تاریخ کے اورق بتاتے ہیں کہ اقتدارپانے کے بعداکثر
لوگ مکمل اختیار حاصل کرنے کی تگ ودومیں اپناعرصئہ حکمرانی گنوادیتے ہیں تب
جاکرکہیں ان پریہ عقدہ کھلتاہے کہ اختیار ذات ِ واحدکے پاس ہے۔وہ جب چاہے
‘جسے چاہے ‘جیسے چاہے تخت پربٹھادیتاہے یاتخت سے تختہ پر۔
تاریخ کا سرسری جائزہ لے کے پھر جنرل مشرف صاحب پر بات کریں گے ۔یونان کے
ایک فوجی ڈکٹیٹر کرنل چارجیس پاپاڈوپس( )(1919-199نے 1967میں یونان کی
سرزمین پر فوجی انقلاب برپاکرکہ سمجھاکہ شاید اب اس کا طوطی ہی بولتارہے
گالیکن حالات نے کروٹ بدلی حاکم محکوم ہوااورپھر 1975میں اس پر مقدمہ غداری
چلایاگیااور موت کی سزاہوئی مگرشومئی قسمت کہ بعدازاں اس سزاکوعمرقید میں
بدل دیاگیا۔پیری لیول (1883-1945)پرمقدر اس قدرمہربان تھا کہ اسے چاردفعہ
فرانس کی سرزمین پر وزیراعظم بنایالیکن پھرکایاپلٹی اور 1944میں فرانس کی
آزادی کے بعد ان پرالزام لگایاگیاکہ فرانس میں موجودبیرون ملک کے یہودیوں
کوجرمن نازیوں کے ڈیتھ کیمپوں میں منتقل کرنے کے اجازت نامے پر ان کی
انگلیوں نے یک جنبش قلم دستخط کیئے تھے ا‘چارلس ڈیگال کی سربراہی میں مقدمہ
چلااور عدالت نے بات سزائے موت پرختم کردی جبکہ فائرنگ دستوں نے اپنی
گولیوں سے وزیراعظم کی روح کوتن سے جداہونے میں مدد دی۔موجودہ حالات میں اس
بادشاہ کاذکرنہ کرناقارئین سے زیادتی ہوگی جس کو پارلیمنٹ سے منظوری کے
بغیر ٹیکس عائد کرنے پراور پارلیمنٹ کو بالاتر نہ سمجھنے پر نہ صرف سزائے
موت دے کراسکی گردن کاتعلق جسم سے ختم کیاگیابلکہ اس سزاکی سرعام نمائش بھی
بدقسمت بادشاہ کامقدرٹھہری۔اس بادشاہ کانام شاہ چارلس اول تھااور اس نے
انگلینڈ‘سکاٹ لینڈ‘اورآئرلینڈ پرحق حکمرانی پایاتھا۔فرانس کے آخری بادشاہ
لوئس xvi کوانقلاب فرانس کے بعد کھڈے لائن لگایاگیا۔انقلاب فرانس جس نے
نپولین جیسے آمر کوجنم دیا1789میں شروع ہوا۔شاہ اوٹس کوتخت سے
اُتارکرگرفتارکیاگیا‘مقدمہ چلااور ہمیشہ کی طرح (مطلب تخت سے تختہ جن
بادشاہوں کامقدرٹھہرا)عدالت نے غداری کامرتکب قراردیااور پھر فرانس نے اپنے
آخری بادشاہ کی آنکھوں کو ہمیشہ کیلئے بند کرکے ایک ایسے شخص کو تمغہ
اقتداربخشاجس نے یورپ کی اینٹ سے اینٹ بجادی‘یہ انقلاب فرانس ہی کی
توپیداوارتھا۔لاکھوں لوگوں کاخون ناحق زمین کو پلاتے وقت عوام یہ بھول گئے
تھے کہ سکون ‘چین ‘ترقی یہ سب چیزیں اسوقت ملتی ہیں جب زمین وآسمان کا خالق
راضی ہوتاہے۔حرام کاری کے الزام میں سزا پانے والی خواتین میں شاہ ہنری
ہشتم کی دوسری اہلیہ این بولین کو دومئی 1536 میں مقدمہ غداری کے تحت سزائے
موت ہوئی اور عدالتی فیصلے کے محض چاردن بعد ان کے سرکوقلم کرکے جسم
کوہمیشہ کیلئے ساکت کردیاگیا۔البتہ یورپ کی سرزمین اب بھی پکار رہی ہے کہ
اسکی روح۔۔
ہمین است وہمین است وہمین است
اوردنیاکی دوسری ملکہ جسے حرام کاری کے جرم میں ابدی نیندسلایاگیاوہ بھی
اسی بدقسمت شاہ ہنری ہشتم کی پانچویں اہلیہ تھی۔مقدمہ غداری کے فیصلے کے
بعد ان کاسر لندن کے برج پرلٹکا یہ کہہ رہاتھاکہ حرام سرچڑھ جائے تو محل
اورتخت پرتکیہ نہیں کیاکرتا۔وفاکی بندشیں نہیں سہاکرتا۔اسکے علاوہ یونان کے
وزیراعظم رمیز بوس گوناریز(1866-1922) اور ترکی کے وزیراعظم عدنان مندریس
دونوں کوفوجی جنتاکے زیراثر مقدمہ غداری میں ابدی نیند سلایاگیا۔کوئن میری
آف سکاٹ لینڈ وفرانس پر ملکہ الزبتھ کی قتل کی سازش کے مقدمے کااطلاق
ہوااورپھانسی ہوئی۔میکسکوکے صدر میگوئل ترپلو اورناروے کے صدرودکون ابراہام
کے دامن پربھی غداری کادھبہ لگااوردونوں کوفائرکرکہ اڑایاگیا(عرصئہ مختلف
ہے)۔خلیجی جنگ 1990کے بعد کویت کے مختصر عرصئہ کے حکمران حسین علی الجبار
کوسزائے موت ہوئی جو بعد میں اپیل کے بعد عمرقیدمیں بدل گئی۔اسکے علاوہ
ایڈوولف ہٹلرنے بھی نوماہ قیدگزاری۔ہنگری کے حاکم امرناگی ‘ہالینڈکے حکمران
انسٹون موزرت اور فرانس کے وزیراعظم جنرل فلپ پیٹن کو بھی اسی جرم کی پاداش
میں سزائے موت کی سزاسنائی گئی(فلپ کو عمر قید ہوئی)۔جبکہ کانگو کے پہلے
منتخب صدر پاسکل لزوبوواحد شخص ہیں جنہیں انکے ملک میں سزاہوچکی ہے لیکن وہ
لندن میں پناہ گزین ہیں۔اب پاکستان کے بہادر۔۔مشرف کی باری ہے۔اور اگر یہ
سزاپاتے ہیں توغداری کے جرم میں برصغیرکے سزاپانے والے پہلے حاکم ہوں
گے۔انفرادیت بھی تو کوئی چیزہے۔
پاکستان میں غداری کے ملزموں کے خلاف تین آرٹیکلز پرمشتمل قانون جسے high
treason punishment act 1973 کہتے ہیں چھبیس ستمبر 1973کو ذوالفقار علی
بھٹو کے دور میں نافذ ہوا۔مزید کالم کی طوالت سے گریز کی پالیسی اختیارکرتے
ہوئے ہم اس قانون کی گہرائی اور نافذ ہونے کے طریقہ کارپربحث نہیں کرتے
بلکہ کیس کے متعلق شکوک وشبہات اورحقائق کاچند لفظوں میںتجزیہ کرتے
ہیں۔پارلیمنٹ میںمیاں صاحب نے جب سے غداری کے مقدمے کااعلان کیاہے اس ضمن
میں جہاں لوگ انھیںبہادر کہہ رہے ہیں وہاں انہیں منتقم مزاج کہنے والوں کی
بھی کمی نہیں۔جبکہ کچھ لوگ اس مقدمے کو وسعت اختیار کاشاخسانہ قراردے رہے
ہیں۔اس کاسکرپٹ لکھنے والاکون ہے اسکاتو نہیں پتالیکن اس ضمن میں ایک اللہ
والے کی زبانی سنے جانے والاواقعہ میرے ذہن میں کلبلارہاہے۔اس سے پہلے کے
صحراکی تیزہواٹیلوں کوذروں میں بدلے واقعہ عرض کرتاچلوں۔ہندوستان کا ایک
بادشاہ کسی آستانے کا گرویدہ تھا۔اُس نے اپنے اعلی حضرت کے ہاں گزارش کی کہ
جناب والا میں آپ کامرید ہوں اور اس ملک کابادشاہ ہوں ۔آپ حکم کیجئے کہ آپ
کیلئے آسانیاں پیداکردوں۔اللہ والے دنیاجہان کی آسائش سے بے نیاز ہونے
کیساتھ ساتھ حکمت کے بھی خزانے ہوتے ہیں۔فرمایا:”مجھے اور تو کوئی مسئلہ
نہیںالبتہ یہ مکھیاں تنگ کرتی ہیں انہیں منع کردو “۔بادشاہ ہکابکارہ گیاکہ
اب کیاجواب دے۔بالاآخر لب کھولے اور عرض کیا حضرت صاحب مکھیوں پر تو
میرااختیارنہیں۔علم وحکمت کے خزانے نے جواب دیا”جب خداکی ادنی سی مخلوق
پرتمہاراحکم نہیں چلتاتو پھرتم ہمیں کیاراحت بخش سکتے ہو‘ہمارے لیئے اللہ
ہی کافی ہے“۔اس روایت سے یہ نتیجہ اخذ ہوتاہے کہ انسان کااختیار لامحدود
ہونے کے باوجود کس قدرمحدود ہے۔اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ اس کے بعد وہ
مختیارکل بن جائے گی تو یہ توناممکن ہے ۔ہاں اتناضرورہے کہ جرم کی سزادینے
کے بعد مزیدمجرموں کی افزائش میں کمی لائی جاسکتی ہے اور اسی کمی سے
جمہوریت کامستقبل وابستہ ہے۔دوسری جانب سعودیہ واستعماری قوتیں گو کہ بظاہر
مشرف کی طرف دارہیں لیکن حکومت کو وہی کرناچاہیئے جوملکی مفادات کیلئے
بہترہو‘لیکن یہ بات الگ ہے کہ حکومت وقت سعودیہ کو ٹال پائے گی کہ
نہیں۔اگروقت کے علماءمصلحت کی چادراوڑھ لیں تو اس دورکے افراد کادینی
پیمانہ مخدوش ہوجاتاہے۔یہی اصول جمہوریت پربھی لاگوہے۔رہا مشرف کی ذا ت
کامعاملہ تو وہ خوش فہمی میں مبتلاہیں ۔کہتے ہیں “کہ ایک جمہوری حاکم کو
اسوقت کے فوجی حاکم نے نہیں بلکہ ان لوگوں نے مروایاجو بارباراسے یہ پیغام
دیتے رہے کہ باہرلوگ آپ کی محبت میں پاگل ہوئے پھرتے ہیں“۔اگر اسے فسانہ
بھی تصورکرلیاجائے تو مقصد توکشید ہوسکتاہے۔دوسرااہم پہلوپاک افواج کارد
عمل ہے لیکن میں نہیں سمجھتاکہ وہ شخصیات کے بھنورمیں پھنسیں گے ۔جنرل
کیانی صاحب‘جمہوری تسلسل کے خواہشمند اور معاملہ فہم شخص ہیںوہ کبھی بھی
طرف داری نہ کرپائیںگے۔آخرپر بات کی زنجیرکوآخری کنڈہ لگاکہ مکمل کرتے ہیں
کہ عوام چاہتے ہیں کہ موجودہ اسمبلی میں بیٹھے کم وبیش سترسے زائد ایسے
افراد جنھوں نے مشرف صاحب کاساتھ دیاتھاوہ بھی ملزم ہیں ۔اور انھیں بھی اس
سزائے محبت میں اتناحصہ ملناچاہیئے جتناانھوں نے اقتدارمیں حاصل
کیاتھا۔کیاحکومت اتنے بکھیڑوں کی متحمل ہوسکے گی؟۔کیاموجودہ اقتدار کاسورج
غروب ہونے تک مشرف سزاپاچکے ہوں گے ؟۔یہ وہ تشنہ سوالات ہیں جن کاجواب آنے
والا وقت ہی دے گا۔فی الحال سراب ہی سراب ۔اور اگر کوئی دانا یہ سمجھے کہ
مشرف صاحب کی سزاکے سحر میں عوام ننگ وافلاس اورلوڈشیڈنگ کو بھول جائیں گے
تو یہ اسکی خام خیالی ہی ہے۔
تاریخ کے اورق بتاتے ہیں کہ اقتدارپانے کے بعداکثر لوگ مکمل اختیار حاصل
کرنے کی تگ ودومیں اپناعرصئہ حکمرانی گنوادیتے ہیں تب جاکرکہیں ان پریہ
عقدہ کھلتاہے کہ اختیار ذات ِ واحدکے پاس ہے۔وہ جب چاہے ‘جسے چاہے ‘جیسے
چاہے تخت پربٹھادیتاہے یاتخت سے تختہ پر۔ |