اڈوانی دور کا خاتمہ: این ڈی اے کی نہیں مودی کی طوطی بولے گی

بچپن میں ایک کہانی سنی تھی کہ ایک راجا تھا جو اپنے رعایا پر بہت ظلم کیا کرتا تھا لیکن جب مرنے کا وقت قریب آیا تو اس اپنے بیٹے کو بلاکر کہامیں مرنے جارہا ہوں اور میں نے اپنی زندگی میں رعایا پر ظلم کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا اور اب رعایا مرنے کے بعد پوری زندگی مجھے گالی دے گی۔ شہزادہ بیٹے نے کہا کہ آپ بے فکر رہیں میں رعایا پر اتنا ظلم کروں گا کہ لوگ آپ کے مظالم کو بھول جائیں گے اور آپ کا دور انہیں انصاف پسند نظر آئے گا۔ اس وقت یہی صور ت حال بھارتیہ جنتا پارٹی کے سےئنر ترین لیڈر ایل کے اڈوانی کے پارٹی کے تمام عہدوں سے استعفی دینے کے پیدا ہوگئی تھی۔ لوگوں کی ہمدردی اڈوانی کے تئیں بڑھ گئی ہے اور اڈوانی کی تعریف کرنے لگے ہیں اور یہاں تک کہا جانے لگا ہے کہ ان کے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ اتنے سینئر لیڈ ر کے ساتھ ایسا نہیں کرنا چاہئے، وہ بی جے پی شہہ رگ ہیں، بی جے پی کے بانی ہیں۔ بی جے پی کو دو سیٹ 182 نشست تک لے جانے والے ہیں۔ مرکز میں بی جے پی کو اقتدار کا مزہ چکھانے کا سہرہ بھی انہی کے سر ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔لال کرشن اڈوانی کا نام جب بھی سامنے آتا ہے مسلمانوں کے خلاف نفرت کی تحریک سامنے آجاتی ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی اگر بدتر حالت ہے تو اس کا ذمہ دار مسٹر اڈوانی بھی ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت کی توسیع صرف سیاست تک ہی محدود نہیں رکھی بلکہ ہندوستان اور ہندوستانی حکومت کے تمام شعبوں میں اس کی جڑیں پیوست کردیں۔ آج اڈوانی ہمیں بھی مظلوم نظر آنے لگے ہیں کیوں کہ ان کی جگہ اس سے بڑا ظالم اور بقول محترمہ سونیا گاندھی’ موت کے سوداگر ‘ نریندر مودی نے لے لی ہے۔ نریندر مودی بھی ظلم اور نفرت کی ایک علامت ہیں۔ انہوں نے گجرات میں قتل عام میں جس طرح رول ادا کیا وہ جگ ظاہر ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہندوستانی تفتیشی ایجنسیوں کو ثبوت( جسے ثبوت تلاش کرنے کا منشا ہی نہ ہو اسے کیسے ثبوت مل سکتا ہے) نہیں مل رہا ہے لیکن پوری دنیا میں نریندر مودی کا نام ایک نفرت کا نام ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تمام بڑے ممالک انہیں ویزا دینے دے انکار کردیتے ہیں۔ اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے گجرات میں وحشتناک قتل عام کے بعد کہا تھا کہ میں دنیامیں کون سا منہ لے کر جاؤں گا اور نریندر مودی کو ’راج دھرم‘ نبھانے کی ہدایت دی تھی جس پر مودی نے انتہائی ڈھٹائی سے کہا تھا کہ میں راج دھر م (یعنی مسلمانوں کا قتل) ہی تو نبھا رہا ہوں۔ آج ہندوستانی سیاسی نظام کی غلط روش اور الیکشن کمیشن کے ہندو رخی پالیسی کی وجہ سے گجرات کے مسلمان بدترین متبادل اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے 2014کے انتخابات کی کمان نفرت کی علامت نریندر مودی کو دی ہے اور یہ واضح اشارہ دے دیا ہے کہ بی جے پی میں اول نمبر اب نریندر مودی ہی ہیں۔ نریندر مودی مسٹر لال کرشن اڈوانی کے شاگرد ہیں اور انہوں نے 2002 میں ان کی کرسی بچائی تھی۔ ان کے 2014 انتخابی مہم کمیٹی کے صدر بننے کے بعد مسٹر اڈوانی نے تمام عہدوں سے استعفی دے دیا تھا جسے واپس لے لیا۔

مسٹر اڈوانی کے پارٹی کے تمام عہدوں سے استعفی دیتے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی میں زلزلہ آگیا تھا۔ تمام لیڈر انہیں منانے میں لگ گئے ۔ 85 سالہ ایل کے اڈوانی نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ وہ پارٹی کی موجودہ طریقہ کار میں مشکل محسوس کر رہے ہیں اور اس لئے وہ استعفی دے رہے ہیں۔اپنے خط میں اڈوانی لکھتے ہیں'' کچھ وقت سے جس سمت میں پارٹی جا رہی ہے اس سے اور پارٹی کی موجودہ طریقہ کار کے ساتھ تال میل بٹھانے میں میں مشکل محسوس کر رہا ہوں۔ اب مجھے نہیں لگتا کہ یہ وہ پارٹی ہے جو آدرشوادی پارٹی ڈاکٹر مکھرجی، پنڈت دین دیال جی، نانا اور واجپئی جی نے بنائی تھی۔ جس کا بنیادی مقصد ملک اور اس کے لوگ تھے۔ اب ہمارے لیڈروں کا بنیادی مقصد اپنا ذاتی ایجنڈا ہے۔’خط کو استعفی سمجھا جائے‘۔ یہی خط تھا جو بی جے پی لیڈروں کو دن میں تارے نظرآنے لگے ۔راج ناتھ نے مودی کو انتخابی مہم کمیٹی کا سربراہ مقرر کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھاکہ تمام جماعتیں انتخابات کو چیلنج کے طور پر دیکھتی ہیں اور بی جے پی نے بھی آئندہ لوک سبھا انتخابات کو چیلنج کے طور پر قبول کیا ہے۔ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے مقصد سے ہی مودی کو بڑی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ .... اور یہ بھی یقین ہے کہ 2014 کے انتخابات میں جیت کر بی جے پی اقتدار میں پہنچے گی۔ مودی کو انتخابی کمیٹی کا سربراہ بنائے جانے سے ناراض مسٹر اڈوانی پارٹی کی گوا میں منعقدہ مجلس عاملہ کی میٹنگ میں بھی شامل نہیں ہوئے تھے۔ 1980 میں بی جے پی کی تشکیل کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب اڈوانی پارٹی کی قومی مجلس عاملہ کی میٹنگ میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ سشما سوراج سمیت بیشتر سینئر لیڈروں نے ان سے ملاقات کرکے منانے کی کوشش کی لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے ۔ اس کے بعد نتن گڈکری کو آر ایس ایس نے اس مہم پر لگایا۔ انہوں نے اڈوانی سے ملاقات کی اور آرایس ایس کے سربراہ موہن سنگھ بھاگوت سے بات کرائی ۔ تب جاکر مسٹر اڈوانی پسیجے اور کچھ وعدے وعید اور یقین دہانی پر انہوں نے اپنا استعفی واپس لے لیا۔ انہیں یہ یقین دلایا گیاہے کہ پارٹی 2014 میں کسی کے نام کو پروجیکٹ نہیں کرے گی۔ مسٹر اڈوانی کے گھر پر راج ناتھ سنگھ نے مختصر بیان میں کہا، ’’ہم نے اڈوانی جی سے کہا کہ آج بھی ہمیں آپ کی قیادت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ کہ پارٹی کا جو بھی فیصلہ ہو گا، اسے مانوں گا‘‘۔ اس کے فوراً بعد گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی نے ٹوئٹرپر لکھا، ’’میں نے کل ہی کہا تھا اڈوانی جی لاکھوں کارکنوں کو مایوس نہیں کریں گے۔ میں آج اڈوانی جی کے فیصلے کا دل سے استقبال کرتا ہوں‘‘۔

دراصل اڈوانی سمیت بی جے پی کے سینئر لیڈر نریندر مودی کے قد بڑھنے سے خوش نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اڈوانی کے علاوہ جسونت سنگھ، یشونت سنہا، اوما بھارتی اور شتروگھن سنہا سمیت دیگر کئی لیڈروں نے بھی گوا کی میٹنگ میں شرکت نہیں کی۔ پارٹی میں اٹل بہاری واجپئی کے بعد دوسرے نمبر پر اڈوانی کو ہی سب سے بڑے قد کا لیڈر سمجھا جاتا رہا ہے۔ 1989 سے 2004 تک تو اپنی پارٹی میں اڈوانی کی ہی طوطی بولتی رہی۔ 1993 سے انہوں نے ضرور اپنے سینئر اٹل بہاری واجپئی کے ساتھ حیثیت میں شراکت کرنا منظور کیا، لیکن اپنی مرضی سے۔اڈوانی نے 8 سال میں تیسری بار استعفی دیا ہے، جس سے دو بار انہیں آر ایس ایس کی وجہ سے عہدہ چھوڑنا پڑا۔ 2005 میں اڈوانی نے اس وقت سنگھ سے ناراضگی مول لی تھی، جب انہوں نے کراچی میں جناح کی مزار پرانہیں سیکولر کہا تھا۔ ان کے اس بیان پر ان کی زبردست تنقید ہوئی تھی۔ہندوستان واپسی پر انہوں نے اس بیان پر معافی مانگنے سے انکار کر دیاتھا۔ آر ایس ایس سے ناچاقی کی وجہ سے اڈوانی نے پارٹی صدر کے عہدے سے استعفی دے دیا تھا۔پھر 4 دن بعد انہوں نے استعفی واپس لے لیا تھا۔ باوجود اس کے آر ایس ایس کے ساتھ ان کے تعلقات بہترنہیں ہوئے اور 31 دسمبر کو دوبارہ انہوں نے پارٹی صدر عہدہ چھوڑ دیا۔ بعد میں 2009 الیکشن سے عین قبل اڈوانی کے رشتے آر ایس ایس کے ساتھ کچھ بہتر ہوئے اور انہیں بی جے پی کی طرف سے وزیر اعظم کا امیدوار بنادیا گیا اور ان کی قیادت میں ہی الیکشن لڑا، لیکن وہ اقتدار پاس نہیں آ پائی۔ لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر بننے کی باری آئی تو آر ایس ایس نے ایک بار پھرمداخلت کی ۔آر ایس ایس نے اڈوانی کو سمجھایا کہ کسی ینگ لیڈر کو یہ موقع دیا جائے۔اس پر بھی اڈوانی نے باقی رہنماؤں پر سشما سوراج کو ترجیح دی اور انہیں اپوزیشن لیڈر بنایا۔
اڈوانی بی جے پی کے سینئر لیڈروں کے رخ سے ناراض چل رہے تھے۔ اڈوانی کی ناراضگی پارٹی صدر راج ناتھ سنگھ سے کچھ زیادہ ہی تھی۔وہ یہ تو جانتے ہی تھے کہ نریندر مودی کو پارٹی میں بڑی ذمہ داری سے دور رکھنا آسان نہیں ہے کیوں کہ وہ آر ایس ایس کی پہلی پسند ہیں۔ اس لئے وہ چاہتے تھے کہ ان کے کسی نمائندے کو مودی کے برابر لا کر کھڑا کر دیا جائے۔ان کی خواہش تھی کہ 5 ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے لئے الیکشن مینجمنٹ کمیٹی بنائی جائے اور اس کی ذمہ داری نتن گڈکری کو سونپی جائے۔ مگر راج ناتھ سنگھ نے اڈوانی کی اس مطالبے کو یہ کہتے ہوئے ٹھکرا دیا تھا کہ دو انتخابی کمیٹی بننے سے کارکنوں میں غلط پیغام جائے گا۔ سشما سوراج، اننت کمار اور اڈوانی کے قریبی دوسرے لوگ تو گوا میں بھی یہ کوشش کرتے رہے تھے کہ انتخابی مہم کمیٹی کے چیئرمین کے نام پر مودی کے نام کا اعلان نہ ہو، لیکن راج ناتھ سنگھ ایسا کئے بغیر دہلی نہیں لوٹنا چاہتے تھے۔ مودی کو لے کر ان کے رخ کا انداز حال ہی میں مدھیہ پردیش میں حالیہ تقریر سے بھی لگا تھا، جب انہوں نے شیوراج سنگھ چوہان کو مودی سے بہتر بتایا تھا۔اڈوانی گاہے بگاہے پارٹی کو یہ یاد دلاتے رہتے تھے کہ پارٹی میں جن سنگھ کے وقت سے ہی سب سے سینئر لیڈر کی بات مانی جاتی ہے۔وہ چاہتے تھے کہ ان کی بات سنی جائے اور ہر فیصلے میں ان کی رائے لی جائے۔آر ایس ایس اور بی جے پی کے سینئر لیڈر چاہتے تھے کہ اڈوانی بغیر شرط اپنا فیصلہ واپس لے لیں۔ آر ایس ایس یہ نہیں چاہتا کہ اڈوانی کو منانے کے لئے مودی کو انتخابی مہم کمیٹی کے صدر بنانے کا فیصلہ واپس لیا جائے کیونکہ اس سے عوام اور بی جے پی کے کارکنوں میں غلط پیغام جائے گا۔ اگر اس مسئلے کو جلد حل نہیں گیا تو بی جے پی 2014 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے ہی آپس میں لڑ کر خود کو نقصان کر لے گی۔ اس میں بڑا کردار اڈوانی کا بھی ہوگا، جنہوں نے اس پارٹی کو کھڑا کرکے یہاں تک لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔2014 میں این ڈی اے کی جانب سے وزیراعظم کے امیدوار کی جب بھی بات آتی ہے، جے ڈی یو مودی کے نام پر اکھڑ جاتی ہے۔ ساتھ ہی این ڈی اے کے باقی ساتھی جماعتوں نے کھل کر مودی کے نام پر اتفاق رائے ظاہر نہیں کیا ہے۔ ان حالات میں اگر کسی لیڈر کا نام آتا ہے، تو وہ لال کرشن اڈوانی ہیں۔ اس بات کو اڈوانی بخوبی جانتے ہیں، اس لئے پارٹی کے بڑے عہدوں سے بھلے ہی انہوں نے استعفی دے دیا تھا، لیکن این ڈی اے کے چیرمین کے عہدے پر قائم ہیں۔ جے ڈی یو اور شیوسیناواضح کر چکی ہے کہ واجپئی اور اڈوانی کے بغیر این ڈی اے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ راج ناتھ سنگھ نے اول پوزیشن صاف کرتے ہوئے گوا میں کہا تھا جمہوریت میں لیڈر وہی ہوتا ہے جو مقبول ہوتا ہے۔اس بیان سے راج ناتھ نے اڈوانی کے اقتدار کے خاتمے کا اشارہ دے دیا اور یہ صاف کردیا کہ اب مودی نمبر ون لیڈر ہیں۔
کٹر ہندتو کے علمبردار اڈوانی کی تصویر عام طور پر بی جے پی کے تینوں متنازعہ موضوعات کے کٹر حامی کے طور پر رہی ہے جس میں دفعہ 370، یکساں سول کوڈ اور رام مندر ہیں۔ بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کے لئے اڈوانی نے رتھ یاترا نکالی تھی اسی شبیہ کی وجہ سے وہ مسلمان اور پاکستان مخالف کے طور پر دیکھے جاتے رہے ہیں۔ آگرہ کی چوٹی ملاقات جب ناکام ہو گئی تو پرویز مشرف نے اس کا بالواسطہقصور اڈوانی پر مڑھ دیا تھا۔ جب وہ2002میں نائب وزیر اعظم بنے تب تک یہ صاف ہو چکا تھا کہ ہندوستان میں آنے والے کئی برسوں تک اتحاد کی ہی سیاست چلنے والی ہے تو اڈوانی نے آہستہ آہستہ اپنی تصویر کو تبدیل کرنے کا کام شروع کیا۔ لبراہن کمیشن کے سامنے انہوں نے کہا کہ بابری مسجد کا گرنا ان کی زندگی کا سب سے افسوسناک دن تھا۔اس کے بعد انہوں نے ملک اور بیرونی ممالک میں کئی ایسے بیان دیے جسے ان کی تصویر کو تبدیل کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا گیا۔اس سلسلے میں کئی بیانات آئے کہ اٹل بہاری واجپئی بی جے پی کا مکھوٹا ہیں یا نہیں لیکن اس بات پر کوئی بحث نہیں ہے کہ لال کرشن اڈوانی پارٹی کا اصلی چہرہ نہیں ہیں۔بھلے ہی بی جے پی کے قیام کے وقت پارٹی کے صدر واجپئی تھے اور حکومت بننے کے بعد وزیراعظم بھی واجپئی بنے لیکن پارٹی میں ان کی ہی حکمرانی چلتی تھی۔ اس کے لئے 90 کی دہائی میں رام مندر کی تحریک اور ان کی متنازعہ رتھ یاترا ان کا ہتھیار بنی۔ بابری مسجد کے انہدام کے وہ عینی شاہد تھے اور بے سبب نہیں تھا کہ بابری مسجد گرائے جانے کے معاملے میں وہ مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی کے ساتھ ملزم بھی بنائے گئے۔

بظاہر بی جے پی کا سیاسی طوفان کم ہوگیا ہے لیکن این ڈی اے میں طوفان اپنے شباب پر ہے ۔ جنتادل متحدہ این ڈی اے کو طلاق دے چکی ہے ۔ جو نقصان ہونا تھا وہ بی جے پی کو ہوچکا ہے کانگریس کیلئے2014 کا الیکشن بہت حد تک آسان ہوگیاہے۔خود اڈوانی کا وقار کم ہوگیا۔ لوگ انہیں ’لوہ پرش‘ (مردن آہن)سے ’موہ پرش‘ (لالچی شخص) کہنے لگے ۔ رہی سہی کسر نریندر مودی کو وزیر اعظم کا امیدوار بنانے سے پوری ہوجائے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بی جے پی میں اڈوانی عہد کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ آئندہ لوک سبھا میں وہ کس رخ پر چلے گی اس کا اشارہ اس نے امت شاہ کو اترپردیش کا انچارج بناکر دے دیا ہے۔ وہ اپنے مربی و آقا آر ایس ایس کے اشارے پر ہارڈ لائن ہی اپنائے گی جس میں مہذب سماج کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس کا خمیازہ پارٹی کو 2014 کے لوک سبھا عام انتخابات میں بھگتنا پڑے گا۔ نریندر مودی نے اپنی مہم شروع کردی ہے اور اس مہم میں اڈوانی کانام گدھ کے سنگھ کی طرح غائب ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کی مجبور ی ہے کہ 2014 میں کوئی رسک نہیں لینا چاہتی۔ اڈوانی کو آزما چکی ہے اور کوئی ایسا لیڈر نہیں ہے جس پر وہ بھروسہ کرسکے۔ نو سال سے اقتداری کی دوری سے دونوں کو بری طرح بوکھلاہٹ میں مبتلا کردیا ہے۔ اگر 2014میں بی جے پی اقتدار سے دور رہی جس کی مکمل امید ہے اسے انتشار اور خانہ جنگی میں مبتلا کردے کی اور’ سانجھے کی ہنڈیاپکے بھی تو چوراہے میں پھوٹتی ہے‘ کے مصداق سرے بازار ضابطہ ، ڈسپلن اور دی ’پارٹی وتھ اے ڈیفرینس‘کی عزت نیلام ہوگی۔
Abid Anwar
About the Author: Abid Anwar Read More Articles by Abid Anwar: 132 Articles with 87288 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.