عام آدمی قربانی کا بکرا

الیکشن سے پہلے خوش کن وعدے ،عام آدمی کو ریلیف دینے کی باتیں ،مہنگائی اور بے روزگاری ختم کرنے کے دعوے،کرپشن کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کے اعلانات اور عوامی خدمت کے دل فریب جملے ۔الیکشن جیت کر حکومت بنانے کے بعد جوش خطابت میں ڈھل گئے اور عام آدمی کے حصے میں ایک بار پھر سے قربانی آئی ۔اسی کا نام سیاست ہے ۔جو عوام کے جذبات سے کھیلنے کی جتنی زیادہ مہارت رکھتا ہے وہ اُتنا ہی بڑا لیڈر کہلاتا ہے ۔جو دوسروں کے وسائل اور محنت کو اپنے کھاتے میں ڈال کر شہرت پاجائے وہ بڑا سیاست دان بن جاتا ہے ۔سیاست دان کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ تیرے منہ پہ تیرا، میرے منہ پہ میرا اور حقیقت میں کسی کا بھی نہیں ۔عوام کوبھیک کی بجائے باعزت روزگار دیں گے کے دعوے بھی جھوٹ نکلے اور ماضی کی طرح ہنر مندنوجوانوں کو نرم شرائط پر قرضے اور غریب عوام کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقم میں ملنے والی بھیک کی رقم 1000سے بڑھا کر 1200روپے کردی گئی ہے ۔قرض لے کر نوجوان کیا کر لیں گے زیادہ سے زیادہ رکشہ یا ٹیکسی خرید لیں گے یا پھر محلے میں کوئی دکان کھول کر بیٹھ جائیں گے ۔جناب عالیٰ ٹیکسی یا دکان والا ملک کی ترقی میں کیا کردار ادا کرتا ہے ؟بے مقصد ہے سب جناب کسی ملک کی 80فیصد آبادی ٹیکسی ،رکشے یا دکانیں چلاے گی تو ملک کیا خاک ترقی کرے گا؟میاں صاحب عوام کو قرض اور بھیک نہ دیںبلکہ با عزت روزگار کا انتظام کریں ۔میاں صاحب معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ اگر عوام کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی صورت میں بھیک پر ہی گزارا کرنا ہوتا تو پیپلز پارٹی میں کیا بُرائی تھی ؟کیوں لوگوں نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام متعارف کروانے والوں کو الیکشن 2013ءمیں رد کرکے آپکو ووٹ دیا ؟کیا آپ کی نظر میںعوام نے بھیک کی رقم ایک ہزار سے بڑھا کر بارہ سو روپے کرنے کے لئے پیپلزپارٹی کی بجائے مسلم لیگ (ن) کو مینڈیٹ دیا ؟اگر ایسا ہے تو شاید آپ نے پیپلزپارٹی کا اعلان نہیں سنا ہوگا جس میں اُنہوں نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقم ایک ہزار سے بڑھا کر دو ہزار کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن عوام نے اس بھیک کو ٹھکرا کر مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دیا کیونکہ میاں صاحب سے عوام کو یہ اُمیدتھی کہ وہ بے روزگاری کو ختم کرکے باعزت روزگار فراہم کریں گے ۔ ایم اے پاس25سال سے کم عمر نوجوانوں کو ٹریننگ اور دس ہزارروپے وظیفہ دینے کااعلان کیاگیا ہے ۔بندہ حکمرانوں سے پوچھے نوجوانوں کو 16سال تک سکول ،کالج اور یونیورسٹی میں کیا پڑھایا گیا؟جو اُنہیں ایم اے کرنے کے بعد بھی ٹریننگ کی ضرورت ہے ۔بچپن سے لڑکپن اور لڑکپن سے جوانی کے16سال زندگی کا ایک بڑا اوراہم حصہ ہوتے ہیں ۔کیا میرے وطن کے نوجوان یہ اہم ترین 16سال سکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جھگ مار کر گزار رہے ہیں ؟کیسا سنگین مذاق ہے کہ دو ،تین سال پنکچر کی دکان پر کام سیکھنے والا بچہ 25سال کی عمر تک اپنے پاﺅں پر کھڑا ہوجاتا ہے اور16سال میں سخت محنت کر کے ایم ا ے پاس کرنے والا نوجوان بے روزگار اور دوسروں کا محتاج رہتا ہے۔میرے وطن میں تعلیم کے ساتھ کیا سلوک ہورہا ہے یہ ایک الگ موضوع ہے ۔بات کررہے تھے قربانی کی تو سوال یہ پیداہوتا ہے کہ بڑے” ٹڈوں“والے کب قربانی دیں گے؟کیا ہمیشہ قربانی کا بکرا عام عوام کو ہی بننا پڑے گا؟جو ملکی وسائل کو بے دردی سے لوٹ رہے ہیں اُن کا احتساب کب اور کون کرے گا؟حکمرانوں کو ووٹ امیر اورغریب دونوں ہی دیتے ہیں لیکن بد قسمتی سے غریب کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ حکمرانوں کو قیمتی تحائف دے سکےں ،حکمرانوں کی محفل میں چاروں طرف امیر ہی نظر آتے ہیں جبکہ ایوان اقتدار میں پہنچانے میں غریب کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے پھر بھی غریب عوام جنہیںعام آدمی کہا جاتا ہے کا حکمران فون بھی نہیں سنتے ۔غریبوں کے نام جاری ہونے والی ریلیف سکیمیں بھی امرا ءکے گھر ہی چلی جاتی ہیں ۔بڑی بڑی فائلوں میں تو عام آدمی کو ریلیف دے دیا جاتا ہے لیکن حقیقت میں ہر بار قربانی کا بکرا عام آدمی ہی بنتا ہے ۔جی ایس ٹی میں اضافے کے بعد مہنگائی کا جو طوفان آیا ہے اُس سے کسی امیر کے محل کو کچھ فرق نہیں پڑا لیکن غریب یعنی عام آدمی جس کے مکان کی چھت پہلے ہی بک چکی تھی اب دیواریں اور اُس کے بعد فرش بھی بک جائے گا ۔حکمرانوں کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ عام آدمی کا گھر سیلابی پانی میں بہہ جائے یا مہنگائی کا طوفان لے اُڑے اُن کے نزدیک تو عوام بس قربانی کا بکرا ہیں ۔جن کو آٹے کا ریٹ نہیں معلوم وہ کیا خاک عام آدمی کو ریلیف دیں گے ؟ میاں صاحب غریب عوام کی حالت پہلے ہی بہت خراب ہے خُدارا اور ظلم مت کریں ۔عام آدمی ہمیشہ سے اپنے حصے سے زیادہ ٹیکس ادا کرتا آیا ہے اب اُن لوگوں سے ٹیکس وصول کریں جن کی آمدن زیادہ ہے ،جن کی جاگیریں زیادہ ہےں۔جس کے پاس اپنا مکان نہیں،روزگار کے نام کوئی شے نہیں ،کوئی فیکٹری یا کارخانہ یا کوئی کھیت کھلیان نہیں وہ کیا ٹیکس دے گا،جو نہ آنے والی بجلی کا بل ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ،جو دل ہی دل میں دعا ئیں کرتا ہے کہ یا اللہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کم نہ ہونے پائے ورنہ میں بل کہاں سے ادا کروں گا ،جو غربت کے ہاتھوں تنگ آکر خودکشیاں کررہا ہے اُس عام آدمی سے کس بات کی قربانی چاہتی ہے حکومت؟

Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 513827 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.