ممتاز حسین راٹھور :کشمیر کا قومی لیڈر

ریاست جموں و کشمیر کے عظیم بطل حریت غریب پرور وزیراعظم آزاد کشمیر پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق صدر قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید جمہوریت محترمہ بے نظیر بھٹو کے نظریاتی ، مخلص اور سیاسی جانشین جناب ممتاز حسین راٹھور کو آج ہم سے رخصت ہوئے 14برس بیت چکے ہیں اس عرصے میں جب بھی سیاسی افق پر سائے گہرے ہوئے جناب ممتاز حسین راٹھور بڑی شدت سے یاد آئے حق گوئی و بے باکی، درویشی، علم و عمل کو یکجا کیا جائے تو میری نگاہوں کے سامنے ممتاز حسین راٹھور کی تصویر ابھرتی ہے، (مرحوم) عشق رسول ﷺ کا جیتا جاگتا نمونہ تھے۔آپ میدان سیاست میں نہ کسی سے دب کر رہے ہیں اور نہ ہی انہیں کوئی مرعوب کر سکا یہی وجہ ہے کہ انہیں بار ہا حق گوئی کے ”جرم“ میں اپنی زندگی کا طویل حصہ زندان کی نظر کرنا پڑا جب بھی ملک میں جمہوریت کا گلہ گھوٹنے کی کوشش کی گئی راٹھور مرحوم اس اقدام کے خلاف ڈٹ گئے بالآخر انہیں پابند سلاسل کر دیا جاتا مرحوم کی قومی و ملی خدمات اورذاتی صفات کی وجہ سے آج بھی ان کی یاد دلوں میں بسی ہوئی ہے۔ جناب ممتاز حسین راٹھور(مرحوم) کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا انہوں نے سیاسی میدان میں کسی وڈیرے جاگیردار کی اولاد ہونے کے ناطے سے یہ مقام ہر گزپیدا نہیں کیا اور نہ ہی انہیں سیاسی مرتبہ وراثت میں ملا بلکہ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز ایک عام سیاسی کارکن کی حیثیت سے کیا لیکن بہت جلد ایک غریب ماں باپ کے بیٹے سے شعلہ بیان مقرر، صاحب طرز اور کامیاب سیاست دان کی حیثیت سے بہت بڑا مقام حاصل کر لیااگرچہ آپ نے ناساز گار حالات میں اپنی زندگی کا آغاز کیا لیکن طویل جدوجہد کے بعد سیاست کی وادی میں وہ حیثیت حاصل کر لی جسے کوئی بھی نظرانداز نہیں کر سکتاتھا یوں کہہ لیجئیے کہ وہ سیاسی تحریکوں کے روح رواں تھے ان کے بغیر جلسے بے رونق ہوتے تھے مرحوم کی شمولیت کے بغیر کسی تحریک کی کامیابی کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔
 

image

جناب ممتاز حسین راٹھور مرحوم نے سیاست میں ایسی شاندار روایات چھوڑی ہیں جو آنے والی سیاسی جدوجہد کرنے والے کارکنوں کے لیے مشعل راہ ہوں گے آپ کی سیاست حق گوئی اور بے باکی کی آئینہ دار تھی آپ نے اہل سیاست کو یہ درس دیا کہ کس طرح آ مر اور جابر سلطان حکمران کے سامنے کلمہ حق کہا جاتا ہے۔ راٹھور مرحوم جہاں اچھے سیاست دان تھے وہاں وہ دوستوں کے دوست اور عمر بھر اسلام اور پاکستان دشمنوں کے خلاف برسر پیکار رہے حق گوئی اور بے باکی کی قدر ان میں مشترک تھی جناب راٹھور اپنی زات میں ایک انجمن تھے آپ کی موت ایک روایت اور عہد کی موت ہے جناب ممتاز حسین راٹھور اپنی زندگی میں اکثر کہا کرتے تھے (جب ہم مر گئے تو زمانہ ہمیں بہت یاد کرے گا) آج وہ ہم میں موجود نہیں مگر ان کی روح آج بھی ہمارے درمیان موجود ہے لیکن سیاست کے لیے جو کچھ وہ چھوڑ گئے ہیں گراں قدر سرمایہ ہے۔

جناب ممتاز حسین راٹھور مرحوم اپنی نابغہ روزگار شخصیات میں سے ایک تھے کہ جن کی شخصیت کی ایک رنگ تک محدود نہ رہی بلکہ رنگوں کے حسین امتزاج نے ان کی شخصیت کو ایک کہکشاں کی صورت دے دی سیاست دان، فقیر، ادیب، دانشور، مقرر غرض کتنے رنگ اسی ایک شخص میں جمع ہو گئے تھے شاید ایسے ہی طرح دار شخصیات کیلئے (ہشت پہلو) کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ممتازحسین راٹھور اگر اور زندہ رہتے تو شاید صاف ستھری سیاست کو مزید شہکار عطا کر جاتے جن پر ایک زمانہ کوئی قوم اور کوئی بھی زبان فخر کر سکتی تھی۔ ایک مختصر مدت میں ان کی سیاست نے خواص میں جو پزیرائی اور عوام میں جو مقام پیدا کر لیا تھا کئی لوگ صدیوں میں وہ مقام حاصل نہیں کر پائے۔ ممتاز حسین راٹھور کے چہرے پر تازہ گلاب کی صدا بہار کھلی ہوئی مسکراہٹ دیکھ کر مجھے یوں لگتا تھا کہ کہیں اس پھول جیسے شخص کی زندگی پھول جتنی ہی مختصر نہ ہواور کوئی ہوا کا تندوتیز جھونکا اس کی مسکراہٹوں کو بکھیر نہ دے۔ بقول شہید محسن نقوی:
خزاں کی دھوپ سے شکوہ فضول ہے محسن۔۔۔۔۔۔۔میں یوں بھی پھول تھا آ خر مجھے بکھرنا تھا۔

جناب ممتاز حسین راٹھور نے مارشل لاءکے طویل اور سیاہ رات میں اپنی سیاسی جدوجہد اور فکر کی قندیل کچھ اسطرح روشن رکھی کہ دور سے اس کی شناخت ہو سکتی تھی کشمیر کا بطل حریت نہ جھکا نہ بکا بلکہ جس عظیم نظریے اور فکر کے ساتھ کمٹیڈ تھا اس سے کسی صورت دستبرار ہونے کو تیار نہ ہوا۔محراب و ممبر سے وقت کے یزید کے خلاف پوری توانائی کے ساتھ آواز بلند کرتا رہا لیکن یہ عجیب بات ہے کہ جسے مارشل لاءکے اور میں کسی گولی کا نشانہ لگ کے خاموش ہو جانا چاہیے تھا کیونکہ جبر کی سیاہ راتوں میں آرزوں کو یونہی دبایا جاتا ہے لیکن اس موسم گل میں کہ جس کی اس نے برسوں آرزو کی تھی اس کے سینے پر گولیوں کے پھولوں کا اگنا ایک عجیب بات ہے اس کا وہ گرم خون جو گیارہ برس تک اس کی آنکھوں میں جمہوریت کیلئے پکتارہا جب صبح جمہوریت طلوع ہوئی تو اس کے سینے سے ابل کے اس زمین میں جذب ہو گیا کہ جس کا زرہ زرہ ممتاز حسین راٹھور کی انسان دوستی اور جمہوریت پسندی کا گواہ اور آئنہ دار ہے۔
جناب ممتاز حسین راٹھورجیسا غریب پرور اور مخلص سیاست دان شاید صدیوں میں پیدا ہو غربت کی گود می
ں آنکھ کھولنے والا ممتاز راٹھور پڑھائی کے دوران لاہور کے کھلے پارکوں میں سویا والدہ صاحبہ نے وراثت کی زمین فروخت کر دی مگر اپنے لاڈ لے بیٹے ممتاز راٹھور کو تعلیم کے زیور سے محروم نہ ہونے دیا۔ دولت مند سیاست دانوں کے مد مقابل چھوٹی برادری اور غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والا ممتاز راٹھور ستاروں میں چاند کی طرح چمکا غربت کے ماحول میں تعلیم حاصل کی اور ایل ایل بی تک کی تعلیم بڑی کسمپرسی کے عالم میں مکمل کی۔ چنانچہ ممتاز حسین راٹھور اپنی والدہ کی دعا سے ڈسٹر کٹ کونسل کے الیکشن سے لیکر اسمبلی کی رکنیت تک کا الیکشن جیتا یکے بعد دیگر اہم عہدوں ، سینئر وزیر، سپیکر قانون ساز اسمبلی ،اپوزیشن لیڈر، وزیراعظم، صدر آزاد کشمیر، قائد حزب اختلاف پر فائز رہے ایسا کوئی عہدہ نہیں جس پر ممتاز حسین راٹھور(مرحوم) کودکھ ہو۔

جب ممتاز حسین راٹھور(مرحوم)1990میں وزیراعظم بنے تو 9ماہ تک ایوان وزیراعظم کے د روازے غریب عوام کیلئے کھول دیئے ہزاروں کی تعداد میں ہر روز مستحقین کی امداد کرتے رہے ممتاز حسین راٹھور(مرحوم)گھنٹوں ایوان وزیراعظم میں عوام کے مسائل سن کر نہ تھکتے انہوں نے پہلی مرتبہ مقبوضہ جموں و کشمیر سے ہجرت کر کے آنے والے مہاجرین کی عملی مالی امداد کی بحیثیت وزیراعظم اپنے عرصہ 9ماہ ٹھوک بجا کر حکومت کی۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ایوان وزیراعظم نہیں بلکہ کوئی دربار عالیہ ہے اور اندر وزیراعظم نہیں بلکہ کسی دربار کا گدی نشین بیٹھا ہے۔ ممتاز حسین راٹھور(مرحوم)نے 9ماہ بعد از خود اسمبلی توڑ دی اسمبلی توڑنا بھی راٹھور جیسے دلیر اور بے باک شخص کا ہی دل تھا خود تو پیدل ہو گیا مگر جو ساتھ بلیک میلر تھے انہیں فوری چلتا کیا۔

جناب ممتاز حسین راٹھور(مرحوم)سے میری آخری ملاقات 14جون 1999کو ہوئی۔ وہ حسب معمول چہرے پر مسکراہٹوں کی بارات سجائے بال سجائے اپنے داستوں کے ساتھ گپ شپ میں مصروف تھے۔ جب میں نے راٹھور صاحب سے دریافت کیا کہ آپ کا آئندہ کیا پروگرام ہے تو بے ساختہ زبان سے نکلا کہ تحریک آزاد ی کشمیر اورپارٹی کارکنوں کی عزت نفس بحال رکھنا میری آخری خواہش ہے اور اس لیے میں آزاد کشمیر کے تمام اضلاع کے دورے پر ہوں ممتاز حسین راٹھور(مرحوم)مرا نہیں زندہ ہے اپنی فکر کے حوالے سے اپنی خوبصورت شخصیت کے حوالے سے اپنی انسانیت دوستی اور جمہوریت پسندی کے حوالے سے وہ زندہ ہے۔ ممتاز حسین راٹھور مرحوم کے سینے میں اپنے وطن کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی وہ کشمیر کے مسلمانوں پر مظالم کی بات سن کر دکھ محسوس کرتے انہوں نے اپنی ساری زندگی تحریک آزادی کے لیے وقف کر دی افسوس صدافسوس ان کی زندگی نے وفا نہ کی۔ کاش وہ زندہ ہوتے اور اپنے پیارے وطن کشمیر کو آزاد دیکھتے۔ ممتاز حسین راٹھور(مرحوم) کی وفات سے جہاں ایک عہد کا خاتمہ ہوا وہاں اہل کشمیر اور اہل پاکستان کے عوام ایسے دبنگ قومی مقرر، دانشور اور اچھے سیاست دان سے محروم ہو گئے جو اپنی تقریروں سے لوگوں کو آمریت کے خلاف آواز اٹھانے کی ترغیب دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے جب بھی کٹھن میں اضافہ ہوا ممتاز حسین راٹھور(مرحوم)بہت شدت سے یاد آئے بقول فرزند کشمیر علامہ اقبال رحمتہ اللہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ور پیدا
Humayun Zaman Mirza
About the Author: Humayun Zaman Mirza Read More Articles by Humayun Zaman Mirza: 10 Articles with 12185 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.