قصائی نما عطائی

بجٹ آنے سے قبل پاکستان کی آدھی سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذار رہی تھی اور رہی سہی کسر اب بجٹ آنے کے بعد پوری ہوگئی ہے ایک امید کی کرن لیے جو کسی نہ کسی طرح اپنا آپ اپنے کندھوں پر لیے پھر رہے تھے انکو حکومت نے دھکا دیکر گرا دیا ہے اب ہر طرف سے بڑھنے والی مہنگائی نے عوام کا جو برا حال کرنا ہے وہ تو سب کے سامنے آہی جائے گا مگر اس وقت میں حکومت کی توجہ اس اہم ایشو پر دلانا چاہتا ہوں کہ ہر انسان کے لیے صحت مند رہنا کتنا ضروری ہے اگر وہ صحت مند ہے تو ہی آنے والے مشکل حالات سے نمبر آزما ہو گا اور زندگی کی گاڑی کو دھکا لگا سکے گا مگر پاکستان کے تمام چھوٹ بڑے شہروں میں اس وقت جو ڈاکٹر صاحبان نے عوام کی حالت بنا رکھی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں مگر ہمارے دیہات اور قصبہ جات میں قصائی نما عطائی ڈاکٹروں نے عوام کی جو درگت بنا دی ہے اس کی ذمہ داری محکمہ صحت کے کرپٹ اور نااہل عملہ پر آتی جبکہ حکومت نے بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کررکھی ہے اس وقت محکمہ صحت کی ملی بھگت یالاپرواہی ادویات کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ‘جعلی ادویات کی بھرمار کے ساتھ ساتھ بیشتر سپیشلسٹ ڈاکٹروں کی بھاری فیسوں اور پرائیویٹ ہسپتالوں کی لوٹ مار نے غریب مریضوںکو موت کے منہ میں دھکیلنا شروع کررکھا ہے پرائیویٹ ہسپتال کی لوٹ مار ‘ نان کوالیفائیڈ ڈاکٹرز اور عملہ مریضوں کے لئے خطرہ بن کر رہ گئے ہیں ۔ان ہسپتالوں میں علاج کم مریض کی کھال زیادہ اتار جاتی ہے ۔ اگر مریض ایک بار ان ہسپتالوں میں علاج کی غرض سے چلا جائے تو پھر اپنی جمع پونچی بھی گنوا بیٹھتا ہے ۔ایسے ڈاکٹر اور ہسپتال ”مسیحا “ نہیں بلکہ وہ سلائٹر ہاﺅس بن چکے ہیں ۔مریضوں پر آنکھیں بند کرکے چھریاںچلائی جارہی ہےں یہاں تک کہ یہ عطائی ڈاکٹر جانوروں کے معاملہ میں بھی کسی آدم خور سے کم نہیں ہیں اپنے نئے نئے علاج کے تجربات سے ان سے نہ انسان محفوظ ہیں اور نہ ہی جانور ان میں سے اکثر ڈاکٹر ایسے بھی ہیں جو بیک وقت انسانوں کا بھی علاج کرتے ہیں اور جانوروں کا بھی ایک ہی طرح کی سرنج اور دوائی دونوں پر استعمال کردیتے ہیں پہلے تو یہ ڈاکٹر چھپ چھپا کر کام کیا کرتے تھے مگر اب ان ڈاکٹروں نے کھل کر انسانی جانوں سے کھیلنا شروع کردیا ہے اور اپنے شاگردوں کو بھی اب ڈاکٹری سکھانا شروع کررکھی ہے دیہاتوں میں بنے ہوئے یہ زبح خانے اب چھوٹے چھوٹے آپریشن بھی کررہے ہیں اور امید ہے کہ اگر حکومت نے انکی اسی طرح سرپرستی جاری رکھی تو یہ آنے والے دنوں جگر کی پیوند کاری جیسے پیچیدہ آپریشن بھی کامیابی سے کرلیا کریں گے جو اب تک پاکستان میں ممکن نہیں ہوسکا سب کھیل محکمہ صحت کی ملی بھگت سے کھیلا جارہا ہے اس کے ساتھ ساتھ محکمہ صحت کی ایک اور نااہلی بھی ملاحظہ فرمائیں کہ محکمہ صحت کی عدم دلچسپی کی وجہ سے شہری جراثیم شدہ گوشت استعمال کرنے سے بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں قصاب کے پھٹہ جات کے گرد جالیاں اور حفاظتی انتظامات نہ ہونے کے باعث شہری جراثیم شدہ گوشت استعمال کرنے پرمجبور ہے گوشت فروخت کرنے والے پھٹہ جات کے گرد جالیاں نہ ہونے کے باعث گندی مکھیاں گوشت کو آلودہ کردیتی ہے گوشت اسی طرح شہریوں کو فروخت کردیا جاتاہے جبکہ قصاب کے ان پھٹہ جات پر رات کے وقت آوارہ کتے موج مستی کرتے ہے قصاب ان پھٹہ جات کو دھونے کی بجائے انہیں جراثیم شدہ پھٹہ جات پر گوشت رکھ کر شہریوں کو فروخت کررہے ہیں جس سے شہری سنگین قسم کے متعددی امراض کا شکار ہورہے ہیں حکومت ان سنگین مسائل کے حل کے لئے تما م ڈی سی او ز کو ہدایات جاری کریں تاکہ گرینڈ آپریشن کے ذریعے سپیشلسٹ ڈاکٹروں ‘ پرائیویٹ ہسپتالوں ‘ جعلی ادویات اور ڈرگ انسپکٹر وں کا قبلہ درست کرنے کے لئے موثر ترین اقدامات کر سکیں ۔ جس ضلع میں ایسی شکایات پائی جائیں وہاں کے ڈی سی او سمیت محکمہ صحت کے افسران کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 830 Articles with 612920 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.