برادر محترم سراج الحق خیبر پختونخواہ کے
سینئر وزیر اور وزیر خزانہ نامزد ہونے کے بعد اور حلف اٹھانے سے دو دن پہلے
راقم الحروف کی رہائش گاہ پر تشریف لائے تو بقول شاعر ۔ ۔
وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہو
کبھی ہم ان کو اور کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
اس ملاقات کا پس منظر کچھ اس طرح سے ہے کہ2002 ءکے انتخابات کے بعد صوبہ
سرحد میں دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل نے غیر متوقع طور پر شاندار
کامیابی حاصل کر کے حکومت قائم کر لی۔جس میں جماعت اسلامی جمعیت علماءاسلام
(ف) اورجمعیت علماءاسلام (س) شامل تھیں۔مولانا سمیع الحق جلد ہی ناراض ہوکر
حکومت سے علحدہ ہو گئے۔دینی جماعتوں کی صوبہ سرحد میں حکومت سیکولر اور
مغرب زدہ لوگوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی ۔ وفاق میںقائم جنرل پرویز مشرف
کی حکومت بھی صوبائی حکومت کے کاموں میں طرح طرح سے روڑے اٹکاتی رہی۔حسبہ
بل اس کی ایک واضح مثال ہے ۔پھر بھی ایم ایم اے کی صوبائی حکومت نے اپنے
محدود وسائل میں رہتے ہوئے بہت سے ترقیاتی کام کیے۔ کافی بڑی تعداد میں نئے
پروجیکٹس بھی شروع کیے گئے تھے۔ تاہم کچھ ناتجربہ کاری اور کچھ دیگر وجوہات
کی بنا پر وہ اپنی کارکردگی کماحقہ عوام اور میڈیا تک نہ پہنچا سکے۔ اس وقت
راقم نے کچھ بزرگوں اور دوستوں سے یہ گذارش کی تھی کہ ایم ایم اے کی صوبائی
حکومت کے کام اور کارکردگی جیسی بھی ہے وہ خیر آباد اور اٹک پل سے پار کسی
کے علم میں نہیں ہے۔مرکز کے عدم تعاون اور میڈیا کے ایک مخصوص ذہن کے
مخالفانہ پروپیگنڈے کے طوفان میں عوام تک صحیح تصویر اور اصل صورتحال پہنچ
ہی نہیں پا رہی۔میں نے تجویز پیش کی تھی کہ سینئر وزیر سراج الحق دوسرے
وزراءاور امیر جماعت اسلامی صوبہ سرحد پروفیسر محمد ابراہیم کی گاہے گاہے
اسلام آباد ٬راولپنڈی ٬ لاہور اور کراچی میں سینئر صحافیوں ٬ ایڈیٹروں اور
کالم نگاروں سمیت زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے نمائندہ اور
بااثرافراد سے ملاقاتیں کرائی جائیں۔اسی طرح صحافیوں ٬کالم نگاروں ٬علماء٬
وکلا اور تاجروں کو پشاور کے دورے کی دعوت دی جائے ۔اس طرح ایم ایم اے کی
صوبائی حکومت کی کارکردگی اوروہاں ہونے والے عوامی اور فلاحی کاموں سے عوام
کو آگاہی ہو سکے گی۔مگر افسوس کہ اس وقت اس طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔جب
بھی بات کی تو یہی جواب آیا کہ تمام لوگ بہت زیادہ مصروف ہیں۔
اس پر ایک دوست کا واقعہ یاد آیا کہ ایک زمانے میں ہماری ادبی تنظیم
خوشبوکے بڑی باقاعدگی سے اجلاس منعقد ہوتے تھے۔ ہمارے ایک دوست ملک محمد
سلیم اعوان جو کہ اسلامی جمعیت طلبہ راولپنڈی شہرکے ناظم تھے ٬ باقاعدگی سے
اجلاسوں میں نہ صرف یہ کہ شریک ہوتے بلکہ اپنی بزلہ سنجی اور حاضر جوابی کی
وجہ سے رونق محفل بھی ہوتے تھے۔ بعد ازاں ان کی ذمہ داری راولپنڈی ڈویژن کی
لگ گئی تو وہ اجلاسوں سے غیرحاضر رہنے لگے۔جب ان سے غیر حاضری کے متعلق
پوچھا جاتا تو کہتے کہ اس دن راولپنڈی سے باہرجہلم یا چکوال گیا ہوا
تھا۔چند ہفتوں کے بعد موصوف ایک دن عصر کے وقت آگئے اور پوچھنے لگے کہ آج
خوشبوکا اجلاس کس وقت ہے۔حالانکہ بعد مغرب طے شدہ وقت تھا۔اجلاس شروع ہوا
تو ساتھیوں نے ملک محمد سلیم اعوان کی آمد کا خیر مقدم کیا۔شرکا کو بتایا
کہ حضرت تو آج کئی گھنٹے پہلے ہی تشریف لا چکے تھے۔جب بات آگے بڑھی تو پتہ
چلا کہ ان کی راولپنڈی ڈویژن کی ذمہ داری ختم ہو گئی ہے۔اس پر ایک ساتھی نے
حسب حال یہ شعر پڑھا۔ ۔
وہ ایک پرندہ جسے پرواز سے فرصت ہی نہ تھی
آج تنہا ہے ! تو دیوار پہ آ بیٹھا ہے
میں نے کہا تھا کہ آج سراج الحق اور دوسرے ذمہ داران کے پاس وقت نہیں ہے ٬جب
یہ حکومت ختم ہو جائے گی تو پھر دیکھنا کہ ہمارے یہ راہنما اکثر اسلام آباد
٬ راولپنڈی اور لاہور میں ہی نظر آئیں گے۔پھر درج بالا شعر پڑھا تھا۔
یہ باتیں 2008 ءسے لے کر 2013 ءکے انتخابات تک برادر عزیز حافظ سجاد قمر سے
بھی بار بار ہوتی رہی ہیں۔(حافظ سجاد قمر خود بھی ادیب ٬شاعر اورکالم نگار
ہیں)۔11 مئی 2013 ءکے انتخابات میں صوبہ کے پی کے میںجماعت اسلامی کو آٹھ
نشستیں ملیں۔اس پر تحریک انصاف نے جماعت اسلامی کو صوبائی حکومت میں شامل
ہونے کی دعوت دی ٬جسے قبول کرلیا گیا۔اس تازہ صورتحال کی روشنی میں ایک بار
پھر حافظ سجاد قمر سے مل کر ایک میڈیا پلان بنانے کی ضرورت واہمیت پر بات
کی گئی چنانچہ طے پایا کہ اس سلسلے میں برادرم سراج الحق سے پہلے ہی بات
چیت کرکے ان کو اس کا م کے لیے تیار اورآمادہ کیا جائے۔چنانچہ حافظ سجاد
قمرنے سراج الحق سے بات چیت کی اور مجھے کہا کہ ایک اور ملاقات اکٹھے ان سے
کرنی ہے۔ میری رہائش گا ہ پر ہونے والی ملاقات کا پس منظر یہی تھا۔حافظ
سجاد قمر میڈیا میں کام کے حوا لے سے تحریری تجاویز لائے تھے ٬جو کہ سراج
الحق کے حوالے کی گئیں۔انہوں نے ان تجاویز کا بغور مطالعہ کیا۔ اس موقع پر
راقم نے سراج الحق سے گزارش کی کہ ایم ایم اے کی حکومت کے دوران بھی ہم نے
رابطے کیے اور صوبائی حکومت کی کارکردگی اور عوامی و فلاحی کاموں کے حوا لے
سے میڈیا کے ذریعے عوام کو آگاہ رکھنے کے لیے تجاویز دی تھیں مگر افسوس کہ
اس وقت آپ لوگوں کی مصروفیا ت یا عدم ترجیحات کی وجہ سے بات آگے نہیں بڑھ
سکی۔اب اگر اللہ نے ایک اور موقع دیا ہے تو اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دیگر
کاموں اور ذرائع کے استعمال کے ساتھ ساتھ میڈیا پر خصوصی توجہ دینے کی ضرور
ت ہے۔ ہماری خدمات حاضر ہیں۔میڈیا کے ساتھ آپ کے ذاتی رابطے جتنے مربوط اور
موثر ہوں گے۔حکومت کی کارکردگی اتنی ہی بہتر اور اچھے انداز میں عوام تک
پہنچتی رہے گی۔انہوں نے میری باتوں کو غور اور توجہ سے سنا اور اس حوالے سے
ایک میکنزم بنانے کی بات کی تھی ۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری اور دیگر ساتھیوں
کی تجاویزسراج الحق کے دل و دماغ میں بیٹھ گئی ہیں۔ اب وہ اسلام آباد آئیں
یا لاہور جائیں ٬ میڈیا سے رابطے اور ملاقات کو نہیں بھولتے۔پشاور تو ان کا
اپنا مرکز اور راجدھانی ہے۔اس سلسلے میں خوشی کا ایک اور پہلو بھی ہے کہ
سراج الحق فیس بک اور ٹویٹر پر بھی نظر آتے ہیں۔امید ہے کہ دیگر وزرا ءبھی
آگے بڑھ کر سراج الحق کی پیروی کریں گے ٬کیونکہ یہ وقت کا تقاضا اور ضرورت
بھی ہے۔ |