(1912-1949)
روزازل سے تغیر وتبدل قدرت کاخاصہ ہے اور ابد تک رہے گا ۔اس عمل کی تکمیل
میں ہم انسانوں کا کلیدی رول کارفرما رہا ہے۔اس کی وجہ ہے کہ انسانی وجود
جس اربع عناصر کی خمیر سے وجود میں آیا ہے۔ان چاروں چیزوں کی خاصیت مسلسل
رواں دواں ہے۔جس کے نتیجہ میں تغیر وتبدل کا یہ قدرتی نظام جاری وساری رہتا
ہے۔ہر عہد کی اپنی قدریں اور تقاضے ہوتے ہیں۔جو بتدریج بدلتے ہوئے عہد کے
ساتھ تبدیل بھی ہوتے رہتے ہیں۔قدروں اور تقاضوں کی یہ تغیر پذیری ایک طرف
رجحانات و میلانات کی تبدیلی کا سبب بنتی ہے تو دوسری طرف سیاسی وسماجی
حالات اور فکری تخلیقی عمل کا تعین بھی کرتی ہے۔لہٰذا تغیر وتبدل کا فرق تو
نہ صرف موضوعاتی سطح پرنمایاں ہوتا ہے بلکہ اس کی جھلک ہیئتی سانچوں میں
بھی دکھائی دیتی ہے۔اس ضمن میں اردو شعر وادب بہت ہی متحرک اور فعال رہا
ہے۔یونان کے کلاسکی تحریک سے لے کر اب تک وجود میں آنے والے تحریکات اس کا
زندہ مثال ہے۔جس کے ذریعہ دنیا کے بیشتر ممالک اورسماجی تعمیراور امن وامان
کو اپنا نصب العین بنا یا۔
ہمارے ملک ہندوستان میں آزادی کی تحریک ہندوستانی عوام کو امن وامان عطا
کرنے کی غرض سے شروع ہوئی جس کا آغاز توخوشنما تھا مگر انجام اچھا نہیں
ہوا۔نتیجہ ہمارے سامنے بر صغیر ہندوپاک کی شکل میں ہے۔تقسیم کو آج 65سال
ہوچکے ہیں۔اس کا مفید ومضر ہمارے سامنے ہے کہ تقسیم ہند کے تہذیبی ومعاشرتی
مسائل کی پیچیدگیاں بدلتے ہوئے سیاسی حالات کے پیش نظر نہ صرف قومی ہم
آہنگی اور اتحاد باہمی کے لیے وقتاً فوقتاً خطرہ بن جا تے ہیں بلکہ سیاسی
معاشی وسماجی قدروں کی شکست وریخت کا موجب بھی بنتے رہتے ہیں۔ہمارے شعراو
ادبا خواہ دنیا کے کسی بھی خطے عرض پر بستے ہوں وہ اس طرح کے نفرت ونفاق
اور پیچیدگیوں سے مبرا زندگی گزارتے ہیں اور اپنے تخلیقات عوام الناس کی
مسائل کو پیش کر تے رہتے ہیں۔دنیا کے تمام شعرا وادبا نے بین الاقوامی سطح
پر ذات، مذہب، ملت اور جغرافیائی حدود سے مبرا ہو کر اپنے تفکرات کو قلم
بند کر تے ہیں۔ہمارے 20ویں صدی کے افق پر ابھر تے ہوے نہایت ہی روشن خیال
شاعر میراجیؔ اسی قبیل کے اہم شخصیات میں سے ایک ہیں۔جس کی کوئی نظیر نہیں
ہے۔زیرنظر مضمون میں شامل اقتباسات ویسے تو عموماً میرے تحقیق وتفحص اور
عمیق مطالعہ ومشاہدہ کا نتیجہ ہے ۔خصوصاً ’’میرا جیؔ شخصیت اور فن مرتبہ
کمار پاشی زیراہتمام پریم گوپال متل‘‘ سے نقول کر دہ ہیں۔ میرے اس مضمون کے
مطالعہ سے میراجیؔ کی شخصیت اورفن کس قدر اجاگر ہوا ہے اس کا فیصلہ قاری
کرے گا مگر میرے اندازے کے مطابق میں نے بین الاقوامی سطح پر میرا جیؔ کی
شخصیت فن اور تفکرات کو اعلیٰ سطحی پر بروئے کار لانے کی کوشش کی ہے
اوراردو ادب کے بڑے ادبا شعرا اور شخصیات کے اقوال کی روشنی میں جس کا ذکر
اوپر کیا جا چکا ہے ثابت کیا ہے کہ میراجیؔ کس قدر حد درجہ بلند مرتبہ کی
شخصیت کے مالک تھے۔موصوف کی زندگی اور ادبی کارناموں کے حوالے سے قومی مجلس
برائے تعلیمی تحقیق، نئی دہلی سے شائع شدہ مضمون میں بنیادی معلومات کچھ
یوں فراہم کیا گیا ہے۔
کہ میراجی کااصلی نام ثناء اﷲ ڈار تھا۔وہ ایک کشمیری خاندان میں گوجر
انوالہ(اب پاکستان)میں پیدا ہوئے۔ان کازیادہ وقت لاہور،دلّی اور ممبئی میں
گزرا۔ممبئی میں ہی ان کاانتقال ہوا۔وہ انتہائی ذہین انسان تھے۔مطالعہ کا
شوچ بے حد تھا اور یہی وجہ تھی کہ انہوں نے مختلف زبانوں کی شاعری کے تراجم
کئے اوران پر تحقیقی وتنقیدی مضامین لکھے۔جدید تنقید میں میراجی کا نام بہت
بلند ہے ۔انہوں نے بہت سے قدیم وجدید ہندوستانی اور پوری شعرا پرتنقیدی
مقالات لکھے۔ان کی شاعری کا ایک بڑا حصہ مبنی خیالات وتجربات پر مشتمل ہے۔
وہ لاہورکی ایک مشہور ادبی انجمن’’ حلقہ ارباب ذوق‘‘کے بانیوں میں تھے جس
نے بہت سے ذہنوں کو متاثر کیا اور شاعری میں جدید رجحانات کو فروغ دیا۔
انہوں نے اخترالایمان کے ساتھ مل کر رسالہ خیال نکالا۔
میراجی کی’’ نظموں‘‘ کے کئی مجموعے مثلاً ،میرا جی کی نظمیں ،اور گیتوں
کامجموعہ ’’گیت ہی گیت‘‘ان کی زندگی میں شائع ہوئے۔ایک مجموعہ،پابند
نظمیں‘اور انتخاب ’تین رنگ‘بعد میں شائع ہوئے بہت بعدمیں پاکستان سے’’کلیات
میرا جی‘‘(مرتبہ جمیل جالبی)اور باقیات میرا جی،(مرثیہ شیما مجید)شائع
ہوئے۔ نثرمیں دوکتابیں ’مشرق ومغرب کے نغمے‘ اور’ اس نظم‘ میں ۔ شائع
ہوئیں۔
جامع اردو انسائیکلو پیڈیامیں میراجی کے سلسلے میں اہم معلومات موجود ہے۔
میراجی کا نام ثناء اﷲ ڈار تھا۔ان کے والد منشی مہتاب الدین ریلوے انجینئر
تھے۔ملازمت کی وجہ سے مختلف جگہوں پر قیام رہا۔میراجی کی تعلیم بھی مختلف
مقامات پر ہوئی اورادھوری رہی۔شعر گوئی کا شوق بچپن سے تھا۔پہلے سامری تخلص
کرتے تھے۔ لاہور کے قیام کے دوران ان کی زندگی ایک انقلاب سے دوچار
ہوئی۔میرا سین نامی ایک لڑکی سے عشق نے انہیں میراجی بنا دیا۔وہ مولانا
صلاح الدین کے رسالہ ادبی دنیا سے وابستہ ہوگئے۔وہاں سے دہلی آئے تو آل
انڈیا ریڈیو میں ملازمت اختیار کر لی۔یہاں چند سال کے ممبئی واپس چلے
گئے۔ممبئی کے ایک اسپتال میں انتقال کیا۔
میراجی کی زندگی نفسیاتی الجھنوں کا شکار رہی۔وہ سماج کی مروجہ اقدار سے
منحرف تھے۔میراجی اردو شاعری میں ایک تاریخی حیثیت رکھتے ہیں ۔انہوں نے
شاعری میں ایک نئی روایت قائم کی۔ان کا سارا زور انسان کی باطنی شخصیت
اورانفرادی تجربوں پر تھا۔تحلیل نفسی سے گہرا شغف رکھتے تھے۔ہندی فلسفے ،
اساطیر او رموسیقی سے بھی متاثر تھے۔دنیا بھر کی عشقیہ شاعری کا بغور
مطالعہ کیا۔ خاص طورپر فرانس کے انحطاطی شعرا کا انہوں نے تفصیلی مطالعہ
کیا تھا۔میراجی کی اہمیت ایک خاص طرزاحساس کے علاوہ ہیئت کے تجربوں کی وجہ
سے بھی ہے۔وہ طبعاً ایک باغی شاعر تھے۔ میراجی کی شاعری کاایک پہلو وہ بھی
ہے جسے اشاریت اور ابہام سے تعبیر کیا جاتاہے۔نظموں اور غزلوں کے علاوہ
میراجی کے گیت اوران کی تنقیدی تحریریں بھی اہم ہیں۔نثری مضامین کے مجموعے
اس نظم میں اور مشرق و مغرب کے نغمے،کے نام سے شائع ہوئے۔
(جامع اردو انسائیکلو پیڈیا حصہ اول ادیبات ،قومی کونسل برائے فروغ اردو
زبان،نئی دہلی ،صفحہ533)
صدرشعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ پروفیسر عبیدالرحمن ہاشمی نے اپنے ایک
مضمون بعنوان اردو نظم کا آغاز وارتقا میں میراجی کی حلقہ ارباب ذوق سے
وابستگی کا ذکر کرتے ہیں ۔عبیدالرحمن ہاشمی نے میراجی کی شعری ہیئت کی فہم
وبصیرت پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اردو نظم کے ارتقا میں میراجی
کا نام اہم ہے۔میراجی نے اردو نظم کو ہیئت اور طرز دونوں کے اعتبار سے
یورپی نظموں کے بلندر معیاسے اہم آہنگ کرنے کی شعوری کوشش کی۔میراجی کا
مطالعہ خاصا وسیع تھا۔انگریزی،فرانسیسی،امریکی،جرمنی اور روسی زبانوں کی
شاعری کا مطالعہ کیا تھا۔ ان زبانوں کی کئی نمائندہ نظموں کا منظوم ترجمہ
بھی کیا۔میراجی کی نظموں میں جنس ایک اہم موضوع رہا ہے۔انہوں نے اپنی نظموں
میں جنسی موضوع کو بھر پور انداز میں برتنا شروع کیا۔ان نظم کروٹیں۔دھوبی
کاگھاٹ،ایک شام کی کہانی،دوسری عورت اور اخلاق کے نام وغیرہ ایسی نظمیں ہیں
جن میں جنسی الجھن کا موضوع پست سطح سے بلند ہو کر اس دور کی اجتماعی زندگی
میں ایک اہم پہلو کا مظہر ہو جا تاہے۔جنسی جذبہ حب شکست آرزو کی ارفع صورت
میں ڈھل جاتاہے تو پرتا ثیر نظمیں وجود میں آتی ہیں۔اس سلسلہ میں
نارسائی،کٹھور،مجھے گھر یاد آتاہے۔مجاور،دور کنا،راعدم کا خلا قابل ذکر
ہیں۔ان نظموں میں دوری کی اذیت،شخصی محرومی،غم انتظار،ذہنی تلاش اورذوق تپش
کا بیان ملتاہے۔اجنتا کے غارقدر ے طویل نظم ہے۔بعد کی اڑان،اندھا
طوفان،فاختہ،کو اوغیرہ علامتی نظمیں ہے۔اونچا مکان میں ایک فاحشہ کی قابل
رحم زندگی کا بیان ملتا ہے۔کلرک کا نغمہ،محبت‘‘میں کلرک کی مجبور زندگی کے
ادھورے خوابوں کا سیدھا بیان ملتا ہے۔ (اسٹڈی میٹریل) فاصلاتی تعلیم، دوسرا
پرچہ، مثنوی ،مرثیہ اور نظم،اکائی 14صفحہ نمبر 265،ایڈیٹر پروفیسر اشرف
رفیع )
میراجی نے اردو نظم کو موضوع اور ہیئت کے اعتبار سے نئی وسعتوں سے آشنا
کیا۔اردونظم کے مزاج میں ایک بڑی تبدیلی پیدا کی۔میراجی کے بعدان کے طرز
فکراور انداز بیان کے اثرات کئی جدید نظم نگاروں میں محسوس کئے جا سکتے
ہیں۔ میراجی کی نظمیں جدید نظم کے ارتقا میں ایک اہم موڑ کا پتہ دیتی ہیں۔
برقی مجلہ شعر وسخن (ایڈیٹر سردار علی، کناڈا)میں شائع حیدر قریشی
(جرمنی)کا مضمون بعنوان میراجی شخصیت اور فن(ڈاکٹر رشیدامجد کا پی ایچ ڈی
کا مقالہ) کے شروع میں ہی یہ مندرجہ ذیل تحریر درج ہے جو میراجی کی شخصیت
اورفن کو اجاگر کرتے ہیں ۔ملاحظہ ہو۔
ادبی دنیامیں آنے سے پہلے اپنی ٹین ایچ میں میرے پسندیدہ شاعر وہی شعراء
ہوتے جو ٹین ایجرز کے سدا بہار شاعر ہیں۔لیکن انہیں شاعرں میں ان شاعروں سے
یکسر مختلف میراجی بھی شامل تھے جنہیں میں نے ٹین ایج میں ہی حیرت کے ساتھ
پڑھا تھا۔ان کا شعری مجموعہ ’’تین رنگ‘‘مجھے کہیں سے ملاتھااور میں نے اس
کی نظمیں ،گیت اور غزلیں اسی عمرمیں پڑھ لی تھیں۔یہ غالباً 1969ء کا سال
تھا۔(عمر 17سال)جب میں نے میراجی کو کچھ سمجھا کچھ نہیں سمجھا مگر کوئی
انوکھا سا شاعر ی ذائقہ ضرور محسوس کیا۔تب جہاں میں نوکری کرتا تھا ،اس
ملزمیں لیبا رٹری کے دوستوں کا بیت بازی کا مقالبہ ہوا تھا اوراس میں سب سے
زیادہ میراجی کے شعر پڑھے گے۔بیت بازی کا فیصلہ میراجی کی غزل نے کرایا۔
گناہوں سے نشوونما پاگیا دل
در پختہ کاری پہ پہنچا گیا دل
لام سے شروع ہونے والے اشعار ختم ہوگئے اور میراجی کی اس غزل کے شعرا بھی
باقی تھے۔اسی کتاب میں ایک نظم غالباً’’خلا‘‘کے عنوان سے تھی۔
خدا نے الاؤ جلا یا ہوا ہے
اسے کچھ دکھائی نہیں رہا ہے
میراجی کی شاعری میں جنس ایک ایسا موضوع ہے جس کا ذکرکئے بغیر میراجی کی
شاعری کو مکمل سمجھنا دشوار ہے۔میراجی کی جنسیات کو جنسی تلذذ پر پر محمول
کرنا بڑی غلطی ہوگی جیسا کہ بعض لوگ ناسمجھی میں کرتے ہیں حیدر قریشی نے اس
کی طرف اشارہ کیاہے وہ لکھتے ہیں کہ’’جنس کا حوالہ میراجی کے ساتھ اس طرح
چیک گیا ہے کہ عام طو رپر یہ سمجھا جاتاہے کہ میراجی کا سارامسئلہ جنس ہی
ہے اورانہوں نے دوسرے مسائل کی طرف بالکل توجہ نہیں دی۔عام لوگ میراجی کو
ان افسانوں اور ان پر ہونے والے سطحی اعتراضات ہی کے حوالے سے جانتے ہیں
۔حالانکہ میراجی نے اپنے مضامین میں جس سیاسی اور سماجی شعورکا اظہار کیا
ہے اوران کے مضامین جس طرح برصغیر کی سیاسی ،سماجی اوراقتصادی صورتحال کا
احاطہ کرتے ہیں وہ شعور ان کے بہت کم ہم عصروں کو حاصل تھا۔ میراجی نے اپنے
مضامین میں برصغیر کی اقتصادی صورتحال کے جو تجزیے کئے ہیں وہ ان کے عہد کا
بڑے سے بڑا ترقی پسند بھی نہیں کرتا(بحوالہ میراجی شخصیت وفن از کمار
رپاشی،موڈرن پبلشنگ ہاؤس ،نئی دہلی ) میراجی کے ادبی مقام کے تعین میں
ڈاکٹر رشید امجد لکھتے ہیں۔
’’میراجی کے یہاں مادیت اورماورائیت کا جو امتزاج نظر آتاہے۔وہ انہیں اپنے
عہدکے دوسرے شعراء سے منفرد ممتاز بنا تاہے ۔اپنے عہد کے مجموعی انتشار اور
مختلف نظریات اور فلسفوں کی یلغار کے باوجود میراجی کی شخصیت میں ایک
روایتی عنصر بھی موجود تھا۔یہ عنصر ایک ایسی باطنی یا روحانی تنہائی ہے جس
کے ڈانڈے صوفیانہ دردو غم سے جاملتے ہیں۔یہ ایک ایسا رویہ ہے جو انسان
کواپنے آس پاس کی الجھنوں سے بے نیاز کردیتاہے۔’’یہ حقیقت ہے کہ میراجی
بیسویں صدی کے اردو ادب میں ایک اہم اور منفرد حیثیت رکھتے ہیں ۔انہوں نے
اپنی شاعری خصوصاً نظموں کے ذریعہ جدید اردو کی بنیاد رکھی اور اپنی تنقید
کے توسط سے اردو شاعری کی تفہیم کی اورنئے تنقیدی پہلوؤں کو اجا گر کیا۔ان
کا کام ان کی عظمت کی سند ہے کہ میراجی اپنے عہدہی میں نہیں آج بھی ایک اہم
ادبی شخصیت کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘ڈاکٹر رشید امجد نے اپنے مقالہ میں تخلیق
کے تمام تقاضے پورے کرنے کے ساتھ اپنی تخلیقی اور تنقیدی بصیرت سے کام لیتے
ہوئے میراجی کی ادبی حیثیت پر دستاویزی نوعیت کا اہم اور یادگار کام کر
دیاہے۔اس کتاب(مقالہ)کا مطالعہ کر تے ہوئے میں نے میراجی سے بھر پور ملاقات
کی ہے۔
میراجی کی شاعری اوران کے موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے حیدر قریشی اور رشید
امجد نے اس نقطہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جہاں ایک طرف میراجی نے جدید شاعری
کی بنیاد ڈالی اور جدید شاعری کے تقاضوں سے اردو شاعری سے ہمکنار کیا ۔وہیں
دوسری طرف اپنے فن کو سند دلانے کے لیے روایتی شاعری کے اسرار ورموز سے
استفادات کر تے رہے اور یہی وجہ ہے کہ بیسویں صدی کے اردو شاعری میں میراجی
نے ایک منفرد مقام حاصل کیا اور قدیم وجدید شاعری کے دھاروں کو ملا دیا ۔
میراجی کی تخلیقات کے مطالعے کی روشنی میں کہا جاسکتاہے کہ ہندو یا مسلمان
ہونا افضل نہیں ہے۔بلکہ ایک انسان کا انسان ہونا افصل ہے۔ موصوف کی تخلیقات
میں انسانی رشتوں کی عظمت کا خوبصورت بیان ملتا ہے جس میں’ انسانیت شرافت ‘
مذہبی ’قومی اورنسلی اتحاد کی ایسی تصویریں نظر آتی ہیں جو ہمیں امید،
اعتماد اور حوصلہ عطا کرتی ہیں۔قومی یکجہتی اور انسانی رشتوں کے حوالے سے
میرا جی کا عقیدہ ہے کہ یہ دنیا مختلف قوموں،نسلوں اور تہذیبوں کا گہوارہ
ہے ا س کی تعمیر میں عہد بہ عہد زمانے کے ساتھ ساتھ ہرقوم نے اپنا خون جگر
صرف کیا ہے۔ مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک ہزاروں نشانیاں ایسی ہیں جو
انسانوں کی مشترکہ تہذیب کی دلیل ہیں۔ پورا عالم سیکولر ہے اور اس کے
سیکولر مزاج اور اقدار کو برقرار رکھنا ہر قوم،ہر مذہب اور ہرزبان کا فرض
ہے۔اسی لیے بین الاقوامی سطح پرسمینار کرنا،کتابیں لکھنا ،رسائل وجرائدکی
اشاعت کرنااور علمی وادبی مذاکرے منعقد کرانا ہم سب کا اولین فریضہ ہے۔
ڈاکٹر وحیدقریشی اس میدان کار زار کے سالار قافلہ ہیں۔ اگرعالمی سطح پر
اخوت ومحبت اور امن امان کوبرقرار رکھنا اور مزید قوت بخشنا ہے تو ہر قوم
اور ہرمذہب والوں کو اس سلسلہ میں پیش رفت کرنی ہوگی۔تبھی ہم کہہ سکیں گے
کہ یہ دنیا خوبصورت ہے۔
زمانے سے اردو ادب جمود وتعطل کا شکار تھی ۔یایوں کہاجا سکتا ہے کہ اس پر
عہدکے ایک غیر ادبی تحریک کے اثرات مرتسم ہوچکے تھے۔ عقلِ انسانی اپنی تمام
ترجدت تراز یوں کے باوجودخرد کی منزلوں سے کافی دور فلسفیانہ موشگافیوں میں
مشغول تھی ادبی جلسوں،ترسیل وابلاغ کے سلسلہ میں ختم ہوچکے تھے ۔رشد وہدایت
کے سوتے خشک ہوچکے تھے۔ ضلالت وگمراہی اور خود پرستی وادبی اور خدا نا
شناسی اپنے نقطۂ عروج پر پہنچ چکی تھی۔ چرخ نیلی فام سے ناگاہ 1912میں
موجودہ پاکستان کے ایک شہرگوجر انوالہ میں کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا دعائے
خلیل اور نوید مسیحا ظاہر ہوئی خدانے اردو ادب کو از سر نو جلا بخشنے کے
لیے میراجی کو محدود مدت کے لیے اس سرزمین پر وارد کیاتاکہ انسانیت کی
کھیتی سرسبز اورشاداب ہو اور اردو ادب کی دبستاں بآور ہو ۔انسانی جاگیرداری
اورادبی اجارہ داری کے ظلم وستم سے عوام الناس کی زندگی پاک ہوسکے۔بہرحال
میرا جی 1912میں پیدا ہوئے آپ کی زندگی دنیا کی اس خطہ میں گزری جسے فردوس
بلکہ خوابوں کی سرزمین سے تعبیر کیاجاتا ہے یہ جگہ نہ صرف اپنی جمال ور
عنائی کی وجہ سے ساری دنیا میں مشہور اور مصروف ہے بلکہ علمی وادبی ثقافتی
اعتبار سے اس کا اپنا ایک شاندار ماضی یا کہیے تاریخ بھی ہے اس شہر کا
ظاہری نقش ونگار اتنے دل رہا۔دل پذیر اور دل آویز ہیں کہ ایک بار نگاہوں
میں بس جائیں تو د ل کی گہرائیوں میں سماجائیں ماضی بھی تاریخی اعتبار سے
ارفع واعلیٰ ہے کہ ایک بار اس کے ماضی میں جھانک کر دیکھیں تو نگاہ دل کی
گہرائیوں میں تجلیاں بکھیر دے اس جنت ارض کی تاریخ کو صدیوں پر محیط مورخوں
نے رقم کیا ہے جو کہ آج کل بھی نہ معلوم دنیا کی کتنی لائبریوں کی زینت بنی
ہوئی ہیں۔جس سے کروڑوں انسان استفادہ کرکے اپنی علمی تشنگی کو بجھاتے ہیں۔
میراجی نے اپنی شاعری کے ذریعہ تعلیمی اور ادبی میدان میں جو گراں قدر
خدمات انجام دی ہیں انہیں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا یہی وجہ ہے کہ دنیا
بھر میں ان کی مقبولیت عام ہے ویسے تو دیگر شعراء اور ادیبوں کی طرح ہر سال
مراجی کی بھی یوم وفات اوریوم پیدائش کے تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے اور
اس سال 2012کو موصوف کو صدی پیدائش کا شرف حاصل ہے اس ضمن میں دنیا بھر میں
میرا جی کی صدی( ـCenatury)اسی تزک واحتشام سے منایاجارہا ہے۔جس ذوق وشوق
کے ساتھ سال گزشتہ فیض احمد فیض ـ(Cenatury)منائی گئی ہے۔
ہندوپاک کوآزاد ہوئے چھ دہائی سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے مگر اب بھی بر
صغیر ہندوپاک کے مسلمانوں کی حالت ابتر بنی ہوئی ہے۔ایسا کیوں ؟برصغیر ہند
وپاک آزاد ہوگئے مگر بر صغیر ہندو پاک کے خطہ افلاس سے نیچے زندگی گزارنے
والے مسلمانوں کے حالات نہیں بدلے ۔میراجی نے اپنی تخلیقات کے ذریعہ اس دبی
کچلی اورظلم وستم زدہ عوام الناس کے مسائل کو بروئے کارلانے کی ہر ممکن
کوشش کی ہے۔موصوف کی تحریر یں ادب برائے زندگی کا حقیقت اور مستحکم تعریف
مرتب کرتی ہیں۔جس کا کوئی ثانی نہیں۔بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کی
تعلیمی معاشی اور سماجی صورت حال پر جو تبصرے اوررپورٹ پیش کئے جا رہے
ہیں۔وہ مسلمانوں کی بروقت حقیقی تصویر ہے ۔لہٰذا عالم کاری کے اس دور اور
عصری تقاضے کی روشنی میں اردو ادب کو استحکام بخشنے کے لیے ضرورت ہے کہ ہم
میرا جی کی تحریک کو سمجھنا چاہئے۔اور اسے آگے بڑھانے میں بھر پور محنت
کرنی چاہئے۔میرا جی شناسی میں حیدر قریشی ’’جدید آدب کا میراجی نمبر جونسخہ
سنیماپیش کرنے جا رہے ہیں۔ان کی مثال مفقود ہے۔ موصوف کی ان خدمات کو
فراموش نہیں کیا جاسکتا یہ صرف ایک جنرل نہیں بلکہ یہ ایک عظیم الشان
تعلیمی اور ادبی مشن ہے۔
میراجی کے کارنامے اورحلقہ ارباب ذوق کے حوالے سے پروفیسر انور سدید تحریر
کر تے ہیں کہ حلقہ ارباب ذوق اور ترقی پسند تحریک کو بالعموم ایک دوسرے کی
ضد سرار دیا جا تاہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ داخلیت اور خارجیت ،مادیت،اور
روحانیت مستقیم ابلاغ اور غیر مستقیم ابلاغ کی بنا پر ان دونوں تحریکوں میں
واضح حدود اختلاف موجود ہیں۔تاہم یہ دونوں تحریکیں قریباً ایک ہی زمانے میں
ایک جیسے سماجی اورمعاشی حالات میں پیداہوئیں ،پروان چڑھیں اور معنوی طور
پر رومانیت کے بطن سے ہی پھوٹی تھیں۔حقیقت نگاری سے امتزاج کی بنا پر ترقی
پسند تحریک نے افقی جہت اختیار کی اوراجتماعی عمل کو مادی سطح پر بروئے کار
لانے کی کوشش کی۔حلقہ ارباب ذوق نے عمودی جہت اختیار کی اور اس نے اجتماع
میں گم ہوجانے کے بجائے ابن آدم کو اپنی شخصیت کے عرفان کی طرف متوجہ
کیا۔ایک تحریک کا عمل بلاواسطہ خارجی اور ہنگامی تھا اور دوسری کا عمل
بالواسطہ ،داخلی اورآہستہ رو،چنانچہ ان دونوں تحریکوں نے نہ صرف اپنے عہد
کے ادب کو متاثر کیا بلکہ دو الگ الگ اسلوب حیات بھی پیدا کئے۔ترقی پسند
تحریک نے مادی وسائل پر فتح حاصل کرنے کی سعی کی جبکہ حلقہ ارباب ذوق نے
مادیت سے گریز اختیار کرکے روحانیت اور داخلیت کو فروغ دیا۔
میراجی اس تحریک کے روح رواں تھے اور ادباء اورشعراء کا یہ فرض سمجھتے تھے
کہ اس کے اندرون اوراس کی ذات کے تجربات خارجی عوامل کی روشن میں بیش کئے
جائیں کہ سماجی مسائل کو پیش کرنے میں خود ادیب کا اپنا وجود ختم
ہوجائے۔چونکہ میراجی اپنی عمر کا زیادہ تر حصہ تو غیر منقسم ہندوستان میں
گزارا ہے اور وہ حلقہ ارباب یا مجلس داستاں گویاں کے اہم ستون ہیں ۔ اس ل
لیے ہندوپاک دونوں میں یکساں طور پر مقبول رہے۔ برصغیر ہندوپاک میں
منٹو،فیض اور رویندر ٹیگور کے بعدمیراجی کو ہی عالمی شاعر ہونے کامقام اور
مرتبہ حاصل ہے۔ان کی تمام زندگی جدوجہد میں گزری اور وہ ہمیشہ سماجی کے لیے
صدا بلند کرتے رہے۔جب جب آپ میراجی کو پڑھیں ہر بار ان کو ایک نئے زاویے سے
دیکھنے اورسمجھنے کا موقع ملے گا۔اوران کی شاعری کی متعدد پرتیں کھلتی ہوئی
نظرآئیں گی اور ذہنی ماحول کے مطابق ان کے کلام کے رنگ ومعنی ہر بار بدلتے
نظر آتے ہیں۔آْج پورے عالم میں میراجی کا صدسالہ جشن منا یا جا رہا
ہے۔میراجی پوری اردو دنیا کے درمیان ایک پل کے مانند کھڑے ہیں۔میراجی جیسے
شاعر کسی ایک ملک کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے ہوتے ہیں۔میراجی کے
کلام کو مختلف زبانوں میں بھی شائع کیا جا نا چاہئے تاکہ زیادہ سے زیادہ
لوگوں کو پڑھنے کا موقع مل سکے۔میراجی کلام ک روشنی میں ہماری خواہش ہے کہ
دونوں ملکوں کی مزگیاں ہی نہیں پوری دنیا کے لوگ پیار ومحبت کی ڈور سے خود
کو جوڑلیں۔اردو ہندوستان میں ہی پیدا ہوئی اور یہ زبان عالمی ملکوں کے
درمیان رابطہ کی زبان ہے۔
میرا جی ہمہ جہت شخصیت کے مالک،ایک بہترین مقرر،مصنف،صحافی،سماجی مصلح
اوران سے سب سے بڑھ کر وہ ایک عظیم انسان تھے۔المیہ یہ ہے کہ موصوف کے تعلق
سے ان کے عہدسے ہی کچھ لوگوں کے اندر کچھ غلط فہمیاں رہی ہیں ضرورت ہے کہ
لوگ ان سے خود کو پاک کرلیں آج سے سو سال پہلے جب میرا جی نے اپنی آنکھیں
کھولیں تو اس وقت ہندوپاک پر حکومت برطانیہ کا تسلط تھا ہندوستان آزادی کی
لڑائی میں سرگرداں تھا۔اس دوران بر صغیر کے جملہ طبقات اور سرکاری غیر
سرکاری محکمات میں نمایاں تبدیلی رونما ہوئی ایسے میں اردو ادب بھی حالات
کے پیش نظر تغیر وتبدیلی کے نشیب وفراز سے دوچاررہا ہے۔ایسے وقت میں ایک
واحد تحریک نے اردو ادب کو فروغ اور استحکام بخشا جس کا ذکر اوپر آچکا ہے
اور جس تحریک کا روح رواں میرا جی تھا۔عالمی سطح پر میراجی نے جو عظیم ادبی
کار نامہ انجام دیا ہے ۔ہمیں اس کی قدر کرنا چاہئے۔اوران کے اس مشن کو فروغ
دینا چاہئے۔بین الاقوامی سطح پر اس سلسلہ میں بالخصوص مسلم اور بالعموم
انسانی قیادت کو آگے آنا چاہئے ۔میرا جی کی تخلیقات کی روشنی میں انسانوں
پرہورہے ظلم ونا انصافی کے خلاف اپنی آواز بلند کرنی چاہئے اور لڑائی لڑنی
چاہئے۔دیگرعالمی برادری کے مقابلے میں ہم کافی پیچھے ہیں۔ہمارا المیہ یہ ہے
کہ ہم اپنی اس پسماندگی کی ذمہ داری دوسروں کے سر ڈال دیتے ہیں جبکہ ہمیں
خود محاسبہ کرنا چاہئے۔آج جب عالمی برادری ہماری مدد کے لیے سامنے آتی ہے
تو ہماری ملت کے افرادہی مخالفت کرنے لگتے ہیں۔یہ اچھا نہیں ہے میراجی کی
یہ صدی ہمیں نہایت احترام سے منانا چاہئے اور تمام اختلافات کو بالائے طاق
رکھتے ہوئے ہمیں اتحاد اوریکجہتی کامظاہرہ کرنا چاہئے ۔ اس ضمن میں میراجی
کے مشن کو آگے بڑھانے میں حیدر قریشی صاحب کے مرتب کردہ جدید ادب میراجی
نمبر کلیدی رول ادا کرے گا۔
میراجی کے حوالے پروفیسر انور سدید اپنی معرکۃ الآرا کتاب اردو ادب کی
تحریکیں ابتدا تا1975ء مطبع کتابی دنیا دہلی کے صفحہ نمبر 541تا545یوں رقم
طرازہیں۔
حلقہ ارباب ذوق کومیراجی کی ذات میں وہ شخصیت میسر آگئی جو بکھرے ہوئے اجزا
کو مجتمع کرنے اورانہیں ایک مخصوص جہت میں گامزن کرنے کا سلیقہ رکھتی
تھی۔میراجی ذہنی اعتبار سے مغرب کے جدید علوم کی طرف راغب تھے لیکن ان کی
فکری جڑیں قدیم ہندوستان میں پیوست تھیں۔مشرق اورمغرب کے اس دلچسپ امتزاج
نے ان کی شخصیت کے گرد ایک پرا سرار جال سابن دیا تھا۔چنانچہ ان کے قریب
آنے والا ان کے سحر مطالعہ میں گرفتار ہوجاتا اور پھر ساری عمر اس سے نکلنے
کی راہ نہ پا تا۔دور سے دیکھنے والے ان کی ظاہری ہیئت کذائی،بے ترتیبی
اورآزادہ روی پر حیرت زدہ ہوتے اورپھر ہمیشہ حیرت زدہ رہتے۔میراجی کی عظمت
کا ایک باعث یہ بھی تھا کہ وہ حلقے کے ارکان میں عمرکے لحاظ سے سب سے بڑے
تھے۔ان کا ادبی ذوق پختہ اور مطالعہ وسیع تھا اورحلقے میں آنے سے پہلے وہ
والٹ وٹمن، بودلیئر، میلارمے،لارنس،چنڈی داس،ودیاپتی اورامارو وغیرہ کے
مطالعے کے بعد ادبی دنیا میں ان شعراء پر تنقیدی مضامین کا سلسلہ شروع
کرچکے تھے۔ان مضامین میں میراجی کا ادبی رشتہ مولانا صلا ح الدین احمد سے
استوار ہوتاہے۔
بیسویں صدی کے ربع چہارم میں’’ادبی دنیا‘‘تجدد کاایک ایسا آفتاب تھا جس نے
مشرقی اور مغربی ادب کی روشن کرنوں کو حلقے کی تحریک سے بہت پہلے اکناف ہند
میں پھیلانا شروع کردیا تھا۔ادبی دنیامیں منصوراحمد،حامد علی خاں،جلیل
قدوائی،خلیل بی اے ۔سراج الدین احمد نظامی وغیرہ نے مغربی ادب کے تراجم کا
عمدہ سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ان کے ساتھ اختر شیرانی،حفیظ ہوشیار پوری اور
شاد عارفی وغیرہ کی نظمیں اور غزلیں بھی شائع ہوتی تھیں۔چنانچہ ادبی دنیا
ایک ایسا سنگم تھا جہاں قدیم اور جدید ادب کے دونوں دھارے باہم مل جاتے
تھے۔ادبی دنیا چونکہ کسی نظریاتی جکڑ بندی کو قبول نہیں کرتا تھا۔اس لیے اس
نے خالص ادب کی اشاعت کی ،اورنئے ادبا کو متعارف کرانے میں خصوصی دلچسپی
لی۔چنانچہ یہ نتیجہ اخذ کرنا درست ہے کہ ادبی دنیا کی آزاد روش نے ہی
میراجی کواس رسالے کی طرف متوجہ کیا اور پھر مدیر مولانا صلاح الدین احمد
اور ادیب میراجی کے درمیان جو رشتہ قائم ہوا اسمیں چونکہ خلوص اور ایثار
قدر مشترک کے طور پر موجود تھے۔اس لیے یہ رشتہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا
گیا۔ 1939میں جب میراجی ادبی دنیا کے مدیر معاون مقرر ہوئے تو ہیئت ،خیال
اور موضوع کے وہ تمام تجربات جنہیں مریاجی کے ذہن نے پیدا کیاتھا’’ادبی
دنیا‘‘کے صفحات میں بکھر گئے۔چنانچہ جب حلقہ ارباب ذوق کی ابتداہوئی تو
میراجی ادبی تربیت کا دور نہ صرف ختم کر چکے تھے بلکہ وہ ادب میں شہرت اور
ناموری بھی حاصل کر چکے تھے اورادبی دنیا کے ساتھ وابستگی کی بنا پر انہیں
اہمیت بھی حاصل تھی۔
میراجی کی شمولیت کے بعد حلقہ ارباب ذوق نے نہ صرف اجتہاد اورترقی کی طرف
قدم بڑھایا بلکہ اس نے ترقی پسند تحریک کی مقصدیت کے خلاف رد عمل بھی ظاہر
کیا اوراس کی یکسانیت کے مقابلے میں تنوع پیدا کرنے کی بھی کوشش کی ۔
چنانچہ حلقے نے اب ایک ایسی تحریک کی صورت اختیار کرلی جو ادب کی موجود
حالت کو بدلنے اور فن کے داخلی حسن کو اجاگر کرنے کا تہیہ کر چکی تھی۔حلقے
کی زندگی کے گزشتہ چند عشروں پر ناقدانہ نظر ڈالی جائے تو خالص ادب کی یہ
تحریک بے حد فعال اور توانانظر آتی ہے۔اس میں جز رومد،عمل اوررد عمل اور
بحث ونظر کی گہما گہمی پیدا ہوئی یوں اس تحریک نے اولین سطح پر زندگی سے
اثرات قبول کئے اورانہیں ادب کی بنت میں شامل کیا اور ثانوی سطح پر زندگی
کو بالواسطہ طور پر متاثر کرنے کی کوشش کی۔میراجی کے حوالے سے جن
چنددانشوروں کی تحریر میں منظر عام پر آئی ہیں ان میں کمار پاشی اہم نام
ہیں۔
اردو ادب کے عبقری شخصیت کمار پاشی نے ’’میراجی شخصیت اور فن کے نام سے
کتاب مرتب کیاہے۔کتاب کے شروع میں ہی موصوف مضمون بعنوان’’ ہندوستان کی
تہذیبی اقدار کامحافظ میراجی‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں۔‘‘
لب جوئبارے میراجی کی بدنام ترین نظم ہے۔عام خیال ہے کہ میراجی نے یہ نظم
ماسٹر پنشن پر لکھی ہے۔صرف یہی ایک نظم نہیں بلکہ میراجی کی پوری شاعری
کوجنسی غلاظت کو ڈھیر قرار دے کر ترقی پسندوں نے اسے ادب باہرکرنے کی پوری
پوری کوشش کی مگر میراجی کی شاعری میں چونکہ زندگی کی رمق وچمک موجود تھی
اس لیے وہ آج یعنی اپنی موت کے تقریباً تیس برس بعد پہلے سے زیادہ دلچسپی
سے پڑھا جا تا ہے اورنئے شعرا کامحبوب ترین شاعر ہے۔
اس بیان سے یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ میراجی سماجی مسائل پر توجہ
نہیں دیتے بلکہ وہ بہتر ڈھنگ سے ادبی تقاضوں کا لحاظ کرتے ہوئے پیش کرتے
ہیں اورقدیم روایات سے اپنے رشتے کو بھی استوار رکھتے ہیں ۔
میراجی کی نظمیں،کے دیباچے میں خود میراجی نے لکھا ہے کہ ’’ماضی ے رنگ حل
کی کنجی ہماری ذات کے بہت سے مسائل کو سلجھاسکتی ہے۔اس سے انکارنہیں ہو
سکتاہے اس لیے اپنی شخصیت کی نشوونما کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے میں بھی
ماضی کی طرف رجوع کرتا ہوں ۔‘‘میراجی کے اس غیر مبہم بیان کی روشنی میں اگر
ہم لب جوئیبارے کا مطالعہ کریں تو مختلف نتائج سامنے آتے ہیں۔دراصل یہ نظم
منشیہ اور پراکرتی کے ازلی رشتے کی ایک پرانی اور دوردناک داستان ہے۔
مذکورہ بیان سے میراجی مسائل کے حل کے لیے ماضی کی طرف پلٹنا اور اس سے سبق
حاصل کرنا ضروری سمجھتے ہیں پھر اس کو شاعر کی ذات سے ہم آہنگ کرکے مسائل
کی پرکھ اور اس کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔میراجی کی زندگی میں ذاتیات
اوراس سے بڑھ کر جنسیات کی آمیزش کو اس ان کی زندگی سے الگ کرکے دیکھنے کی
کوشش کی جاتی رہی ہے۔ن،م، راشد کے اس مندرجہ ذیل بیان کی روشنی میں اس
الزام تراشی کا ازالہ ہوجائے گا ۔ن،م، راشد کی رائے میں میراجی کا مقصد
کبھی سفلی جذبات کو اکسانا نہ تھا بلکہ جہاں کہیں جنس کا ذکر کرتے ہیں۔کبھی
بلند ہانگ طریقے سے نہیں کرتے۔(جو ش کی شاعری ملاحظہ فرمائیے)لذت انگیز
صورت پارے بھی آنکھوں کے سامنے نہیں لاتے۔(جیسے فیض کے ہاں ملتے ہیں) اس
لیے یہ الزام لگانا کہ وہ بیمار ذہن کے مالک تھے جس پر جنسیت کا غلبہ تھا
یا عمداً فحاشی کی تبلیغ کر تے تھے۔لوگوں کی آراء شرارت کے مترادف
ہے‘‘۔(بحوالہ میراجی شخصیت وفن از کمار پاشی،موڈرن پبلشنگ ہاؤس ،نئی دہلی)
ن م راشد کے مطابق اگر میراجی کی نظموں کو فحاشی پر محمول کیا جاے تو جوش
وفیض بھی اس الزام کے دائرے میں آجائیں گے جبکہ ایسا نہیں ہے یہ الزام محض
ناسمجھی پرمحمول ہے۔اس رائے نے میراجی کی تحریروں میں اور زور پیدا کر دیا
اور فکر وخیال میں مزید پختگی کا احساس ہوتا ہے۔خودمیراجی اپنی نظموں کے
حوالے سے لکھتے ہیں۔
’’بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ محض جنسی پہلو ہی میری تو جہ کا واحد مرکز
ہے ۔ لیکن یہ خیال صحیح نہیں ہے ۔جنسی تعلق اور اس کے متعلقات کو میں قدرت
کی سب سے بڑی نعمت اور زندگی کی سب سے بڑی راحت اور برکت سمجھتا ہوں اور
جنسی کے گرد جو آلودگی تہذیب وتمدن نے جمع کر رکھی ہے۔وہ مجھے ناگوار گزرتی
ہے اس لیے رد عمل کے طو رپر میں دنیا کی ہر بات کو جنس کے اس تصور کے آئینے
میں دیکھتا ہوں جو فطرت کے عین مطابق ہے اورجو میرا آدرش ہے۔‘‘
وزیرآغا میراجی پر اپنے مضمون میں اظہار خیال کرتے ہیں۔
غیر ملکی حکومت کے استبداد کے خلاف جو رد عمل وجود میں آیا،اس کا ایک
نمایاں پس منظر وطن دوستی کے میلان کی صورت میں ہمارے پیش نظر ہے۔گویا یہ
رد عمل ملکی غلبے اور مغربی تہذیب کے نفوذ کے خلاف اہل وطن کی وہ سعی ہے
جسے نفسیات کی اصطلاح میں تحفظ ذات کانام دینا چاہئے۔چانچہ اس کے تحت بہت
سے نظم گو شعرانے حب الوطنی کے جذبات کا اظہار کیا۔محروم،اقبال اورراشد کے
ہاں بالخصوص یہ رجحان بہت قوی تھا۔تاہم یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ رجحان
دراصل غیر ملکی سیاسی اور تہذیبی دباؤ کے خلاف ردعمل کی ایک صورت تھی۔ارض
وطن سے کسی مثبت شغف اور لگاؤ سے اس کو تحریک نہیں ملتی تھی اور ان شعرا کے
ہاں اس رجحان کی جڑیں ہی مضبوط تھیں۔ چنانچہ خود اقبال جو شروع شروع میں
وطن دوستی کے ایک بہت برے علمبردار تھے،جب نظرثانی تصادم میں مبتلا ہوئے تو
وطن دوستی کی بجائے ملت پرستی کی طرف مائل ہوگئے اوران کے ہاں ہمالہ،جنگل
اور کٹیاکی بجائے صحراء کارواں اور خیمے (یعنی خالص اسلامی تہذیب کی)
علامتیں ابھرتی چلی آئیں۔اسی مضمون میں آگے چل کر وزیر آغانے لکھا ہے کہ
اردو نظم میں میراجی وہ پہلا شاعر ہے جس نے محض رسمی طور پر ملکی رسوم
عقائد اورمظاہرسے وابستگی کا اظہار نہیں کیا اور نہ مغربی تہذیب سے رد عمل
کے طور پر اپنے وطن کے گن گائے ہیں بلکہ جس کی روح دھرتی کی روح سے ہم آہنگ
اور جس کا سوچنے اور محسوس کرنے کاانداز قدیم ملی روایات ،تاریخ اور اساطیر
سے مملو ہے۔
وزیر آغانے اپنے مضمون کے ذریعہ میراجی کی وطن دوستی اور اس کے تاریخی او
رتہذیبی سروکار سے جو لگاؤ رہا ہے اس کو اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔اپنی
سرزمین اور اس کی سوندھی مٹی سے میراجی کو جوانسیت تھی وہ تاعمر باقی رہی
۔اورانہوں نے دوسرے شعرا کی طرح غیر ملکی تہذیب کی مخالفت کے بجائے اپنی
تہذیب اور ملی اقدار کی پاسداری کو ترجیج دی ۔اور دیگر شعرا کی طرح کبھی اس
احساس کو ماند نہیں پڑنے دیا کہ ان کاجسم اور روح مشرقی تہذیب وتمدن سے
پیدا ہوئے ۔ ایک عظیم ادیب دانشور اخلاق احمد دہلوی نے ان کی زندگی سے
متعلق جو محسوس کیا اس کو کچھ یوں قلمبند کیا ہے۔ مندرجہ ذیل اقتباسات
میراجی کی حوالے سے ملاخظ فرمائیں :۔
’’جب میرا جی اپنی دانست میں سمجھ لیتے کہ تخلیہ ہوگیا تو اپنے گلے کی
ہندوانی مالائیں گریبان سے باہر نکالتے اوران مالاؤں کے ایک ایک دانے پر
میرا میرا پڑھتے اور بالکل اس آسن میں ہوبیٹھتے ،جس طرح سادھوگیان دھیان
میں بیٹھتے ہیں۔کبھی کبھی میرا کے بھجن بھی گاتے تھے۔ان کا مطالعہ مذہبیات،
جنسیات،اور نفسیات پر بے پناہ تھا۔ ہندومائی تھولوجی سے انہیں خاص شغف تھا
شاید اس لیے کہ ان کی محبوبہ ’’کافر‘‘تھی۔میراجی خود لاڈ میں کبھی کبھی
میراسین کو ’’کافر‘‘کہا کر تے تھے۔‘‘
میراجی کی شخصیت کا ایک نمایا پہلو ان کا تصوف سے لگاؤ اور حد درجہ وابستگی
کا تھا ۔اخلاق احمد دہلوی نے بڑے موثر انداز میں میراجی کی مذہبیات ،جنسیات
اور نفیسات کی آمیزش کے ذریعہ ان کی شخصیت کو ابھارنے کی کوشش ہے ۔میراجی
اپنی ذاتی زندگی میں جن نفسیاتی مراحل سے گزرے ہیں اس کے اظہار کے لیے
انہوں نے مذہبی ،تھولیوجی کا استعمال کیا ہے جو کہ ان کے ہم عصر شعرا کے
یہاں خال خال نظرآتا ہے۔مبصر نے اس نقطے کی طرف اشارے کرکے میراجی کی شاعری
کے بڑے ہی اہم گوشے کی طرف اشارہ کیا ہے۔میراجی کو صرف جنس پرست کہہ کر
گزرا نہیں جا سکتابلکہ ان کی ذاتی زندگی کا مطالعہ بے حد ضروری ہے تاکہ ان
کی شاعری کو سمجھا جا سکے۔کیونکہ ذاتی زندگی کے وہ گوشے جنہوں نے میراجی کو
میراجی بنا یا نہایت ضروری ہے ۔شاہداحمددہلوی کی مندرجہ ذیل اقتباسات
میراجی کی حوالے سے ملاخظ فرمائیں ۔
میراجی کو طرح طرح کے غم رہتے تھے۔جب وہ ادبی دنیا میں نائب مدیر تھے تو
انہیں تنخواہ تیس روپے ملتی تھی وہ اسی وہ شراب بھی پیتے اوراپنے جھوٹے
موٹے خرچ بھی پورے کرتے۔ماں باپ اور بھائیوں کے ساتھررہتے تھے اس تنگ دستی
سے افسر دہ رہتے تھے۔ آدمی حساس تھے۔بھائیوں کی تعلیم کے لیے بے قرار رہتے
تھے مگرانکے لیے کوئی وسیلہ نہ نکال سکتے تھے۔اپنی ماں پر انہیں بڑاترس آتا
تھا۔ان کی ماں ان کے باپ کی دوسری بیوی تھیں۔عمروں میں تفاوت کچھ زیادہ ہی
تھی۔میراجی سمجھتے تھے کہ ماں کی جوانی بوڑھے باپ کے ساتھ اکارت گئی۔باپ کو
وہ ظالم اورماں کو مظلوم سمجھتے تھے۔مگر باپ کے ساتھ کوئی گستاخی انہوں نے
کبھی نہیں کی۔بلکہ باپ سے انہیں محبت ہی تھی۔جبھی تو انہیں جب پونے میں
اپنے اندھے باپ کے مرنے کی اطلاع ملی تو انہوں نے مسجد میں جا کر منبر کے
پاس پیشاب کیا اور کہا’’تونے میرے باپ کو ماردیا،اس لیے میں تیرے گھر میں
پیشاب کرتا ہوں۔‘‘
میراجی کے سلسلہ میں شاہد احمد دہلوی ایک جگہ لکھتے ہیں ۔ میراجی کے عزیز
دوست یوسف ظفرنے ایک عجیب واقعے سنا یا۔وہ اس سال حج کو گئے تھے،فرما تے
تھے کہ میں مدینہ منورہ میں حضور کی جالیوں سے کچھ فاصلہ پر بیٹھا مراقبے
میں غرق تھا اور جو جو مجھے یاد آتارہا میں اس کے لیے دعا کر تا رہا،یہاں
تک کہ کوئی نام باقی نہ رہا۔ مجھ پر عجیب سرور کا عالم طاری تھا۔قلب گداز
ہو گیاتھا اور آنکھوں سے آنسو کی لڑیاں بندھی ہوئی تھیں کہ یکا یک میراجی
میرے سامنے آکھڑے ہوئے اور بولے’’مجھے بھول گئے،میرے لیے تم نے دعا نہیں
کی۔‘‘میں نے اسی وقت میراجی کے لیے بھی دعا کی۔وہ سامنے کھڑے رہے۔دعا ختم
کرکے جو دیکھتا ہوں تو نہ میراجی ہیں نہ کوئی اور بس میں تھا اور میرے
سامنے حضور کی جالیاں تھیں۔میں بہت حیران ہواکہ یہ ماجراکیا ہے؟اس قدر گندہ
اور ناپاک شخص بھلا ایسی پاکیزۃ اور مقدس جگہ کیسے آگیا؟دنوں میں اس واقعے
پر غور کرتا رہا۔پھر ایک دم سے ایک دن میراجی سے اپنی پہلی ملاقات یاد
آگئی۔یہ اس رات کا واقعہ ہے کہ جب وہ بیئر کی اٹھارہ بوتلیں پی کر میرے گھر
میں آدھی رات کو درانہ چلے آئے تھے۔میں نے ان سے ان کا نام پوچھا تھا تو
انہوں نے اپنا نام میراجی بتایا تھا کہ اور جب میں نے ان سے ان کا اصلی نام
دریافت کیا توانہوں نے اپنی تیوری پر بل ڈال کر کہا تھا۔‘‘میرااصلی نام
محمد ثناء اﷲ ڈارہے۔اس نام میں ’’محمد‘‘کا لفظ آتا ہے ۔کسی کو حق نہیں ہے
کہ اپنے گندے منہ سے اس پاک لفظ کو اداکرے۔‘‘کڑی سے کڑی مل گئی تھی اور
میری چٹیک دور ہوگئی تھی مجھے یقین ہے کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس
والہانہ احترام کے صلے میں میراجی کی بخشش ہوگئی ہوگی اور حضور کی اس بے
اندازہ محبت کے طفیل میراجی کے سارے گناہ معاف ہوگئے ہوں گے۔(بحوالہ میراجی
شخصیت وفن از کمار پاشی،موڈرن پبلشنگ ہاؤس ،نئی دہلی)
شاہد احمد دہلوی میراجی کے سلسلہ میں جس جذباتی عقیدت واحترام کا اظہار
کرتے ہیں ان کی اس بات سے میراجی کی عزت اور مقام ومرتبہ کا اندازہ لگایا
جاسکتا ہے۔حالانکہ جن خواب کا ذکر شاہداحمد دہلوی نے کیا اس سے اس مرئی
اورحقیقی زندگی میراجی کے سلسلہ میں ان کی ذاتی عقیدت ہوسکتی ہے۔لیکن اتنا
تو طے ہے کہ یہ میں عزت ان کی نظر میں یوں ہی نہیں پیدا ہوئی ہے۔ان کی
تحریریں خیالات اوراردوشعروادب میں جو تجربے ہوئے ان کے حوالے سے میراجی کی
شخصیت اس بات کی متقاضی ہے جو مقام ومرتبہ شاہد احمد دہلوی نے انہیں
دیا۔ایک عظیم تنقید نگار سعادت حسن منٹو کے مطابق :۔
میراجی کی لکھائی بہت صاف اور واضح تھی۔موٹے خط کے نب سے نکلے ہوئے بڑے
صحیح نشست کے حروف،تکون کی سی آسانی بنے ہوئے ۔ہرجوڑ نمایاں میں اس سے بہت
متاثر ہوا تھا۔لیکن عجیب بات ہے کہ مجھے اس میں مولانا حامد علی خاں
مدیر’’ہمایوں ‘‘کی خطا طی کی جھلک نظر آئی۔یہ ہلکی سی مگرکافی مرئی مماثلت
ومشابہت اپنے اندر کیا گہرائی رکھتی ہے۔اسکے متعلق میں اب بھی غور کر تا
ہوں تو مجھے ایسا کوئی شوشہ یانکتہ سمجھائی نہیں دیتا جس پر میں کسی مفروضے
کی بنیادیں کھڑی کرسکوں۔ ……بحیثیت شاعرکے اس کی حیثیت رہی ہے جو گلے سڑے
پتوں کی ہوتی ہے جسے کھا د کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔میں سمجھتا ہوں
اس کا کلام بڑی عمدہ کھاد ہے جس کی افادیت ایک نہ ایک دن ضرور ظاہر ہوکے
رہے گی۔اس کی شاعری ایک گمراہ انسان کا کلام ہے جو انسانیت کی عمیق ترین
پستیوں سے متعلق ہونے کے باوجود دوسرے انسانوں کے لیے اونچی فضاؤں میں مرغ
بادنماکا کام دے سکتا ہے۔اسی کاکلام ایک’’جگ ساپزل‘‘ہے جسکے ٹکڑے بڑے
اطمینان اورسکون سے جوڑ کر دیکھنے چاہئیں۔
میراجی کی شخصیت اوران کی ذات کا جو پہلو تھا وہ بھی ان کی شاعری کی طرح
انوکھا تھا منٹو لکھتے ہیں کہ ۔اقتباس ملاحظہ ہو۔
بحیثیت انسان کے وہ بڑا دلچسپ تھا۔پر لے درجے کا مخلص جس کو اپنی اس قریب
قریب نا یا ب صفت کا مطلقاً احسا س نہیں تھا۔میرا ذاتی خیال ہے کہ اشخاص جو
اپنی خواہشات جسمانی کا فیصلہ اپنے ہاتھوں کو سونپ دیتے ہیں عام طورپر اسی
قسم کے مخلص ہوتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ خود کو صریحاً دھوکا دیتے
ہیں مگر اس فریب دہی میں جو خلوص ہوتا ہے۔وہ ظاہر ہے۔
میراجی نے شاعری کی، بڑے خلوص کے ساتھ،شراب پی،بڑے خلوص کے ساتھ بھنگ پی،وہ
بھی بڑے خلوص کے ساتھ لوگوں سے دوستی کی،اور اسے نبھایا۔اپنی زندگی کی ایک
عظیم ترین خواہش کی جُل دینے کے بعد وہ کسی اور سے دھوکا فریب کرنے کا اہل
ہی نہیں رہا تھا۔اس اہلیت کے اخراج کے بعد وہ اس قدر بے ضررہو گیا تھا کہ
بے مصرف سامعلوم ہوتاتھا ایک بھٹکا ہوا مسافر جو نگری نگری پھر
رہاہے۔منزلیں قدم قدم پر اپنی آغوش اس کے لیے واکرتی ہیں۔مگر وہ ان کی طرف
دیکھے بغیر آگے نکلتا جارہا ہے۔کسی ایسی جگہ جس کی کوئی سمت ہے رقبہ…… ایک
ایسی تکون کی جانب سے جس کے ارکان اپنی جگہ سے ہٹ کر تین دائروں کی شکل میں
اس کے گرد گھوم رہے ہیں۔
میراجی صرف اپنے اسلوب تحریرمیں ہی منفردنہیں تھے بلکہ ان کی ذاتی زندگی کے
انتشار کے برعکس ان کی خطاطی اسلوب تحریر کی طرح نہایت صاف اورواضح تھی ۔
منظم حروف کی نشست وبرخاست بہت متاثر کن تھا ۔اس بات کا اظہار سعادت حسن
منٹو نے اپنے مضمون’’ تین گولے‘‘ میں کیا ہے۔ اور خط کو مولانا حامد علی
خاں جوکہ جریدہ ’ہمایوں‘کے مدیرتھے سے مشابہ قرار دیاہے۔لیکن وہیں اس
مشابہت پر حیرت زدہ بھی ہیں اور وجہ تلاش کرتے ہیں لیکن نتیجہ سے مایوسی
ہوتی ہے۔میرے خیال میں اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وجہ تلاش کی جائے کہ دو
بڑے فنکاروں کا خط یکساں کیوں ہے۔
منٹو میراجی کے مداحوں میں سے ہیں ان کے مطابق میراجی کی شاعری کوعریاں یا
فرسودہ کہہ کر ٹالا نہیں جا سکتا بلکہ اس کی شاعری میں انسانی جذبات کی وہ
پیچیدگیاں پنہاں ہیں جس سے آنے والی نسلیں مستفیض ہوں گی اور اپنی تخلیقات
میں اسے برتیں گی۔میراجی نے خودتو اپنی ذاتی زندگی میں فراز کے مقابلہ نشیب
کا اختیار کیالیکن اپنے ہم عصروں اوربعد کی نسلوں کے لیے فراز اختیار کرکے
اس کی سمت متعین کرگئے۔انسان کی ذاتی زندگی کے اثرات کا اس کے کلام پر پڑنا
لازمی امر ہے۔میراجی کے ساتھ یہی ہوا ۔عشق میں ناکامی کے بعد انہوں نے
دوبارہ اس راہ میں ٹھہرنے کے بجائے ہمیشہ آگے کی طرف دھیان رکھا اور ہم
عصروں کے لیے منزلوں کے دروازے وا کرتے چلے گئے۔جس کی وجہ سے میراجی کی
زندگی اخلاص اور بردباری کا نمونہ بن گئی۔ منٹونے میراجی کی اس صفت کو بہت
منصفانہ انداز میں پیش کیا ہے۔
احمد بشیر کی مندرجہ ذیل اقتباسات میراجی کی حوالے سے ملاحظہ فرمائیں ۔
وہ پان بہت کھاتا تھا۔ د ن میں اوسطاً چالیس پچاس اور یہ لت ایسی تھی کہ اس
کے بغیر اس کادن گزرنا مشکل تھا۔اس کے ساتھ گھومنے والے دوچار مرتبہ پان
کھاتے تھے تو اسے بھی کھلادیتے تھے مگر اس سے میراجی کی طلب پوری نہیں ہوتی
تھی چنانچہ اس نے ایک پان والے ساتھی کو یہ یقین دلایاکہ ممبئی کے پنواڑی
پان بنانانہیں جانتے۔اس کا قدرتی نتیجہ یہ ہوا کہ پان کھانے والے ساتھی نے
کودرلاج میں پاندان بنا لیا جس کے لیے چونا،کتھا اور چھالیاں میراجی خود
لایا ۔اس کے بعد میراجی ہر روز صبح گھر سے نکلنے سے پہلے چالیس پانوں کی
گڈی بنا کے بغل میں رکھ لیتا اور دن بھرچباتا رہتا۔پان کے علاوہ میراجی دو
قت کھانا بھی کھاتا تھااور چارایک پیالے چائے بھی پیتا تھا۔اس کے لیے
میراجی کو کسی پلان کی ضرورت نہ تھی ۔وہ جس کے ساتھ گھومتا تھا ۔وہ اسے
ازخود کھانا کھلادیتا تھا یایوں سمجھیے کہ میراجی گھومتا ہی اسی کے ساتھ
تھا جو اسے خود منت کرکے کھانا کھلادے اور وہ منت نہ بھی کرتا دعوت نہ بھی
دیتا تو بھی کھانے میں شمولیت کرنے کے فن میں میراجی کی عظمت کو تسلیم کرنا
ہی پڑتا ۔کھانے پینے کی ضروریات پوری کرنے میں میراجی کا رویہ ایسے ہی
نارمل قسم کے آدمی کا تھا جس کا مقصد دوسروں کی گرہ پر زندہ رہتا ہو۔میراجی
ایسے دوستوں کو بہت پسند کرتا تھا جو اسے روٹی کھلادیتے تھے۔ مگر وہ کسی کا
ممنون نہیں ہوتاتھا۔
میراجی کی ذاتی زندگی کے سلسلہ میں میراجی پر لکھنے والوں نے خوب روشنی
ڈالی ہے۔احمد بشیرنے اس پہلو کی طرف خوش اسلوبی سے اشار ہ کیا ہے جوکہ
عموماً سماج میں ادنا سمجھا جا تا ہے۔خوردونوش سے متعلق میراجی اکثر دوسروں
پر محمول رہتے، کھانے اورپینے میں وہ ذرہ برابر بھی شرمندگی نہیں کرتے بلکہ
ان کی دوستی ایسے اشخاص سے ہوتی بلکہ کہنا چاہئے کہ وہ ایسے اشخاص سے دوستی
کر تے جو کہ ان کو کھلائے اور پلائے ۔پان کثرت سے کھاتے لیکن اس کا انتظام
خودنہ کرتے بلکہ کسی کے ساتھ ہولیتے اور دیرینہ خواہش ہوتی کہ وہ ان کے
کھانے پینے کی ضروریات پورا کرتا رہے ۔ اہم بات تویہ ہے کہ میراجی اس سلسلہ
میں اپنے محسن کے ممنون نہ ہوتے یعنی اس خدمت کو وہ احبا کافرض اوراپنا حق
سمجھتے ۔اتنا کہنہ مشق اور حساس شاعر اگر ذاتی زندگی میں ایسی عادتوں کو
اپنائے تو بجائے اس کی کمی کے اس کے آزادانہ مزاج اور طرز زندگی کا عکس
سمجھنا چاہئے ۔
مندرجہ ذیل میں میراجی خود اپنامضمون نامکمل سیلف پورٹریٹ کے عنوان میں
لکھتے ہیں اقتباس ملاخظ فرمائیں
لاہورمیں مطالعہ ،مشاہدہ اورتجربہ…………تینوں لحاظ سے زندگی میں وسعت
پیداہوئی۔مشاہدے اورتجربے پہلے شروع ہوئے اور مطالعہ بعدمیں یہیں مخلوط
تعلیم کی کمی نے میرے ذہن کو اس رستے کی طرف مائل کیا،جسکا ذکراس سوانحی
جائزے کے شروع میں ہے۔لیکن افسوس کہ یہ سفر محض ایک رومانی تجربہ بن کر ہی
رہ گیا۔البتہ اسنیاس گہرے تجربے کے لیے زمین ہموارکردی۔جس نے زندگی میں نہ
صرف ایک مقصد پیدا کر دیا۔بلکہ انسانی علم کے لحاظ سے بھی میری معلومات میں
اضافہ کیا۔ظاہر ہے کہ یہ دوسرا تجربہ جنس مخالف سے تعلق رکھتاہے۔مغرب میں
شاید شیکسپیر کی بات سچ ہو کہ ’’عورت تیرا نام کمزوری ہے۔لیکن مشرق کے
حضوصاً ہندوستانی نوجوانوں کی موجودہ حالت دیکھتے ہوئے تویہی محسوس ہوتا ہے
کہ’’عورت تیرانام صدمہ ہے۔‘‘مادی لحاظ سے اس تجربہ کا تھا۔اس سلسلہ میں
بچپن ہی سے دورکی چیزوں (پربت ،دھند)سے جو رغبت لاشعور میں جاگزیں ہوچکی
تھی اس نے اپناکرشمہ دکھایا اورپھراپنی حماقتوں اورآدرشی جبلت کی وجہ سے
زندگی کا یہ پہلو یکسر تشنۂ تکمیل رہا،البتہ ذہنی نشوونما پراس نے جو اثر
چھوڑا،اسکی بہت سی علامتیں مجھے اپنی نظموں میں دکھائی دیتی ہیں۔اس پہلو کے
متعلق تفصیل سے فی الحال گریز چاہتا ہوں۔اس لیے اورکوئی بات نہیں
کہتا۔مشاہدے کے لحاظ سے اگرچہ بہ بحیثیت مجموعی زندگی کے ہرپہلو کی طرف
میرے تجسس نے مجھے راغب کیالیکن موجودہ صدی کی بین الاقوامی کشمکش
(سیاسی،سماجی اور اقتصادی) نے جو انتشار نوجوانوں میں پیدا کر دیاہے،بہ
بالخصوص میرا مرکز نظر رہا اور آگے چل کرجدید نفسیات نے اس تمام پریشان
حالی کو جنسی رنگ دے دیا۔
میراجی کولاہور کے قیام کے دوران جو تجربے حاصل ہوئے جیسا کہ خود انہوں نے
اپنے ایک مضمون میں ’’سیلف پورٹریٹ‘‘میں لکھا ہے کہ جو مشاہدے ، مطالعے اور
تجربے حاصل ہوئے۔وہ تعلیمی اعتبار سے تو اہم تھے ہی لیکن ذاتی زندگی میں اس
کا بہت بڑا اثر پڑا۔ان کے مطابق اس تجربے سے زندگی میں کئی خواہشوں کی
تکمیل نہیں ہوئی لیکن شاعری میں اس کا اثر ہوا اورعلامتوں کے ذریعہ شاعری
میں ظاہر ہوا۔مشاہدے کا اثر بھی میراجی کی شاعری اوران کے اسلوب پرپڑنا
لازمی تھا۔سیاسی،سماجی اوراقتصادی جبروکشمکش کانتیجہ تھا کہ میراجی کو اس
مشاہدے میں جنسیات کے رنگ میں پناہ لینے پر مجبور کیا۔اکثر شعراء کے
گردوپیش جوحالات رونما ہوتے ہیں۔اس کا اثر ان کی نفسیات پرپڑتا ہے اورپھر
اس کا اثر شاعری میں نظرآنا لازمی ہے۔میراجی اسکا اظہار از خود کرتے ہیں
۔اور مختصر اس مضمون میں اپنے تمام پہلوؤں اور خطوط کی نشاندہی کرتے ہیں
۔جس پر انہوں نے اپنی سیدھی سادھی زندگی کو ڈال دیا تھا۔میراجی کی شاعری کی
خصوصیت یہ ہے وہ فنی تقاضوں کو برتتے ہوئے رمزوکنایہ میں اپنی گفتگو کرتے
ہیں۔
یہ میراجی کی زندگی کا ایک پہلو ہے جبکہ دوسرا پہلو جو کہ ان کی ادبی زندگی
سے بالکل الگ کرتاہے اور دونوں میں ہم آہنگی بالکل نہیں ہے۔
اعجاز احمد کی تحریر ملاحظہ فرمائیں ۔
میراجی کی نثرکی اخلاقیات موجودہ معاشرے کی اخلاقیات ہے۔اورقدم قدم پرخوداس
کی زندگی اورشاعری کی نفی کرتی ہے۔میراجی تمام عمر دو حصوں میں بٹا
رہااورایسی دوہری اخلاقیات برتتا رہا جسکی ایک شق کا دوسری شق سے علاقہ نہ
تھا۔ ایک تو وہ قطعاً نئی غیر روایتی اخلاقیات جو اس کی شاعری کی اساس بنی
اورایک وہ حیرت ناک حد تک روایتی اخلاقی پابندیاں،جن کی کسوٹی پر اس نے
اپنے نثری مضامین میں دوسرں کوپرکھااورسزاوار ٹھہرایا۔
میراجی کی ادبی اور ذاتی زندگی میں بظاہر کوئی علاقہ نہ تھا لیکن جب ہم ایک
شاعرکی نفسیات کا مطالعہ کر تے ہوئے اس کی تحریروں کا صحیح تجزیہ کر سکتے
ہیں۔اور یہی رمز وکنایہ اور انتشار ان کی پوری شاعری میں دیکھنے کو ملتی
ہے۔صلاح الدین احمد کی مندرجہ ذیل اقتباسات میراجی کی حوالے سے ملاحظہ
فرمائیں ۔
میراجی اپنے رسیلے گیتوں ،اپنی کنایاتی نظموں اوراپنے بے قافیہ اشعارکی
ابہامی کیفیتوں کے اعتبار سے اردو کے شعری ادب میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے
اور اس امر سے کون انکار کرسکتا ہیکہ اردومیں نظم بے قافیہ اورنظم آزاد کا
فروغ اوراس کے وسیلے سے پیچیدہ تاثرات شدید جذبات اورنازک محسوسات کا اظہار
ایک بہت بڑی حد تک میراجی کے گوناگوں شعری تجربات کا مرہون ہے۔اپنے عروج کے
ایام میں میراجی کی نظم نے ایک ماورائی کیفیت اختیار کرلی تھی اور ایوان
شعرمیں ایک طسلماتی سی روشنی پھیلادی تھی۔پھراس روشنی سے بیسوں اور مشعلیں
روشن ہوئیں اور بہت سی اور قندیلیں جگمگائیں اور شعرکی مملکت میں معانی کا
سکہ چلا اور زبان کی وسعتیں فکر کا سہارا پا کر انجانی حودود تک پھیلتی چلی
گئیں۔اوراس میں بھی کسے کلام ہے کہ آج میراجی ہمیں یاد ہے تو اردو کے ایک
بہت بڑے نفسیاتی شاعر کی حیثیت سے یاد ہے کہ اوراس کی یہ حیثیت اورا س کا
یہ امتیاز شاید ہمیشہ تک باقی رہے گا۔لیکن یہ ایک بہت بڑا لیکن ہے۔میراجی
کا وہ کا رنامہ جو اس کی عظمت کا ایک بہت بڑا عنصر ہے اورجس کا دائرہ سخن
فہم خواص ہی تک محدود نہیں،بلکہ جو ہم جیسے عوام کو بھی اپنے حلقہ سحر میں
اسیر کرلیتا ہے اس کی لازوال نثرہے۔جس کی نیرنگی اورجس کا نکھار،جس کی شوخی
اور جس کی متانت جس کی نفاست اورجس کی سادگی،جسکی نزاکت اور جس کی نشتریت
،جس کا تنوع اور جس کا پھیلاؤ دیدنی ہے۔گفتنی یاشنیدنی نہیں۔اور شاید یہی
وجہ ہے،بلکہ غالباً یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی حریف یعنی اپنے خالق کی شاعری کے
دامن میں یوں سمٹ کر رہ گئی جسے اسے زندگی کی روشنی پانے کا کوئی حق ہی
نہیں تھا۔اوریہ نامنصفی پہلی بار نہیں ہوئی۔اقلیم ادب کایہ ظالمانہ رواج
ایک عرصہ دراز سے قائم ہے اورا ردومیں بھی میراجی سے پہلے اس کی متعد نظائر
موجود ہیں۔خود غالب کی نثر بھی ایک عرصہ دراز تک تسلیم وقبول سے ناآشنا
رہی۔
میراجی کی شاعری کی خصوصیت یہ ہے وہ فنی تقاضوں کو برتتے ہوئے رمزوکنایہ
میں اپنی گفتگو کرتے ہیں۔ صلاح الدین احمدنے آزاد نظم کے فروغ دینے میں
میراجی کے کردار کو واضح کیا ہے۔بلکہ اس کے فروغ دینے میں میراجی کی جذباتی
انفرادیت کو خاص دخل رہا ہے۔صلاح الدین احمدنے میراجی کی شاعری کو نفسیاتی
نقاد کی صفت سے پرکھنے کی سعی کی ہے۔ان کے مطابق آزاد نظم میں میراجی کا
شاعری کرنا اور پھر اس کی وجہ سے آزاد نظم کو فروغ حاصل ہونا میراجی کی
افتاد طبع کا ہی نتیجہ تھا۔اگر ان کی زندگی شدید جذباتی کیفیت سے نہ گزرتی
تو موجودہ دورمیں اتنا اہم شاعر ہمارے سامنے نہ ہونا۔ان کی شاعری زمانے کی
آسائش اور محبتوں سے بھری ہے۔ میراجی کی شاعری میں سوخی اورجو نشتریت ہے وہ
ان کی طبیعت کی وجہ سے ہے۔
’’میراجی نے خود اپنے مضامین بعنوان پرانے ہندوستان کا ایک شاعر امارو کے
بارے میں مندرجہ ذیل اقتباس بیان کرتے ہیں۔
ویدوں کے زمانے میں شادی بیاہ پر تو پابندی تھی لیکن ذات پات کے بندھن کوئی
نہ تھے۔ان بندھنوں کے لیے ہندوستان ان برہمنوں کا ممنون ہے جنہوں نے منو سے
لے کرآئندہ ہر زمانے میں اپنے فرقے کی طاقت کو بڑھانے کے لیے مساوات کے
اصول کو بھلا دیا۔جب ویدوں کا زمانہ ختم ہوا اور مہا بھارت اوررامائن کا
دور آیا تو ذات پات کاجال سخت ہونے لگااور پیشے روز بروز وارثتی حیثیت
اختیار کر تے گئے۔ابھی تک چونکہ برہمنوں ہی کو مطالعے کا حق اور فرصت حاصل
تھی اس لیے وہی ادب کے بانی ہوئے اور شروع میں شاعری بھی مذہبی رنگ ہی لیے
رہی۔ذات پات کے بندھن تو سخت ہوئے لیکن رامائن اور مہابھارت کے زمانے میں
بھی برہمنوں کوکوئی امتیازی درجہ حاصل نہ تھا۔وہ صرف کل انسانوں کے ایک
گروہ ہی کو ظاہر کر تے تھے بلکہ رامانئن میں تو یہ بھی لکھا ہے کہایک کشتری
کا درجہ برہمن سے بڑھ کر ہے۔جینیوں نے بھی بخود کشتریوں کو سب سے اعلیٰ
سمجھنا اور کہنا شروع کردیا۔اوربدھ لٹریچر میں توبرہمن کو نیچ بھی لکھا
ہے۔‘‘
میراجی کا مطالعہ بہت وسیع اورنظر غائر تھی ان کی سوچ وفکر کی جڑیں
ہندوستانی سماج اورمعاشرہ میں پیوست تھیں۔وہ جدید تقاضوں کو برتتے ہوئے
قدیم ہندوستان کی قدروں اور نظام زندگی اور ان کے نشیب وفراز سے اچھی طرح
واقف ہیں اس کا اظہار اس وقت ہوتاہے جب وہ کسی قدیم شاعر پر قلم اٹھاتے ہیں
اس طرح ’’امارو‘‘پر مضمون کے دوران قدیم ہندوستان کی نسلی تفریق کی تاریخ
کا بیان بھی خوش اسلوبی سے کرتے ہیں اکثر اردو وادباء پرتنگ ذہنوں نے یہ
الزام لگایا ہے کہ ان کے استعارے اور تشبہیں ایران وعرب سے مستعار ہیں۔لیکن
وہ لوگ یہ بات کہنے سے پہلے میراجی کی شاعری اور ان کی نثری تخلیقات کا
مطالعہ کریں تو اس طرح کے الزام سے وہ ضرور نادم ہوں گے۔ اس طرح کی دوسری
مثالیں میراجی کے دوسرے مضامین میں مل جائیں گی۔
’’میراجی نے خود اپنے مضمون بعنوان میتھا لی کا عظیم ویشنو شاعرودیاپتی کے
بارے میں مندرجہ ذیل اقتباس بیان کرتے ہیں۔
تیرہویں صدی میں متھلا میں دوشاہی گھرانے سب سے بڑے شمارکئے جاتے تھے۔ایک
سگرانو اوردوسرا سمرانو،راجہ شیو سگرانو گھرانے سے تعلق رکھتاتھا۔ اس
گھرانے کی حکومت کا زمانہ اس وقت سے شروع ہوتا ہے۔جب دہلی میں غیاث الدین
تغلق کی موت تھی۔راجہ شیوسینہہ راجہ دیو سنیہہ کا بیٹا تھا اور اس کی
راجدھانی باگ متی گجرتھ پورمیں دریا کے کنارے تھی۔ودیاپتی نے اپنے گیتوں کے
آخرمیں اپنے مہربان راجہ اور ان کی رانی کانام دیاہے۔ اس سے بعض لوگوں کو
اسی زمانے میں کئی طرح کے شکوک پیدا ہوگئے کہ راجہ کاام تو دیا لیکن رانی
کی نام دینے کی کیا ضرورت تھی ۔اس میں ضرور کوئی خاص بات ہے۔ لیکن ودیاپتی
کئی راجاؤں کے دربارمیں رہ چکاتھا اورجس راجہ کانام بھی اس نے اپنے کلام
میں لکھا ہے کہ اس کے ہی اس کی رانی کاکا نام بھی لکھاہے۔یہ اس کا ایک خاص
سلیقہ تھا۔ اس کے علاوہ وہ خود بھی شادی شدہ تھا۔چنانچہ اس کے ایک بیٹے
اورایک بیٹی کا پتہ بھی چلتا ہے۔متھلا میں کہاجا تاہے کہ راجہ شیو کے محل
میں ودیاپتی کے گیت خاص اہتمام سے گائے جا تے تھے۔ محل میں راجہ شیو اوراس
کے پہلو میں رانی لکشمی بیٹھتی چاروں طرف دوسری حر میں داسیاں اور باندیاں
ہوتیں اور یوں اس مجمع میں’’چیری‘‘نام کی خاص گانے والی عورتیں شاعر کے
گیتوں کے نغمے فضامیں منتشر کرتیں۔‘‘
میراجی جہاں شاعر کاذکرکرتے ہیں وہیں اسکے زمان ومکان اور معاشرتی حالات کا
ذکر ضرور کرتے ہیں وشنو شاعر ودیانتی پر اپنے مضمون کے دوران اس وقت کو
تاریخ کا جائزہ لیا ہے۔ میراجی کی شاعری کو جدید تقاضوں کے مطابق کرنے کی
ضرورت ہے۔بین العلومیت کے اس دورمیں ادب کا مطالعہ اگر تاریخ اور سماجیات
کے تقاضوں سے ہٹ کر کیاجائے تو اس کی ترسیل مکمل نہیں سمجھی جا تی ہے۔
میراجی نے ودیانتی کے شاعری کی اہمیت ایوانوں میں انکی شاعری کے چرچے اور
عوام میں اس کی مقبولیت کے بارے میں تشفی بخش مواد فراہم کیا ہے۔جس سے اس
دور کے شاعرکے بارے میں مکمل معلومات حاصل ہوجاتی ہیں ۔یہ میراجی کے اسلوب
کا کمال تھا کہ نظم ونثر میں یکساں طور پر عبور رکھتے تھے۔جو انہیں ایک
عظیم تخلیقکار ثابت کرتے ہیں ۔
میراجی نے خود اپنے مضمون میں بنگال کاپہلا شاعر چنڈی داس کے بارے میں
مندرجہ ذیل اقتباس بیان کرتے ہیں۔
دسویں صدی عیسوی کے اواخر میں بدھ مت کا ایک مشہورعالم کابھٹ گزراہے۔یہی
بنگال زبان میں سہجیہ مسلک کے عشقیہ گیتوں کا سب سے پہلا نمائندہ تھا۔جس
عشق کا ذکر اس کے گیتوں میں کیاگیاہے اسے سماج کی رضامندی حاصل نہ تھی۔اپنی
بیوی کی محبت سہجیہ والوں کے خیال میں انسان کو تکمیل کے اونچے درجے تک
نہیں پہنچا سکتی۔کانو بھٹ کے گیتوں میں ایسے مقام بھی آتے ہیں جو عریانی سے
بڑھ کر فحاشی کے درجے تک پہنچے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود ان میں تصوف کی
ایک ایسی روحانی اہمیت موجودہے جن کی شرح و وضاحت ایک بلند روحانیت کی حامل
بھی ہوسکتی ہے۔
جیسا کہ ذکر ہوچکا ہے کہ میراجی وسیع مطالعہ کی وجہ سے اپنے دور کے ہی نہیں
بلکہ قدیم زمانے کے اہم شعراء پر بھی قلم اٹھاتے ہیں وہ اس کے زمان ومکان
کے علاوہ شاعر کی نفسیاتی کیفیت کے مطالعہ کے ساتھ اس کی شاعری کا مقام
ومرتبہ متعین کرتے ہیں کانھوبھٹ جو کہ ایک بنگلہ شاعرہے۔اس کا مطالعہ بھی
میراجی نے اسی تناظرمیں کیا ہے مضمون کے مطالعے کے بعدیہ بات واضح ہوتی ہے
کہ کانھوبھٹ اور میراجی میں بہت حد تک مطابقت تھی۔میراجی اس کے روحانی
کردار سے بہت متاثر نظرآتے ہیں ۔ایسا محسوس ہوتاہے کہ بدنصیب سماج کے
بدنصیب شعراء سے میراجی کو ایک فکر ی و قلبی لگاؤ تھا لہذا انہوں نے اس طرح
کے بہت سے شعراء وادباء پر قلم اٹھا یا ہے جیسا کہ اس کے ایک مضمون بعنوان
امریکہ کا تخیل پرست شاعر ایڈ گر الین پو میں یوں رقم طراز ہیں۔
’’پو کی زندگی میں سب سے تلخ حقیقت جوہمیں دکھائی دیتی ہے وہ اسکی بدنصیبی
ہے۔ایسے بدنصیب انسان جس کی ذہانت میں عظمت کا جو ہر موجود ہونا خاص طور پر
لوگوں کی توجہ کارکز بنجا تے ہیں۔ ان کی شخصیت ایک حکایت بن جا تی ہے۔انکی
زندگی کے ارد گرد رشوایات کاجال تن جا تا ہے،اور اس حکایت اوران کے روایات
کی ہر کوئی من مانی شرح کرنے پر اتر آتا ہے۔ایسے لوگوں کی ذہانت میں کوئی
پیچیدگی نہیں ہوتی اپنے طور پر وہ خوش قسمت ذہین لوگوں ہی کی مانند ہوتے
ہیں لیکن بظاہر ان کی ذات میں دنیا کو کئی الجھنیں دکھائی دیتی ہیں۔اس کی
وجہ یہ ہوتی ہے ان کی ذہانت اور زندگی کی متضاد کیفیتیں بیرونی دنیا میں
بھی متضاد عکس ڈالتی ہیں ۔میرتقی کا افسانہ کسی کے لیے صرف ایک بددماغ
ذہانت کا فسانہ ہے، کسی کے لیے اس ناکام عاشق کی کہانی ہے جسے کسی اپنی
رشتہ دار لڑکی سے محبت تھی اور کوئی آج اس کے کلام سے اس کے میلان ہم جنسی
کے دلائل مہیا کرتا ہے اردوکے ایک اورشاعر انعام اﷲ خاں یقین کی شخصیت ابھی
لوگوں کی نظر میں زیادہ مانوس نہیں ہوئی۔ورنہ اس کے تعلق میرتقی سے بھی بڑھ
کر مختلف قیاسات کا امکان ہے۔اورآج بھی ایک دوشاعر اردو ادب میں نمایاں
نظرآتے ہیں۔جن کے متعلق ان کی موت کے بعد اسی قسم کے مختلف قیاسات قائم کئے
جائیں گے ۔انگریزی ادب میں پو کے متعلق جو بھی کتاب لکھی گئی ہے ایک نئے
نقطۂ نظر سے کوئی اسے شرابی کہتا ہے ۔کوئی اعصابی مریض،کوئی اذیت پرست اور
کوئی جنسی لحاظ سے ناکارہ ثابت کرتاہے۔اور ان رنگار نگ خیال آرائیوں کی وجہ
سے اصلیت پرایسے پر دے پڑ گئے ہیں کہ اٹھائے نہیں بنتا ہے۔‘‘
میراجی نے امریکی شاعروں کی ذہنی پیچیدگیوں کا مطالعہ کرنے کے بعد اس کی
نفسیات کا اثر جو کہ اس کی شاعری میں نظر آتا ہے۔ایک ذمہ دار نقاد کی طرح
نبھایا یا ہے۔ جس کی وجہ سے مختلف زمانوں میں شعراء کی قدروقیمت میں اضافہ
ہواہے اور نقادوں اور دانشوروں کی آراء میں اختلافات پا یا جاتاہے لیکن
میراجی کی خصوصیت یہ ہے کہ جب وہ کسی شاعر یاادیب پر قلم اٹھاتے ہے تو اس
کو اس کی زندگی کے حالات اوراس کی نفسیاتی کیفیت کوسامنے رکھتے ہوئے اسکا
جائزہ پیش کرتے ہیں۔پھر اس کی شاعری میں ہم جنسی کے میلان یا اس کی بددماغی
پر تنقید کرنے کے بجائے منصفانہ نقطہ نظر سے تجزیہ کر تے ہیں ۔اورایسا
محسوس ہوتاہے کہ جسطرح وہ ایک زمانے تک بے قدری کے شکاررہے ہیں ایسے بہت سے
شعراء کوجو کہ اپنے زمانوں میں بے قدری کے شکار رہے ہیں ان کی اہمیت کو
منوانے کا بیڑا اٹھاتے ہیں ۔اس کے لیے وہ کئی بار بہت پیچھے تاریخ میں چلے
جاتے ہیں ۔ اور اس دور کی کھری کھوٹی سچائیوں کو اجاگر کرتے ہیں۔اس طرح
میراجی کو نہ صرف ایک شاعر بلکہ ایک نفسیاتی نقاد کی فہرست میں شمار کیا
جاسکتا ہے۔بالکل نہیں گھبراتے ،میراجی جوکہ بیک وقت تاریخ
،سماج،سیاسیات،نفسیات میں ادب کی جڑیں تلاش کرتے ہیں۔ وہ اس میں کامیاب بھی
ہوتے ہیں ملاحظہ ہوا ۔اقتباس جوکہ فرانس کے شاعر ۔
(میراجی نے اپنے مضمون میں فرانس کے ایک آوارہ شاعر چارلس بودلیئر کے بارے
میں مندرجہ ذیل اقتباس بیان کرتے ہیں۔
’’آج سے پچیس صدی پہلے یورپ کے ادب اور آرٹ کا ماخذ یونان کی زرخیز ذہانت
تھی۔ پندرہویں اور سولہویں صدی میں یہی درجہ اطالیہ کو میسر حاصل ہوگیا
لیکن دورجدید میں فرانس نے ادب اور آرٹ میں سارے یورپ اور خصوصاً انگلستان
کی رہ نمائی کی۔ جمالیاتی تحریکات سے متاثر ہونے میں فرانسیسی شعورنے جدید
زمانہ میں سب سے بڑھ کر حصہ لیا،اور چونکہ فرانسیسی شعور بہت باریک نظر اور
حساس تھا اس لیے آئے دن تبدیل ہوتے رہنے والے ماحول کے مختلف اور متنوع
انداز کوفرانس نہایت سچائی اور اخلاص کے ساتھ نشر کرتا رہا۔چارلس بود
لیئرنے اپنے واحد مجموعہ نظم،گلہائے بدی‘‘کو فرانس کے مشہور ناول نگار تھیو
فائل گوئٹے کے نام پر معنون کیا۔یہ کتاب 1857میں شائع ہوئی۔اس کی اشاعت پر
شاعر کے خلاف مقدمہ چلایاگیا کہ اسنے ایک ایسی کتاب شائع کی ہے کہ جو اخلاق
عامہ کے لیے مضرہے۔‘‘
چارلس بودلیئر کے بارے میں جن خیالات کا اظہار میراجی نے کیا ہے فرانس کی
عظیم تاریخ کے ساتھ ساتھ شاعر اوراس کے فن پرسخت تنقید کرتے ہوئے اس کی
قدرومنزلت طے کردی ہے۔ محمود ہاشمی نے اپنے مضمون میں میراجی کے بارے میں
مندرجہ ذیل اقتباس بیان کئے ہیں۔
میراجی غالب کے بعد فن کی نجات اور نئی زندگی بخشنے والا،اردو ادب کا دوسرا
محور ہے۔یہ اتفاق نہیں حقیقت ہے کہ میراجی کی نظمیں،یا پہلا مجموعہ 1944میں
شائع ہوا اس مجموعہ میں 1932سے 1943تک کی نظمیں ہیں۔ میراجی کے پہلے مجموعہ
کے اس کیلنڈر سے ملحقہ ایک اور تاریخ 1938کی ہے ۔جب گراں بار، کوہ وقار
مجموعوں کے شاعر محمد اقبال(علامہ)اپنی شہرت ومقبولیت کے نقطہ،عروج پر پہنچ
کر رخصت ہوئے۔ کہا جا تاہے ،علامہ،اردو شاعری کی سب سے بلند اور پر وقار
آواز ہیں۔ اس سے انکار کی یہاں ضرورت نہیں۔لیکن اس اقرار پر تامل نہیں کہ
اقبال اپنے عروج میں اور میراجی اپنے آغاز میں ایک دوسرے کے ہم عصر ہیں۔ایک
کی شخصیت گممام اور بے اثر دوسرے کی شخصیت کی آواز باز گشت بر اعطم کو عبور
کرتی ہوئی اور تاثر میں عوام وخواص کی حدود کو بے محاباطے کرتی ہوئی۔لیکن
عامہ اپنی عظمت کے تمام کھڑاگ کیساتھ تاریخ کے ARENAتنہا رہ جا تے ہیں۔ ان
کانام چلتا ہے تو لے دے کر ، امین حزیں سیالکوٹی اور اس قبیل کے شعر طرازوں
تک۔میراجی کی شخصیت ،علامہ کے تناظر میں بے حد عجیب نظر آتی ہے۔ آنے والی
نسل کے میراجی کے اسلوب کو،میراجی کے طرزاحساس کو،میراجی کے نظریۂ شعر کو
قبول کرتی ہے اور علامہ کا اثران کے اپنے ARENAسے باہر نہیں نکل پا
تا۔علامہ ایک پروقار،یادگار،کا نقش بن جا تے ہیں اورمیراجی آنے والوں کاہم
سفر ہے۔بیسویں صدی کی چار دہائیاں ، ماضی کی صدیوں پر بھاری ہیں لیکن
میراجی ہنوز نئے آنے والوں کاہم سفرہے۔
محمود ہاشمی نے میراجی کو اس دورکا بہت اہم شاعر تسلیم کیا ہے۔ وہ اقبال کے
طرز سے موازنہ کرتے ہوئے اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ آج میراجی کے پیروکار
زیادہ ہیں جبکہ اقبال کوان کے زمانے سے آج ہر لحاظ سے بڑا شاعر تسلیم کیا
جا تاہے۔میراجی جوکہ ایک گمنام اور آزادانہ زندگی گزارنے والا قلندر شاعر
تھا۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ سماج سے اس کا رشتہ کتنا مضبوط ہے اور اس کے
طرز کی اتباع کرنے والے کتنے ہیں ۔یقینا میراجی اس میں آگے نہ سہی جیسا کہ
محمود ہاشمی کا خیال ہے لیکن میراجی اس ہنر میں کامیاب ضرور ہیں۔
ڈاکٹر وزیرآغا اپنے مضمون میں ’’میراجی دھرتی پوجا کی ایک مثال‘‘ کے بارے
میں مندرجہ ذیل اقتباس بیان کرتے ہیں۔
میراجی کی نظموں اور گیتوں کی ایک مخصوص فضا ہندو دیوتا مالا اور فلسفے سے
میراجی ی جذباتی ہم آہنگی نیز کرشن رادھا کے پجاری شاعروں سے اس کا تعلق
خاطر ہے۔یہ سب باتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں۔کہ میراجی نے دھرتی پوجا کی
ایک اہم مثال قائم کی ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس خاص میدان میں جہاں تک
اردو نظم کا تعلق ہے میراجی کی حقیقت منفرد اور یکتا ہے۔ اردو نظم گو شراء
میں سے شاید ہی کسی نے اپنے ضوع سے اس قسم کی جذباتی وابستگی شغف ، اور
زمین سے ایسے گہرے لگاؤ کا ثبوت پہنچایا ہے۔ہوجیسا کہ میراجی کے ہاں نظر
آتاہے۔دوسرے لفظوں میں میراجی کی شاعری نے اس کی اپنی جنم بھومی سے خون
حاصل کیاہے اور اسی لیے اس میں زمین کی کی خوشبو ،حرارت اور رنگ بہت نمایاں
ہے۔میراجی کی عظمت ایک بہت بڑی تد تک اس کے اسی رحجان کے باعث ہے۔پھر
دیکھنے کی بات یہ ہے کہ میراجی کے بعد آنے والے بہت سے نظم شعرا میراجی سے
بڑے واضح اثرات قبول کئے ہیں اور اسکی علامتوں ،اشاروں ،سوچنے کے خاص انداز
اور بیان کے مخصوص پیرائے کوپیش نظر رکھا ہے۔چنانچہ اردو نظم کا وہ طالب
علم جسنے میراجی کی نظموں کا مطالعہ کیا ہے بڑی آسانی سے جدید نظم گو شعرا
کے ہاں میراجی کے اثرا ت کی نشاندہی کرسکتا ہے۔
اکثر شعراء قدیم اور جدید کے یہاں دیکھا گیاہے کہ وہ بدیشی یعنی ایرانی
وعرب تشبیہات وتلمیحات استعمال کرکے اپنی شاعری میں زور پیداکرتے ہیں اوروہ
اس میں کامیاب بھی ہیں لیکن میراجی نے خالص ہندستانی تہذیب وتقافت، یہاں کے
رسم ورواج ،شادی بیاہ اور اس کے علاوہ ہندو دیومالا سے اپنی شاعری میں ایک
طلسماتی رنگ بکھیرنے کی کوشش کی ہے۔میراجی نے اردو زبان وادب کے تخم کو
ہندوستان کی زرخیز مٹی میں اگا کرتناور درخت بنا دیا۔میراجی کی شاعری کے
مطالعہ کے بعد نقاد کچھ بھی رائے قائم کریں لیکن خلاصہ یہی ہے کہ میراجی نے
ایک ایسے طرز کی ایجات کی جو کہ نیا منفرد تھا اور اس نے خاص رجحان کے تحت
ایک نئے مجاز اور ایک نئے ذائقہ سے اردو شاعری کو آشانہ کیا ۔اس مضمون میں
شامل دیدہ ور نقادوں کی آرا کی روشنی میں جس کا ذکر کیا گیا ہے اس بات کی
دلیل ہیں کہ میراجی کسی مخصوص طبقہ ،علاقہ،تہذیب اور قوم کے شاعر نہیں بلکہ
جغفرافیائی حدود سے اوپر اٹھ کر انسانیت تہذیب وثقافت اور ہندوستان کی مٹی
کے شاعر ہیں۔آج جبکہ چاروں طرف نفرت ،ظلم وبربریت کا دور دورہ ہے میراجی کی
سوچ وفکر سے ایک مستحکم اور پرامن مشاعرہ کا قیام عمل میں آسکتا ہے۔بس
ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے شعری سرمایہ سے اسفادہ کیا جا ئے ۔
آج جہاں موجودہ دورمیں ادب نے ترقی کی بلندیاں کو چھوا ہے۔ادب کے پرکھنے
اور کو جانچنے کی طرف جس طرح سے نقادوں کا میلان ہوا ہے ۔میراجی جیسا عظیم
شاعر جس نے اردو شاعری میں نئے طرز کی بنیاد ڈالی اور اپنے پیچھے متبعین کی
ایک لمبی فہرست تیار کی اس پر کئے گئے تحقیق اور مقالوں کی تعداد کم ہے۔جس
کی وجہ سے ان کو سمجھنے میں اوران کے پیغام سے مستفید ہونے میں دشواری پیش
آئی ہے۔ میراجی پرآج تک اس طرح سے کام نہیں ہواہے جس کے وہ حقدار تھے۔آج
جبکہ ان کی پیدائش کے سال کی تقریبات منا ئی جا رہی ہیں ۔ حیدر قریشی کی یہ
کاوش قابل تحسین ہے۔جس کو اردو والے کبھی فراموش نہیں کریں گے ۔
مراجع
(1)اردو شاعری پر ایک ایک نظر کلیم الدین احمد مکتبہ فروغ اردو،لکھنؤ 1925
(2)اردو نظم-نظریہ وعمل ڈاکٹر عقیل احمد صدیقی ایجوکیشنل بک ہاؤس ،علی گڑھ
1989
(3)اردو شاعری کا مزاج ڈاکٹر وزیر آغا ایجوکیشنل بک ہاؤس ،علی گڑھ 1997
(4)اردو ادب میں نظم معریٰ اور آزاد نظم حنیف کیفی شعبہ اردو جامعہ ملیہ
اسلامیہ نئی دہلی 1986
(5)اردو شاعری میں اشاریت ڈاکٹر سلیمان اطہر جاوید موڈرن پبلشنگ ہاؤس ،نئی
دہلی 1983
(6)شعر غیر شعرو نثر شمس الرحمن فاروقی شب خون کتاب گھر 1997
(7)کلیات میراجی جمیل جالبی اردو مرکز لندن
(8) میراجی ایک مطالعہ جمیل جالبی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ،نئی دہلی 1992
(9) میراجی شخصیت وفن ڈاکٹر رشید امجد مغربی پاکستان اردواکادمی ،لاہور
1992
(10) میراجی شخصیت وفن کمار پاشی موڈرن پبلشنگ ہاؤس،نئی دہلی 1981
(11)نئی شعری روایت شمیم حنفی مکتبہ جامعہ ،نئی دہلی 1978
(12)مضامین نو خلیل الرحمن اعظمی ایجوکیشنل بک ہاؤس ،علی گڑھ 1995
(13)میراجی کی نظمیں مرتب مرغوب علی نصرت پبلشر ز لکھنؤ 1986
رسائل وجرائد
(1)تخلیقی ادب کراچی شمارہ4
(2)سوغات بنگلور شمارہ نمبر 87
(3)شعرو وحکمت حیدر آباد کتاب اول 1987
(4)علی گڑھ میگزین شمارہ اول 1957 |