روئے زمین پر شاید ہی کوئی قوم اتنی مظلوم و مجبور ہو گی
جتنی اپنی پاکستانی قوم ہے،مظلوم اور مجبور اس لئے کہ اسے بظاہر ایک آزاد و
خود مختار ملک ملا ہوا ہے،دن رات جمہوریت کی جگالی بھی ہوتی ہے،اختیار آپکا
اقتدار آپکا جیسے پر فریب نعرے بھی سنائے جاتے ہیں،حق حکمرانی بھی خالصتاً
عوام کا اور ہر دو چار سال اور اب کی بار پانچ سال بعد الیکشن کروا کے
گونگلوﺅں سے مٹی بھی جھاڑی جاتی ہے،اور اپنا مزاج بھی بظاہر میلے ٹھیلے
دیکھ کے بہل جانے والا ہے،جانیوالوں پہ تبرے اور نئے آنیوالوں کے لیے
بھنگڑے،اور یہ ہر دفعہ ایک ہی قسم کے لو گ جو بظاہر روپ بدل کے ہمارے سروں
پر سوار ہونے آتے ہیں ہمارے مزاجوں اور عادات وخصائل سے مکمل طور پر آشنا
ہو چکے ہیں انہیں نہ کل ہم سے کوئی غرض تھی نہ آج ہے،ایک سے ایک بڑا جغادری
میدان میں ہے مگر زور ہے تو صرف اپنے اور اپنے خاندانوں رشتے داربرادریوں
کو نوازنے کے لیے اور اب تو اپنی بہو بیٹیوں کو بھی خدمت کرنے کے لیے میدان
عمل میں لے آئے ہیں،ایک ایک گھر کے دو دو اور تین تین ایم این اے،کہیں کوئی
کسر رہ گئی تو مخصوص نشستیں حاضر،جو ہیں ہی فقط رانجھے اور رانجھیاں راضی
کرنے کے لیے،حالانکہ اگر دیانتداری سے دیکھا جائے تو یہ الگ سے ایک بڑا ظلم
ہے کہ ایک طرف ایک امیدوار دن رات ایک کر کے لوگوں کی چو کھٹوں پہ ماتھے
رگڑ کے اسمبلی میں آتا ہے جبکہ دوسری طرف صرف ایک نظر کرم اور بندہ یا بندی
ایم این اے اور ایم پی اے ،(بندہ کو ضمنی الیکشن کے تناظر میں پڑھا
جائے)،پہلے کیا تھے اب جو آئے ہیں خدا خیر کرے آغاز میں تو آثار ایک نئے
عذاب کے لگ رہے ہیں مگر ان سے بڑھ کر نہ ہوں تو پھر خیر ہے کیوں کہ چھوٹے
مو ٹے عذابوں کے اب ہم عادی ہو گئے ہیں،عذاب سے کم کوئی لفظ ججتا نہیں ورنہ
اتنا سخت لفظ نہ لکھتا لیکن اگر آپ مہذب دنیا کے کسی شہری کو بتائیں کہ جس
ملک میں ہم رہ رہے ہیں وہاں بیس سے بائیس گھنٹے تک کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے تو
ایک دفعہ تو اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ جائے گا،بے شک یہ نہ بتائیں کہ ملک
کی اسی فیصد آبای صاف پانی سے محروم ہے،ہفتے میں چار دن سی این جی کا ناغہ
ہوتا ہے سردیوں میں گھروں کے چھولہے بھی ٹھنڈے ہو جاتے ہیں،دوائیں کسی بھی
سرکاری ہسپتال میں اول تو ملتی نہیں اور اگر مل جائیں تو جعلی اور دو نمبر
ملتی ہیں،کبھی آٹے کے لیے لائنیں لگتی ہیں تو کہیں گھی اور چینی کے
لیے،غریبوں کے پاس کھانے کے لیے ایک وقت کا کھانا ہے تو اگلے وقت کے لیے
توکل پہ کام چل رہا ہے جبکہ امیر ان شہر کا شمار دنیا کے امیر ترین لوگوں
میں ہوتا ہے اور حیرت کی بات ہے کہ پاکستان بنے ساٹھ پینسٹھ سال کا عرصہ ہو
اور ان کی دولت کے انبار نجانے کہاں سے کہاں پہنچ گئے،بظاہر کوئی ایسے
ایکسپورٹر بھی نہیں کہ دنیا ان کی طرف اور ان کے مال کی طرف لپکتی پڑ رہی
ہو پھردنیا بھر میں ان کے محلات اور دنیا کے معتبر ترین بنکوں میں ان کے
مال و زر کے ڈھیر،پرانے گئے اور نئے آگئے آتے ہی بجٹ بھی عوام کے منہ پر دے
مارا،لفظوں کا ہیر پھیر اور باقی سب کچھ وہی،جب شور مچا تو جناب گویا ہوئے
کہ ابھی ہمیں آئے ہوئے سات ہی دن تو ہوئے ہیں اتنے بھولے بننے والے بادشاہو
کس نے کہا تھا کہ سات دن بعد ہی بجٹ پیش کر ڈالو، پندرہ بیس دن آگے پیچھے
ہو جاتا تو کونسی قیامت آنی تھی،اور بجا کہ خزانہ خالی ہے اور آپ کی
مجبوریاں الگ ،مگر جنہوں نے اس خزانے کو بیوہ کا اجڑا سہاگ بنایا ان کے
بارے میں کیا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں آپ ،وہ جنہوں نے کبھی سپریم کورٹ کے
کسی حکم کو بھی درخور اعتنا نہ سمجھا ان میں سے ہی کسی ایک کے گرد تو شکنجہ
کسنے کی تیاری ہی کا ارادہ کر لیتے تو بھی چور اور چوکیدار میں کم از کم
کچھ فرق تو محسوس ہوتا مگر یہ کیا آپ تو ایسے ان کے ساتھ فیملی فوٹو سیشن
کروا رہے ہیں جیسے دلہن کی رخصتی کے وقت دونوں خاندانوں کی فیملیز اور بچے
تصویریں بناتے ہیں ،کل تک وہ چور تھے ،زر بابا اور چالیس چوروں کے قصے زبان
ذد عام کروائے گئے آپ نے ہی گلی گلی میں ہر جلسے جلوس میں چوروں کو سڑکوں
پہ گھسیٹنے کے نعرے لگائے،خواہ مخواہ بے چارے حبیب جالب کی روح کو بے چین
کیا اور نتیجہ دونوں باہم شیر و شکر،آپ کی یہ مصلحت کی پالیسیاں ہی ہیں
جناب جنہوں نے امیر مقام جیسوں کو برسوں قربانیاں دینے والوں اور ماریں
کھانے والوں کے سروں پہ لا بٹھایاکے پی کے میں تمام مخصوص نشستیں صرف انہی
خواتین کے حصے میں میں آئیں جنھیں مشرف کے منہ بولے بھائی کی طرف سے کلین
چٹ ملی،اور تو اور اپنے زاہد حامد صاحب کو ہی لے لیں،موصوف کی وجہ شہرت ہی
عدلیہ مخالف اور مشرف کاوزیر قانون ہونا ہے اور آج پھر جناب وفاقی وزیر بن
کرپرانے نون لیگیوں کے سینے پہ مونگ دل رہے ہیں ویسے شکر ہے مشرف نے آپ کی
پارٹی میں شمولیت یا پارٹی ٹکٹ کے لیے درخواست نہیں دی ورنہ وہ بھی آج کسی
اہم وزارت پہ براجمان ہوتے،اگر پیپلز پارٹی والوں نے پرانے اور قربانیاں
دینے والوں کو نظر انداز کیا تو آپکے اقبال ظفر جھگڑا،مہتاب عباسی،تہمینہ
دولتانہ، ظفر عباس ایڈووکیٹ اور ایاز امیر کہاں ہیں،کہیں پورا پورا خاندان
اہم عہدوں اور نشستوں پر اور کہیں کسی پرانے ورکر اور لیڈر کا نام ونشان تک
نہیں یہ کیسا چلن اور کیسی دو رنگی ہے اور اب کہتے ہیں کہ اللہ دین کا چراغ
نہیں لو ڈ شیڈنگ کے حل کے لیے وقت چاہیے تو جناب بازو لہرا لہرا کے جب آپ
جھوم جھوم کے چھ مہینے کا وقت دے رہے تھے تب کسی نے چھوٹے میاں سے پو چھا
کہ آپ کے پاس کوئی اللہ دین کا چراغ ہے اور اگر ہے تو کدھر ہے یا اب پو چھ
لیں کہ لیں جناب بسم اللہ کریں گھوڑا بھی حا ضر میدان بھی حاضر چھ مہینے
کیا ایک سال میں بھی سارا نہیں کچھ ہی مسئلہ حل کر دیں تو بھی بڑی بات
ہے،ویسے ایک بات کی آپکو بھی اچھی طر ح سمجھ آ گئی ہو گی کہ ترنم سے شعر
پڑھ کے کوئی حبیب جالب بن سکتا ہے نہ مائیک گرانے سے بھٹو۔آج دور اوور
حالات بدل گئے ہیں آج کام چاہیے جناب صرف کام اور وہ بھی پو ری نیک نیتی سے
ورنہ حال یہی ہوتا ہے جو آپ کے قریب ترین پیش روﺅں کا ہوا ہے وقت ملے تو
الیکشن کے دنوں کی چند تقریریں نکلوا کے دوبارسن لیں ،عوا م نے آپ کو وفاق
کے قابل سمجھا تو آپ کو پنجاب اور وفاق عنایت کر دیا ،سونامی خان صاحب کو
ایک صو بے کے قابل سمجھا تو انہیں وہ عنایت کر دیا،لیکن دونوں طرف سے عوام
کو جواب ایک جیسا ہی ملا ہے کم از کم ابھی تک،ادھر وفاق اور پنجاب میں آپ
نے رشتے داریا ں نبھائی ہیںتو ادھر کے پی کے میں پر ویز خٹک صاحب نے دور
پار کا عزیز بھی نہیں چھوڑا جسے نوازا نہ ہو، میں نے کالم کے شروع میں کہا
تھا کہ روئے زمین پر شاید ہی کوئی ایسی بد قسمت قوم ہو گی جتنی پاکستانی
قوم،یہ جمہوریت کو نجات سمجھتی ہے جبکہ حکمران بہترین انتقام،ہم ان سے اپنی
بہتری اور نجات کی توقع لگائے بیٹھے ہیں جن کا سارا زور صرف اور صرف اپنی
بہتری پہ ہے،وہ بڑے عقلمند اور سمجھدار ہیں کسی بھی طرف سے چوروں کے احتساب
کا کوئی نعرہ بلند ہو راہا ہے نہ لٹیروں سے لوٹی گئی دولت کی واپسی کی کوئی
کوشش ہوتی نظر آتی ہے ،قصور ان کا نہیں شاید ہمارا ہے جو چوروں سے چوکیداری
کی توقع لگا لیتے ہیں ،کبھی چیلوں کے گھونسلوں سے بھی ماس ملا ہے،،،،،،،،،،،،،اللہ
ہم سب پر رحم کرے- |