ایک عرصے سے امریکا طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کوششوں میں
مگن ہے۔امریکا چونکہ افغانستان سے نکلنے کے لیے محفوظ راستے کا متلاشی ہے،
اس کے لیے سب سے بہتر طریقہ طالبان کے ساتھ مذاکرات ہیں۔اس حوالے سے
باضابطہ طور پر قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کو سیاسی دفتر بنانے کی
اجازت دی گئی، تاکہ جتنی جلد ہوسکے طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کیے
جائیں۔طالبان نے قطر میں قائم کردہ اپنے دفتر پر امارت اسلامیہ کے نام سے
جھنڈا لہرایا اور تختی بھی لگائی۔جو کسی صورت بھی مخالفین کو برداشت نہ
تھی۔افغان صدر حامد کرزئی کو قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کا قیام گورا نہ
تھا۔ اس نے ان مذاکرات کی مخالفت شروع کی۔حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ طالبان
سے مذاکرات کے حوالے سے امریکا کا اقدام بدنیتی پر مبنی ہے۔افغان وزیر
خارجہ نے اپنے بیان میں کہا: ”جس انداز میں دفتر کھولا گیا ہے یہ ہمارے اور
امریکی حکام کے مابین طے شدہ معاہدے کی شرائط اور اصولوں کی خلاف ورزی
ہے“۔ا فغان حکام کا کہنا تھا کہ قطر میں طالبان کے دفتر سے امارت اسلامیہ
سیاسیہ کے نام سے لگا جھنڈا اتروایا جائے اور تختی بھی ہٹوائی جائے۔ ان کا
کہنا تھا کہ طالبان کا دفتر اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ اب صرف جنگجوگروہ
ہی نہیں ہیں بلکہ ان کی سیاسی حیثیت بھی ہے۔گزشتہ روز ایک بار پھرافغان
وزارت خارجہ کے ترجمان جانان موسیٰ زئی نے کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ امریکا
کے براہ راست مذاکرات پر ہمیں شدید قسم کے تحفظات ہیں۔ ہم ان مذاکرات کو
روکنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ ہم امن مذاکرات کے حامی ہیں مگر افغان حکومت
کے بغیر مذاکرات قابل قبول نہیں۔ افغان حکومت نے امریکی ایلچی برائے
افغانستان اور پاکستان کے قطر کے دارالحکومت دوحہ پہنچنے پر بھی اعتراض
کرتے ہوئے کہا ہے کہ وضاحت کی جائے کہ کس بنیاد پر اور کن کن اصولوں پر
طالبان جنگجوﺅں سے مذاکرات کےے جارہے ہیں۔افغان حکومت نے طالبان سے براہ
راست مذاکرات پر امریکا سے وضاحت طلب کی ا ور کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ
مذاکرات کے لےے جو اصول اور شرائط طے کےے گئے ہیں ان کے حوالے سے افغان
حکومت کو آگاہ کیا جائے۔
جھنڈے اور تختی کے معاملے میں گرما گرمی آنے کے بعد اطلاعات یہ تھیں کہ
مذاکرات کا معاملہ کھٹائی میں پڑگیا ہے،مذاکرات تعطل کا شکار ہوسکتے
ہیں۔لیکن اتوار کے روز طالبان نے ان خبروں کو مسترد کردیا ہے۔طالبان نے قطر
کے کہنے پر اپنا جھنڈا اتار لیا تاکہ امن کا سفر درست سمت میں جاری رہے اور
امریکا کی خواہش پر مذاکرات کو جاری رکھنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ افغان
طالبان نے ان رپورٹوں کو مسترد کردیا ہے جن میں کہا گیا ہے کہ وہ امریکا و
افغان حکومت کی جانب سے قطر میں کھولے گئے دفتر پر تنقید کے بعد امن
مذاکرات منسوخ کرسکتے ہیں۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے امریکی
روزنامے نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کو مسترد کیا ہے جس میں
طالبان ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ قطر کے دفتر میں جھنڈے
اور بینر کو موجود رکھنا چاہتے ہیں۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے
مطابق نیویارک ٹائمز کی جانب سے نامعلوم طالبان عہدیداران کا بیان ان کی
تحریک کا موقف نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ طالبان کا اپنا ترجمان ہے جو میڈیا
کو معلومات فراہم کرتا ہے۔ نامعلوم افراد کی فراہم کردہ اطلاعات ہمارا موقف
نہیں۔ جبکہ امریکا نے افغانستان سے اپنا بحفاظت انخلاءخطرے میں پڑتا دیکھ
کر امیر قطر سے مدد مانگ لی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور افغانستان
اور پاکستان کے لیے امریکی ایلچی جم ڈوبنز نے دوحہ میں امیر قطر شیخ حماد
بن خلیفہ الثانی سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات 30 منٹ جاری رہی۔ اس ملاقات میں
غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس بات پر غور کیا گیا کہ مذاکراتی عمل کو
کیسے خطرات سے نکالا جائے۔جبکہ افغان جنگ کے واحد امریکی قیدی اور طالبان
کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے امریکی فوجی کی رہائی اب مذاکرات پر منحصر
ہوگئی ہے۔اتوار کے روزامریکی صدر بارک اوباما نے گوانتانامو بے میں قید
طالبان کے اہم کمانڈروں کی رہائی پر رضامندی کا اظہار کر دیا ہے اور طالبان
سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ چار سال قبل اغوا کیے گئے امریکی فوجی سارجنت Bowe
Bergdahl کو بھی رہا کر دیں۔ امریکا کے انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے گریم سمتھ
نے کہا ہے کہ اگر طالبان اور امریکا کے مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں تو پھر
یہ امریکا کی بہت بڑی ناکامی ہو گی جو مزید مشکلات کو جنم دے گی۔ امریکی
ایلچی ڈوبنز، جان کیری کے دوحہ چھوڑنے کے باوجود نہیں گئے اور طالبان سے
مذاکرات کا عمل بحال کرنے کی کوشش میں ہیں۔
واضح رہے کہ تین سال پہلے مغربی ممالک کے نمائندوں نے طالبان کے ساتھ بات
چیت کے لیے قطر کی حمایت حاصل کی تھی۔ نیٹو اور امریکا افغانستان سے باعزت
واپسی کے لیے کوشاں ہیں۔اسی لیے طالبان سے امن معاہدے میں دلچسپی بڑھی
ہے۔برسوں تک افغان حکومت اور اس کے مغربی اتحادی طالبان سے رابطے قائم کرنا
چاہتے تھے لیکن طالبان کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں تھا۔ امریکا اور افغان
امن کونسل کی بڑی ترجیح طالبان کو ایک مستقل جگہ دینا بن گئی تاکہ طالبان
کے ساتھ اعتماد قائم ہو اور مذاکرات میں شرکت کرنے والے طالبان رہنماو ¿ں
کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ افغان امن کونسل 2010 میں کابل میں ایک جرگے کے
بعد قائم کی گئی۔ امن کونسل کو یہ ذمہ داری دی گئی کہ وہ طالبان کے ساتھ
رابطہ قائم کر کے انھیں قیامِ امن کے عمل میں شرکت پر رضامند کرے۔ افغان
حکومت چاہتی تھی کہ طالبان کے لیے ترکی یا سعودی عرب میں دفتر کھولے کیونکہ
ان کے خیال میں یہ ممالک زیادہ اثرو رسوخ رکھتے تھے اور اِن کے کابل کے
ساتھ تعلقات بھی اچھے ہیں۔دوسری طرف طالبان نے دفتر کے لیے قطر کو ترجیح دی
کیونکہ ان کے خیال میں قطر ایک غیر جانبدار ملک ہے جس کے سب کے ساتھ تعلقات
متوازن ہیں۔ قطر کو اسلامی دنیا میں ایک اعلیٰ مقام حاصل ہے اور امریکا بھی
اس پر خوش ہے۔افغان حکام کے مطابق صدر حامد کرزئی نے قطر میں طالبان کے لیے
دفتر کھولنے کی اجازت اس شرط پر دی کہ یہ دفتر زیادہ منظرِعام پر نہیں آئے
گا اور اسے صرف امن مذاکرات کے لیے استعمال کیا جائے گا۔صدر حامد کرزئی یہ
نہیں چاہتے ہیں کہ طالبان اس دفتر کو باقی دنیا سے روابط بڑھانے کے لیے
استعمال کریں۔خیال رہے کہ قطر ان تین ممالک میں شامل نہیں جنھوں نے
افغانستان میں طالبان کی 1996-2001 تک قائم حکومت کو تسلیم کیا تھا۔ طالبان
حکومت کو پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے تسلیم کیا تھا۔لیکن
طالبان کی سابقہ حکومت میں قطر کے ان کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔گزشتہ سال
مارچ میں طالبان نے امریکا سے قیدیوں کے تبادلے کے معاملے پر ہونے والے
مذاکرات منقطع کیے تھے۔ وہ امریکی فوجی ”بوئی برگدہال“ کی رہائی کے بدلے
امریکی جیل گونتاناموبے میں قید پانچ طالبان قیدیوں کی رہائی چاہتے تھے۔
طالبان نے امریکی فوجی کو 2009 میں اغوا کیا تھا۔امریکا نے قطر میں 2011
میں طالبان سے خفیہ ملاقات کی، لیکن چند دن قبل امریکا اور طالبان کے
نمائندوں کے درمیان ہونے والی ملاقات پہلی باضابطہ ملاقات تھی۔امریکا کسی
سمجھوتے کے تحت طالبان کی قید میں اپنے فوجی بوئی برگدہال کی رہائی چاہتا
ہے۔ طالبان گونتاناموبے میں قائم امریکی جیل میں قید سے اپنے ساتھیوں کی
رہائی، پاکستان پر کم انحصار اور بین الاقوامی برادری میں اپنے وقار کو
بڑھانا چاہتے ہیں۔ افغان حکومت طالبان اور پاکستان کے درمیان فاصلہ پیدا
کرنا چاہتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ طالبان پاکستان کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے
خطرے کے بغیر بات چیت میں شریک ہوں۔پاکستانی حکومت یہ دکھانا چاہتی ہے کہ
طالبان ان کے کنٹرول میں نہیں اور طالبان پاکستان میں نہیں بلکہ قطر میں
ہیں۔قطر کی حکومت اصرار کرتی ہے کہ وہ مدد کرنا چاہتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو
ایک لمبے عرصے تک چلنے والی کشیدگی میں کلیدی مذاکرات کار کے طور پر ظاہر
کرنا چاہتی ہے۔ |