جمشید خٹک
بجلی نہیں ہے گرمی زوروں پر ہے اور براحال کردیا ہے ۔نہ پڑھنے کو جی چاہتا
ہے ۔اور نہ قلم اُٹھانے کی سکت باقی ہے ۔لیکن ان سب محرومیوں کے باوجود بعض
اوقات ایسے دلخراش اور دردناک واقعات رونما ہوتے ہیں ۔جس کو دیکھ کر بے
اختیا ر قلم اُٹھانے کو جی چاہتا ہے ۔چند دن قبل سفید برف پوش چوٹیوں کی
آغوش میں ہونیوالی خون کی ہولی کی لکیریں پانی کے ساتھ بہہ کر سینکڑوں میل
کا سفر طے کر کے پورے پاکستان میں پھیل گئی ہے ۔ہر آدمی انگشت بدنداں ہے
۔ہر پاکستانی کی ذہن ماؤف ہے ۔ہر ذی شعور محب وطن پاکستانی اس سوچ میں غرق
ہے کہ یہ کیا ہورہا ہے ۔ملک کے کونے کونے سے بری خبریں آرہی ہیں ۔شمال میں
اگر دھماکے ہورہے ہیں ۔جنو ب میں ٹارگٹڈ کلینگ کے واقعات ہیں ۔کراچی میں
بدامنی ہے ۔بلوچستان میں مذہبی تعصب کی لہر ہے ۔گلگت بلتستان میں جو کہ
انتہائی پر امن دور اُفتادہ اور ہر قسم کی تعصبات سے الگ تھلگ تھا۔پے در پے
کئی واقعات نے وہاں کا امن تباہ کردیا ہے ۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے۔ کہ
یہ کیا پیغام دیا جار ہا ہے؟ ہر سمت سے دُشمن کا وار ہورہا ہے ۔دشمن اپنے
ارادوں اور مقاصد حاصل کرنے میں تیزی دکھا رہا ہے ۔اور ہم سوائے افسو س کے
کچھ نہیں کرسکتے ۔ہر واقعہ کے بعد ہم سیکورٹی الرٹ کی رٹ کو دہراتے ہیں
۔لیکن چند دن بعد اُس سے بڑا واقعہ سرزد ہوجا تا ہے ۔پچھلی حکومت چلی گئی
۔اُس پر جتنا لعن طعن کرنا تھا ۔ کردیا گیا ہے ۔عوام نے اُس کو رد کردیا ہے
۔نئی حکومت نئے عزم کے ساتھ بر سر اقتدار آئی ہے ۔جس سے عوام کی بڑی
اُمیدیں وابستہ ہیں۔لیکن عملاً واقعات کے تسلسل میں کوئی فرق یا کمی نہیں
دکھائی جارہی ہے ۔دھماکے قتل وغارت اغوا برائے تاوان کے واقعا ت بدستور
جاری ہیں ۔جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے ۔حکومت بدلنے سے کوئی فرق نہیں
پڑ رہی ہے۔ان واقعات کے تانے بانے کہیں اور جا ملتے ہیں۔ان واقعات کے مراکز
کہیں اور ہیں ۔یہ واقعات بین الاقوامی سازشوں کا ایک حصہ نظر آتے ہیں۔
البتہ مقامی لوگوں کا تعاون ضرور حاصل ہوگا۔کیونکہ بغیر مقامی آبادی کے
تعاون سے اتنی دور اُفتادہ جگہوں پر اس قسم کے واقعات ہو نہیں سکتے ۔جہاں
جانے کیلئے دو تین دن کا پیدل سفر کرنا پڑتا ہے ۔دشوار گزار راستے ہوں ۔تو
غیر مقامی افراد کیلئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اتنے فاصلے طے کرکے ٹارگٹ تک
پہنچ سکے ۔البتہ سرپرستی اور لا جسٹک امداد میں بیرونی عناصر کے شامل ہونے
کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ان سنگین واقعات کے باوجود من حیث القوم
ہم ایک ایجنڈے پر متفق نہیں ہوسکے ۔نئی حکومتوں کی پالیسیاں بھی ان واقعات
کی سنگینی کو سمجھنے سے قاصر ہے ۔متفقہ لائحہ عمل ابھی تک تیار نہیں ہو
سکا۔حالیہ انتخابات کے نتیجے میں ایک پارٹی کی حکومت کی بجائے ہر صوبے میں
مختلف سیاسی پارٹیوں سے وابستہ افراد بر سر اقتدار آئے ۔مرکز میں مسلم لیگ
بر سر اقتدار ہے ۔پنجاب کے سوا باقی تین صوبوں میں مسلم لیگ کی حکومت نہیں
ہے ۔مختلف الخیال پارٹیوں کیوجہ سے ملک کی اہم مسائل پر تمام پارٹیاں یک
زبان ہو کر اپنے خیالات کا اظہار نہیں کر سکتی ہیں ۔حزب اختلاف کی پارٹیاں
تو ہے ہی اختلاف میں۔ وہ بھلا کیوں حکومت کا ساتھ دیں۔حالانکہ اپوزیشن
جماعتیں خاص طور پر جمعیت علماء اسلام (فضل الرحمٰن گروپ) اور جمعیت علماء
اسلام (س) گروپ کے اکابرین شمال میں ہونے والے واقعات اور طالبان کے ساتھ
بہتر مراسم کی بنیاد پر بہت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔لیکن تاحال حالات
واقعات کی بہتری کی کوئی تصویر سامنے نظر نہیں آرہی ہے ۔نہ امریکہ کے ساتھ
ہماری دوستی مستقل بنیادوں پر قائم ہے ۔یہ لنگڑے اور اندھے کی دوستی ہے
۔ضرورت کے تحت ایک دوسرے کیساتھ پیار و نفرت کا رشتہ نبا رہے ہیں ۔تینوں
بارڈرز پر ہم بے خوف و خطر نہیں ہے ۔ہماری فوج حالت جنگ میں ہے ۔سینکڑوں کی
تعداد میں ہمارے فوجی جوان شہید ہوئے ۔اندرونی طور پر بھی خلفشار ہے ۔پولیس
کے اوپر حملے ہورہے ہیں ۔جیل توڑنے کے واقعات ہورہے ہیں ۔ سرکاری املا ک کو
نقصان پہنچایا جارہا ہے ۔آخر یہ کب تک؟کیا ہماری فوج ، سیاسی قوتیں متحد ہو
کر ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی ۔اگر کمی ہے تو وہ سیاسی ہم آہنگی کی اور یہ
سیاسی اکابرین کا کام ہے ۔کہ وہ ذاتی نظریے سے قطع نظر سارے مل کر عہد کریں
کہ وہ اسلام کی خاطر ، ملک کی خاطر ، اُمت کی خاطر ، ترقی کی خاطر سارے
اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک ایجنڈے پر آئیں ۔اور ہر ایک اپنا اپنا
بھر پور کردار ادا کرے۔ جب ملک رہے گا تو ان کی پارٹی نظریے زندہ رہ سکتے
ہیں ۔اگر ملک ہی نہیں رہا تو اُن کے نظریات کس کام کے ۔اس وقت جو جنگ لڑی
جارہی ہے ۔وہ ملک کی بقاء کی جنگ ہے ۔ملک کی سا لمیت خطرے میں ہے ۔معاشی
طور پر ملک کھوکھلا ہوچکا ہے ۔اگر معاشی طور پر بھی یہ ملک دیوالیہ ہوگیا
تو زندگی اجیرن ہو جائیگی ۔جس کے نہایت ہی خطرنا ک نتائج سامنے آسکتے ہیں
۔آگ جتنی بڑھتی جاتی ہے ۔اُس کو کنٹرول کرنا اُتنا مشکل ہوتاجاتا ہے
۔ابتدائی طور پر ہر بیماری کا آپریشن آسان ہوتا ہے لیکن ایک اسٹیج ایسا بھی
آجا تا ہے ۔کہ آپریشن کے باوجود بھی کامیابی نہیں مل سکتی ۔اگر ہم نے ہوش
کے ناخن نہیں لیے تو ہمارا مستقبل خانہ جنگی ، جنگ وجدل اور بربادی کے سوا
کچھ نہیں ۔ دُنیا میں کئی مثالیں موجود ہیں کہ جن ممالک نے سیاسی تدبر کا
مظاہرنہیں کیا ۔تو افغانستان بن گیا جو پچھلے پینتیس سالوں سے بدامنی کی آگ
میں جل رہا ہے ۔اور دُنیا میں دہشت گردی کی پہچان بن گیاہے ۔اُس آگ کے بادل
ہمارے سرحدوں میں گھس آئے ہیں۔اگر ان خطرات کا بر وقت تدارک نہیں کیا گیا ۔
تو ملک کے اندر دہشت گردی کی لہر پورے ملک کی امن کو بھسم کرسکتا ہے ۔
کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم اپنی خوش فہمیوں اور خارج از امکان خواہشات
سے نکل کر زمینی حقائق اور اپنے گرد عالمی ماحول میں نمودار ہونے والی
تبدیلیوں کا ادراک کرسکیں ۔اُس سے پہلے کہ ہم مزید تباہی کی دلدل میں پھنس
جائیں۔ہم اپنی جغرافیائی پوزیشن کے حوالے سے اور قومی مفادات کے حوالے سے
کوئی سیاسی مشترکہ قومی ایجنڈا تیار کریں۔
سیاسی اکابرین پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔کہ وہ اس وقت سارے
اختلافات کو بھلا کرسر جوڑ کر بیٹھ جائیں او ر سیاسی نظریات سے قطع نظر ملک
کی خاطر اس کا حل ڈھونڈیں۔پایہ دار حل کے لئے تمام مقتدر قوتیں بشمول پاک
فوج کے اندرونی اور بیرونی تما م محاذوں پر کھل کر ڈائیلاگ شروع کریں ۔تاکہ
ایک پائیدار امن کے لئے راستہ ہموار کیا جائے ۔ |