تحریک انصاف نے صوبہ خیبر پختونخواہ میں جماعت اسلامی کو
وعدے اوراعلان کے باوجودتعلیم کی وزارت نہ دے کر نا انصافی اور وعدہ خلافی
کی بنیاد رکھ دی ہے۔اس طرح انہوں نے اپنی ہی آفر کو دباﺅ میں آکر واپس لے
لیا ہے۔جس سے جگ ہنسائی بھی ہوئی اور دو اتحادی جماعتوں کے درمیان ابتدا ہی
میں بدمزگی اور بے اعتباری کی کیفیت پیدا ہوئی ہے جو کہ اچھا شگون نہیں
ہے۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی کے اندریا باہر سے آنے والے دباﺅ کا
مقابلہ کرنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے۔گویا ایک طرف سے ریلا آتا ہے وہ سب
کچھ بہا کردوسری سمت میں لے جاتا ہے۔ہمارے کپتان صاحب سونامی سونامی کا ورد
کرتے اور بلے کے نعرے لگاتے لگاتے اب 11 مئی کو عوام کی طرف سے لگنے والے
زخم چاٹ رہے ہیں۔کپتان اتفاقیہ گرا تھا یا کہ گرایا گیا تھا۔اس بارے میں
کسی انکوائری اور چھان بین کا ابھی تک کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔سونامی خان کی
صوبہ خیبر پختونخواہ کے لوگوں نے کچھ عزت رکھ لی ہے ورنہ تو ان کا حال بہت
ہی برا ہوتا۔ کہاں الیکشن سے پہلے بڑے بڑے جلسے اور کہاں 11 مئی کے انتخابی
نتائج ۔۔گویا بقول شاعر۔
خواب تھا جوکچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا
خواب سے یاد آیا کہ سونامی خان نے غالباً سوات کے جلسہ عام میں ہی یہ کہا
تھا کہ انہوں نے خواب دیکھا ہے کہ وہ وزیراعظم بن گئے ہیں۔مگر افسوس کہ
خوابوں کی دنیا سے جونہی قدم باہر رکھا تو پتہ چلا کہ تمام خواب چکنا چور
ہو چکے ہیں ۔
وہ خواب سہانا ٹوٹ گیا امید گئی ارمان گئے
اے دنیا ہم سے چال نہ کر ہم خوب تجھے پہچان گئے
پنجاب سندھ اور بلوچستان میںسونامی خان کابلا چل نہیں سکا۔کہیں شیر سامنے
آگیا اور کہیں دوسری رکاوٹیں کھڑی ہو گئی تھیں۔ دوسرے الفاظ میں بلے کے
پیچھے وہ طاقت موجود نہ تھی جواسے چلاتی۔خان صاحب اب کچھ شرمندہ شرمندہ سے
ہیںاور پہلے والی بڑھکیں اورآنیاں جانیاں کہیں نظر نہیں آتیں۔پوری تحریک +
انصاف کو چپ سی لگ گئی ہے ۔پنجابی کے ایک محاورے کے مطابق ؛میدان کی مار
بڑی بری چیز ہوتی ہے ؛۔ہمارے خان صاحب اور ان کے بلے برداروں نے 11 مئی کی
شام کو جشن منانے کی بھرپور تیاریاں کر رکھی تھیں ۔جن کا ذکر وہ اپنی
تقریروں میں بھی بار بار کر تے تھے۔تاہم یہ ضروری تو نہیں ہے انسان کی ہر
تمنا اور آرزو پوری ہو جائے۔دراصل خان صاحب کے مشیروں نے مصالحہ کچھ زیادہ
ہی لگا دیا تھا۔اس طرح وہ غلط فہمی میں مارے گئے۔بعض اینکر پرسن کالم نگار
اورصحافی تو کھلم کھلا کپتان اور ان کے بلے کے لیے مہم چلا رہے تھے۔ایک
بزرگ کالم نویس کی سالہا سال کی کوششیں اور کاوشیں بھی نا تمام ہی رہیں۔ان
لوگوں کے تجزیوں تبصروں اور جائزوں میں خواہشات اور تضادات کھلے نظر آتے
تھے۔قلم کار کو غیرجانبدار رہ کر تجزیہ کرنا چاہیے۔پارٹی ترجمان اور پرسنل
سیکرٹری اور چیز ہے۔ان کا تو کام ہی اپنے ممدوح کی مدح سرائی منفی کو مثبت
اورعیب کو ہنر بنا کر پیش کرنا ہوتا ہے۔
بات صوبہ خیبر پختونخواہ سے شروع ہوئی تھی اور بہت دور جا پہنچی۔وزیر اعلیٰ
پرویز خٹک کو فری ہینڈ نہیں دیا گیا ۔یہی وجہ ہے کہ وہ بار بار خان صاحب سے
اہم امور میں مشاورت اور منظوری کے لیے لاہورکے چکر لگاتے رہے ہیں۔ اتحادی
حکومتوں میں اچھے یا برے تمام معاملات کی ذمہ داری سب پر عائد ہوتی ہے۔صوبہ
خیبر پختونخواہ بھی گوناگوں مسائل کا شکار ہے۔سب سے بڑا مسئلہ دہشتگردی کا
ہے۔اگر چہ یہ مسئلہ ماضی کی وفاقی حکومتوں کا پیدا کردہ ہے ۔مگر اس کے
نتائج بہر حال کے پی کے کو بھگتنے پڑتے ہیں۔پرویز مشرف اور بعد ازاں پی پی
پی اور اے این پی کی حکومتوں نے صوبہ کو درپیش مسائل خاص طور پردہشت گردی
جیسے گھمبیر مسئلے کے حل کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔دونوں حکومتیں
امریکی مفادات کے تحفظ اور اپنے اقتدار کو بچانے میں ہی لگی رہیں۔اب جبکہ
امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان سے ذلیل و خوار ہو کر جارہے ہیں۔بدلتے
ہوئے اس عالمی منظر نامے کے موقع پر افغانستان کے پڑوس میں ایک ایسی حکومت
بر سر اقتدار آ ئی ہے کہ جو پہلی حکومت سے مختلف موقف پر عوامی مینڈیٹ لے
کر آئی ہے۔اب عوام کی نظریں کے پی کے کی اتحادی حکومت کی طرف لگی ہوئی
ہیں۔یہ حکومت اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ہی عوامی اعتماد کو بحال رکھ سکتی
ہے۔اس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو خیبر پی کے کی حکومت نے جو بجٹ پیش کیا
ہے عام طور پر اس کی تعریف کی گئی ہے ۔ماہرین اور تجزیہ نگار دوسرے صوبوں
سے اس کا موازنہ پیش کر رہے ہیں۔بلا شبہ بجٹ کے امتحان میں صوبہ کی حکومت
کی کارکردگی بہتر رہی ہے۔اس کا کریڈٹ جہاں اتحادی حکومت کو جاتا ہے وہاں اس
کا بہت بڑا حصہ صوبائی وزیر خزانہ سراج الحق کو بھی دینا پڑے گا ۔کیونکہ اس
میں ان کی ذاتی محنت اور کوشش بھی شامل ہے ۔انہوں نے بجٹ سے پہلے جس طرح کے
خیالات کا اظہار کیا تھا۔بجٹ میں ان کا عکس نظر آتا ہے۔امید کرنی چاہیے کہ
کے پی کے کی حکومت اپنے وعدوں اور دعوﺅں کو یاد رکھتے ہوئے عوم کو درپیش
مسائل کو حل کرنے کے لیے اپنی بہترین صلاحیتوں کو صرف کرے گی۔
اب کچھ بات عمران خان کی قومی اسمبلی میں رونمائی حلف اور تقریر کی بھی ہو
جائے۔خان صاحب کے میڈیا والوں نے ان کی اسمبلی میں آمدکی خبر کو خوب اچھالا
۔عمران خان اسمبلی ہال میں جاوید ہاشمی شاہ محمودقریشی اور سرور خان وغیرہ
کے جلو میں داخل ہوئے۔اپنے حریف سے حلف اٹھایا۔خان صاحب نے اردو کی عبارت
بھی بڑی مشکل سے پڑھی۔اس وقت کچھ لوگ اسمبلی کی گیلریوں میں اور کچھ اپنے
ٹی وی کے سامنے بیٹھے تھے کہ آج خان صاحب کی تقریر تاریخی ہوگی۔مگر جب وہ
بولنے لگے تو پہلے تو کچھ لوگوں کو حیرانی اور پھر شاید پریشانی بھی ہونے
لگی تھی۔کیونکہ آج نہ وہ گرجے اور نہ ہی حسب سابق برسے تھے۔ گویا دیکھنے ہم
بھی گئے تھے پر تماشا نہ ہوا والی کیفیت تھی۔آج ایک بدلا ہوا عمران خان قوم
کے سامنے تھا۔انتخابی تقریروں اور اسمبلی کی تقریر میں فرق واضح تھا۔ایسے
لگ رہا تھا کہ جیسے ایک ذمہ دار اور بردبار سیاستدان اپنا ما فی الضمیر
بیان کر رہا ہو۔ محب وطن حلقے اور سنجیدہ لوگ عمران خان سے اسی قسم کے رویے
کی توقع کر رہے تھے ۔تاہم کچھ دوسری سوچ کے افراد بھی تھے اور ہیں۔اب
انتخابی رنجشوں کدورتوں اور الزامات کی سیاست کو ترک کرکے ملک و قوم کو
درپیش گھمبیر مسائل کی دلدل سے نکلنے کے لیے قومی سوچ اور عمل کی ضرورت
ہے۔آئینی طور پر حکومت کی اپنی ذمہ داریاںہیں اور اپوزیشن کا اپنا ایک رول
ہے ۔مقصد دونوں کا ملک وقوم کی خدمت ہے تو پھرجھگڑا اور دوریاں کوئی معنی
نہیں رکھتیں۔ |