جاوید ہاشمی ایک با عزت سیاستدان

جناب جاوید ہاشمی نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے کیا اور بحثیت سٹوڈنٹ اپنی سیاسی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔دیگر مخدومین مولتان کی طرح آپ بھی ضیاء الحق کے دور حکومت میں اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے اور پھر پاکستان مسلم لیگ سے وابستہ ہوگئے مگر پوٹھوہار گروپ کے سرپرست اعلیٰ جناب چوہدری نثار نے آپ کی پارٹی وابستگی اور قربانیوں کے علاوہ اعلیٰ سیاسی صلاحیتوں کے باوجود پارٹی قیادت کو آپ کے قریب نہ آنے دیا۔اس میں شک نہیں کہ جاوید ہاشمی نے مسلم لیگ نواز سے اپنی سیاسی وابستگی اور شریف خاندان کیساتھ بے لوث یگا نگت اور ہمدردی کی اعلیٰ مثالیں پیش کیں جبکہ شریف برادران کو بے اقتدار اور بے وطن کرنے کے بنیادی لوازمات جناب چوہدری نثار نے ہی مہیا کیے مگرہمیشہ کی طرح زیر عتاب جاوید ہاشمی ہی رہے۔شریف برادران جب اٹک قلعے میں بند تھے تو ان کے وزیر مشیر اور حلوے مانڈے کھانے والے دوست یار مشرف کی قربت کے راستے تلاش کر رہے تھے۔جنرل مشرف نے میاں اظہر سے ق لیگ کی بنیاد رکھوائی اور پھر تعمیر کا ٹھیکہ چوہدریوں کو دے دیا چونکہ جسطرح کی لیبر جنرل مشرف کو درکار تھی اسطرح کا تجربہ اور مین پاور میاں اظہر کے پاس نہ تھی۔چوہدری صاحبان اور جنرل مشرف نے ایک طویل وننگ کھیلی اور پھر دونوں ہی جناب زرداری کے ہاتھوں آؤٹ ہوگئے۔جنرل مشرف پر میچ فکسنگ کا مقدمہ چل رہا ہے اور چوہدری پھر کسی نئی ٹیم کے انتظار میں ہیں۔

ہر شخص جانتا ہے کہ جنرل مشرف کو آرمی چیف کے عہدے پر تعینات کروانے والوں میں جناب چوہدری نثار کا اہم رول تھا اور ان کے بھائی جنرل افتخار جنرل مشرف کے قریبی ساتھیوں میں شمار تھے۔جنرل مشرف اور میاں برادران میں چپقلش کا اہتمام بھی چوہدری نثار اور جناب مشاہد حسین سید نے کیا اور جنرل مشرف کو ایک انکوکھے اور تضحیک آمیز انداز سے آرمی چیف کے عہدے سے ہٹانے کا پروگرام ترتیب دیاجو نہ صرف میاں نواز شریف کی بے اقتداری بلکہ جلا وطنی کا باعث بن گیا۔دیکھنے والوں نے دیکھا کہ مسلم لیگ کے سارے کھوٹے سکے جنرل مشرف کی ٹکسال میں ڈھلکر کھرے ہوگئے اور یک زبان ہوکر میاں صاحبان کی برائیاں بجانے والے بینڈ کا حصہ بن گئے ۔شیخ رشید کے سگار کا سائیز بڑا اور کوالٹی اچھی ہوگئی۔زبان کی تراوٹ اور چہرے کا نکھا ربھی کھل گیا اور انداز و اطوار میں بھی نمایاں تبدیلیاں آگئیں۔شیخ رشید نے فتویٰ جاری کیا کہ جنرل مشرف کو سید پرویز مشرف لکھا اور پکارا جائے۔چوہدریوں نے جنرل مشرف کا اور جنرل مشرف نے چوہدریوں کا بھر پور ساتھ دیا اور ایک دوسرے کے خزانے بھرنے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔میاں اظہر اور اعجاز الحق سے لیکر مشاہد حسین سید تک ہر کسی نے میاں صاحبان کا ساتھ چھوڑا مگر مخدوم جاوید ہاشمی نے بیگم کلثوم نواز سے ملکر نہ صرف مسلم لیگ نواز کے وجود کو بر قرار رکھا بلکہ شریف خاندان کی تکلیفوں اور مشرف حکومت کی طرف سے عائد کردہ سختیوں اور پابندیوں سے بھی پاکستانی عوام اور عالمی میڈیا کو باخبر رکھا۔

جنرل مشرف نے مسلم لیگ (ن)کے سرکردہ لیڈروں پر ظلم ڈھائے،انھیں جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا اور ہر طرح کی تضحیک اور تذلیل کی مگر جناب چوہدری نثار اپنے عالیشان محل میں ہی رہے جسے ہاؤس اریسٹ کا نام دیا گیا تاکہ چوہدری صاحب کا نام غازیوں اور شہیدوں کی فہرست میں شامل کیا جاسکے۔دوسری جانب جاوید ہاشمی،رانا ثناء اﷲ اور خواجہ سعد رفیق سمیت دیگر کارکنوں کے ساتھ عادی مجرموں جیسا سلوک ہوا اور ان پر بے رحمانہ اور ظالمانہ تشدد کیا گیا۔جناب جاوید ہاشمی پر تشدد کرنے کے بعد انتہائی خستہ اور زخمی حالت میں ان کی بیٹیوں سے ملایا گیا تاکہ باپ کی حالت دیکھ کر بیٹیوں کے حوصلے ٹوٹ جائیں اور وہ جنرل مشرف کے ساتھ کوئی ڈیل کرکے اپنے باپ کو رہائی دلا سکیں مگر بہادر باپ کی بہادربیٹیوں نے ہمت نہ ہاری اور نہ ہی مخدوم جاوید ہاشمی کی باہمت ہمسفر نے اپنے جیون ساتھی کی حالت زار دیکھ کر آنسو بہائے۔مجھے یقین ہے کہ جنرل مشرف کے اہلکاروں اور ظلم کرنے پر مامور رہنے والے جن افسروں نے جاوید ہاشمی اور ان کے خاندان کی اس ملاقات کی رپورٹ جب بزدل جنرل کو دی ہوگی تو اسکا حوصلہ ضرور ٹوٹ گیا ہوگا۔ایسی ہی کہانی خواجہ سعد رفیق اور رانا ثناء اﷲ کی بھی ہے مگر میاں نواز شریف کے دربار میں جو مرتبہ و مقام رانا صاحب اور خواجہ صاحب کا ہے اسکا عشر عشیر بھی مخدوم جاوید ہاشمی کے حصے میں نہیں آیا۔

جناب جاوید ہاشمی نے مسلم لیگ چھوڑ کر کوئی بے وفائی نہیں کی چونکہ جس گھر میں عزت نہ ہو اسے جلانے سے بہتر ہے اسے چھوڑ دیا جائے۔گھر مدتوں کی محنت سے بنتے ہیں اور صدیوں تک قائم رہتے ہیں جبکہ مقیم بدلتے رہتے ہیں۔مسلم لیگ کے خالق نواب سلیم اﷲ خان آف ڈھاکہ کا خاندان کشمیر سے ہجرت کرکے پٹنہ،بیار اور پھر بنگال پہنچا جہاں آپ کے بزرگوں نے محنت اور لگن سے کام کیا اور اپنی لیاقت کے بل بوتے پر بنگال کے نوابین میں شامل ہوگئے۔نواب سلیم اﷲ خان کا لگایا ہوا پودا تناور ہوا تو قائد اعظمؒ نے اس کی حفاظت کا بیڑا اٹھایا اور سارے ہندوستان کے مسلمانوں کو اس کے سائیہ آفیت میں جمع کرکے مسلمانوں کیلئے ایک الگ وطن کے خواب کو حقیقت میں بدل دیا۔قائد اعظمؒ کے بعد مسلم لیگ کے حقیقی وارث قائد کے وہ ساتھی تھے جو بغیر کسی لالچ و ہوس کے ہر مشکل میں قائد کے سپاہی بن کر رہے اور مسلم لیگ کو تقسیم ہونے سے بچائے رکھا۔قائد اعظمؒ کی رحلت کے بعد مسلم لیگ پر وہ کھوٹے سکے قابض ہوئے جن کے متعلق قائد نے خود فرمایا تھا کہ جو کچھ دن کی روشنی میں مسلم لیگ کے دفتر میں ہوتا ہے یہ لوگ رات کی تاریکی میں اسے ماؤنٹ بیٹن کی خدمت میں پیش کرتے ہیں اور پھر گاندھی اور نہروں اسکا توڑ نکالتے ہیں۔

دیکھا جائے تو آج بھی مسلم لیگ کھوٹے سکوں کی دکان ہے جہاں پر کوئی جدی پشتی لیگی بنا اپنی سٹاک مارکیٹ چلا رہا ہے۔اورتو اور اس ملک میں ڈکٹیٹروں نے بھی مسلم لیگ ہی کا سہارا لیا اور دس دس سال تک قائد اعظمؒ کے جانشین بنے رہے۔جس مارکیٹ میں پلاسٹک کے سکے چلتے ہوں وہاں جاوید ہاشمی جیسے کھرے شخص کی کیا وقعت ہوسکتی تھی؟ مگر یہ جاوید ہاشمی کا ہی حوصلہ ہے کہ وہ کئی دہائیوں تک اس مارکیٹ میں ڈٹا رہا اور آخر کار مایوس ہوکر ایک ایسے کھلاڑی کی ٹیم کا حصہ بنا جو سوائے اپنی ذات کے کسی اور کی عزت کرنا ہی نہیں جانتا۔جاوید ہاشمی کا مسلم لیگ چھوڑنا ایک درست اقدام تھا مگر عمران خان کی ٹیم میں جنا ایک فاش غلطی تھی۔جاوید ہاشمی جیسے سنجیدہ اور باوقار سیاستدانوں کیلئے تحریک انصاف کسی طور ایک موزوں اور مناسب پلیٹ فارم نہیں جہاں فیصلوں کا فقدان اور اقرباء پروری کا راج ہے عمران خان نے پارٹی الیکشن کی آڑ میں سنجیدہ اور وفادار لوگوں کو ڈمپ کیا اور نمائشی غریبوں اور محنت کشوں کو ضلعی عہدے دیکر سستی شہرت حاصل کی۔جب الیکشن کا وقت آیا تو پرویز خٹک جیسے ارب پتی سمیت اپنے دوستوں یاروں اور امیر کبیر لوگوں پر ٹکٹ نچھاور کیے جن میں زیادہ تعداد انھی لوگوں کی ہے جو پیپلز پارٹی اور ق لیگ کے دور میں وزیر مشیر رہے یا پھر ضیاالحق اور پرویز مشرف کے آستانوں پر پھول نچھاور کرتے رہے۔کوہاٹ کا ٹیلر ماسٹر،ایبٹ آباد کا پینٹر اور لاہور کے سفید پوش لیڈی ڈاکٹر صرف اشتہاروں کی زینت بنے اور اسمبلیوں میں جاگیرداروں،بیورو کریٹوں،سرمایہ داروں اور نوابوں کے بچے گئے۔

جہاں تک جاوید ہاشمی کے بیان کا تعلق ہے تو جناب ہاشمی نے سچ کہا کہــ ’’ نواز شریف میرا کل بھی لیڈر تھا اور آج بھی ہے‘‘۔مگر وہ یہ بھی کہہ دیتے کہ اس لیڈر نے میری قدر نہ کی اور ایک مخصوص اور مفاد پرست ٹولے نے میرے لیڈر کو نفسیاتی طور پر یرغمال بنائے رکھا۔جناب ہاشمی کو یہ بھی کہنا چاہیے تھا کہ کاش قائداعظمؒکا گھر سلامت رہتا اور اس گھر میں قائد اعظم کے حقیقی سیاسی جانشین مقیم ہوتے مگر ایسا نہ ہوا اور آج مجھے اپنے لیڈر کے خلاف ایک نمائشی الیکشن لڑنا پڑا۔ جاوید ہاشمی کو یہ بھی کہنا چاہیئے تھا کہ جناب نواز شریف میرے سیاسی لیڈر تھے مگر جناب سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ میرے سیاسی اور اخلاقی استاد تھے۔کل تک جناب نواز شریف میرے سیاسی لیڈر تھے چونکہ میں ان کی پارٹی میں تھا۔آج وہ اسلئے لیڈر ہیں کہ قوم ان کی حق میں فیصلہ دیا ہے اور انھیں اپنا لیڈر چنا ہے۔

جیسا کہ کچھ سینئر کالم نگاروں اور دانشوروں نے لکھا ہے کہ عمران خان نے جناب جاوید ہاشمی کو گھر بلا کر بے عزت کیا ہے اور پھر تحریک انصاف کے گالم گلوچ بریگیڈ نے سوشل میڈیا پر بیہودگی کی بمباری کرکے جناب جاوید ہاشمی کو اپنا بیان واپس لینے پر مجبور کر دیا۔جناب جاوید ہاشمی نے اپنی پریس کانفرنس میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ان کے حلقے کے نوجوانوں نے ان پر پریشر ڈالا ہے اور بیان واپس لینے پر مجبور کیا ہے۔جناب جاوید ہاشمی نے شاید یہ پہلا سیاسی جھوٹ بولا ہے چونکہ ملتان کے لوگ میٹھی زبان اور فقیرانہ اطوار کے وارث ہیں۔وارث شاہ،بہاالدین ذکریاؒ بابا فریدؒاور شاہ رکن عالمؒ کی زبان میں گالی تو کجا جھڑک بھی نہیں۔میں چار سال تک پنجاب یونیورسٹی میں رہا اور سیاسیات اور ابلاغ عامہ میں ماسٹر کیا اور پھر دو سال بہاالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان میں رہا اور ایم فل کیا میرے مشاہدے کے مطابق ملتانی اور لاہوری کلچر کے الگ الگ رنگ اور ذائقے ہیں۔ملتان والے اپنے مخدوموں کے دروں پر سر جھکاتے ہیں ان کے سامنے زبان نہیں چلاتے۔یہ ممکن ہے کہ وہ الیکشن میں جاوید ہاشمی کو ووٹ نہ دیں مگر وہ کبھی بھی جاوید ہاشمی جیسے با ادب اور با اخلاق شخص کے خلاف زبان نہیں چلائینگے۔جناب ہاشمی سے درخواست ہے کہ وہ عمران خان کی خیراتی سیٹ چھوڑ کر اپنے عوام کے پاس جائیں اور انھیں سچ بتائیں۔مجھے قوی امید ہے کہ درویشوں اور ولیوں کی سرزمین کے وارث نہ صرف جاوید ہاشمی کے سرپرفتح کا تاج رکھیں گے بلکہ سارے ملتان کے لوگ انھیں سر پر بٹھا کر اسمبلی ہال تک چھوڑنے آئینگے۔میں اپنی اس تحریر کی وساطت سے اھل ملتان سے بھی درخواست کروں گا کہ وہ اپنے مخدوم کو تحریک انصاف چھوڑنے اور سیٹ سے الگ ہونے پر مجبور کریں اور جن لوگوں نے ان کے لیڈر کو گالیاں دیں،بے عزت کیا ان کے مقابلے میں جاوید ہاشمی کو کامیاب کرکے تکبر اور رعونت کو شکست فاش دیں۔

جناب جاوید ہاشمی کی پریس کانفرنس درحقیقت تکبر کی سیاست اور بیہودہ کلچر کا ماتم تھا جس نے ساری قوم کو دکھی کر دیا۔بہت سے دانشوروں نے اس موضوع پر لکھا اور سبھی کی متفقہ رائے ہے کہ جو سلوک عمران خان نے جاوید ہاشمی کے ساتھ کیا ایسا سلوک شائد جنرل مشرف نے بھی نہ کیا ہو۔مشرف نے ہاشمی صاحب پر ذہنی اور جسمانی تشدد کیا مگر بے عزت نہ کیا۔میاں برادران نے جناب ہاشمی کو انکاجائیز سیاسی مقام نہ دیا مگر کبھی گھر بلا کر برا بھلا نہ کہا۔جناب ہاشمی نے پارٹی لائن سے ہٹ کر بیان دیے مگر انھیں مجرموں کی طرح طلب نہ کیا۔دیکھنا ہے کہ جناب ہاشمی اگلی پریس کانفرنس کب کرتے ہیں اور اپنی عزت کی بحالی کے لئے سچ کب بولتے ہیں؟

asrar ahmed raja
About the Author: asrar ahmed raja Read More Articles by asrar ahmed raja: 95 Articles with 100212 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.