مصری فوج نے مرسی حکومت کا تختہ کیوں الٹا؟

مصری عوام کی طبیعت بھی عجیب ہے۔ حسنی مبارک جیسے آمر و جابر کی غلامی میں چالیس سال بڑے آرام سے گزارلیے لیکن محمد مرسی کی منتخب حکومت کا ایک سال بھی ان سے برداشت نہ ہوا۔ گزشہ سال اسی عوام نے محمدمرسی کو جمہوری طریقوں سے منتخب کیا اورتیس جون کو ان کی حکومت کا ایک سال مکمل ہی ہوا تھا کہ اسلام دشمن قوتوں کی سرپرستی میں اپنی منتخب کردہ حکومت کے درپے ہوگئے۔ صدر مرسی سے حکومت چھوڑنے کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ان کا کہنا تھا کہ محمد مرسی اپنے وعدے پورے نہ کرسکے۔سیکولر فوج تو پہلے سے ہی اس تاک میں بیٹھی تھی کہ کب مصر میں اسلام پسندوں کی حکومت کو ختم کرنے کا ہمیں موقع ملے۔پس پردہ بہت سے اسلام دشمن ممالک بھی مصر میںاخوان کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے مصری فوج کو تھپکی دے رہے تھے۔

فوج نے پہلے سے ہی مرسی کی حکومت کو ختم کرنے کا منصوبہ تیار کرلیا تھا۔فوج نے محمدمرسی کی حکومت کو سیاسی حالات کنٹرول کرنے کے لیے اڑتالیس گھنٹے کی مہلت دی تھی۔محمد مرسی نے اپنے کاز کے لیے جان دینے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے اقتدار چھوڑنے سے انکار کردیا تھا۔ محمد مرسی کا کہنا تھاکہ میں نے ملکی حفاظت کا حلف اٹھایا ہے اسے ضرور پورا کروں گا۔مرتے دم تک اپنے آئینی عہدے کی حفاظت کروں گا۔میں شفاف انتخابات کے ذریعے صدر منتخب ہوا۔ ہر صورت جمہوریت اور آئین کا تحفظ کیا جائے گا۔ مستعفی نہیں ہوں گا۔ جمہوری طریقے سے منتخب کیا گیا پہلا صدر ہوں۔ مصر کے نوجوانوں کے غصہ کا غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ فوج موجودہ صورتحال میں فریق نہ بنے۔ حکومتی مینڈیٹ کا احترام نہ کرنا جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ مذاکرات کی دعوت مسترد کرنے والی جماعتیں اس ساری صورتحال کی ذمہ دار ہیں۔جبکہ مصری آرمی چیف نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم مصر اور اس کے عوام کی حفاظت کے لیے انہیں دہشت گردوں، بنیاد پرستوں اور بے وقوفوں سے بچانے کے لیے اپنا خون بھی بہا دیں گے۔بالآخربدھ کے روز مصری فوج نے مقامی وقت کے مطابق شام سات بجے محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ کر آئین معطل کر دیا۔ فوج نے صدر مرسی کے گھر کے اطراف خاردار تاریں اور بیریئر لگا دیے تھے۔مصر کی فوج نے سرکاری ٹی وی کی عمارت پر قبضہ کرلیا۔ دستاویزات قبضے میں لے لی گئیں۔ فوجی سربراہ نے اپوزیشن لیڈر محمد البرادی، مصر کے چرچ کے پوپ توادروس اور جامع الازہر کے امام احمد الطیب سے مصر کے آئندہ روڈ میپ پر مشاورت کی۔مصر میں فوج کی جانب سے صدر مرسی کی حکومت پر شب خون مارنے کے بعدملک کی آئینی عدالت کے چیف جسٹس عدلی منصور نے جمعرات کے روز ملک کے عبوری صدر کا حلف اٹھایا۔ فوج کی بغاوت کے بعد محمد مرسی کا کہنا تھا کہ عوام فوجی بغاوت کے خلاف پرامن مزاحمت کریں تاہم وہ پرتشدد کارروائی سے دور رہیں۔

محمد مرسی کی حکومت ختم ہوتے ہی اخوان المسلمون کے خلاف انتقامی کارروائیاں شروع کردی گئیں۔محمد مرسی، اخوان کے مرشد عام محمد بدیع ”آزادی و انصاف“ کے چیئرمین سعد الکتاتنی، اخوان المسلمون کے نائب مرشد عام ڈاکٹر رشاد البیومی اور کئی دیگر رہنماؤں کو حراست میں لے لیاگیا۔ گرفتاریوں کا دائرہ اخوان المسلمون کے علاوہ کئی دوسری مذہبی جماعتوں اور مذہبی چینلوں کے مالکان اور عہدیداروں تک بڑھادیا گیا ۔ مصر کے کثیرالاشاعت عربی روزنامہ ”الاھرام“ نے اپنی رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ سیکورٹی فورسز نے اخوان المسلمون کے تین سو سرکردہ رہنماؤں کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ محمد مرسی سمیت 15 اخوان رہنماﺅں سے توہین عدالت کے الزامات میں تفتیش کی جارہی ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ محمد مرسی سے کچھ غلطیاں ہوئیں، انسان سے غلطیاں ہوتی رہتی ہیں۔لیکن مصر کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کو فلسطینیوں کے لیے نرم گوشہ رکھنے اور ملک میں اسلامی آئین کے نفاذ کی سزا دی گئی۔ امریکی سفارتحانے میں محمد مرسی کو گھر بھیجنے کی سازش تین مہینے پہلے تیار ہوئی تھی اور اس کے کل کردار طے کیے گئے تھے لیکن مرسی کا قصور کیا تھا اور وہ امریکا کو کیوں کھٹک رہے تھے؟ دراصل امریکا محمد مرسی کو مستقبل کا خطرہ سمجھنے لگا تھا۔ اسرائیل فلسطین حالیہ جھڑپیں رکوانے میں مرسی نے مرکزی کردار ادا کیا اور خطے کے طاقتور رہنما بن کر ابھرے۔ مرسی نے فلسطینیوں کے لیے مصر کی سرحد کھول دی جس پر امریکا اور اسرائیل کو شدید اعتراضات تھے اور امریکا کے لیے سب سے بڑا خطرہ اسرائیل کے ہمسایہ ملک کی اسلامائزیشن تھی۔ بغاوت کے لیے محمد البرادعی نے راہ ہموار کی۔ محمد البرادعی فوج سے خفیہ مذاکرات کرتے رہے۔ قبطی چرچ کے پوپ اور شیخ جامعہ الازہر بھی اس گیم کا حصہ رہے۔ اب ملک عدم استحکام کا شکار ہوگا، امریکا اور اسرائیل یہی چاہتے ہیں اور یہی گیم کا مقصد ہے۔

جمہوریت کے سرپرستوں نے ایک جمہوری حکومت پر فوج کے شب خون مارنے کی کھلے دل سے مذمت نہیں کی کیونکہ یہ اسلام پسندوں کی حکومت تھی۔امریکی صدر اوباما کا کہنا تھا کہ مصر میں فوری نئی سویلین حکومت قائم کی جائے۔ اقوام متحدہ نے بھی مصر میں فوج کی مداخلت پر تشویش کا اظہار کیا تاہم فوجی مداخلت کی مذمت نہیں کی۔ یورپی یونین نے مصر میں جمہوریت کی فوری بحالی پر زور دیا ہے۔ برطانیہ نے مصر میں فریقین سے پرامن رہنے کی اپیل کی ہے۔ اسرائیل مصر میں فوج کے ہاتھوں صدر محمد مرسی کی اقتدار سے برطرفی پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ امریکا اور یورپ کے بعض ٹاﺅٹ مسلم سربراہان مرسی کی حکومت پر سیکولر فوج کی بدمعاشی پر مبارک باد دیتے رہے۔جبکہ مصری فوج کی جانب سے اخون کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے پرسماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر مصر میں فوجی بغاوت کے خلاف دلچسپ تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ہمیں جمہوریت اچھی لگتی ہے لیکن وہ جو افغان صدر حامد کرزئی کی زیرِ نگرانی چلے، وہ جو عراقی وزیراعظم نور المالکی کی شکل میں میسر ہو اور وہ جس کا چہرہ پاکستانی صدر آصف علی زرداری جیسی نابغہِ روزگار شخصیت ہوں۔ ہمیں بادشاہت اور آمریت سے بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ اگر بادشاہت شاہ عبداللہ کی اور آمریت پرویز مشرف یا حسنی مبارک کی ہو۔اور برما کے بدھوں کو بھی لاکھوں مسلمان جلا کر اپنی مذہبی آزادی برقرار رکھنے کا پورا حق ہے!لیکن۔۔۔ ترکی، مصر اور تیونس میں اسلامی تحریکوں کی حکومت انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے اور بندر سے انسان کا ارتقائی سفر طے کرنے والوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔سوشل میڈیا پہ اس قسم کے تبصرے بھی ہورہے ہیں کہ جمہوریت کی رٹ لگانے والوں کو اسلام پسندوں کی جمہوری حکومت بھی برداشت نہ ہوئی تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جمہوریت میں اسلام کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اگر جمہوری راستے پر بھی اسلام پسندوں کو چلنے نہیں دیا جاتا تو اپنے مقصد کے لیے مسلح جدوجہد کرنے والوں پر اعتراضات کرنا بالکل فضول ہیں۔مصری فوج کے ہاتھوں جمہوری طور پر منتخب صدر محمد مرسی کی برطرفی پر تبصرہ کرتے ہوئے صومالیہ کے جنگجو گروپ الشباب کا کہنا ہے کہ” مصر میں رونما ہونے والے واقعات سے ظاہر ہے کہ اقتدار جمہوریت سے نہیں بلکہ طاقت سے حاصل ہوتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے ،اسلام پسند اگر جمہوری انداز میں منتخب بھی ہوں تو انھیں حکومت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔اب ان گلابی عینکوں کو اتارنے اور دنیا کو اس کی حقیقی شکل میں دیکھنے کا وقت آگیا ہے۔اخوان المسلمون کو تاریخ سے تھوڑا بہت سیکھنے کی ضرورت ہے۔ان سے قبل الجزائر میں (اسلام پسندوں) اور حماس کی منتخب حکومت کو چلتا کیا گیا تھا۔فلسطینی صدر محمود عباس نے چھے سال قبل حماس کے وزیراعظم اسماعیل ہنئیہ کی منتخب حکومت ختم کردی تھی جس کے بعد اس نے غزہ میں اپنی عمل داری قائم کر لی تھی لیکن اسے تب سے اسرائیلی محاصرے اور بین الاقوامی پابندیوں کا سامنا ہے جبکہ الجزائر میں اسلامی محاذ آزادی کو عام انتخابات میں واضح اکثریت سے کامیابی کے باوجود فوج نے اقتدار منتقل نہیں ہونے دیا تھا اور اس کی بجائے اس جماعت کی قیادت اور کارکنان کے خلاف کریک ڈاو ¿ن کیا تھا اور انھیں پس دیوار زنداں ڈال دیا تھا۔ وہ کب خواب غفلت سے بیدار ہوگی اور اسے اپنی کوششوں کے بے سود ہونے کا ادراک ہوگا۔“

پاکستانی اسلامی رہنماﺅں نے مصر میں فوجی مداخلت کو جمہوریت پر شب خون اور اسلامی دنیا میں جمہوری اور اعتدال پسند مذہبی قوتوں کے لےے بڑا دھچکا قرار دیتے ہوئے بین الاقوامی دنیا سے اپیل کی ہے کہ وہ فوجی اقدام کو مسترد کرتے ہوئے محمد مرسی کی حکومت کو مدت پوری کر نے دے۔ایسی فوجی کارروائی دنیا کو مذہب دشمنی کا پیغام دیتی ہے اور باور کراتی ہے کہ جمہوری دائرہ کار میں بھی مذہب کے لےے جگہ نہیں ہے۔ مصر میں فوجی بغاوت مذہبی اور سیکولر حلقوں کے درمیان انتہائی ٹکراو ¿ کا ماحول پیدا کر سکتی ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 645083 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.