعتراض
کرنے والوں کو دندان شکن جواب دیتے ، مشایخ تبلیغ کے ہر فیصلے کو استحسان
کی نظر سے دیکھتے ، شروع شروع میں جب مستورات کی جماعتیں نکلیں ، کئی اطراف
سے جماعت والوں پر تیر اندازی کی گئی ، حضرت شہیدؒ نے اسکا بھی لسانی وقلمی
ایسا دفاع کیا ، کہ ان معترضین کی زبانیں گنگ ہو گئیں ۔
مولانا نعیم امجد سلیمی صاحب ان سے روایت کرتے ہیں :
’’ میں بڑی عمر میں اپنے بیٹے کا قرآن مجید سنتے سنتے حافظ ہوا ہوں اور
الحمد ﷲ کئی بار تراویح میں بھی سنایا ہے اور اس وقت میری اولاد میں بیٹے ،
بیٹیاں ، پوتے ، پو تیاں، نواسے ، نواسیاں،اکثر حافظ ہیں ۔ حاضر ین مجمع سے
فر ما یا کہ میری ایک بات مانو، وہ یہ کہ اپنے بچوں میں سے ایک بچے کو ضرور
حافظ بنالو تاکہ تمہا ری نجا ت کا ذریعہ ہو جا ئے ۔ ‘‘
شھید اسلام نے جہاں عوام کی اصلاح کے لئے صحافتی زندگی سے وابستگی اختیارکی
، وہیں امامت وخطابت کے سا تھ درس قرآ ن کا سلسلہ بھی جاری رکھا، مولانا
اپنی مسجد میں تقریباً ۲۲ سا ل سے درس قرآن دے رہے تھے ، مولانا کے بعض
معتقدین اس درس قرآن کو آڈیو کیسٹ پر ریکار ڈکر تے رہے ، اس ریکارڈ کا کچھ
حصہ دفتر ختم نبوت میں محفوظ ہے اور کچھ حصہ ایک معتقد کے پاس محفوظ ہے یہ
مکمل درس قرآن تین سو سے زائد آڈیو کیسٹ میں محفوظ ہے۔
یوں تو حضرت شہیدؒ نے ہر میدان میں قائد انہ کر دار ادا فرمایا، مگر دور
حاضر کے فتنوں کے تعاقب اور مسلک اعتدال کی نشاندہی میں انہوں نے جس طرح سے
بے نظیر خدمات سر انجام دی ہیں ، وہ ان ہی کا حصہ تھا ۔ ذیل میں ان فتنوں
کی فہر ست پیش خد مت ہے : رافضیت ،غیر مقلدیت ، بریلویت ،مودودیت ، انکار
حدیث ،دین دارانجمن ،فتنہ ٔ گوہر شاہی ،آغاخانیت ،فرقہ مہدویہ،ذکری فرقہ ،فتنۂ
محمد شیخ ،فتنۂ ڈاکٹر مسعود عثمانی ،فتنۂ بہائیت ،فتنہ ٔخارجیت ،فتنۂ علوی
مالکی،فتنۂ جماعت المسلمین ،فتنۂ تنظیم اسلامی ۔
حضرت ؒ کی تحریر کی جا معیت کا اندازہ آپ اس جواب سے بھی لگا سکتے ہیں جو
انہوں نے ــ ــ’’ صراط مستقیم ‘‘ کے محرک کے جواب میں لکھا تھا ، میرے خیال
میں پیش نظر تحریر کا یہ حصہ سا ئل کے پورے خط کا جواب ہے اور پوری امت
کیلئے اس میں اصلاحی پہلو بھی ہے ۔
محدث العصر حضرت محمد یو سف بنوری ؒ جن کی علمیت کے اہل عجم ہی نہیں عرب
بھی قائل تھے ، وہ اس نابغۂ روزگار شخصیت کے علوم ومعارف اور تبحر علمی کا
اعتراف کر تے ہوئے اردو ترجمہ ’’ خاتم النبیین ‘ ‘ کے ،مقدمہ میں انہیں
مندر جہ ذیل الفاظ میں خراج تحسین پیش فر ماتے ہیں :’’ الحمد ﷲ کہ یہ سعادت
میرے ہم نام اور میرے ہم کام میرے مخلص رفیق کار مولانا محمد یوسف صاحب لد
ھیانوی ؒ کے حصہ میں آئی ، اور اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ وہ اس تر جمہ وتشریح
کے فرض سے نہایت کامیابی کے ساتھ عہدہ بر آ ہو ئے ‘‘ ۔
مفتی محمدجمیل خان کیا کہتے ہیں ذرہ دیکھئے :’’مئی ۷۸ء میں ادارہ جنگ کے
مالک میر شکیل الرحمن مولانا مفتی احمد الرحمن ، مولانا مفتی ولی حسن ٹو
نکی سے دراخواست کرتے ہیں کہ میں جنگ میں اسلامی صفحہ شروع کر نا چاہتا ہوں
۔ حضرت کو اس کی ادارت کے لئے اجازت دے دیجئے ۔ حضرت شہیدؒ اخبارات کو ایک
فضول ، لا یعنی چیز اور جھوٹ کا پلند ا قراردیتے ہو ئے انکار فر ماتے ہیں
مگر امام اہلسنت مفتی احمد الر حمن مستقبل پر نگاہ کئے ہو ئے ہیں اور ذرائع
ابلاغ کی اہمیت کا احساس کر تے ہو ئے حضرت شہید ؒ سے فر ماتے ہیں :
’’ آپ نے اس کام کو سنبھالنا ہے ‘‘ چنانچہ شہیدؒ اسلام مولانا محمد یوسف لد
ھیانوی اخبار ی صنعت میں جدت فر ماتے ہیں اور مضامین کے سا تھ دینی رہنمائی
کے لئے ’’ آپ کے مسائل اور ان کا حل ‘‘ کے عنوان سے ایک کالم کا آغاز
فرماتے ہیں ۔ یہ کالم آپ کی دینی خد مات کو عالمی وسعت دینے کا نیا مر حلہ
ہے ‘‘ ۔
حضرت شیخ ؒکو حق تعالیٰ نے محبوبیت کا بلند ترین مقام عطا فر ما یا تھا ،
او ر ’’ ثم یو ضع لہ القبول فی الا رض‘‘ کے مطا بق ان کی یہ محبوبیت عطیہ
آسمانی تھا۔ وہ جس محفل میں ہوتے ، خواہ یہ بادشاہوں کی ہو تی یادرویشوں کی
، طلبأ کی یا دانشوروں کی ،احباب کی یا اغبا ر کی ، وہ سب پر بھا ری نظر
آتے ۔
لاکھوں افراد نے آپ سے اصلاح حاصل کی ۔لندن ،افریقہ اور دیگر ممالک میں آپ
کے مریدین کی تعداد ہزاروں سے متجاوز ہے ، حضرت مولانا فضل الر حمن ، حضرت
مولانامفتی نظام الد ین شامزئی، مولاناعزیر الرحمن جالندھری ،ڈاکٹر عبد
الرزاق اسکندر ،مولانامحمد اعظم طا رق،مولانااحمد میاں حما دی ،مفتی منیر
احمد اخون،مولانامسعود اظہر ، مولانامنظور احمد الحسینی ،مولانامحمد سلیم
دھورات ،مولانا اسمعیل ،قاری محمد طاہر رحیمی ،قا ری محمد یسین ،قاری محمد
صدیق رحیمی ، قاری محمد عبد اﷲ رحیمی ، محمد سلیما ن ہو شیار پو
ری،مولانارب نواز ،حافظ فیروز الد ین ، قاری عطاء اﷲ ،قاری نثار احمد ،
حافظ عبد القیوم نعمانی ،مفتی اسلم ،مولانا سعید احمد جلا ل پوری ،مفتی فضل
الحق، حا فظ عبد اللطیف ،مولانا نعیم امجد سلیمی ، ڈاکٹر وسیم احمد
،مولاناابو الا شرف احمد، قاضی قائم الدین، مولانا ایو ب الر حمن ،
مولاناعبید اﷲ ،مولانا غلام مصطفی،مولانا عبد القیوم سند ھی، مولانا ابر
ہیم ہا شمی امر یکی ،مفتی نعیم میمن ،خواجہ متین الدین ، مولانااقبال اﷲ
،مولانا احسا ن اﷲ ،مفتی محمد جمیل خا ن، مولاناطارق جمیل ،اﷲ وسایا
،مولانامحمد انور فاروقی ،شیخ عبد السمیع فقیر ،قاری عبد الر شید، امیر عبد
اﷲ، مولانا محمد افضل خان، قاری طیب نقشبندی آپ کے خلفاء ہیں ۔
’’اکابر علمائے حق نے کبھی دین کے چھو ٹے اور بڑے کام میں تعرض نہیں کیا
بلکہ سر پر ستی ہی فرمائی اور یہی شان حضرت ؒ کی بھی تھی ۔ حضرت ؒ کو اتحاد
امت کی بڑی فکر تھی اور علمأامت کے اتحاد کو اس کا نکتہ آغاز سمجھتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ آپ ؒ نے ختم نبوت کے مشن سے خصوصی قلبی لگاؤ کے باوجود علمأ
حق کے ہر نمایاں کام میں اپنا بھر پور اور موثر حصہ ڈالا ۔ تبلیغی جماعت کی
بھر پور تائید ونصرت فرمائی اور حضرت مولانا طارق جمیل صاحب مد ظلہ کو
خلافت سے سر فراز فرمایا ۔سپاہ صحابہ کی مظلومیت کے دور میں کارکنوں کے
سروں پر دست شفقت رکھااور مولانا اعظم طارق کو جیل میں خلافت عطا فرمائی ۔
جمعہ کے دن کی نماز کے لئے ۱۲ بجے مسجد میں آجا تے اور بیان شروع فر ما
دیتے ، تقریباً ایک بجے تک بیان ہو تا اس کے بعد سوالات کے جواب دئے جا تے
، سو اایک بجے پہلی اذان ہو تی ، دس منٹ سنتوں کی ادا ئیگی کا وقفہ ، پھر
دو سری اذان و خطبہ اورنماز ہو تی ۔آپ دین کاکام کر نے والے ہر انسا ن کو
گلے لگا تے ، اس سے خوش ہو تے ، اور اس کو اپنا سمجھتے ، اس کی سر پر ستی
کر تے ۔ نکا ح پڑھا نے کے لئے دولہا کے شر عی لباس ، وضع قطع ، ․صورت وسیرت
کو دیکھ کر نکاح پڑھا تے ۔کام سے اتنی لگن کہ جنگ میں ’’ آپ کے مسا ئل اور
ان کا حل ‘‘ کیلئے شہا دت کے بعد تک آگے کا کام کر گئے ۔شفقت والفت اور
محبت ایسی فرماتے کہ آپ کی شفقت دیکھ کر ما ں ، باپ اور استاذ کی محبت بھول
جا تی ۔سفر و حضر میں تہجد کا اہتمام والتزام فرماتے ۔فضول مجلس آرائی سے
مکمل اجتناب فر ماتے ۔
حضرت کی شہادت کی خبر سنتے ہی پورا کراچی بلکہ پو را پاکستان غم واندوہ میں
ڈوب گیا ، دیکھتے ہی دیکھتے مسجد فلاح اور اس کے آس پاس کا علاقہ لوگوں کے
ٹھاٹھیں مارتے سمندر سے بھر گیا ۔ ہر شخص اشک بار تھا اور ہر دل رنجیدہ تھا
۔عشاء تک عشاق نے لائن لگا کر اپنے اس محبوب قائد کے رخِ زیبا کی زیارت کی
۔ حسب پر وگرام عشاء کی نماز کے بعد شہید کے جسد خا کی کو بنو ری ٹاؤن لایا
گیا ۔ جنازہ کے سا تھ چلنے والے جلوس میں بلامبالٖغہ ہزاروں کاریں ، بسیں
اور لاکھوں موٹر سائیکلیں تھیں ،یہاں پہنچ کر منظر اور بھی حیران کن تھا کہ
مسجد ومدرسہ اور چھتوں ،دکانوں ، مکا نوں ، سڑکوں ، اور گلیوں میں بنائی
گئی صفوں کے علاوہ مسجد کی مغربی جانب لاکھوں کا مجمع تھا ۔ خواجۂ خواجگان
حضرت خان محمد صا حب زید مجدہ نے نماز جنازہ پڑھا ئی ،تقریبا رات ایک بجے
علم و فضل کے اس تاجدار کو جامع مسجد خاتم النبینؐ کے پہلو میں سپرد خاک کر
کے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ان کے عشاق کی نظروں سے او جھل کر دیاگیا ۔ ہلچل
زمیں پہ مچ گئی افلاک ہل گئے یارب کسی کی آہ تھی یا نفخِ صور تھا |