بانی پاکستان کی رہائش گاہ ” زیارت ریذیڈنسی“ پر حملہ

ہفتے کے روز پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے زیارت میں ”زیارت ریذیڈنسی“ کے نام سے قائم بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی رہائش گاہ پر نامعلوم افراد نے راکٹوں سے حملہ کیا۔جس سے زیارت ریذیڈنسی میں آگ بھڑک اٹھی جس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ عمارت تباہ ہوئی بلکہ بانی پاکستان کے زیر استعمال جن اشیاءکو قومی ورثے کے طور پر یہاں محفوظ کیا گیا تھا وہ بھی جل کر خاکستر ہو گئیں۔تاہم ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کے مطابق ریزیڈنسی کی مرکزی عمارت کے قریب واقع لائبریری اور عجائب گھر محفوظ رہے جس میں قائداعظم کے ذاتی استعمال کی اشیا رکھی گئی تھیں۔بلوچستان کے پر فضا مقام زیارت میں محمد علی جناح کی رہائش گاہ" زیارت ریذیڈنسی" کو دھماکوں سے اڑانے کی خبر نے ہر پاکستانی کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی۔بلوچستان حکومت نے قائد اعظم محمد علی جناح کی زیارت میں تباہ ہونے والی رہائش گاہ کو دوبارہ اصلی حالت میں تعمیر کرانے کا اعلان کیا ہے جبکہ وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار نے زیارت ریذیڈنسی پر حملے کی اعلیٰ سطح کی تحقیقات کا حکم دیا اورکہا کہ صوبائی حکومتوں کی مشاورت سے قومی یادگاروں کی سیکورٹی بڑھائی جائے۔اس حملے کے بعد مزار قائد کی سیکورٹی بڑھادی گئی۔ پوری پاکستانی قوم نے اس واقعہ کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔چیف سیکرٹری بلوچستان بابر یعقوب فتح محمد کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ بڑا افسوس ناک ہے۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبد المالک بلوچ نے اعلان کیا کہ ریذیڈنسی کو اسی صورت میں بحال کریں گے جیسے یہ پہلے تھی، اس مقصد کے لیے ا گر باہر سے ماہرین بلانا پڑے تو وہ بھی بلائے جائیں گے۔گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی نے زیارت ریذیڈنسی کے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ اداروں کو ہدایت کی کہ وہ تحقیقات کر کے جلد رپورٹ پیش کریں۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اس واقعہ کے خلاف قراردادیں متفقہ طور پر منظور کی گئیں۔قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے قرارداد پیش کرتے ہوئے کہاکہ سینیٹ اتفاق رائے سے زیارت میں قائداعظم ریذیڈنسی پر حملے کی شدید مذمت کرتی ہے ، یہ ایک قومی یادگار ہے جس میں قائداعظم نے آخری دن گزارے تھے ، صوبائی حکومت اس سنگین جرم میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچائے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے بھی زیارت میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی رہائشگا ہ پر کیے جانے والے حملے کو قومی سانحہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ زیارت ریزیڈنسی پر حملے اور قومی پرچم کی بے حرمتی کرنے سے 18 کروڑ عوام کے جذبات مجروح ہوئے ہیں اور اس قسم کی بزدلانہ کارروائی کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ فوری طور پر اس واقعے کی تحقیقات کرا کے قومی مجرموں کو سامنے لایا جائے اور ان کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری اطلاعات سینیٹر مشاہداللہ خان نے کہا ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح کی زیارت میں واقع رہائش گاہ پر حملہ انتہائی افسوسناک اور شرمناک ہے، جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ وفاق المدارس العربیہ کے ذمے داران شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان، مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر اور مولانا محمد حنیف جالندھری نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں زیارت حملے کی مذمت کی اور کہا کہ یہ حملے افسوسناک اور شرمناک ہیں۔واقعہ کی غیر جانبدارانہ اور منصفانہ تحقیقات کروا کر ذمہ داروں کو نشانہ عبرت بنا دیا جائے۔ وفاق المدارس کے ذمے داروں نے ان واقعات کی آڑ میں مذہب پسندوں کو ہدفِ تنقید بنانے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ بلاتحقیق اس قسم کے واقعات کا ملبہ مذہب پسندوں پر ڈالنے سے گریز کیا جائے۔ جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن نے زیارت کے واقعہ کو انسانیت سوز قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس واقعہ میں بیرونی ہاتھ خصوصی طور پر بھارتی ”را“ کے ہاتھ کو ملوث ہونے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مسلم لیگ (ن) بلوچستان کے صدر ثناءاللہ زہری نے کہا ہے کہ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ دہشت گردی میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے۔ ہماری روایات پر حملہ کیا گیا، اب انہیں نہیں چھوڑنا چاہیے۔ان کے علاوہ بھی کئی تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ زیارت حملے میں بیرونی ہاتھ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ صدر آصف زرداری، وزیرِاعظم نواز شریف، وزیرِاعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک اور دوسرے متعدد قومی اور سیاسی رہنماو ¿ں نے اس حملے کی شدید مذمت کی ۔

یاد رہے کہ زیارت کی وادی بلوچستان کے سیاحتی مقامات میں سے ایک صحت بخش اور پ ±رفضا مقام ہے۔ ہر سال گرمیوں کا آغاز ہوتے ہی ملک بھر سے سیاحوں کی بہت بڑی تعداد یہاں کا رُخ کرتی ہے۔ بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ سے تقریباً دو گھنٹے کی مسافت پر156 کلو میٹر دور زیارت کا صحت افزائ، خوبصورت اور انتہائی سرد مقام واقع ہے، جہاں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے۔ زیارت کی پ ±رفضا، خوبصورت اور پہاڑی پر واقع یہ وادی قائداعظم محمد علی جناح کو بہت پسند تھی۔ وہ اکثر اس وادی میں آتے تھے۔یکم جولائی1948 کو جب قائداعظم محمد علی جناح کراچی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے بعد صحت مند نظر نہیں آ رہے تھے۔ اس کے بعد وہ کوئٹہ چلے گئے اور چند روز قیام کے بعد زیارت روانہ ہوگئے، پھر10 ستمبر تک اپنی حیات کے آخری شب و روز یہیں گزارے۔ دس ستمبر1948 کو وہ زیارت سے کوئٹہ روانہ ہوئے اور گیارہ ستمبر کو کوئٹہ سے کراچی روانہ ہوئے، جہاں پہنچتے ہی وہ راہی ملک عدم ہوئے۔ زیارت کی وادی بلوچستان کا انتہائی سرد مقام ہے۔ موسم سرما، یعنی اکتوبر تا مارچ تک لوگ یہاں نہیں رہتے۔ سرکاری ریسٹ ہاوسز اور بنگلوں میں صرف ملازمین اور چوکیدار نظر آتے ہیں۔ یہ علاقہ اپنے قدرتی حسن کی بناءپر انیسویں صدی کے وسط میں انگریز پولیٹیکل ایجنٹ کی نظر میں آگیا اور اسے گرمائی مقام تجویز کیا گیا۔ 1882 میں یہاں ریذیڈنسی بنا دی گئی۔ 1887ءمیں اسے برطانوی حکومت نے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اس کے ساتھ دوسرے عہدیداروں کے مکانات اور دفاتر بنا دیے گئے۔ زیارت کا قدیم نام کو شکی تھا۔ اٹھارہویں صدی میں یہاں ایک بزرگ بابا خرواری رہے تھے۔ جب وہ فوت ہوئے تو ان کو جنوب میں 9 کلومیٹر دور دفن کر کے مزار تعمیر کیا گیا۔ لوگ اس کی زیارت کو آنے لگے، جس کی وجہ سے اس کا نام زیارت پڑ گیا۔ 1886 میں اسے باقاعدہ زیارت کا نام دے دیا گیا۔ 1903 میں ضلع سبی کا گرمائی صدر مقام قرار دیا گیا۔ 1974 میں اسے تحصیل کا درجہ دیا گیا اور 1986 میں ضلع کا درجہ دے دیا گیا۔

زیارت شہر میں پہنچ کر چھوٹے سے بازار سے چند منٹ کی مسافت پر جنوب کی جانب بلندی پرریذیڈنسی کی باونڈری وال شروع ہو جاتی ہے۔ سڑک کے دائیں طرف ریذیڈنسی، جبکہ بائیں طرف گیسٹ ہاوسز اور گھر ہیں۔ آگے لوہے کا گیٹ ہے جو مستقلاً بند ہے۔ یہاں سے ریذیڈنسی کی مکمل عمارت نظر آتی ہے۔ یہاں سے گرل کے ساتھ ساتھ آگے بڑھےں تو دوسرا مرکزی گیٹ آجاتا ہے۔ یہاں خواص گاڑیوں سمیت اندر جاتے ہیں، جبکہ عام لوگ پیدل جاتے ہیں۔ گیٹ کے بائیں طرف پلر پر ریذیڈنسی دیکھنے کے اوقات یوں تحریر ہیں.... صبح 9 تا شام 5 بجے.... وقفہ ایک تا دو بجے.... ریذیڈنسی کے دروازے پر اس کی تاریخ مرقوم ہے۔ دائیں بائیں خوبصورت تراشی گئی سبز گھاس کے لان میں سامنے ریذیڈنسی کی خوبصورت عمارت ہے۔ صنوبر کی لکڑی سے تعمیر شدہ یہ عمارت انتہائی دلکش لگتی ہے۔ اندر داخل ہوں تو آگے پیچھے اوپر نیچے چار چار کمرے ہیں۔ دائیں طرف پہلے کمرے میں جہاں دو میزیں سائیڈ پر ایک درمیان میں ہے، جس کے ساتھ چار کرسیاں ہیں۔ یہاں قائداعظم کھانا کھاتے تھے۔ اس کمرے میں لکڑی کا ایک سٹینڈ ہے، جس میں پیتل کا تھال لٹکا ہوا ہے جو گھنٹی کا کام دیتا تھا، چونکہ اس زمانے میں زیارت میں بجلی نہیں تھی، لہٰذا تھال بجا کر گھنٹی کا کام لیا جاتا تھا اور ویٹر کو بلایا جاتا تھا۔ اس کمرے میں اب تحریک پاکستان کے عہد کی تصاویر، ان کا لباس شیروانی، کوٹ وغیرہ کی بھی تصاویر ہیں۔ اس کمرے کے بالکل سامنے بائیں طرف کے پہلے کمرے میں بانی پاکستان مہمانوں سے ملاقاتیں کرتے تھے۔ اس کے بالمقابل بائیں جانب والے کمرے میں قائداعظم محمد علی جناح کا دفتر تھا۔ اس طرح ان چاروں کمروں کے درمیان راہداری میں چوبی زینہ ہے، جس کے قد مچے پتھر کے ہیں۔ اوپر کی منزل میں بھی نیچے کی طرح دائیں بائیں دو دو کمرے ہیں۔ بالائی منزل پر بائیں ہاتھ کا پہلا کمرہ بانی پاکستان کا بیڈ روم تھا، جبکہ دائیں ہاتھ کا پہلا کمرہ جو بانی پاکستان کے بیڈ روم کے بالمقابل ہے، ان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کا بیڈ روم تھا۔ اس کمرے کا دروازہ کھلا ہو تو بانی پاکستان کا بیڈ روم واضح نظر آتا ہے۔ بانی پاکستان کے بیڈ روم میں ایک ڈریسنگ ٹیبل ہے، جبکہ دوسری طرف کرسی میز ہے، جہاں وہ علالت کے دوران حکومتی فرائض سر انجام دیتے تھے۔ اس بیڈ روم سے ملحق باتھ روم بھی ہے۔ اس کمرے میں لکڑی کی وہ ٹوکری بھی ہے جو قائداعظم کے زیر استعمال رہتی تھی۔ محترمہ فاطمہ جناح کے کمرے سے ملحق پیچھے والا کمرہ مہمانوں کے لیے مخصوص تھا۔ بالائی منزل پر بھی ان کمروں سے آگے برآمدہ ہے اور کوریڈور ہے، جہاں سے ریذیڈنسی کا احاطہ (صحن) واضح نظر آتا ہے۔ ریذیڈنسی کے احاطے میں اخروٹ اور چنار کے درخت ہیں، جو ریذیڈنسی کے قیام کے وقت لگائے گئے تھے۔ یہ بڑا دیدہ زیب اور دلکش منظر پیش کرتے ہیں۔ تمام کمروں کا فرنیچر قائداعظم کے دور کا ہے۔ صرف پردے بدل دیے گئے ہیں۔ روشنی کے لیے قائداعظم کے دور میں جنریٹر استعمال کیا جاتا تھا۔ پوری عمارت کے اکتیس دروازے اور اڑتالیس کھڑکیاں ہیں۔ عمارت کے پیچھے کچھ کوارٹرز ہیں، جو ملازمین کے لیے ہیں۔

ریذیڈنسی زیارت سطح سمندر سے آٹھ ہزار فٹ بلند ہے۔1891-92ءمیں اس کی تعمیر پر 39012 روپے کی رقم خرچ ہوئی تھی۔ گورنر جنرل کے نمائندے (A.G.G) اور چیف کمشنر موسم گرما کی چھٹیاں گزارتے تھے۔ بانیءپاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے آخری ایام گزارنے کے باعث اس وقت کے حکمران جنرل محمد ضیاءالحق نے 1985ءمیں اسے قومی یادگار قرار دیتے ہوئے محفوظ آثار قدیمہ کی فہرست میں شامل کر لیا اور اس کا نام قائداعظم ریذیڈنسی قرار دیا گیا۔ 7 جنوری1989ءکو سینٹ آف پاکستان نے اس کی منظوری دی۔ اس عمارت کے صدر دروازے سے سیڑھیوں پر آئیں تو دور دور تک صنوبر کے درختوں کا خوبصورت منظر انتہائی دلکش نظارہ پیش کرتا ہے، پھر صحن میں سرسبز سبزے اور پھولوں نے اس کے حسن کو مزید دوبالا کر دیا ہے۔قائد کو پھیپھڑوں کی تکلیف تھی اور اس مرض کے لیے یہ پہاڑی مقام اور فضا بہترین جگہ تھی، جو قائد کو بہت پسند بھی تھی۔ یہاں ان کی حالت بہتر ہونے لگی تھی کہ اچانک حالت بگڑ جانے پر دس ستمبرکو کوئٹہ لایا گیا، جہاں سے گیارہ ستمبر کو کراچی کے لیے روانہ کر دیا گیا۔ یوں وادی زیارت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ اعزاز حاصل ہوگیا کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے زندگی کے آخری ایام زیارت میں گزارے اور یہ عمارت اب قائداعظم ریذیڈنسی کے نام سے یاد رکھی جائے گی۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 766645 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.