بہت افسوس کے ساتھ لکھنا پڑرہا ہے کہ نہ جانے آج کے عہد
میں یہ کیا بلا چلی ہے کہ اگر کو ئی شخص ‘تنظیم ‘ادارہ یا کو ئی جماعت کسی
طرح کا نیک کام کر ے تو بجا ئے اس کے کہ اس کی تائید و ستایش ہو ۔ اس کی
جدو جہد کو سراہا جائے اور اس کی حوصلہ افزائی کی جا ئے اُلٹا کچھ لوگ
جنھیں دانشوری اور آزاد خیالی کا زعم ہوتا ہے‘انھیں نیچا دکھانے کے لیے ان
کے کاموں میں عیب اور کمیاں تلاش کرتے ہیں ۔کبھی کبھار انھیں کچھ ہاتھ بھی
لگ جاتا ہے تو اس کی تحقیق کر نے اور سمجھنے کے بجائے میڈیاغیر سماجی عناصر
کے حوا لے کر دیتے ہیں اور وہ انھیں پورے عالم میں پھیلا دیتے ہیں۔ بسا
اوقات تو اس کے لیے ایسے طریقے استعمال کیے جاتے ہیں جنھیں ایک مہذ ب
معاشرے میں بھی اسے برداشت نہیں کیا جاسکتا اور جب کبھی ایسے شرپسند لوگ
اپنے ناپاک مقا صد میں کامیاب نہیں ہوتے تو اس جماعت ‘گروہ یا تنظیم پر
کیچڑ اچھالنے کے لیے من گھڑت باتیں اور الزا مات تھونپتے ہیں۔
اسی طرح کا ایک واقعہ اس وقت رونما ہوا جب22جون کو نئی دہلی میں منعقدہ
مسلم پرسنل لا بورڈ کے عاملہ اجلاس کے بعد کچھ لوگوں نے ایک غلط افواہ اڑا
کر بورڈ کو بد نام کر نے کی سازش کی حالانکہ ان کا ناپاک منصوبہ بری طرح
ناکام ہو گیا مگر اس سے آگ سے جو دھواں اٹھا اس کے اثرات اب تک باقی ہیں ۔
اطلاعات کے مطابق کچھ لوگوں نے ایک صاحب کی تجویز کے پیش منظر میں بورڈکو
یہ کہہ کر بدنام کر نے کی سازش کی کہ ’’بورڈکے ایک رکن نے ایک ایسا بل
عاملہ میں بنام تجویزعاملہ میں پیش کیا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ بورڈ اوقا
ف کی زمینوں کی خریدوفروخت کے منصوبے بنا رہا ہے ‘ دوسرے لفظوں میں بورڈ ان
لوگوں سے سود ے بازی کر رہاہے جو اوقاف کی زمینوں پر آباد ہیں ‘وہ انھیں
اجاڑ نا نہیں چاہتا اور اس کے لیے ایک معقو ل رقم بھی بورڈ کے کھاتے میں
پہنچ گئی ہے۔‘‘
افسوس صد افسوس !شرپسند لوگ اپنا مقصد حاصل کر نے کے لیے کیسے کیسے غلط
ہتھکنڈے استعمال کیے ہیں ‘ایسی باتیں ہوا میں اڑائی ہیں جن کا دور دور تک
بھی گمان نہیں ہے۔ان لوگوں نے یہ بکواس کر تے وقت ذرا بھی نہیں سوچا کہ وہ
کیا کہہ رہے ہیں اور کس کے بارے میں کہہ رہے ہیں ۔ اس سے ملک میں کیا ماحول
بنے گا؟
ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ مسلمانوں کی ملک بھر میں ایک ہی جماعت ہے جس کی
تعمیر مسلک و ملت کی بنیادوں سے بہت اونچی بنیادوں پر کی گئی ہے۔وہی واحد
ایسی جماعت ہے جس نے ہندو ستا ن میں سب سے پہلے اوقا ف کی خر دبرد کی شکا ر
زمینوں کا مسئلہ اٹھایا اور انھیں غیر سماجی عناصر کے ناجائز قبضوں سے آزاد
کرایا ۔ مسلم پر سنل بورڈ ہی ایسی جماعت ہے جس نے مسلمانوں کی بقا‘ ان کے
وجود‘ان کے تشخص اور ان کے وقار کی جنگ لڑی ۔اپنے وقت کی حکومتوں سے لوہا
لیا اور انھیں اسلامی معاملات و شرعی قوانین میں مدا خلت کر نے سے باز رکھا
۔ وہ مسلم پر سنل لا بورڈہی ہے جس نے چا ہے وہ ’’خاتون آہن یا آئرن لیڈی
کہے جانے والی ’’اندرا گاندھی ہی کیوں نہ ہوں‘جنھیں اس بات کا گمان تھا کہ
ملک میں انھیں کو ئی چیلنج کر نے والا نہیں ‘مگر انھیں پتا نہیں تھا کہ ایک
اسلامی جماعت ہے جواسے دھول چٹا سکتی ہے۔
وہ چا ہے’’ نس بندی‘‘ کامعاملہ ہو یا ’’سو ل کوڈ کے نفاذ کا غیر منصفانہ
فیصلہ‘‘ وہ ’’متبنہ بل ہو‘‘ یا’’ مطلقہ کے نان و نفقہ کا معاملہ‘ جسے نام
نہاد حقوق انسانی و خواتین تنظیموں نے اپنی انا کا مسئلہ بنا کر اسلامی
تعلیما ت کی غلط تشریح کر نی شروع کر دی تھی ۔ ‘ ‘ وہ’’ بابری مسجد کیس‘‘
ہو یا ملک کی’’ دیگر مساجد کا مسئلہ ! ‘‘غرض ہر میدان میں جو جماعت سر بکفن
نظر آئی وہ مسلم پر سنل لا بورڈ تھی جس نے اپنے وقت کی حکومتوں سے لوہا لیا
اور مسلمانوں کی آن و بان باقی رکھی ۔ اس نے جماعت نے کبھی اسلامی معاملات
میں غلط بنیادوں پر مصالحت نہیں کی بلکہ ہر حال میں ان کے نفاذ کی کوشش کی
اس کے لیے اس کے ارکان کو قید و بند کے مراحل سے بھی گذرنا پڑامگر اس کے پا
ئے استقامت متزلزل نہیں ہو ئے۔․․․․
ایک ایسی مقدس اصولوں والی جماعت کو جھوٹ بول کر بدنام کیا جارہا ہے اوراس
کے خلاف گھناؤنی سازش کی جارہی ہے یہ کتنے رنج اور افسوس کی بات ہے۔ اسے
بدنام کر نے والوں کو ذرا بھی خیال نہیں آیا کہ جس جماعت سے لوگوں کا
جذباتی رشتہ ہے اور وہ ہندوستان میں اسے اپنے تشخص ‘وقار اور بقا کاذریعہ
مانتے ہیں ۔جس جما عت کے متعلق ان کا احساس ہے کہ ہندوستان میں اگر کو ئی
جماعت ہے جو ان کے دین و مذہب اور اسلامی اقدار کی محافظ ہے تو وہ ’’مسلم
پر سنل لا بورڈ ‘‘ ہے‘ ایک ایسی جماعت کے خلاف وہ جھوٹے الزامات کیسے
برداشت کر سکتے ہیں ۔چنانچہ میں اور ہر وہ شخْص جو مسلم پر سنل لا بورڈ کے
متعلق کچھ بھی جانتا ہے ان لوگوں کے الزمات کو مسترد کر تے ہیں اور ان کی
بھر پور مذمت کرتے ہیں۔
یہ بات ہمیشہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ہندوستان میں اوقاف کا مسئلہ بہت ہی
ناز ک اور حساس ہے جس کی حساسیت و نزاکت میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا
گیا۔ اس سے بھی اہم ترین بات یہ ہے کہ ہندوستان بھر میں اوقاف کی زمینیں
ایک بڑے رقبے پر پھیلی ہو ئیں ہیں جنھیں ہڑپ کر نے کے لیے بے شمار ہتھکنڈے
استعمال کیے جاتے ہیں ۔کہیں کہیں تو حکومتیں بھی ان پر بری نظر رکھتی ہیں
جن کا فرض ان کی حفاظت کر نا تھا ۔ اسی طرح کارپوریٹ گھرانے اور زمین مافیا
نیز ملک میں موجود فسطا ئی طاقتیں انھیں ہڑپنے کے منصوبے بنا تی رہتی ہیں
۔کہیں کہیں وہ کامیاب بھی ہوجاتی ہیں اور دنیا وی علما ان کی خریدو فرو خت
کی اجازت دے کر اپنی جہنم کا سامان کر لیتے ہیں۔ایسے حالات میں اگر انھیں
بچانے والی کو ئی جماعت ہے تو وہ ہے مسلم پر سنل بورڈ جس کا روز اول سے ہی
یہی مقصد اور وہ اس پر کاربند ہے۔
مسلم پر سنل لا بورڈ کے متعلق جو لوگ بکواس کر رہے ہیں میں ان سے کہنا
چاہتا ہوں کہ وہ چند ملت فروش لوگوں کی اپنی ذاتی آرا کو بنیاد بنا کر پوری
جماعت کو کیوں بدنام کر رہے ہیں ؟ ایک ایسی جماعت جس کا ماضی ہمیشہ
مسلمانوں کی فلاح و بہود اور بقا کے لیے جدو جہد کے واقعا ت سے بھر ہوا ہے
اس کے متعلق غلط فہمیاں کیوں پھیلا ئی جارہی ہیں ؟ کسی ایک شخص کی ذاتی
رائے پورے بورڈ کی رائے کیسے ہوسکتی ہے؟نیز ایک متنازعہ فیصلہ جو منظور بھی
نہیں ہوسکا یا ہوا ہے بھی تو بہت جلد اسے خارج کر دیا جا ئے گا ‘ایسی لنگڑی
لولی تجویز کا پیش کر کے ملک میں انارکی کیوں پھیلائی جارہی ہے؟․․․․․․
مذکورہ بالا سوالات تو اپنی جگہ ان سے بھی تعجب خیز بات یہ ہے کہ بورڈ کے
سکریٹری اور ترجمان باری باری اس غلط فہمی کا ازالہ کر چکے ہیں ۔اخباری
بیانوں میں اس کی وضاحت کرچکے ہیں اسی طرح اس کے متعلق بورڈ کے فیصلے کا
اعلان کر چکے ہیں مگر ان معترضین کے ذہن اب تک صاف ہی نہیں ہورہے ۔ وقفے
قفے سے وہ عوام کو میں غلط فہمی پھیلا رہے ہیں اور بورڈ کو بدنام کر رہے
ہیں ۔شاید یہ مغربی چال و چلن کا نتیجہ یا نام نہاد دانشوری کا بخار جو ان
کے سر چڑھا ہواہے اور انھیں حق ماننے سے روک رہا ہے۔
مانا کہ دانشوری ایک اچھی چیز ہے اور آدمی کو اپنے آس پاس کے ماحول سے
باخبر ہونے کے لیے بہت ایڈوانس ہونا چا ہیے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ
اسلامی تعلیمات اور ملّی جماعتو ں کی بد نامی کی جا ئے ‘باتوں کو سمجھے بنا
ان پر فتوے دیے جانے لگیں ‘غلط باتوں کو اس طرح پیش کیا جا ئے کہ جیسے وہ
حقیقی ہوں۔ان کے لیے غلط باتوں اور اندازوں کا سہار ا لیا جا ئے بات چا ہے
جیسے بنے انھیں تھونپا جا ئے؟اسے تو کسی طرح دانشوری نہیں کہاجا تا ! ! کیا
آزاد خیالی کے یہی تقاضے ہیں ؟کیا اسی کو اعلا ذہنی کہا جاتا ہے ؟سمجھ میں
نہیں آتا کہ ملت بیضا کے فرزند مغرب کی اندھی تقلید میں کہاں جار ہے ہیں
اور ان کی منزل کیا ہے؟ یہ مغربی وبا کو مشرق میں رائج کر نا چاہتے ہیں
‘وہاں ایسا ہی ہوتا ہے ۔ وہاں بھی اصلاحی اور تعمیری اداروں کی کار کردگیو
ں پر ہمیشہ حرف گیری کی جاتی ہے اور انھیں بد نام کیا جاتا ہے ۔وہاں سے وہی
مذموم رسم ہمارے ملک میں اور ہمارے دانشور طبقے میں آگئی اور اس نے مذہبی
‘ملّی اور بزرگوں کی جما عت پر کیچڑ اچھالنا شروع کر دیا۔
میں پوری ملت اسلامیہ کی ترجمانی کر تے ہو ئے ایسے لوگوں سے کہنا چاہتا ہو
ں کہ خدا را اپنے افکار کو بد لیے‘ملک میں اور بالخصوص مسلما نو ں کو
بیوقوف بنا نے اور انھیں ملّی و مذہبی جماعتوں سے بدظن کر نے کی مذموم سوچ
کوتبدیل کیجیے ! ایک بات ہمیشہ یاد رکھیے کہ آپ لوگوں کی ایک خطا پورے ملک
کو جہنم زار کر سکتی ہے اس کے بعد جو انجام ہو گا اس کا دائرہ محدود نہیں
ہو گا بلکہ عظیم پیمانے پر اس کی تباہی ہوگی جس میں نہ آپ بچ سکتے ہیں اور
نہ وہ لوگ جن کو خوش کر نے کے لیے آپ لوگوں نے مذموم چال چلی ہے۔مذہبی
جماعتوں سے لوگوں اور عوام کا رشتہ دلی اور جذـباتی ہوتا ہے جسے وہ کسی طرح
بر داشت نہیں کرسکتے ۔ ایک میں ہی نہیں بلکہ ملت کا ہر فرد ایسے نام نہاد
دانشوروں کی مذمت اور مخالفت کر تا ہے اس لیے ضروری ہے خود کو ایسے گناہوں
اور قومی خطا ؤ ں سے دور رکھا جا ئے اور ملک میں افرا تفر ی کا ماحول نہ بر
پا کیا جا ئے۔میں ایسے لوگوں یہ کہہ کر اپنی ختم کر نا چا ہوں گا:
انداز وبیاں گر چہ بہت شوق نہیں
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
احساس
ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ مسلمانوں کی ملک بھر میں ایک ہی جماعت ہے جس کی
تعمیر مسلک و ملت کی بنیادوں سے بہت اونچی بنیادوں پر کی گئی ہے۔وہی واحد
ایسی جماعت ہے جس نے ہندو ستا ن میں سب سے پہلے اوقا ف کی خر دبرد کی شکا ر
زمینوں کا مسئلہ اٹھایا اور انھیں غیر سماجی عناصر کے ناجائز قبضوں سے آزاد
کرایا ۔ مسلم پر سنل بورڈ ہی ایسی جماعت ہے جس نے مسلمانوں کی بقا‘ ان کے
وجود‘ان کے تشخص اور ان کے وقار کی جنگ لڑی ۔اپنے وقت کی حکومتوں سے لوہا
لیا اور انھیں اسلامی معاملات و شرعی قوانین میں مدا خلت کر نے سے باز رکھا
۔ وہ مسلم پر سنل لا بورڈہی ہے جس نے چا ہے وہ ’’خاتون آہن یا آئرن لیڈی
کہے جانے والی ’’اندرا گاندھی ہی کیوں نہ ہوں‘جنھیں اس بات کا گمان تھا کہ
ملک میں انھیں کو ئی چیلنج کر نے والا نہیں ‘مگر انھیں پتا نہیں تھا کہ ایک
اسلامی جماعت ہے جواسے دھول چٹا سکتی ہے۔ |