* کیا "ابراہیمی مذہب" کے نام پر مسلمانوں کی دینی شناخت مٹائی جا رہی ہے؟
* 2020 میں امریکی صدر ٹرمپ کے پیش کردہ "ابراہیمی معاہدہ" اور اس سے جڑے مذہبی بیانیے کو بین المذاہب ہم آہنگی کا نام دیا گیا، لیکن اس کے پیچھے کون سا سیاسی و نظریاتی ایجنڈا ہے؟
* کیا یہ امن کا معاہدہ ہے یا اسلام پر نظریاتی یلغار؟
پروفیسر مسعود اختر ہزاروی کا چشم کشا تجزیاتی کالم — حقائق، اعتراضات اور مسلم علما کی واضح رائے کے ساتھ، ایک معلوماتی اور فکری تحریر، جسے ہر باشعور مسلمان کو ضرور پڑھنا چاہیے۔" />

ابراہیمی معاہدہ یا مذہبی فریب؟

"ابراہیمی معاہدہ" یا مذہبی فریب؟

* کیا "ابراہیمی مذہب" کے نام پر مسلمانوں کی دینی شناخت مٹائی جا رہی ہے؟
* 2020 میں امریکی صدر ٹرمپ کے پیش کردہ "ابراہیمی معاہدہ" اور اس سے جڑے مذہبی بیانیے کو بین المذاہب ہم آہنگی کا نام دیا گیا، لیکن اس کے پیچھے کون سا سیاسی و نظریاتی ایجنڈا ہے؟
* کیا یہ امن کا معاہدہ ہے یا اسلام پر نظریاتی یلغار؟
پروفیسر مسعود اختر ہزاروی کا چشم کشا تجزیاتی کالم — حقائق، اعتراضات اور مسلم علما کی واضح رائے کے ساتھ، ایک معلوماتی اور فکری تحریر، جسے ہر باشعور مسلمان کو ضرور پڑھنا چاہیے۔
ابراہیمی معاہدہ یا مذہبی فریب؟

تحریر: پروفیسر مسعود اختر ہزاروی

گزشتہ چند برسوں سے ایک نیا مذہبی تصور عالمی سطح پر ابھرتا نظر آ رہا ہے، جسے "ابراہیمی مذہب" (Abrahamic Religion) کا نام دیا گیا ہے۔ اس نظریے کو "بین المذاہب ہم آہنگی" اور "عالمی امن" کے پرکشش عنوانات کے ساتھ متعارف کروایا گیا، مگر اس کے پس پردہ عزائم کہیں زیادہ پیچیدہ اور خطرناک ہیں۔ اس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ 2020 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سرپرستی میں اسرائیل، متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش کے مابین ایک اہم معاہدہ طے پایا جسے "ابراہیمی معاہدہ" (Abraham Accords) کا نام دیا گیا۔ جب یہ معاہدہ منظر عام پر آیا تو اس نے مسلم دنیا میں فکری و دینی اضطراب کی ایک نئی لہر کو جنم دیا۔ یہ معاہدہ محض ایک سفارتی پیش رفت نہیں بلکہ اس کے ذریعے ایک "من گھڑت نظریاتی ڈھانچہ" تشکیل دینے کی کوشش کی گئی، جس کا مقصد اسلام، یہودیت اور عیسائیت کو ایک مشترکہ فکری دھارے میں ضم کرنا ہے۔ اب تو بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اس معاہدے کے نتیجے میں متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابوظہبی میں "ابراہیمی فیملی ہاؤس" کے نام سے ایک "مذہبی کمپلیکس" قائم ہو چکاہے، جس میں ایک ہی چھت تلے مسجد، چرچ اور یہودی عبادت گاہ کو اکٹھا کیا گیا ہے، یہ کمپلیکس اس نئی "عالمی مذہبی شناخت" کا علامتی مرکز بن چکا ہے۔ مشرق وسطی کے حالیہ دورے کے دوران 17 مئی 2025 کو ڈونلڈ ٹرمپ نے وہاں جا کر اسے "بین المذاہب ہم آہنگی کی شاندار مثال" قرار دیا۔ سوال یہ ہے کہ آپ نے مسجد اور چرچ کو تو اکٹھا کر دیا، لیکن ایک اللہ اور تین خداؤں کو کیسے جمع کرو گے؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ واقعی ہم آہنگی ہے یا اسلامی شناخت کے خلاف ایک منظم مگر خطرناک یلغار؟ "ابراہیمی مذہب" کے نام سے نیا فکری تصور دراصل دین اسلام کو مسخ کرنے کی ایک خطرناک شکل ہے، جو صرف "بین المذاہب ہم آہنگی" کے خوشنما پردے میں لپٹی ہوئی ہے۔ "ابراہیمی معاہدہ" کو بظاہر مشرقِ وسطیٰ میں امن کا سنگ میل قرار دیا گیا، لیکن اس کا اصل مقصد اسرائیل کو عالمِ عرب میں تسلیم کرانا، فلسطینی مزاحمت کو کمزور کرنا اور اسلامی تشخص کو کمزور کر کے مسلم دنیا میں اعتقادی و تہذیبی رخنہ ڈالنا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد (Jared Kushner) جیرڈ کشنر کی نگرانی میں "Abrahamic Faiths Initiative" کے نام سے ایک بین الاقوامی مہم شروع کی گئی، جس میں یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ مسلمان، یہودی اور عیسائی ایک مشترکہ عقیدے پر اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ اس نظریہ کے تحت اسلامی عقائد کو "بین المذاہب ہم آہنگی" کی صورت میں پیش کر کے ان کی اصل روح کو کمزور کیا جا رہا ہے۔ ہمیں بحیثیت مسلمان اس معاہدے پر شدید علمی و دینی اعتراضات اور تحفظات ہیں (1) قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو "حنیف مسلم" کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ "مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا وَلَٰكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا" (آل عمران: 67) ترجمہ: "حضرت ابراہیم علیہ السلام نہ یہودی تھے نہ نصرانی بلکہ ہر باطل سے جدا مسلمان تھے" یہ آیت مبارکہ واضح طور پر یہ بتاتی ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کا تعلق کسی بھی بعد میں آنے والے مذہب سے نہیں تھا، بلکہ وہ صرف اللہ کے فرمانبردار، توحید پرست اور مسلم تھے۔ لھذا قرآنی فکر اس معاہدے کی نفی کرتی ہے۔ (2) عقیدہ ختم نبوت کی نفی: "ابراہیمی مذہب" کے نظریے میں نبی کریم ﷺ کو آخری نبی تسلیم کرنا شامل نہیں ہے۔ اس میں یہودیت اور عیسائیت کو اسلام کے برابر تسلیم کیا جاتا ہے، حالانکہ اسلام کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں۔ اس اتحاد کو تسلیم کرنے کا مطلب عقیدۂ ختمِ نبوت کے خلاف ایک گہری سازش ہے جو کسی بھی مسلمان کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ (3) فلسطینی کاز سے انحراف: یہ معاہدہ فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت اور ان کی جائز جدوجہد سے غداری ہے۔ مسجد اقصیٰ، القدس شریف، اور فلسطینیوں کی سرزمین پر اسرائیلی ناجائز قبضے کے ہوتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنا اسلامی اصولوں اور اخلاقیات کے منافی ہے (4) اسلام کو محض روحانیت تک محدود کرنا: اسلام صرف ایک مذہب نہیں، بلکہ یہ ایک دین کامل کی صورت میں مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ جبکہ "ابراہیمی مذہب" کے ذریعے اسلام کو صرف اخلاقیات اور چند تصورات تک محدود کرنے کی بھیانک کوشش کی جا رہی ہے۔ (5) مذہب کا سیاسی استحصال: یہ معاہدہ مذہب کو سفارت کاری کا آلہ بنانے کی ایک کوشش ہے، جس میں عرب ممالک کو معاشی ترغیبات دے کر اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے پر آمادہ کیا گیا۔ (6) اکبر کے دینِ الٰہی کی یاد دہانی: اس تصور کو مغل بادشاہ اکبر کے "دینِ الٰہی" سے تشبیہ دی جا سکتی ہے، جو مختلف مذاہب کو ملا کر ایک نیا مذہب بنانے کی ناکام کوشش تھی۔ لھذا آج بھی اس فتنہ کے خلاف جد و جہد کیلئے ابولفضل اور فیضی جیسے وظیفہ خور مولویوں کی نہیں بلکہ حضرت شیخ احمد سر ہندی مجدد الف ثانی رح کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شعوری مزاحمت اور بر وقت جد و جہد کی اشد ضرورت ہے (7) اسلام اس وقت دنیا میں ابھرتا ہوا دین برحق ہے۔ دنیا بھر کے لوگ جوق در جوق اسے قبول کرکے سکون پا رہے ہیں۔ حقیقتاً اسی قبولیت اسلام سے خائف ہو کر یہ سارا ڈرامہ رچایا گیا جو کسی صورت قابل قبول نہیں۔
امت مسلمہ کو چاہیے کہ وہ اس "مذہبی گلوبلائزیشن" کے فریب کو سمجھے اور اسلامی عقائد، شریعت اور تہذیب و تمدن کی حفاظت کے لیے ہر سطح پر متحد ہو کیونکہ اسلام ہر حوالے سے کامل و اکمل سچا دین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جامعہ الازہر کے شیخ احمد الطیب اور دیگر عالمی اسلامی اداروں نے اس معاہدے کو دور حاضر کا "فکری فتنہ" قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کی ہے، اور واضح کیا ہے کہ مذہبی رواداری کا مطلب عقائد حقہ سے دستبرداری ہرگز نہیں۔ آج کا سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ کیا ہم دین کے تحفظ پر پہرہ دیں گے یا عالمی دباؤ میں آ کر اسے محض "ابراہیمی روایت" کا ایک جزو تسلیم کر کے اپنی شناخت کھو دیں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ "ابراہیمی مذہب" اور اس کے اردگرد بننے والا بیانیہ ایک منظم مذہبی و سیاسی پروجیکٹ ہے، جو اسلام کی نظریاتی اساس کو متزلزل کرنے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔ اسلام کی حقانیت سے خوفزدہ طبقات کا بنایا گیا ایک مذہبی فریب ہے، جسے صرف علم، شعور اور دینی وفاداری سے ہی بے نقاب کیا جا سکتا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ "بین المذاہب مکالمہ" اور "عقائد اسلامیہ پر سمجھوتے" میں فرق کو خوب سمجھیں۔ کسی بھی فورم پر، کسی سطح کا بھی بین المذاہب مکالمہ ہو سکتا ہے، لیکن عقائدِ اسلامیہ پر سودے بازی ہرگز قابل قبول نہیں۔
Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 218 Articles with 266995 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More