پچھلے دنوں پاکستان میں شدید گرمی کی لہر نے اور بجلی کے
بحران نے نہ صرف انسانوں کو بلکہ جانوروں کو بھی بری طرح متاثر کیا۔گرمی کی
شدت کی وجہ سے پاکستان کے تمام علاقوں کے لوگ جو گرمی کے ستائے ہوئے اور
بجلی بحران سے تنگ تھے نے پہاڑوں کا رخ کیا تو لوگوں کا رجحان مری،وادی
کاغان اور گلگت بلتستان جیسے سرد اور خوبصورت علاقوں کی طرف رہا۔مجھے بھی
اپنی فیملی اور چند دوست احباب کے ساتھ وادی کاغان جانے کا اتفاق ہوا ۔ہم
نے اپنے سفر کا آغاز صبح سویرے کیا تاکہ منزل مقصود تک شام سے پہلے پہنچ
جائیں وادی کاغان صوبہ خیبر پختونخواہ کے ہزارہ ڈویژن میں تقریباً اسلام
آباد سے 250 کلومیٹرکے فاصلے پر ہے ہمیں اسلام آباد سے مانسہرہ ،بالاکوٹ سے
ہوتے ہوئے وادی کاغا ن تک پہنچنا تھا۔اسلام آباد سے مانسہرہ کا سفر تقریباً
تین گھنٹے کا ہے۔مانسہرہ سے بالاکوٹ 38 کلو میٹر جو تقریباً ایک گھنٹے کی
مسافت پر ہے۔بالاکوٹ سے ناران 82 کلومیٹر ہے۔بالاکوٹ سے ناران تک چڑھائی کی
وجہ سے اور کچھ سڑک خراب ہونے کی وجہ سے 82 کلو میٹر کا سفر ڈھائی سے 3
گھنٹو ں میں مکمل ہوتا ہے۔
یوں اگر دیکھا جائے تو اسلام آباد سے وادی کاغان کا سفر 7 سے 8 گھنٹو ں میں
مکمل ہوجاتا ہے۔ہم اسلام آباد سے مانسہرہ پہنچے جہاں ہم نے دوپہر کا کھانا
کھایا اور گاڑیوں میں گیس بھروائی کیونکہ اس کے بعد گیس میسر نہیں البتہ
پیٹرول پمپ جا بجا موجود ہیں۔ہماری اگلی منزل وادی کاغان تھی لیکن جب ہم
مانسہرہ سے بالاکوٹ پہنچے تو دریاکنارکے کنارے ٹھنڈے ،تیز پانی اور بالاکوٹ
شہرکی خوبصورتی نے ہمیں رکنے پرمجبور کر دیا ۔یہ شہر وادی کاغان کا سب سے
بڑا اور مرکزی شہر ہے۔اسے وادی کاغان کا دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔اس شہر کو
تاریخی حیثیت بھی حاصل ہے کیونکہ یہاں شاہ اسماعیل شہید او ر سید احمد شہید
مدفن ہیں ۔ان مجاہدین اسلام نے سیکھوں کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے جام شہادت نوش
کیا۔2005 ء کے زلزلے میں مکمل طورپر تباہ ہونے کے بعدجلدہی اس شہر کی
رونقیں بحال ہوگئی اور اب آپ یہ شہر اپنی قدرتی خوبصورتی کے ساتھ وادی
کاغان آنے والوں کا گرم جوشی سے استقبال کرتا ہے۔ہم دریاکے کنارے پتھروں پر
بیٹھ کر ایک طرف ٹھنڈے پانی سے لطف اٹھارہے تھے اور دوسری طر ف چائے اور
پکوڑوں سے مزے لے رہے تھے ۔
صحافت سے منسلک اور سیاحت سے دلچسپی ہونے کے ناطے میں نے وہاں کے مقامی
لوگوں سے معلومات اکھٹی کرنی شروع کیں جس پہ مجھے یہ پتہ چلا کہ وادی کاغان
میں بہت سے ایسے مقامات ہیں جہاں لوگ سیروتفریح اور شدید گرمی سے تنگ آکر
ان خوبصورت علاقوں میں سکون حاصل کرسکتے ہیں۔پھر مجھے یہ بھی پتہ چلا کہ
وادی کاغان کو جھیلوں کی سرزمین کیوں کہتے ہیں۔کیو نکہ وادی کاغان میں
خوبصورت ترین جھیلیں جن میں سیف الملوک،لولوسر ،دودی طاپت سر ،سرال اور
آنسو جھیل قابل ذکرہیں۔یہ سب جاننے کے بعد میرا تجسس اور بڑھ گیا اسی جستجو
میں ہم نے بالاکوٹ سے وادی کاغان کا سفر شروع کیا ۔کچھ کلو میٹرچڑھائی
چڑھتے ہی یہاں کے گھنے جنگلات سے ڈھکے پہاڑ،ٹھنڈے میٹھے پانیوں کے چشمے ،تندوتیزندی
نالوں،ہرطرف بکھیرے ہوئے سبزے اوردریائے کنار کی تیز روانی نے ہمیں پرجوش
طریقے سے خوش آمدید کہا کہ ہم اس قدرتی حسن سے متاثر ہوئے بغیر رہ نہ
سکے۔اسی دوران جب ہم ڈرائیو کرتے ہوئے آہستہ آہستہ اوپر کی طر ف جارہے تھے
کہ اچانک تیز بارش شروع ہوگئی۔اور ہمیں شدید ٹھنڈ ک محسوس ہوئی اور تیز
بارش کی وجہ سے گاڑی چلانا بھی مشکل ہورہا تھا۔اس لئے مہانڈری پہنچ کر کچھ
دیر رکنے اور چائے پینے پر اتفاق کیا۔
ہوٹل میں چائے کے ٹیبل پر بھی مجھے وادی کاغان کے بارے میں بہت سی معلومات
ملی یہاں کے لوگ انتہائی خوش اخلاق ،مہمان نواز ،مذہبی ،سادہ زندگی گزارنے
والے ،کھیتی باڑی اورمال مویشی پالنے والے سیاحت کی صنعت کو فروغ دینے والے
ہندکو بولنے والے ہیں ۔اس وادی میں مختلف قسم کی قومیں آباد ہیں جن میں
سید،سواتی،مغل،کشمیری ،کوہستانی اور گوجر ہیں۔لیکن گوجروں کی تعداد سب سے
زیادہ ہے۔گوجروں میں کچھ لوگ زراعت پیشہ ہیں۔باقی گوجر خانی بدوشی کی زندگی
بسر کر رہے ہیں۔ان معلومات کے ساتھ ساتھ ہم نے دوبارہ اپنے سفر کا آغاز کیا
اب بارش بھی تھم چکی تھی۔میٹھی دھوپ میں سرسبز وادی ایک خوبصورت نظارہ پیش
کر رہی تھی۔جون کے مہینے میں ہمیں دسمبر محسوس ہورہا تھا یہ ایک خواب لگ
رہا تھااسی خواب کی تعبیر پانے کیلئے ہم اپنا سفر جاری کئے ہوئے تھے
۔تقریباًعصر کے وقت ہم کاغان کے قصبے میں پہنچے جس کے نام سے پوری وادی
جانی جاتی ہے کاغان کا قصبہ بالاکوٹ سے 58 کلو میٹر ہے جو سطح سمندر سے
6,650 فٹ کی بلندی پر واقع ہے کاغان کے بازار میں متعدد ہوٹل اور
ریسٹورن،دکانیں موجود ہیں اور اس کے اطراف میں کچھ خوبصورت گاؤں جن میں
شنگری ،میدان اور کنڈی شامل ہیں۔
کاغان کے قصبے کی خوبصورتی نے ہمیں رات وہی رکنے پر مجبور کیا اور ہم
دریائیکنہارس کے کنارے ہوٹل میں کچھ کمرے کرائے پر لئے ہوٹل کی پچھلی جانب
سے دریائے کنہار ایک دل فریب منظر پیش کر رہا تھا جس کی شورکی آواز ہمیں
اپنے کمرے میں سنائی دے رہی تھی اس کے علاوہ وہاں ٹینٹ بستی بھی دیکھائی دے
رہی تھی رات گزرنے کے بعد صبح سویرے ہم نے ناران سے ہوتے ہوئے جھیل سیف
الملوک پہنچنا تھا ۔ہم 22 کلو میٹر کی مسافت کے بعد ناران بازار میں پہنچے
۔ناران کو وادی کاغان کا دل بھی کہاجاتاہے وادی کاغان کی ٹورازم انڈسٹری
کامرکز اور سیاحوں کا پسندیدہ ترین مقام ناران کہلاتا ہے۔ناران میں چھوٹے
،بڑے سستے اورمہنگے تمام اقسام کے ہوٹل موجود ہیں اسکے علاوہ خیمے بھی
کرائے پرملتے ہیں۔گرمیوں میں نارا ن کا زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 17 ڈگری
تک ہوتا ہے۔ناران ٹراؤٹ مچھلی کیلئے دنیا بھر میں جانا جاتا ہے اور فشنگ
ناران کا مقبول ترین کھیل ہے۔ناران کے بازار سے ہم نے کچھ میوہ جات اور آم
وغیرہ خریدے اورجھیل سیف الملوک جانے کیلئے جیپ کرائے پر لی جھیل سیف
الملوک ناران سے جنوب مشرق کی جانب آٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔جیپ
انتہائی کھٹن اور مشکل راستوں سے ہوتی ہوئی تقریباً آدھے گھنٹے میں
پہنچی۔جیب کے بغیر یہ دشوار سفر دو سے تین گھنٹو ں میں طے کیا جاتاہے یہ
پیالہ نما جھیل بلندوبالا برفانی پہاڑوں میں گھری ہوئی جھیلوں کی ملکہ
کہلاتی تھی ۔اس جھیل کے ساتھ بہت سی رومانوی داستانیں منسوب ہیں۔
جن میں سے ایک کے مطابق مصر کا شہزاد ہ سیف الملوک ایک حسین پری بدیع
الجمال کو خواب میں دیکھتا ہے اور اس پر اپنا دل ہار جاتا ہے ۔اور اس کی
تلاش میں نکل پڑتا ہے اسے معلوم ہوا کہ اگر وہ بارہ برس تک اس جھیل کے
کنارے پرعبادت کرتارہے تو پری کو پالے گا ۔بارہ برس کی عبادت کے بعد چاند
کی چودھویں رات کو پری جھیل میں اتری تو شہزادے نے اس سے اظہار محبت کیا
اور شادی کا وعد ہ کرنے کو کہا کافی مشکلات کے بعد شہزادہ پری کو لے کر
اپنے وطن چلا گیا اب ہم حقیقت میں جھیل پرموجود تھے جھیل کا خوبصورت ترین
روپ کسی پری سے کم نہ تھا ہم وہاں 12 سال تو نہیں گزار سکے بلکہ 12 منٹ کے
بعد وہاں بارش شرو ع ہوگئی۔اور ہم نے بارش کے رکنے تک خیمے میں پناہ لی
جھیل سیف الملوک کو جون جولائی میں اچھی طرح دیکھا جاسکتا ہے۔کیونکہ اس
موسم میں پھول مسکرا رہے ہوتے ہیں اورپہاڑ وں کی چوٹیاں برف سے ڈھکی ہوتی
ہیں ۔اگست تک پہاڑوں پر برف کم ہوجاتی ہے اور پھول مرجا جاتے ہیں ستمبر
اکتوبر میں سیاحوں کی آمد کا سلسلہ ختم ہوجاتاہے ۔بارش کے تھم جانے کے بعد
ہم نے جھیل کا دور ہ کیا وہاں چائے اور پکوڑوں سے لطف اٹھایا واپسی کیلئے
جیپ کے پاس پہنچے اور ناران کے لئے سفر شروع کیا وہاں پہنچ کرایک ہوٹل میں
دن کا کھانا کھایا اور ٹراوٹ مچھلی نے کھانے کا لطف دوبالا کر دیا اور وہ
ذائقہ ابھی تک اپنے منہ میں محسو س کرتاہوں ۔رات ہم نے ناران کے ایک ہوٹل
میں گزاری اور صبح واپسی کیلئے روانہ ہوئے جب بالاکوٹ کو کراس کیا تو ہمیں
وادی کاغان کو چھوڑنے کا افسوس ہورہا تھا لیکن ساتھ ہی ساتھ ہم وادی کی بہت
سی خوشگوار یادیں او ر رومانوی داستانیں لے کرجارہے تھے ۔اب جب بھی میں
وادی کاغان کو یاد کرتا ہوں تو مجھے گھنے جنگلات ،ہرطرف پھیلا سبزہ ،ٹھنڈے
پانی کے چشمے اور جھیل سیف الملوک اور دریائیکنہار یاد آتے ہیں۔میں سب سے
یہی کہوں گا کہ ایک دفعہ ضرور وادی کاغان کی سیر کریں اور میری طرح ایک
خواب کو حقیقت میں بدلیں۔ |