بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

اب یہ بات تقریباً طئے ہے کہ نریندر مدی ہی اگلے پارلیمانی انتخابات میں وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہوں گے۔ ویسے سیاست میں کچھ بھی ہوسکتا ہے کوئی ضروری نہیں ہے کہ بی جے پی مرکز میں کامیاب ہو اور اگر بی جے پی کے حلیفوں پر مشتمل این ڈی اے کامیاب بھی ہوتا ہے تو ضروری نہیں کہے کہ بی جے پی کے حلیف نریندر مودی کو وزیر اعظم بنانے پر راضی ہی ہوجائیں! مودی ایک انتہائی متنازعہ شخصیت ہیں۔ خود بی جے پی میں مودی کو وزیر اعظم بنانے کی مخالفت کرنے والے موجود ہیں۔ اڈوانی مودی کی مخالفت میں مستعفی ہوچکے ہیں۔

مندرجہ بالا حقائق کے قطع نظر ایک اہم سوال یہ ہے کہ اگر سب کچھ مودی یا بی جے پی کی مرضی اور خواہش کے مطابق ہوتا بھی ہے تو کیا نریندر مودی کو محض اس وجہ سے وزیر اعظم بنایا جاسکتا ہے کہ مودی جس سیاسی پارٹی بی جے پی میں ہیں وہ حکومت بنانے کے موقف میں ہے اور مودی کو وزیر اعظم بنانا چاہتی ہے۔ وہ مودی جن کو گجرات میں ہوئے خونین مسلم کش فسادات کے بعد گجرات کا قاتل یا قصاب کہا جاتا ہے۔ جن کا انگ انگ مسلمانوں کے خون میں ڈوبا ہوا ہے۔ مظلوم مسلمانوں کی جائیدادوں اور گھرں میں لگائی گئی آگ کی راکھ سے آلودہ ہے۔ بے عصمت کی گئی مسلمان خواتین اور لڑکیوں کی چیخیں اور آہیں اب تک گجرات کی فضاؤں میں گونج رہی ہیں جس کا آج بھی امریکہ کے علاوہ کچھ اور ملکوں میں داخلہ ممنوع ہے۔ کیا اس قسم کے رسوائے زمانہ اور بے توقیر ہندوستان یعنی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا وزیر اعظم ہوسکتا ہے؟ تو کیا کل چھوٹا راجن جیسا ڈاون، کرنل پروہت جیسا دہشت گرد اور توگڑیا جیسا فرقہ پرست بھی وزیر اعظم بن سکیں گے۔ یوں اب جرائم اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہوگیا۔ جرائم پیشہ یاست کے دامن میں پناہ لے کر جرائم کی سزا سے بچ جاتے ہیں تو سیاستداں سیاست میں داخل ہوکر جرائم میں ملوث ہوکر سیاست میں آنے کے لئے خرچ کی گئی رقم دس گنا کمالیتے ہیں لیکن اب سیاست میں سکھوں کے قاتل، مسلمانوں کے قاتل بھی محفوظ ہیں کوئی ان کا بال بیکا نہیں کرسکتا ہے۔

ان حالات میں نریندر مودی کا وزارت عظمیٰ کے امیدوار کی حیثیت سے نامزد کیا جانا نہ صرف ہندوستان کی جمہوریت بلکہ جمہوری نظام کے آگے سوالیہ نشان کھڑا کردیتا ہے۔ ہم یاد دلادیں کہ ہٹلر، بش (دونوں یعنی باپ بیٹے) اوبامہ اور ٹونی بلیر جیسے خونی، ظالم اور جنگ باز بھی جمہوری طریقہ سے برسراقتدار آئے تھے اسی لئے علاقہ اقبال نے کہا تھا کہ
جمہوریت ایک طرز ِحکومت ہے کہ جس میں
بندوں کے گنا کرتے ہیں تو لانہیں کرتے

بعض ملکوں میں انتخابات میں کھڑے ہونے کے لئے امیدوار کی اہلیت طئے کرنے کے لئے معیار مقرر کئے گئے ہیں یہ نہیں کہ جس کے بھی دل میں آے وہ انتخابی دنگل میں کو دپڑے مہاتماگاندھی کے قتل میں ماخوذ (جو صرف تکنیکی بنیاد پر قتل کے الزام سے بری ہوئے تھے) ساورکرنے شائد کچھ سوچ کر ہی انتخابات میں حصہ نہیں لیا ہوگا جس طرح بی جے پی نے ان کی تصویر ایوان پارلیمان میں لگائی اسی طرح اگر تب بی جے پی ہوتی تو ساور کرکو ضرور انتخابات میں کھڑا کردیتی! یعنی بابائے قوم مہاتما گاندھی کے قتل کا(مشتبہ) ملزم ملک کی وزارت عظمیٰ کا امیدوار بالکل اسی طرح ہوتا جس طرح آج نریندر مودی کو سامنے لایا جارہا ہے۔

مسلکی اختلاف کے قطع نظر اسلامی تاریخ میں دو باتیں اہم ہیں۔ سید نا علی ؓکے مخالفین کو حضرت علی ؓ کی پاک شخصیت کے خلفیہ ہونے پر اعتراض نہ تھا سب ہی ان کی عظمت کے قائل و مداح تھے۔ اعتراض صرف اس بات پر تھا کہ سید نا عثمان ؓ کے قاتل سید نا علی ؓ کے ساتھ ہوگئے تھے وہ قاتلین عثمانؓ کو سزا دلانے کے لئے خلیفہ وقت (سیدنا علیؓ) پر دباؤ ڈال رہے تھے اسی طرح حضرت حسینؓ خود خلافت کے خواہش مند نہیں تھے وہ بوجوہ چند یزید کی خلافت پر اعتراض تھا یعنی عہدئے خلافت کے لئے ایک معیار اہلیت ضروری ہے جو حضرت حسینؓ کی نظر میں یزید میں نہیں تھا۔ مذہب بیزار کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کے کسی اصول کا غیر اسلامی نظام میں کیا کام؟ ان عقل کے اندھوں کو یہ معلوم ہے کہ حقوق انسانی ، حقوق نسواں اور دیگر حقوق کی بنیادے اسلامی اصولوں پر ہیں لیکن وہ یہ سب مان کر عظمت اسلام کا اعتراف کرنانہیں چاہتے۔

کسی عہدے کے لئے امیدوار کی قابلیت و صلاحیت دیکھی جاتی ہے لیکن ہمارے ملک میں کئی عہدوں کے ساتھ وزیر اعظم کا عہدہ بھی مورثتی ہوگیا ہے ورنہ اندرا گاندھی کے بعد راجیو گاندھی کا وزیر اعظم بن جانا اور اب راہول گاندھی کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار بنایا جانا ہے حالنکہ وہ اس عہدے کے اہل ہرگز نہیں ہیں۔ اسی لئے ہم کو نریندر مودی پر اعتراض ہے۔

تعلیمی قابلیت سیاست میں نہیں دیکھی جاتی ہے۔ اس لئے اس نقطہ نظر سے مودی کی تعلیمی قابلیت پر کوئی سوال نہ کریں گے۔ ان کی انتظامی صلاحیت گجرات میں ان کی کارکردگی یہ حیثیت مجموعی شرم ناک نہ سہی قابل اعتراض یوں رہی ہے کہ انہوں نے فرقہ واریت سے شدید متاثر گجرات کی فضاء کو نفرت، تقسیم کرو، تشدد، قتل و غارت گری، لوٹ مار اور عصمت داری سے بری طرح مسموم و آلودہ کردیا۔ 2002ء کے فسادات، بابری مسجد کی شہادت کے بعد ملک کی دوسری شرم ناک اور انسانیت سوز دہشت گردی ہے۔ ان دونوں دہشت گردی کے المناک واقعات اور سازش کے سرغنہ Master Mindاڈوانی اور مودی میں آج کل سردجنگ چل رہی ہے۔ 2002ء کی مسلم کشی کے اثرات سے گجرات آج بھی آزاد نہیں ہے یعنی مسلمانوں کے لئے نارمل حالات کا صد فیصد بحال نہیں ہوسکے ہیں۔ کیونکہ مودی کو اس سے دلچسپی نہیں ہے اب یہی مودی ملک کو کانگریس سے آزاد کرانے کا نعرہ لگاکر اپنی تقری کا جشن منارہے ہیں! 2002ء کے بعد بی جے پی کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو گجرات کی وزارت اعلیٰ سے ہٹانا چاہتے تھے تب آج مودی کے ہاتھوں ذلیل ہونے والے اڈوانی نے ہی سرتوڑ کوشش کرکے مودی کو بچایا تھا اگر اڈوانی مودی کو نہ بچاتے تو شائد مودی گم نام نہ سہی مشہور و مقبول بھی نہ ہوتے!

گجرات میں 2002ء عمر کے بعد بلاشبہ مودی نے شاندار کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں۔ گجرات میں ترقی اور فلاح بہبود کے کچھ کام بھی کئے ہیں۔ان کی کامیابی کی وجہ یہ ہے کہ ان سے پہلے گجرات کی فضاء فرقہ پرستی سے آلودہ تھی اس سے فائدہ اٹھاکر نریندر مودی نے گجرات میں فرقہ وارانہ نفرت کو ہوا دی۔ اکثریت کے حامل ہندووں میں خوف پیدا کرنے کے بعد یہ احساس پیدا کیا کہ صرف نریندر مودی ان کو مسلمانوں سے تحفظ فراہم کرسکتا ہے۔ اپنے دعوے میں وزن پیدا کرنے کے لئے معصوم افراد کو قتل کرکے ان پر الزام لگایا کہ وہ قاتل اعظم مودی کو قتل کرنے کے ارادے سے احمد آباد آرہے تھے اور پولیس انکاؤنٹر میں مارے گئے جس میں ممبئی کی ایک نو عمر طالبہ عشرت جہاں بھی شامل ہے۔ ترقی (وکاس) کے دعوے بھی کھوکھلے ہیں ان کی حقیقت پہلے جسٹس کارٹجونے آشکار کی تھی کہ مدھیہ پردیش چند معاملات میں گجرات سے بہتر ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری کے دعوے بھی غلط ہیں جب کہ پہلے نمبر پر مہاراشٹرا ہے اس کے بعد دہلی، ٹاملناڈو، آندھراپردیش کرناٹک کے بعد گجرات کا چھٹا نمبر ہے۔ 2012-13 میں مہاراشٹرا چالیس ہزار 999کروڑ اور گجرات نے صرف32 ہزار اور470کروڑ کی سرمایہ کاری حاصل کی ۔

گجرات میں ہوئی سرمایہ کاری ملک میں ہوئی سرمایہ کاری کا صرف 2.38فیصد ہے۔ گجرات میں نریندر مودی ترقی کے دعوے کرتے ہوئے مودی، بی جے پی اور موافق میڈیا دعوے کس قدر مضحکہ خیز ہیں اس کا اندازہ یوں لگائیں کہ بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ 2003ء سے 2011ء تک گجرات میں 876بلین امریکن ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی ہے اگر یہ دعویٰ سچ تو پھر گجرات اس معاملے میں ملک کی نہ صڑف ہر ریاست سے آگے ہوتی! بلکہ چین سے بھی آگے! جہاں مذکورہ مدت 660بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی ہے یہ دعوے نہ صرف جھوٹے ہیں بلکہ گمراہ کن ہیں۔ گجرات کے مسلمانوں کے حالات ابھی بھی 2002ء کی سطح کے نیچے ہیں۔ مودی نے اپنی جیلوں کو صرف گجرات کے مسلمانوں سے ہی نہیں بھرا ہے بلکہ مفروضہ، بے بنیاد اور جھوٹے و گمراہ کن الزامات کے حجت حیدرآباد، مہاراشٹرا ، کرناٹک، اترپردیش اور بہار کے علاوہ دوسری ریاستوں سے مسلمانوں کو گرفتار کرکے گجرات لایا گیا۔ نہ جانے کتنے مسلمان نام نہاد پولیس مقابلوں میں مارے گئے۔ مودی نے ان سے منحرف ہوئے وزیر داخلہ ہرین پانڈیا کے قتل کے بعد ہرین پانڈیا کے والد اور بیوہ نے مودی پر الزام لگایا کہ مودی قتل کے ذمہ دار ہیں جبکہ 2002ء میں خاتون قاتلوں اور تخریب کاروں کی سربراہ کو ڈنانی کو ان کے بھیانک جرائم کے لئے صرف عمر قید کی سزا ملی ہے اس کو اپنے دیگر ساتھیوں کو ملنے والی کم سزاؤں کے خلاف مودی نے انتظامیہ کو اپیل کرنے سے منع کردیا۔ ملک کی عدلیہ کا عمومی معیار کار کردگی بلند ہے۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے علاوہ گجرات ہی کی عدلیہ پر سپریم کورٹ نے جتنے شدید اعتراضات کئے ہیں شائد ہی ریاستی عدلیہ پر ہوئے ہوں۔ حد تو یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے مودی پر بھی شخصی اعتراض کئے ہیں ان کو’’نیرو‘‘تک قرار دیا تھا(ان ریمارکس کی روشنی میں منموہن سنگھ حکومت گجرات کی حکومت کو برطرف کرکے ان پر مقدمہ چلاسکتی تھی مگر کمزور، خائف اور بی جے پی سے ڈرنے والے یو پی اے کو ہمت نہیں ہوئی ورنہ اس وقت مودی وزارت عظمیٰ کے خواب نہ دیکھتے!

فرقہ پرست، سازشی اور اپنے مسلم عوام کے خلاف قتل و غارت، لوٹ مار اور عصمت ریزی کی سازش کرکے اس کو روبہ عمل لانے والا مودی جو ترقی و خوش حالی کے گمراہ کن جھوٹے دعوے کرتا ہے جس کا امریکہ اور چند ملکوں میں داخلہ ممنوع ہو جس کے پولیس عہدیدار انکاونٹر کے نام پر قتل کرتے ہوں جو تحقیقاتی اداروں کو رشوت دے۔ امریکہ تو دور ہے چند سال قبل حیدرآباد کی پولیس نے فوری کو حیدرآباد آنے سے روک دیا تھا۔ مودی کی فرقہ پرست مسلم دشمنی کے اور کھوکھلے جھوٹے و گمراہ کن دعوووں کی وجہ سے سیکولر طاقتوں کی طاقت اور حوصلہ بڑھائے گا۔ کانگریس کی نااہلی اور کرپشن بھی مودی کو وزیر اعظم نہیں بناسکے گی!۔
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 170714 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.