شَعْبَانُ الْمُعَظَّم اسلامی سال کا
آٹھواں مہینہ ہے ،اس مہینے کو اسلام میں خصوصی امتیاز حاـصل ہے اور کیوں نہ
ہو کہ امام الانبیا حضور نبی دوجہاں ﷺ اس مہینے میں کثرت سے روزے رکھا کرتے
تھے۔روزوں کی کثرت کے متعلق سوال ہوا تو آپﷺ نے ارشادفرمایا:رجب اور رمضان
کے بیچ میں یہ مہینہ ہے ،لوگ اس سے غافل ہیں ،اس میں لوگوں کے اعمال اﷲ
تعالیٰ کی طرف اٹھائے جاتے ہیں اور مجھے یہ پسند ہے کہ میرا عمل اس حال میں
اٹھایا جائے کہ میں روزہ دار ہوں[سنن النسائی،الحدیث:۲۳۵۳]نیز آپﷺ شعبان سے
زیادہ کسی مہینے میں روزے نہ رکھا کرتے تھے بلکہ پورے شعبان ہی کے روزے رکھ
لیا کرتے تھے[صحیح البخاری،الحدیث:۱۹۷۰]ایک موقع پر عرض کی گئی :کیا آپ کے
نزدیک زیادہ پسندیدہ شعبان کے روزے رکھنا ہے؟ تو آپ ﷺنے ارشاد فرمایا:اﷲ
تعالیٰ اس سال مرنے والی ہر جان کو لکھ دیتا ہے اور مجھ یہ پسند ہے کہ میرا
وقتِ رخصت آئے تو میں روزہ دار ہوں[مسند ابی یعلی ،الحدیث:۴۸۹۰]
شَعْبَانُ الْمُعَظَّمکی مقدس اور بابرکت راتوں میں سے ایک شعبان کی
پندرہویں رات بھی جو’’شب براء ت ‘‘کے نام سے مشہورو معروف ہے،یہ نورانی رات
امت محمدیہ پر اﷲ تعالیٰ کا خاص کرم ہے ……یہ رات ہر سال آکر چلی جاتی ہے
مگر کتنے غافل اور کاہل ایسے ہیں جو اسے اہمیت نہیں دیتے ، بعض پوری رات
سوکر تو بعض نافرمانیاں کرتے ہوئے یہ رات گزار دیتے ہیں……البتہ ! وہ بندے
بڑے خوش قسمت ہیں جو اس رحمت بھری اور نورونکہت میں ڈوبی ہوئی رات کی قدر
کرتے ہیں اور اپنے کریم رب کو یاد کرتے ہیں،اس کی بارگاہ سے برکت ونور کی
خیرات مانگتے ہیں نیز اپنے گناہوں ، نافرمانیوں اور خطاؤں پرشرمندہ ہوکر
توبہ واستغفار کرتے ہیں۔کیونکہ وہ جانتے ہیں: یہ رات عبادت کی رات
ہے۔جیساکہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا:جب پندرہ شعبان کی رات آئے تو اس
میں عبادت کرو اور دن میں روزہ رکھوبے شک اﷲ تعالیٰ غروبِ آفتاب سے آسمان
دنیا پر خاص تجلی فرماتا اور کہتا ہے:ہے کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا
کہ اُسے بخش دوں !ہے کوئی روزی طلب کرنے والا کہ اُسے روزی دوں!ہے کوئی
مصیبت زدہ کہ اُسے عافیت عطا کروں، ہے کوئی ایسا!ہے کوئی ایسا!! اور یہ اس
وقت تک فرماتا ہے کہ فجر طلوع ہوجائے[سنن ابن ماجہ،الحدیث:۱۳۷۷]
خوش عقیدہ مسلمان اس رات اپنے مرحومین کو بھی نہیں بھولتے اور وہ ان کے لئے
بھی دعائے مغفرت اور ایصالِ ثواب کا اہتمام کرتے ہیں ،بلکہ اس مبارک رات
میں قبور مسلمین کی زیارت کے لئے قبرستان بھی جاتے ہیں۔ارشادِنبوی ہے:’’میں
نے تمہیں زیارتِ قبور سے منع کیا تھا،ا ب قبروں کی زیارت کیاکروکہ وہ دنیا
سے بے رغبت کرتی اور آخرت کی یاد دلاتی ہیں۔[سنن ابن ماجہ ،الحدیث :۱۵۶۰]نہ
صرف عام دنوں میں بلکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی روایت کے مطابق ،حضور
نبی رحمت ﷺ خاص شعبان کی پندرہویں رات(یعنی شبِ برا ء ت میں) مدینے کے
قبرستان’’جنت البقیع‘‘تشریف لے گئے [سنن الترمذی،الحدیث:۷۳۹]
نیز یہ وہ رات ہے جس میں دعائیں قبول ہوتی اور بھلائیوں کے دروازے خاص طور
پر کھول دیئے جاتے ہیں۔چنانچہ،(۱)……رحمت عالم ﷺارشاد فرماتے ہیں، پانچ
راتیں ہیں کہ ان میں دُعارَد نہیں کی جاتی۔ رجب کی پہلی رات، شعبان کی
پندرہویں رات، جمعہ کی رات، عیدالفطر کی رات اور بقر عید کی رات[الجامع
الصغیر ،الحدیث :۳۹۵۲](۲)……ہادی عالم ﷺ نے ارشادفرمایا:اﷲ تعالیٰ جن چار
راتوں میں بالخصوص بھلائیوں کے دروازے کھول دیتا ہے ان میں سے ایک شعبان کی
پندرہویں رات بھی ہے کہ اس رات میں مرنے والوں کے نام اور لوگوں گا رزق اور
اس سال حج کرنے والوں کے نام لکھے جاتے ہیں[تفسیر الدرالمنثور،ج۸،ص۴۰۲]
اس رات کی ایک عظیم خوبی یہ بھی ہے کہ اس شب میں باری تعالیٰ کا دریائے
رحمت جوش پر ہوتا ہے اورعرب کے سب سے زیادہ بکریاں پانے والے قبیلے ’’بنی
کلب‘‘ کی بکریوں کے بالوں کی تعداد کے برابر امتیوں کی مغفرت کردی جاتی
ہے۔مگر افسوس !اس رات بھی کچھ لوگ رحمت وبخشش سے محروم رہتے ہیں ، احادیث
وروایات کے مطابق درج ذیل افراد کی مغفرت نہیں ہوتی:
(1)کافر(2)مسلمان سے عدوات وکینہ رکھنے والا(3)رشتہ کاٹنے والا(4) تکبر کے
ساتھ پاجامہ یا تہبند ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا (5)والدین کا
نافرمان(6)شراب کا عادی[شعب الایمان،الحدیث:۳۸۳۷](7)قاتل[مسند امام
احمد،الحدیث:۶۶۵۳](8)ظلما ٹیکس لینے والا(9)جادوگر
(10)کاہن(11)نجومی(12)ظالم پولیس والا(13)حاکم کے سامنے چغلی کھانے
والا(14)گانے بجانے والا[ماثبت بالسنۃ،ص۳۵۴] (15)زناکا عادی (16)فتنہ
باز(17)چغل خور[مسلمانوں کے درمیان پھوٹ ڈلوانے والا]اور(18)تصویریں بنانے
والا[مکاشفۃ القلوب،ص۳۰۴]
اس رات کے حوالے سے ایک منفی پہلویہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد
جہالت یانادانی کے سبب اس باعظمت اور سراپا خیروبرکت رات میں بھی کھیل کود
اور آتش بازی جیسے شیطانی کاموں میں پڑجاتی ہے اوریہ آتش بازی چلا کرنہ صرف
اس رات کا تقدس پامال کرتے ہیں بلکہ اپنی زبانِ حال سے اس کی فضیلت ورحمت
کا مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں ۔حالانکہ آتش بازی نری فضول خرچی اور گناہ کا
کام ہے ۔بقول مفتی احمد یارخان نعیمی رحمۃ اﷲ علیہ : ’’آتش بازی
بنانا،بیچنا،خریدنا اور خریدوانا،چلانا اور چلوانا سب حرام ہے۔‘‘[اسلامی
زندگی،ص۶۳]……پھر یہ کہ پٹاخون کی شدید آوازیں تلاوت،ذکر،نماز اور دیگر
عبادات میں مشغول لوگوں کوانتہائی تکلیف پہنچاتی ہیں اور اس طرح یہ غافل
لوگ دہرے نقصان سے دوچار ہوتے ہیں کہ ایک طرف تو خود عبادت سے محروم رہے
اور دوسری طرف عبادت گزارمسلمانوں کی تکلیف کا باعث بنے ۔آتش بازی کا ایک
دردناک پہلو یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے ہر سال سینکڑوں حادثات پیش آتے
ہیں،کسی کا گھر جلتا ہے تو کسی کے گھر کا چشم وچراغ اس کی لپیٹ میں آکر موت
کے گھاٹ اتر جاتا ہے،کسی کا پاؤں جلتا ہے تو کسی کا چہرہ جھلستاہے نیزکسی
کی دکان جلتی ہے تو کسی کی گاڑی نذرآتش ہوجاتی ہے ،الغرض یہ آتش بازی جانی
ومالی ہر طرح کے نقصان کا باعث ہے۔ہر مسلمان اس شیطان کام سے دور ہے اور
گھر کے سرپرست کو چاہیے کہ اپنے گھر کے نوجوانوں اور بچوں کو اس فضول اور
گناہ کے کام سے سختی کے ساتھ روکے ۔اﷲ تعالیٰ مسلمانوں کو اصلاح کی توفیق
عطا فرمائے ۔امین۔
صلوۃ التسبیح اور اس کا طریقہ
حضورنبی کریم ﷺ نے اپنے چچاجان حضرت عباس رضی اﷲ عنہ سے ارشادفرمایا:اے
میرے چچا اگر ہوسکے تو صلوۃ التسبیح ہر روز ایک بار پڑھئے اور اگر روزانہ
نہ ہوسکے تو ہر جمعہ کو ایک بار پڑھ لیجئے اور یہ بھی نہ ہوسکے تو ہر مہینے
میں ایک بار اور یہ بھی نہ ہوسکے تو سال میں ایک بار اور یہ بھی نہ ہوسکے
تو عمر میں ایک بار[سننن ابی داؤد،الحدیث:۱۲۹۷]
اس نماز کی ترکیب یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے بعد ثنا پڑھے پھر پندرہ مرتبہ
یہ تسبیح پڑھے:’’سُبْحٰنَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَااِلٰہَ
اِلَّااللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَر‘‘پھراَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ
الرَّجِیْم اوربِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم سورۂ فاتحہ اور کوئی
سورت پڑھ کر رکوع سے پہلے دس بار یہی تسبیح پڑھے پھر رکوع کرے اور رکوع میں
تین مرتبہسُبْحٰنَ رَبِّیَ الْعَظِیْم پڑھ کر پھر دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھے
پھر رکوع سے سر اٹھائے اورسَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ اوراَللّٰھُمَّ
رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْد پڑھ کر پھر کھڑے کھڑے دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھے
پھر سجدہ میں جائے اور تین مرتبہ سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْاَعْلٰیپڑھ کر پھر دس
مرتبہ یہی تسبیح پڑھے پھر سجدہ سے سر اٹھائے اور دونوں سجدوں کے درمیان
بیٹھ کر دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھے پھر دوسرے سجدہ میں جائے اور سُبْحٰنَ
رَبِّیَ الْاَعْلٰی تین مرتبہ پڑھے پھر اس کے بعد یہی تسبیح دس مرتبہ پڑھے
،اسی طرح چار رکعت پڑھے اور خیال رہے کہ کھڑے ہونے کی حالت میں سورۂ فاتحہ
سے پہلے پندرہ مرتبہ اور باقی سب جگہ یہ تسبیح دس دس بار پڑھے یوں ہررکعت
میں 75مرتبہ تسبیح پڑھی جائے گی اور چار رکعتوں میں تسبیح کی گنتی تین
سومرتبہ ہوگی۔تسبیح انگلیوں پر نہ گنے بلکہ ہوسکے تو دل میں شمار کرے ورنہ
انگلیاں دباکر[بہارشریعت ،حصہ ۴،ص۳۲۔۳۳بحوالہ مدنی پنج سورہ،ص۲۷۹ ] |