5جون 2013ایک منہوس لمحہ جب میرے
پیارے بھانجے قیصر رحمن میر جسے پیار سے ” سنی“ پکارتے ہیں موٹر سائیکل کے
حادثہ میں شدید زخمی ہوا جو انتہائی نگہداشت میں ہولی فیملی کے ہسپتال زیر
علاج ہے ۔پانچ بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہونے کے ناطے سب اسے اپنا پیارا
سمجھ رہے ہیں ۔آٹھ سال قبل خوفناک زلزلے میں ان کے والدین خالق حقیقی سے جا
ملے جس کے بعد اللہ ان کی نہگبانی کر رہا ہے تاہم دنیاوی رشتوں کے لحاظ سے
راقم ان کا سر پرست یا انتہائی قریبی رشتہ سے منسلک ہے ۔ قارئین سے التماس
ہے کہ دل کی گہرائی سے اللہ تعالی کی رحمت اور کرم کے صدقے دعا کی جائے کہ
اللہ میرے بھانجے سمیت سب بیماروں کی جلد صحتیابی فرمائے ’آمین‘۔یہی وجہ
رہی کہ راقم مسلسل اتنے دنوں سے کالم نہیں لکھ سکا اور لکھتا بھی کیسے ۔۔؟؟
ذہین منتشر ،پریشانی سے سوچیں بکھریں ہوں تو کہاں ربط رہتا ہے۔آج بانی
پاکستان کی رہائش گاہ کو آگ لگنے کے واقع نے ضمیر کو جھنجوڑا ،کچھ عرض حال
کئے دیتا ہوں ۔
افسوس ناک امر یہ ہے کہ کوئٹہ کے قریب بانی پاکستان کی رہائش گاہ سے شروع
ہونے والے بم دھماکوں کا سلسلہ کوئٹہ شہر تک پہنچ گیا۔ چار بم دھماکوں میں
ڈپٹی کمشنر، بولان میڈیکل کالج کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ اور 14 طالبات سمیت کم
از کم 26 افراد شہید ہوگئے۔ شہید ہونے والوں میں 4 نرسیں اور چار ایف سی کے
جوان بھی شامل ہیں۔ بم دھماکوں کا آغاز ہفتے کی دوپہر سردار بہادر خان
خواتین یونیورسٹی کی بس میں ہوا جس میں 12 سے زائد طالبات شہید ہوگئیں۔
زخمی طالبات کو بولان میڈیکل کمپلیکس لے جایا گیا۔ جہاں دوسرا بم دھماکا
ہوا اور اس کے بعد فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ مسلح افراد نے اسپتال، عملے
اور مریضوں کو یرغمال بنا لیا۔ اس سلسلے کا آغاز زیارت ریذیڈنسی پر حملے
اور عمارت کی تباہی سے ہوا تھا جو بانی پاکستان کی رہائش گاہ ہے۔ جہاں
قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے تھے، اس لیے
تجزیہ نگاروں نے زیارت ریڈیڈنسی پر حملے کو نظریہ پاکستان پر حملہ قرار
دیا۔ اس واقعے کی رسمی طور پر تو تمام ذمے داروں اور سیاسی قائدین نے مذمت
کی ہے لیکن اصل سوال کا جواب کوئی بھی حکومتی ذمے دار دینے کو تیار نہیں کہ
اس کی پشت پر کون ہے؟ ابھی چند ہی دن ہوئے ہیں کہ بلوچستان میں نئے وزیر
اعلی اور گورنر نے اپنا منصب سنبھالا ہے۔ وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبد
المالک کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ ایک سیاسی کارکن ہیں۔ اور وہ
ناراض بلوچوں کو قومی دھارے میں لے کر آئیں گے۔ ابھی وہ اپنا کام شروع کریں
گے لیکن انہیں کوئٹہ میں دہشت گردی کی نئی لہر سے ان کی حکومت کا استقبال
کیا گیا ہے۔ نئے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ زیارت اور
کوئٹہ کے واقعات کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ دونوں واقعات کی مکمل تحقیقات
ہوں گی۔ ذمے دار عناصر کے خلاف سخت کارروائی کریں گے۔ ہم ایک دو روز میں
سارے حقائق قوم کے سامنے رکھیں گے۔ کوئٹہ میں جو دو واقعات ہوئے ہیں وہ
انتہائی اندوہناک اور انسانیت سوز ہیں۔ طالبات کی بس پر ریموٹ کنٹرول بم کے
ذریعے حملہ کیا گیا ہے۔ چودھری نثار علی خان نے بھی دعوی کیا ہے کہ عسکریت
پسندوں کے ساتھ انہی کی زبان میں بات کی جائے گی۔ پاکستان میں دہشت گردی کا
مسئلہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑا اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ
قانون نافذ کرنے والے اور انسداد دہشت گردی کے اداروں اور پولیس و خفیہ
ایجنسیوں سے کوئی جواب طلب کرنے کا نظام موجود نہیں ہے۔ اس بات پر تجزیہ
نگاروں کا اتفاق ہے کہ پاکستان میں بیرونی طاقتوں کے ساتھ خفیہ ایجنسیوں کا
جال پھیل گیا ہے۔ امریکی سی آئی اے اور فوج کی شراکت بن کر ہماری ایجنسیوں
نے بھی مخبری اور جاسوسی کا جال بچھا دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ماورائے
قانون و عدالت گرفتار کیا جاتا ہے، انہیں ٹارچر سیلوں میں قید رکھا جاتا ہے
اور بعد میں ان کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوتی ہیں جس کی وجہ سے انتہا پسندی
کے خیالات بھی پھیلتے ہیں۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ مخبری اور جاسوسی کے
جال کے باوجود مسلح افراد عسکریت پسند اور دہشت گرد جہاں چاہتے ہیں
کارروائی کر ڈالتے ہیں۔ زیارت میں بانی پاکستان کی آخری رہائش گاہ کی تباہی
جس علاقے میں ہوئی ہے اس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ بلوچستان کا پر
امن علاقہ ہے، اس کے باوجود بلوچستان جیسے حساس صوبے میں نظریہ پاکستان کی
علامت کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اگر اس سے پہلے ہی ماضی میں ہونے والی دہشت
گردی کی وار داتوں کے اصل اسباب کا تدارک کیا جاتا اور اس کے مجرموں کو
کیفر کردار تک پہنچایا جاتا تو ہمیں یہ دن دیکھنے کو نہیں ملتا۔ اگر دہشت
گردی کی جنگ کو اپنی جنگ قرار دینے والی سابق حکومت بے نظیر بھٹو مرحومہ پر
ہونے والے دو حملوں کے ذمے داروں کو گرفتار کرلیتی تو معلوم ہو جاتا کہ
پاکستان میں دہشت گردی کی پشت پر کون ہے؟ لیکن لیاقت علی خان سے لے کر آج
تک جتنے سیاسی قتل ہوئے ہیں ان کے ذمے داروں کا تعین نہیں ہوا۔ضرورت اس مر
کی ہے کہ ملک کی سلامتی ،وقار اور عظمت پر کوئی سمجھوتہ ،مصلحت یا لاپروائی
سے اجتناب کرتے ہوئے پاکستان دشمنی کے عوامل و اسباب کا جائیزہ لیکر قومی
پالیسی کے تحت ایسے گروہ کے خلاف بھر پور جنگ کا آغاز کیا جائے جو ہماری
تاریخ و ثقافت کو تباہ کر کے ہمیں ڈبونے کی سازش میں مصروف کار ہیں ۔زیارت
ریڈیڈنسی پر حملہ پاکستان پر حملے کے مترادف ہے لہذا ایسے عناصر کسی رعایت
کے لائق نہیں ۔حکومت کو اس مجرمانہ حرکت کے کرداروں کو واقعی سزا کا مستحق
قرار دیکر بے نقاب کرنا چاہئے ۔یہ امر بھی قابل غور ہے کہ جمہوری حکومت کے
دور میں ایسی مجرمانہ حرکت کی گئی جو تمام سیاسی جماعتوں کے لئے چیلنج سے
کم نہیں ۔جہاں کہیں پاکستان کے خلاف کسی سازش کا علم ہو ایسے گروہوں کا
راستہ روکنا ہر سطح پر ضروری ہے ۔سچی بات تو یہ ہے کہ نو منتخب حکومت کو
دہشتگردوں نے کھلا چیلنج دے دیا ہے اب اس میں کسی طرح کی رعایت مناسب نہیں
بلکہ پروز انداز سے دہشتگروں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانا جائیز ہو چکا ہے
۔وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے لئے سخت آزمائش کا وقت آن پہنچا ہے کہ
وہ کس طرح اتنے بڑے چیلنج کا مقابلہ کریں گے ۔۔۔۔؟؟؟؟دراصل پاکستان دشمن
ہماری تاریخ و ثقافت کو مٹانے کے درپے ہیں ۔وہ ہمیں تاریخی طور پر اپائج
کرنے کی سازش کر رہے ہیں جس کے خلاف ہمیں مشترکہ جنگ کرنا پڑے گی۔وزیر اعظم
پاکستان میاں نواز شریف کانٹوں کی سیج پر نہیں انگاروں کے جھرمٹ میں قیادت
کر رہے ہیں جن کے لئے لازم ہے کہ وہ بانی پاکستان کے حقیقی وارث ہونے کا
ثبوت دیتے ہوئے آپریشن کلین اپ کرنے سے گریز نہ کریں۔اس معاملہ پر ذرا سی
کوتائی ہمیں بہت دور لے جا سکتی ہے جس کے لئے پوری قوت سے مقابلے کی ضرورت
ہے ۔ضروری نہیں کہ سب کچھ طاقت کے بل بوتے پہ ہو،سیاسی حکمت عملی سے ملک کو
دشمنوں سے قوم کو نجات دلائی جا سکتی ہے۔لہذا اس اہم صورت حال میں حکومت کو
ایسی منصوبہ بندی کرنا چاہئے کہ صوبائی تعصب کا خاتمہ ہو اور امن کوششوں سے
ملک ایک بار پھر ترقی کے منازل طے کرکے دنیا کے نقشے میں جمہوری ایٹمی اور
فلاحی مملکت کی حیثیت سے پہچانا جائے ۔ |
|