ہاں میرے بھائی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

"فرعون آج بھی افزائش نسل کررہاہے"یہ جملہ آج سے دس سال پہلے سنتے ہی ہم سب کلاس فیلوچونک اٹھے تھے۔کلاس ختم ہوئی تو اسی جملے کو موضوع بحث بنائے ہم لوگ ایک نزدیکی کنٹین پر آبیٹھے۔

کینٹین پر بہت زیادہ ہجوم تھا۔لوگ جلدی جلدی آتے ، کھانا کھاتے جبکہ کچھ کھڑے کھڑے سموسے ،پکوڑے اور سینڈوچ وغیرہ کھاتے اور بھاگم بھاگ کنٹین سے باہر چلے جاتے۔

ہم لوگ ایک نکڑ والی ٹیبل کے گرد دائرہ بنا کر بیٹھ گئے۔گفتگو دوبارہ شروع ہوئی تو درمیان میں ایک دوست نے "شی" کرکے سب کو خاموش کرادیا۔کہنے لگا اس اخبار فروش کو دیکھتے رہویہ بہت مشکوک آدمی ہے۔یہ اخبار بیچنے کے بجائے اخبار لہراتا ہوا اندر آتاہے اور تین چار منٹوں میں واپس چلاجاتاہے۔اب کی بار ہم نے غیر محسوس انداز میں کنکھیوں سے اسے دیکھنا شروع کردیا۔

پرانے سلیپر پہنے گندے اور میلے بدبودار کپڑوں میں ملبوس بغل میں اخبار کا بنڈل دبائے وہ کوئی ۴۰ سالہ جوان آدمی تھا۔اس نے جلدی سے کینٹین کا چکر لگایا اور ایک مرتبہ پھر باہر نکل گیا۔ہم سب چوکس ہوگئے کہ شاید کوئی مسئلہ ہے۔یہ شخص کوئی بم وغیرہ تو یہاں نہیں رکھنا چاہتا۔۔۔ہم سب کی آنکھوں میں خوف اتر آیا ۔ ایسا خوف کہ دوسرے لوگوں کے لئے جس کااندازہ لگانا مشکل ہے۔

ہم نے فرعون کی افزائش نسل کا موضوع وہیں پہ چھوڑ کر وہاں سے بھاگنے کی ٹھان لی۔آپس میں کھسر پھسر کی اور کینٹین والے کو آگاہ کرنے کے بارے میں آپس میں مشورہ کیا۔ابھی ہم لوگ اٹھنے ہی والے تھے کہ وہ شخص پھر اسی رفتار سے دھیمے دھیمے اندر داخل ہوا اور ہم نے بھی غیر محسوس طریقے سےدوبارہ اسے دیکھنا شروع کردیا۔

اب کی بار ہم یہ دیکھ کر بہت افسردہ ہوگئے کہ وہ شخص کینٹین کی میزوں پرروٹی کے بچے کچھے ٹکڑے جلدی جلدی کھاکر بھاگ جاتا تھا تاکہ کنٹین والا اسے کچھ نہ کہے۔

فرعون کی افزائش نسل کی بات ایک مرتبہ پھر وہیں رہ گئی اور ہم اداس دلوں اور نم آنکھوں کے ساتھ کینٹین سے باہر نکل آئے۔

راستے میں ایک دوست بولا کہ بھوک کے ستائے ہوئے اس آدمی کے بیوی بچے بھی ہونگے۔اب اگر ایسا آدمی پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے کسی کی جیب کاٹے،خود کش دھماکے پر اتر آئے یا ۔۔۔
تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔

کچھ دنوں کے بعد میں نے ایک کمرشل پلازے میں کچھ لوگوں کو "چور"چور" کہہ کر ایک آدمی کی پٹائی کرتے دیکھا،لوگوں نے ہلکی پھلکی پٹائی کے بعد اس کی تلاشی لی۔"چور" کی میلی کچیلی جیکٹ سے ایک خشک روٹی کا ٹکڑا برآمد ہوا۔ایک شخص بولا کہ یہ میرے ہوٹل سے چرا کر لایا ہے۔یہ اس طرح روٹیاں اکٹھی کر کے بیچناچاہتاہے لیکن چور نے قسم کھاکر کہا کہ وہ دودن سے بھوکا ہے اس نے یہ روٹی کھانے کے لئے چرائی ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ میں نے نادرا کے دفتروں کے باہر ان غریبوں کو جون اور جولائی کی تڑخا دینے والی دھوپ میں جھلستے ہوئے دیکھاہے جن کے پاس ڈبل اور ٹرپل فیس نہیں تھی۔اس کے علاوہ گزشتہ چند سالوں میں مجھے ایسے بہت سارے سرکاری سکولوں کو دیکھنے کا موقع ملا ،جن میں کبھی استاد آتے ہی نہیں اور تنخواہیں لیتے ہیں ،اسی طرح ۔۔۔

گزشتہ دنوں ایک بین الاقوامی تعلیمی ادارے میں"تعلیم و تربیت" کے عنوان سے ایک سیمینار کے دوران میری ملاقات اپنے اس قدیمی دوست سے ہوگئی جس کا دعویٰ تھاکہ فرعون آج بھی افزائش نسل کررہاہے۔

میرا یہ دوست خاندانی طور پر زمیندارہے۔میں نے پوچھا تمہاری زمینوں کا کیا حال ہے ،اس نے کہا کہ اب زمینیں بھی فرعون کی اولاد نے ہتھیا لی ہیں۔

میں نے پوچھا وہ کیسے ؟اس نے کہا لوڈشیڈنگ کے باعث موٹر تو چلتی نہیں کہ ٹیوب ویل سے پانی نکالے اور مہینے کے بعد ۴۵سے ۵۰ ہزار روپےکا"بِل" آجاتاہے۔اگر یہ بِل ادا نہ کیا جائے تو اگلے مہینے موٹر کاکنکشن کاٹ دیا جاتاہے۔نیاکنیکشن لگوانے کے لئے لاکھوں روپے چاہیےہوتے ہیں۔یہ کہہ کر وہ مسکرایا اور بولا پہلے تو زمیندار لوگ مویشی بیچ کر "بِل" ادا کرتے تھے اور اب تو مویشی بھی اتنے نہیں رہے کہ سرکار کا پیٹ بھر سکیں۔

میں نے پوچھا پھر۔۔۔؟

اس نے کہا کہ پھر یہ کہ اب تیزی سے زمینیں بنجر اور غیر آباد ہورہی ہیں۔لوڈ شیڈنگ کے باعث صنعت کا بھرکس نکل گیا ہے اور ملکی معیشت صرف چند خاندانوں کی مٹھی میں بند ہوکر رہ گئی ہے۔

میں نے کہا کیا نئی حکومت کوئی حل نکالے گے ،اس نے کہا میرے بھائی ! ہمارے ہاں ووٹوں کے صندوق سے صرف فرعون ہی برآمد ہوتے ہیں۔

کیا نئی حکومت اور کیا پرانی حکومت ،جس ملک میں قدرتی ذخائر کی بھر مار ہو لیکن اس پر فرعونوں کی حکومت ہو وہ ملک کیا ترقی کرے گا۔

ماضی کا فرعون بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کرتا تھا،آج کافرعون پاکستانیوں کے بچوں کو قتل کررہاہے۔کچھ بچے تعلیم حاصل نہیں کرپاتے اور جہالت کی موت مارے جاتے ہیں،کچھ کو دہشت گرد بنایاجاتاہے اور کچھ کو ماں باپ لاکھوں جتن کرکے مشکل سے پڑھاتے ہیں اور وہ ڈاکٹر ،انجینئر یا عالمِ دین بننے کے بعددہشت گردی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں،کچھ کی لاشیں بوری میں بند ملتی ہیں اور کچھ کی لاشیں ناقابلِ شناخت ہوتی ہیں۔

یہ کہہ کر وہ کچھ دیر کے لئے رکا اور پھر بولا کہ ملت پاکستان کے بچے بھوک ،افلاس ،جہالت،پسماندگی اور دہشت گردی کے شکار ہورہے ہیں جبکہ فرعونوں کے بچے رنگ رلیاں بنا رہے ہیں۔

پاکستانیوں کی نسلِ نو مہنگائی ،بے روزگاری اور جہالت و دہشت گردی کے ہاتھوں مٹ رہی ہے اور فرعونوں کی افزائش نسل ہورہی ہے۔

شاید ہم تاریخ بشریت کےوہ بد قسمت لوگ ہیں کہ جو علم ،شعور ،تہذیب اور آگاہی کے اس دور میں بھی فرعونوں کے عہد میں جی رہے ہیں اور فرعونوں کی خدمت کررہے ہیں۔

میں نے یہ سنا تو دس سال بعد بے ساختہ میری زبان سے یہ جملہ نکلا کہ ہاں میرے بھائی جہاں پر فرعونوں کی افزائش نسل ہورہی ہو اورہر ادارے میں فرعونوں نے انڈے اور بچے دے رکھے ہوں وہاں پر زمینیں سیراب اور لوگ خوشحال نہیں ہوا کرتے۔

نذر حافی
About the Author: نذر حافی Read More Articles by نذر حافی: 35 Articles with 32360 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.