کابینی توسیع میں مسلمان ایک بار نظر انداز:کانگریس کو صرف ان کا ووٹ چاہئے

کانگریس کی نظر میں مسلمانوں کی اوقات کیا ہے ایک بار پھر اس نے ثابت کردیا ہے۔حالیہ کابینی توسیع میں اس نے ایک بھی مسلم چہرہ کو جگہ نہ دے کر یہ واضح کردیا ہے اس کے پاس کے ان کے لئے ٹوٹے پھوٹے الفاظ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ خصوصااس وقت جب کہ پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات اور اگلے سال لوک سبھا کے عام انتخابات سر پر ہیں۔ہندوستان کی تمام سیاسی پارٹیاں اسی کے مدنظر اپنی پالیسی اور حکمت عملی ترتیب دے رہی ہیں۔ تمام پارٹیوں کی ترجیح مسلم ووٹوں کے حصول پر ہے کیوں کہ مسلمانوں کا ووٹ جس کی جھولی جائے گا حکومت اسی کی بنے گی۔ مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرنے کے لئے تمام پارٹیاں کوشش تو کرتی ہیں مگر مسلمانوں کو اپنی پارٹی میں مناسب جگہ دینے کے لئے تیار نہیں ہوتی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایک بھی مسلمان کو جنرل سکریٹری کا عہدہ نہیں دیاہے۔ دو چہرے کبھی کبھی نظر آتے ہیں ان میں سے ایک کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ مسلمان نہیں ہے کیوں کہ وہ’’ شدھی‘‘ کے دور سے گزر چکے ہیں۔ ایک مسلمان ہے جس کے دل میں تھوڑا بہت درد بھی ہے وہ مسلمانوں کا کام بھی کرتے ہیں لیکن پارٹی میں صرف ایک ترجمان کی حیثیت ہے اور مسلمانوں کے بارے صفائی دینی ہوتی ہے یا اسی طرح کاکچھ اور کہنا ہوتا ہے تو انہیں سامنے لایا جاتا ہے۔ سماج وادی پارٹی میںیوں تو مسلمانوں کی کمی نہیں ہے اور 42 ممبران اسمبلی بھی ہیں لیکن حالیہ عرصہ میں سب سے زیادہ ظلم مسلمانوں پر ہی ہوا ہے اور ہورہا ہے جو اس سے پہلے سننے میں نہیں آرہاتھا۔ یوپی کے بعض علاقوں میں مقامی انتظامیہ کی مدد سے ’ہندو یووا واہی‘مسلم لڑکیوں کا اغوا کرکے جبراً ان کاتبدیلی مذہب کرارہے ہیں۔ اس طرح کے واقعات یوپی کے پڈرونہ اور گورکھپور کے آس پاس کے علاقوں میں ہور ہا ہے۔ اردو میڈیا میں خبریں بھی آرہی ہیں لیکن اترپردیش کے ’غیرت مند‘ مسلم لیڈر، زمین و آسمان کے قلابے ملانے والے کچھ علماء خاموش ہیں۔ ہندوستانی میں مسلمانوں کی حیثیت آزادی کے بعد سے صرف استعمال کرنے والی شئی کی رہی ہے اورہر پارٹی نے اسے استعمال کیا اور اٹھاکر پھینک دیا۔ اس کا ثبوت اترپردیش کی سماج وادی پارٹی ہے جس نے اقتدار تو مسلمانوں کے ووٹ سے حاصل کیا لیکن کام انہوں نے ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف کیا ہے۔ گجرات کے بعد اترپردیش اب دوسرا تجربہ گاہ بننے جارہے ۔ہماری نظر چھوٹے موٹے واقعات کی طرف نہیں جاتی اور اس وقت تک ہم اپنی آواز بلند نہیں کرتے جب تک کہ کوئی بڑا سانحہ پیش نہ آجائے ۔ حالانکہ چھوٹے موٹے واقعات ہی بڑے سانحات کے پیش خیمہ ہوتے ہیں۔ اگر مسلمان خود کو سانحات کی بھٹی میں جھونکنے سے بچاناچاہتے ہیں تو انہیں سب سے پہلے چھوٹے موٹے سانحات کا نشانہ کے خلاف اترنا ہوگا ۔ ہمارا رویہ چھوٹے موٹے واقعات کو نظر انداز کرنے کا ہوتا ہے اور اس کے پیچھے ہماری سوچ یہ ہوتی ہے کہ یہ تو انفرادی، علاقائی اور جزوی یا سماجی معاملہ ہے اس پر کیا توجہ دیں۔ ہماری خاموشی ہی ہمارے دشمنوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ مرکزی حکومت کی کابینہ میں حالیہ توسیع اور نئے چہرے کی آمد ، مسلمانوں کو پوری طرح نظر انداز کردینا اور اس پر ہماری خاموشی ہماری بے بسی کو اجاگر کرتی ہے۔

مرکزی کابینہ میں جن آٹھ چہروں کو شامل کیاگیا ہے ان میں سے ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔ جتنے کو شامل کیاگیا ہے اس اہمیت کے ساتھ شامل کیاگیاہے کہ وہ 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں پارٹی کی نیا کو پار لگائیں گے۔ 85 سالہ سیس رام اولا کو کابینی وزیر بنایا گیاہے تاکہ راجستھان میں جاٹ ووٹ محفوظ رہے۔ سیس رام اولا جھنجھنو سے پارلیمنٹ کے ممبر ہیں۔ راجستھان میں بی جے پی کی لیڈر اور سابق وزیر اعلی وسندھرا راجے نے کانگریس کے اشوک گہلوت حکومت کے خلاف تحریک چھیڑ رکھی ہے اور وہاں کی خواتین کو اپنی طرف راغب کر رہی ہیں اس کے لئے کاٹ کے لئے محترمہ گرجا ویاس کو کابینہ میں جگہ دی گئی ہے تاکہ وہ راجستھان میں وسندھرا راجے کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکیں۔ اسی طرح اڑیسہ، آندھرا پردیش، کرناٹک اور دیگر ریاستوں سے نمائندگی دی گئی ہے تاکہ اس ریاست میں یہ وزرائے کانگریس کے لئے ووٹ کا انتظام کرسکیں۔ آندھرا پردیش میں جہاں کانگریس کو تیلگودیشم پارٹی اور جگن ریڈی کی وائی ایس کانگریس سے زبردست چیلنج ہے وہاں تلنگانہ معاملہ نے اسے ناک میں دم رکھا ہے اور آئندہ لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کو زبردست خسارہ اٹھانا پڑسکتا ہے۔ اسی کو کچھ کم کرنے کیلئے آندھرا پردیش سے راجیہ سبھا کے ممبران جے ڈی سیلم کو وزیر بنایا گیاہے۔گاندھی خاندان کے انتہائی قریبی اور معتبر آسکر فرنانڈیز کو بھی پارٹی تنظیم سے کابینہ میں شامل کیا گیا ہے۔ کرناٹک کے اسمبلی انتخابات کی کامیابی ان کا کردار اہم رہا تھا۔ پنجاب میں مسلسل دوسری بار اپنی حکومت تشکیل کرکے سابقہ روایت کو توڑنے والی اکالی دل کا پنجاب میں مقابلہ کرنے کے لئے سنتوش چودھری کو کابینہ میں جگہ دی گئی ہے تاکہ وہ پنجاب میں کانگریس کی لاج کو بچاسکیں۔تمام چہرے پر نظر ڈالیں تو یہ بات صاف ہوتی ہے کہ کانگریس نے جتنے بھی چہرے سامنے لائی ہے ووٹ کے مدنظر ہی ہیں۔ ملک ارجن کھرگے کو وزارت محنت سے ریلوے وزارت میں بھیجنا ان کو مطمئن کرنے کے لئے کیا گیا ہے کیوں کہ کرناٹک کے وزیر اعلی کے طور پر ان کا بھی نام سرفہرست تھا لیکن وزیر اعلی کے عہدہ سدا رمیاہ کے حصے میں آیا اس لئے وہ ناراض چل رہے تھے اب ان کو وزارت دیکر نہ صرف ان کو بلکہ ان کی کمیونٹی کو مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔مسلمانوں کو کانگریس نے اپنابندھوا مزدور سمجھ لیا ہے یا مسلم لیڈروں نے سمجھا دیاگیا ہے اس لئے انہیں کسی قابل نہیں گردانا گیا۔

اول تو کانگریس میں وہی مسلمان جگہ پاتے ہیں جو نام کے مسلمان ہوں۔ کانگریس میں جتنے وزراء ہیں انہیں آپ خالص مسلمان نہیں کہہ سکتے ہیں۔ کچھ ایک تو صرف نام کے مسلمان ہیں۔ دو کابینی وزیر ایسے ہیں جو مسلمانوں کا کوئی کام نہیں کرتے۔ ایک کا تعلق کا جموں و کشمیر سے ہے تو دوسرے کا یوپی سے۔ جموں و کشمیر کے وزیر کا یہ حال ہے کہ اگر کشمیر سے کوئی اپنا چھوٹا موٹا کام لے کر آتے ہیں تو وہ ان سے ملنا بھی گوارہ نہیں کرتے بلکہ دوسرے دروازے نکل جاتے ہیں۔ اردو کے فروغ کے لئے منعقدہ ایک کانفرنس میں جسٹس سہیل اعجاز صدیقی نے کہا تھاکہ مسلمان مسلمان کا کام نہیں کرتے۔ جتنے کام بھی خواہ وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تعلق رکھتا ہو یا محمد علی جوہر یونیورسٹی سے تمام کاموں میں ان کے غیر مسلم احباب نے ان کا ساتھ دیا۔ ترقی پسند اتحاد کی پہلی میعاد میں بہار کے ایک وزیر تھے جنہوں نے ہمیشہ برہمنوں کا کام کیا تھاجب الیکشن کا وقت آیا تو ان میں سے کسی نے بھی انہیں ووٹ نہیں دیا تھا۔ اس بار بھی اگر وہ وہاں انتخاب لڑے تو انہیں شکست ہی ملے گی۔ مسلمانوں میں بھی تھوڑی بہت عقل آرہی ہے اور وہ انہی کو ووٹ دیں گے جو ان کا کام کریں گے۔ کانگریس کے مسلم لیڈر ہمیشہ مسلم ووٹ کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں۔ وہ تصورکرتے ہیں اور خام خیالی میں رہتے ہیں کہ مسلمانوں کو کانگریس کے علاوہ دوسروں کو ووٹ نہیں دینا چاہئے۔اپنی بھلائی کو پورے مسلمانوں کی فلاح و بہبود سمجھتے ہیں۔ اسی لئے وہ کبھی مسلمانوں کی ترقی کے بارے میں بات نہیں کرتے۔

حسب سابق اس بار بھی کابینہ میں مسلمانوں کو نظر انداز کیا گیا۔آٹھ نئے وزرائے میں ایک بھی مسلمان کا نام شامل نہیں ہے۔اس کابینی توسیع کو آْخری توسیع تصور کیا جارہاہے مگر بہار کو کانگریس نے مکمل طور پر نظرانداز کردیا ہے۔اس وقت بہار کوٹے سے کوئی مرکزمیں وزیر نہیں ہے۔ پارلیمنٹ کی اسپیکر محترمہ میرا کمار کے بعد واحد کانگریس کے ممبرپارلیمنٹ مولانااسرارالحق قاسمی کو وزارت میں شامل کرنے کی بات کہی جارہی تھی۔ مولاناایک ایماندار،دیانتدار، عوام کے تئیں مخلص اورفلاحی کام کرنے والے ممبرپارلیمنٹ ہیں۔اس سے عوام خصوصاً مسلمانوں میں کانگریس کے تئیں اچھاپیغام جاتا۔ ملک گیر سطح پر مولانا کے تعلیمی اور عوامی فلاح وبہبود کے کام وسیع پیمانے پر چل رہے ہیں۔ ایسے قابل اور صلاحیت کے حامل فردکو نظر انداز کرنا سمجھ سے پرے ہے۔ شاید وہ ہندوستان کے بد عنوان سیاسی نظام اورحکومت کے کرپٹ سسٹم میں فٹ نہیں بیٹھتے۔ کوئی بھی حکومت ایماندار شخص کو وزیر بنانا پسند نہیں کرتی کیوں کہ وہ نمایاں ہوجائیگااورکانگریس چاہتی ہے پارٹی نمایاں رہے ۔یہ واحد ایسے ممبرپارلیمنٹ ہیں جو اپنے دم خم کی بنیادپرمنتخب ہوکرآئے ہیں۔ مولانا اسرارالحق قاسمی کوکابینہ میں شامل کرکے منموہن حکومت کوحقیقی سیکولر،ہمہ جہت ، کثیرثقافتی اورقومی یکجہتی کا چہرہ پیش کرنا چاہئیے۔ اس کے علاوہ حقیقی مسلمانوں کو کابینہ میں شامل کرنے کے مسلمانوں کے دیرینہ مطالبہ بھی پوراہوجاتا۔بہار کے مسلمانوں کا کانگریس کے تئیں دلچسپی میں اضافہ ہوتا لیکن کانگریس (جس پر بی جے پی حاوی ہے)نے اس غنیمت موقع کو گنوا دیا۔اس کے علاوہ اس تبدیلی ایسا کچھ نظر نہیں آتا ہے کہ جس سے مسلمان خوش ہوں۔ یوپی سے ظفر علی نقوی، راشد علوی کا نام نمایاں تھ جسے وزارت میں شامل کرنے کی بات کہی جارہی تھی کہ تاکہ مسلمانوں کی شکایت کو کسی حد تک دور کی جاتی لیکن اس تبدیلی نے مسلمانوں بری طرح مایوس کردیا اور یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ کانگریس حسب سابق مسلمانوں سے صرف ووٹ چاہتی ہے کچھ دینا نہیں چاہتی۔

کابینہ میں توسیع کے ساتھ کانگریس نے تنظیم میں زبردست ردوبدل کی ہے۔ کچھ نوجوان چہرے کوشامل کرکے پارٹی میں نئی روح پھونکنے کی کوشش کی ہے۔ یہاں راہل گاندھی کا جلوہ نظر آیا ہے۔ پی سی جوشی کو جو راجستھان سے آتے ہیں وزارت ریلوے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی جس پر راجستھان میں خوشی کا اظہار کیاگیاتھا یہاں سے ہٹاکر تنظیم میں شامل کیا گیا ہے اور انہیں جنرل سکریٹری کے ساتھ بہار کا انچارج بنایاگیاہے۔ایک اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ مشہور سماجی خدمت گارمسلمانوں کے تئیں بہتر نظریہ رکھنے والے نوجوان لیڈراور نہرو یوواکیندر کے سابق ڈائرکٹر جنرل ڈاکٹر شکیل احمد خاں کو آل انڈیا کانگریس کمیٹی کا سکریٹری بنایا گیاہے۔ اس سے کچھ بہتر کی امید ہے۔ ڈاکٹر شکیل احمدجو سابق مرکزی وزیر مملکت داخلہ رہ چکے ہیں ترقی دیتے ہوئے کانگریس کا جنرل سکریٹری مقرر کیا گیا ہے اور ان کی جھولی میں دہلی، ہریانہ، پنجاب اور چنڈی گڑھ کا چارج دیا گیا ہے انہوں نے بھی اپنی وزارت کے دوران مسلمانوں کا کوئی کام نہیں کیاتھاجس کا صلہ بھی اہل مدھوبنی نے انہیں 2009میں دے دیا تھا۔آبادی کے تناسب کے حساب سے دیکھا جائے تو آٹے میں نمک کے برابر ہے۔تنظیمی سطحً پر مسلمانوں کو نظر اندا زکردیاگیا ہے۔ مسلمانوں کو یہ شکایت (جو جائز ہے) عام طور ہوتی ہے کہ انہیں ٹکٹ نہیں دئے جاتے۔ اس کی خاص وجہ یہی تنظیم ہے جوٹکٹ کا فیصلہ کرتی ہے اور جب فیصلہ کرنے والوں میں ہی مسلمانوں کو نمائندگی نہیں ہوگی تو ٹکٹ کیسے ملے گا اور جب ٹکٹ نہیں ملے گا تو نمائندگی بھی نہیں بڑھے گی۔ انسداد فرقہ وارانہ بل، وقف املاک بل اور فاسٹ ٹریک عدالت کا وعدہ صرف قول تک محدود ہے۔ مسلم نوجوانوں کو جس طرح خفیہ ایجنسیوں کے ذریعہ سلاخوں کے پیچھے پہنچایاگیا یہ یو پی اے دوم کی اہم کامیابی ہے۔اس کا صلہ عام انتخابات میں ضرور دیں گے۔

۲۰۰۹ کے انتخابات میں ترقی پسند اتحاد حکومت سے جتنی امیدیں وابستہ کرکے عوام نے ووٹ دیاتھا وہ ساری امیدیں خاک میں ملتی نظرآرہی ہیں۔ یو پی اے ٹو حکومت کے رویے سے عوام بہت مایوس ہیں کیوں کہ ایک متوسط آدمی کاجینادوبھرہوگیا ہے۔ ملک میں کسی چیز کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود یہاں کے لوگ دانے دانے کو ترس رہے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کاکسی چیزپرکنٹرول نہیں ہے ہر طرف افراتفری انارکی کا ماحول ہے۔خاص طور پر بنیوں اورتاجروں پرکوئی بس نہیں چل رہا ہے۔ ایک ہڑتال کی پکارپرحکومت بنیوں کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتی ہے جب کہ عوام کی چیخ وپکار پر حکومت کوئی توجہ نہیں دیتی ۔مہنگائی میں اضافہ حکومت کے وزراء،بیوروکریٹس، بنیوں اورتھوک تاجروں کی ملی بھگت کی وجہ سے ہوتا ہے اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔ہندوستان میں بنیوں اورتاجروں کی ذہنیت انتہائی مسموم ہوتی ہے وہ ہر حال میں زیادہ سے زیادہ منافع کمانا چاہتے ہیں خواہ اس کے لئے انہیں مصنوعی بحران پیداکرنا پڑے یا ملاوٹ کرناپڑے۔ غذائی اشیاء میں ملاوٹ ہندوستان کی ایک شناخت بن چکی ہے۔

کابینی توسیع اس وقت تک موثراورثمرآور ثابت نہیں ہوسکتی جب تک حکومت مہنگائی کم کرنے کی پالیسی کے تئیں پرعزم نہ ہو۔ ترقی پسند اتحاد حکومت کے دوسرے سیزن میں سب سے زیادہ جو خراب بات نظرآتی ہے وہ ہے عزم کی کمی اورفقدان ۔ کہیں سے بھی یہ محسوس نہیں ہوتا حکومت اس سلسلے میں کچھ کرنا چاہتی ہے حکومت اس گاڑی کی مانند نظرآتی ہے جس کو دھکیل دیا گیا ہو وہ اسی رفتار سے آگے بڑھ رہی ہو۔ نہ وہ خودسے رک سکتی ہے، نہ ہی اپنی رفتار تیزکرسکتی ہے اور نہ ہی سست کرسکتی ہے۔ یوپی اے کے دوسرے ٹرم کی خصوصیت یہ ہے کہ کانگریس مضبوط ہوئی ہے۔ پہلے کے مقابلے اسے عوام نے زیادہ طاقتور بناکر ایوان میں بھیجاہے لیکن اس کے باوجود وہ عوام کے دکھ و درد کاادراک کرنے سے قاصر ہے۔ ایک دو سال کے عرصے میں کئی ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اگر مرکزکی کانگریسی قیادت والی ترقی پسند اتحاد حکومت نے عوام کے دکھ درد کا احساس نہیں کیا تو عوام اسے اقتدارسے بے دخل کرکے اوراقتدار میں آنے سے روک کر سبق سکھا دیں گے ۔مرکزی حکومت کوچاہئے کہ وہ نوشتہ دیوار کو غورسے پڑھے لوگوں کے مسائل کو حقیقی معنوں میں حل کرنے کی کوشش کرے۔سیاسی ماہرین اور تجزیہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ کانگریس مہنگائی پر لگام کسنے میں ناکام رہی ہے اور یہی بات2014 کے لئے خطرہ بن سکتی ہے۔2014 میں جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کا کوئی مستقبل نہیں ہے وہیں کانگریس بھی برسراقتدار نہیں آئے گی یہ بات کانگریسیوں کو بھی معلوم ہے لیکن اس کے باوجود مہنگائی دور کرکے عوام کے مشکلات کو دورکرنا ضروری نہیں سمجھتی۔نریندر مودی کے میدان میں کود جانے سے کانگریس اپنے لئے زبردست نفع کا سودا سمجھ رہی ہے۔ کانگریس اگر سمجھتی ہے کہ مودی کا خوف دکھاکر سیکولر ووٹوں کو اپنی طرف کھینچ لے گی تویہ اس کی خام خیالی اور احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔مسلمانوں کو زخم دینے کے علاوہ کانگریس نے کوئی ایسا کوئی کام نہیں کیا ہے جس کی بنیاد پر وہ مسلمانوں سے ووٹ دینے کا مطالبہ کرسکے۔

Abid Anwar
About the Author: Abid Anwar Read More Articles by Abid Anwar: 132 Articles with 86723 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.