(سفرنامہ کشمیر)
’’گھرسے گھرتک‘‘
علی الصبح ہم لوگوں نے ناشتہ کیااورپھر سرینگرکے لئے روانہ
ہوگئے۔ٹنگڈھاربازارسے تھوڑے ہی فاصلے پر گاڑی ایک چیک پوسٹ پررکی۔ڈرائیورنے
تمام مسافروں کی لسٹ بناکرپوسٹ پرموجوداہلکاروں کے حوالے کردی۔اہلکاروں نے
گاڑی کاسرسری ساجائزہ لیااس کے بعدگاڑی فراٹے بھرنے لگی۔خوبصورت بل کھاتی
ہوئی سڑک اورپیارے کشمیرکے دلکش نظارے ،واہ،واہ،سبحان اﷲ،ہرطرف سبزہ،گھنے
جنگلات ،وقفے وقفے سے انتہائی دلکش وادیاں اوران میں موجود آبادیاں نظرآتیں
تویوں لگتاجیسے ہم کسی تخیلاتی دنیاسے گزررہے ہوں۔سرسبزوشاداب،گھنے درختوں
کی اوٹ سے نظرآتے ایک ہی طرح کے خوبصورت مکانات،قریبی بہتے ہوئے صاف پانی
کے نالے اورآبشاریں آنکھوں کوخوب تسکین پہنچارہے تھے۔جوں جوں گاڑی بلندی پہ
جارہی تھیایسامحسوس ہورہاتھاجیسے ہم کوئی خواب دیکھ رہے ہوں۔میں نے
کشمیرکاایساقدرتی حسن کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھاتھا۔ــــ’’سادناگلی‘‘تک
متعددمقامات پرانڈین آرمی کے مسلح اہلکارسڑک کے طرفین چوکس نظرآئے۔یہ
اہلکارغالباًکسی بھی ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کے لئے ہرپانچ چھ کلومیٹرکے
فاصلے پر تعینات تھے۔سادناکے قریب سڑک کو پختہ کرنے کاکام جاری تھا۔یہ وہ
مقام ہے جہاں سردیوں کے موسم میں شدیدبرفباری ہوی ہے اورگاڑیوں کے پھسلنے
کاخدشہ ہوتاہے ،اسی لئے سڑکپرتارکول ڈالنے کی جائے اسے پختہ اینٹوں
اورسیمنٹ سے کافی محنت اورمعیاری اندازسے تیارکیاجارہاتھا۔سادناگلی ٹاپ پر
پہنچنے میں گاڑی نے کوئی دو،اڑھائی گھنٹے لگادئے تھے۔لیکن خوبصورت
نظاروں،تازہ اورٹھنڈی ہوانے احساس ہی نہیں ہونے دیاکہ اتناوقت گزرچکاہے۔جب
ہم سادناٹاپ پرپہنچے تو ڈرائیورنے تمام مسافروں کی ایک نئی لسٹ آرمی چیک
پوسٹ پہ جمع کرائی۔اہلکاروں ے گاڑی کامعائنہ کیا اورگاڑی کے
کاغذات،نمبر،ڈائیورکانام اور’’پاکستانی مسافروں‘‘کا بطورخاص پوچھاگیا۔اس
پانچ ،دس منٹ کے عمل کے دوران اچانک سادناپرگھنے سیاہ بادل چھاگئے،اتنی
ٹھنڈی ہواچلنے لگی ،جیسے دسمبرہو،حالانکہ یہ جولائی کاآخری عشرہ تھا۔دیکھتے
ہی دیکھتے ایسی گہری دھندچھاگئی کہ دوچارگز پہ بھی کوئی چیز دکھائی نہ دے
رہی تھی۔درجہ حرارت اس قدرنیچے آگیاکہ ہم سردی سے کانپنے لگے۔وہیں چیک پوسٹ
کے ساتھ ہی چندقدم پر ایک پانی کاقدرتی چشمہ ہے۔اتناٹھنڈاکہ اس پانی میں
کوئی جوان آدمی ایک منٹ تک اپناہاتھانہیں رکھ سکتا۔ہمیں بتایاگیاکہ پنڈت
جواہرلال نہرو(سابق بھارتی وزیراعظم)اپنے پینے کے لئے اسی چشمے کاپانی
بذریعہ ہیلی کاپٹرمنگوایاکرتے تھے۔سادناگلی سطح سمندرسے لگ بھگ دس ہزار چھ
سو فٹ کی بلندی پرہے۔ہم نے پیاس نہ ہونے کے باوجوداس چشمے کاپانی بہت شوق
سے پیا۔
اب نشیبی سفرشروع ہوتاہے۔سادناگلی سے آگے تقریباًایک گھنٹے کے سفرکے بعد ’’زرلہ‘‘گاؤں
آتاہے۔اس گاؤں کے بارے میں بتایاگیاکہ یہ زمانہ قدیم کاایک بڑاشہرتھا
جو’’راج ترنگنی‘‘میں پٹھان کوٹ کے نام سے موسوم ہے۔پٹھان کوٹ اُس وقت ایک
مرکزی تجارتی مقام تھا،جب یہاں ہندو راجاوئں کی حکمرانی تھی۔یہی وہ پٹھان
کوٹ ہے جہاں1947ء میں مجاہدین پہنچ چکے تھے اوراس دوران بھارت سرکارنے اپنی
فوجیں سرینگرائیرپورٹ پراُتارلیں اورپھرجنگ بندی کے لئے اقوام متحدہ میں
بھی پہنچ گیا۔زرلہ کافی خوبصورت مقام ہے۔اس گاؤں کے درمیان میں ایک شفاف
اور بڑا نالہ ہے جس کوکئی مقام سے دیکھ کراس کے دریاہونے کاگمان ہوتاہے۔
کئی مقامات پر یہ نالہ دلکش جھیل کی مانندچمکتاہوااس علاقے کی خوبصورتی
کوچارچاندلگارہاہے۔اس جھیل نمانالے میں سرسبزوادیوں کاعکس جب جھلکتاہے
تو،کیاکہنے۔اس نالے کے دونوں اطراف آبادی ہے۔ چھوٹے چھوٹے ٹیلوں پربنے
کچے،پکے مکانات اس کی دلکشی میں اوربھی اضافہ کررہے ہیں۔
گاڑی اب فراٹے بھرتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی اور یوں لگا کہ اب گھنٹوں کا
سفرمنٹوں میں طے ہورہاہے۔زلہ گاؤں کے بعد کئی چھوٹے چھوٹے دیہات آئے۔جوں
جوں ہم آگے بڑھ رہے تھے ہمارے تجسس میں اور بھی اضافہ ہورہاتھا۔اب ہم
کپواڑہ کے قریب پہنچنے والے تھے۔اوردھوپ بھی کافی نکل آئی تھی۔کپواڑہ
پہنچنے تک ہم نے وادی کے خوبصورت جنگلوں اور ان کے آس پاس آبادیوں کاخوب
نظارہ کیا۔سڑک کنارے ہم نے جوبھی آبادی دیکھی،عمومی طورپر مکانات،بازار،رہن
سہن،طرزمعاشرت میں کوئی خاص تفریق نظرنہیں آئی۔لباس،بودوباش سادہ
مگرپروقار۔اب ہم میدانی علاقے سے گزررہے تھے۔دورسامنے ایک گنجان آبادعلاقہ
نظرآیا،بتایاگیاکہ ہم کپواڑہ شہرمیں داخل ہوچکے ہیں۔کپواڑہ بازارمیں پہنچ
کر ڈرائیور نے ایک ہوٹل کے قریب بریک لگائی تومیری پچھلی سیٹ پربیٹھے
خالد(چچابشیراحمدکابیٹا،عمراندازاً16سال)اور حافظ طارق(تقریباً17سالہ
چچانصیراحمدکابیٹا) دونوں ایک جھٹکے سے میری سیٹ سے ٹکرائے،اوربُڑبڑاتے
ہوئے نیندسے بیدارہوگئے۔ناشتہ توگھرسے کرکے ہی نکلے تھے مگرسب لوگوں نے
Freshہونے کے لئے چائے پینے کاپروگرام بنالیاتھا۔ہم ایک ہوٹل میں چلے
گئے۔خواتین کے لئے علیحدہ انتظام موجودتھا،تاہم ایک چھوٹے کمرے میں ہی
اکٹھے بیٹھ گئے۔گھروں میں تو نمکین چائے ہی پی جاتی ہے غالباً ہوٹل
ویٹراندازہ نہیں لگاسکاکہ ان کے ساتھ پاکستانی بھی ہیں،اس لئے اسے بطورخاص
بتایاگیاکہ بھائی ایک دوکپ لپٹن چائے بھی لانا۔میں نے جلدی جلدی چائے ختم
کی اور خالد اورحافظ طارق کے ساتھ کپواڑہ بازارمیں نکل آیا۔بازارمیں کافی
رش ہوچکاتھا۔کافی چہل پہل نظرآرہی تھی۔اس بازارکوارونق دیکھ کر بہت خوشی
ہوئی۔البتہ ٹننگڈار کی طرح اس مقام پربھی انڈین آرمی کے اہلکاروں کوگشت
کرتاپایا۔آرمی کی چندبڑی گاڑیاں سپیڈکے ساتھ ساں،ساں کرتی ہوئی گزررہی تھیں
توان کی آوازپورے بازار میں گونجتی ہوئی سنادے رہی تھی۔اب کپواڑہ سے
سوپورکاسفرشروع ہوتاہے،کپواڑہ شہرخاص سے نکلتے ہی میدانی علاقے نظرآرہے
ہیں۔سڑک کے دونوں اطراف درختوں کی ایسی خوبصورت قطاریں ہیں کہ،سبحان اﷲ۔یہ
درخت اس قدر خوبصورتی اورترتیب سے لگائے گئے ہیں کہ جیسے کوئی بہت بڑی
باڑلگای گئی ہو،اوروہ سرسبزباڑدورسے ایسی تکون سی نظرآرہی ہے جس نے
خوبصورتی سے بل کھاتی ہوئی سڑک اپنے سبزپتوں سے ڈھانپ رکھاہے۔لگتاہییہ
خوبصورت درخت گلے مل رہے ہیں اور آگے سڑک ختم ہوجائے گی۔ درختوں
کاجھنڈآجائے گامگرہم آگے بڑھتے جارہے ہیں تووہ اسی قدرخوبصورتی سے ہٹتے
جارہے ہیں،مجھے تواپنی گاڑی پر غصہ آرہاتھاوہ اس قدر بے رحمی سے آگے بڑھتے
ہوئے انہیں ایک دوسر ے سے جداکرتی نظرآرہی تھی۔یہی نہیں،سڑک کے دونوں اطراف
تاحدگاہ باغات کا ایک طویل سلسلہ نظرآرہاہے۔اورباغات بھی پوری ترتیب ومنظم
اندازسے لگائے گئے ہیں۔سیب کے باغات ہیں تو کئی سوکنال رقبے پرسیب ہی سیب
ہیں۔ناشپاتی کاباغ ہے تو ایک ڈیڑھ میل تک اسی کی مہکار ہے۔اورپھرسبزیوں کے
بہت بڑے بڑے کھیت نظرآرہے ہیں،ان کھیتوں میں کہیں کہیں ایک خاص طرزتعمیرکے
شاہکارمکانات ایک خاص انداز سے تعمیرکئے ہوئے سلیقے سے سجائے گئے ہیں۔سبحان
اﷲ کیامنظرہے،انہیں باغات اور سبزیوں کے کھیتوں میں کہیں کہیں انتہائی
خوبصورت ٹیلے نظرآرہے ہیں،چھوٹی چھوٹی وادیاں،ایک لمحے کے لئے تو میں نے یہ
سوچاکہ شائدیہ مصنوعی ہوں،مگرنہیں جناب،یہ مصنوعی نہیں اﷲ رب العالمین کی
قدرت کاکرشمہ ہیں۔یہ انتہائی دلکش مناظردیکھتے ہوئے مجھ سے رہانہ گیااورمیں
نے موبائل نکال کر انہیں ویڈیوکی صورت محفوظ کرناشروع کردیا،مگرٹھوڑی ہی
دیربعد مجھے ٹوک دیاگیاکہ ایساکرنا خطرے سے خالی نہیں ہوگا۔ (جاری ہے) |