2002میں ریاست گجرات میں ایسی
قیامت بپا ہو ئی جس نے مسلم اقلیتی طبقہ کو پیسنے اور ختم کر نے میں کو ئی
کسر نہیں چھوڑی ۔سنگینیوں نے شعلے اگلنے کے لیے دہانے کھول دیے۔ترشول ‘بلّم
‘بھالے ‘پستول غرض ہر شے مسلمانوں کے خون میں ڈوبی ہو ئی تھی۔ہر طرف آگ
‘دھواں ‘چیخ و پکار ‘بھاگ دو ڑ‘افراتفری اور بد حواسی کاعالم تھا ۔کیا
قیامت تھی جو آج سے 11سال قبل گجرات میں برپا ہو ئی۔یہ سب تو ایک طرف تھا ۔دوسری
جانب نام نہاد انکاؤنٹروں کا مذموم سلسلہ بھی تھا جن میں بے شمار افراد
مارے گئے ۔حد تو اس وقت ہوگئی 14جون 2004کو 19سالہ ممبئی کی معصوم عشرت
جہاں اور اس کے ساتھیوں کو مودی وادی پولیس نے یہ کہہ کر گولی ماردی کہ وہ
مودی کو مارنے یا گجرات فسادات کا انتقام لینے آئے تھے اور پھر معاملے کو
اس طرح الجھادیا کہ حقیقت واضح نہ ہو سکی ۔ حالانکہ یہ سب فریب کاری تھی
اور مودی وادی پولیس کی مسلم دشمنی تھی اس لیے کہ سچا ئی جواس وقت تھی یا
آج آئی ہے وہ یہ ہے کہ اس کے ہاتھ میں کو ئی پتھر بھی تھا اور انھیں تو
مودی کے اشارے پر فرضی مڈبھیڑ میں مارگیا تھا۔اس طرح کی چارج شیٹ گجرات
ہائی کورٹ میں داخل کر ائی گئی ہے تا کہ ’’سندرہے ‘‘مگر یہ بات تو بہت پہلے
سے محسوس کی جاچکی ہے کہ عشرت جہاں مودی کے مظالم کی شکار ہو ئیں اور فرضی
انکاؤنٹر اسے ڈس گیاجسے پی پی پانڈے نے انجام دیا تھا۔
یہ ایک مظلوم کی دلدوزداستان ہے جسے جس قدر سنیں گے آنکھیں اشک بار ہوں گی
اور دل بھر آئیں گے ۔عشرت جہاں کی مظلومیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے
کہ اس کا قاتل پی پی پانڈے آج تک مفرورہے اور جان بچانے کے لیے نہ جانے
کہاں کہاں چھپتاپھررہا ہے ۔آج اسے اس کا آقا(مودی) بھی بچانے نہیں آرہا ہے۔
یہ داستان اس قدر دلخراش ہے کہ اسے پڑھ کر پڑھنے والے روپڑیں گے۔ذرا احساس
کیجیے کہ ایک معصوم لڑکی کو اس وقت انتہا ئی بے رحمی سے قتل کر دیا گیا جب
اس کے والدین بھی اس سے امید یں وابستہ کیے ہو ئے تھے ۔انھوں نے اس کے لیے
کتنے ارمان سجارکھے تھے اور کتنے خواب تھے اس نوخیز دوشیزہ کے لیے۔مگر
افسوس حسرتیں ‘ حسرتیں ہی رہ گئیں ‘عشرت جہاں کو مودی کا ظلم نگل گیا
اوروالدین زہر کا گھونٹ پی کر رہ گئے جو انھیں دن رات اندر سے توڑ رہا ہے۔
مودی اور اس کی پولیس نے سوچا بھی نہ ہوگا کہ جس عشرت جہاں کو وہ قتل کررہے
ہیں ایک دن اس کا خون اس طرح رنگ لا ئے گا کہ اس کی مظلومیت سے ساری دنیا
واقف ہو جائے گی۔یہ حقیقت بھی ہے ۔کہتے ہیں
ظلم کی ٹہنی سدا پھلتی نہیں ٭ناؤ کاغذ کی سد چلتی نہیں
ایک دن آتا ہے جو سب کا پر دہ فاش کردیتا ہے۔ظالم کا چہرہ بے نقاب کردیتا
ہے اور اسے دارالعوام یاعوام کی پنچایت میں لاکھڑا کر دیتا ہے ۔تقریباً وہی
حال مودی اور مودی وادی پولیس کا ہونے ولا ہے ۔وہ مودی جو خود کو سیکولر
کہلانے کے لیے سطحی ہتھکنڈے استعمال کررہا ہے ۔وہ اب زیر عتاب آنے والا ہے۔
وہی مودی جس نے گجرات میں فرعون بن کر مظلوموں کو نگلنے کا منصوبہ بنایا
تھا اب وہ عوام کی’’ نیل‘‘میں غرقاب ہونے والاہے۔مگر ابھی نہیں ذرا رُکیے!
ابھی اس کے ساتھ چند نام نہاد مسلم دانشور ہیں ۔ڈاکٹرظفر محمود اینڈ محمود
مدنی نیز دیگر سرکردہ افراد ’موسیٰ (علیہ السلام)‘بن کراس کے دربار میں
’کلمہ حق ‘کی آڑ میں اپنا مفاد کہنے کے لیے حاضر ہورہے ہیں اس لیے فرعون کی
غرقابی میں کچھ وقت لگ جا ئے گا․․․․․مگر یہ میرا اندازہ ہے جو یقینا غلط
ہوگا ۔صحیح عشرت جہاں کا معصوم خون ‘معصوم چیخیں اور معصوم آہیں ہیں جو زود
اثر اور جلد فیصلہ کر نے والی ہیں ۔
وہ مسلمان دانشور ‘جو فرعون (مودی)کے دربار میں حاضرہورہے ہیں وہ ملت
اسلامیہ کو یہ باور کر انے کی کوشش کررہے ہیں کہ گجرات میں جو کچھ ہوا ہے
اسے اب بھول جانا چاہیے کیونکہ اب کبھی ‘کہیں گجرات کی تاریخ نہیں دہرائی
جا ئے گی اور مودی بھی ماضی کو بھل رہے ہیں ۔وغیرہ
قارئین کرام!مذکورہ بالا اقتباس کی سختی ملاحظہ کیجیے!اس کے تناظر میں‘میں
ان دانشوروں سے کہناچاہتاہوں :
کیا گجرات میں جو ایک بار ہوا ہے وہ قیامت تک کے لیے کافی نہیں ہے۔کیا پھر
گجرات کی تاریخ دہرانے کے ارادے کیے جارہے ہیں؟ایسے دانشور یا درکھیں کہ
کچھ زخم ‘حادثے اور سانحے ایسے ہوتے ہیں جو ایک ہی بار ہوتے ہیں اور ان کا
درد ‘ٹیس اور صدمے تاعمر بلکہ رہتی دنیا تک باقی رہتے ہیں ۔2002کی گجرات کی
قیامت اسی قبیل کی ہے اسے کسی بھی طرح بھلایا نہیں جاسکتا۔
کیا مودی کے ماضی کو بھول جانے سے مقتول‘مظلوم اور تباہ حال گجراتی
مسلمانوں کا ماضی واپس آسکتا ہے۔ان کاکھویا ہوا وقار ۔امن چین ‘ان کی معیشت
اور’’خودی ‘‘واپس آسکتی ہے؟کو ئی مجھے ان سوالوں کا جواب دے‘ میں اپنے دل
کو مطمئن کر لوں گا۔مگر ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔یہ سوالات گجرات فسادات کے
وقت سے آج تک شرمندۂ جواب نہ ہوسکے۔
ایسے دانشوروں کی عقلوں پر ماتم کرنے کو دل کر تا ہے۔اس درسگاہ کو زمیں بوس
کرنے کوجی کر تا ہے جس نے انھیں ’’دانشوری ‘‘کی ڈگری عطا کی ہے۔اس نظام کو
تہس نہس کر نے کو دل کر تا ہے جو ان لوگوں کودانشور بناتا ہے ۔اس مودی کو
بم سے اڑانے کادل کر تا ہے جس کی دولت نے انھیں ایمان فروش بنادیا۔اس بی جے
پی کو صفحہ ہستی سے مٹانے کو جی کرتا ہے جو مسلمانوں کا بے دریغ قتل کر نے
اور ان کا ملّی تشخص ختم کر نے منصوبے بنا نے کے باوجود انھیں اپنے جال میں
پھنسارہی ہے۔
مسلمانو!بالخصوص گجرات کے مسلمانو!جشن منانے کی تیاریاں شروع کردو ۔خدائے
پاک ،منصف اعلا و حقیقی کے سامنے سجدہ ریز ہونے کے لیے تیار ہو جا ؤ ۔اب
بہت جلد 2002اور اس کے بعد گجرات کو جہنم بنانے والا عفریت زیر دام
آیاچاہتا ہے ۔بہت جلد اس کا یوم حساب شروع ہونے والا ہے جہاں ایک طرف اکیلا
وہ ہو گا اور دسری جانب گجرات کے لاکھوں مقتول ‘مظلوم اورستم رسیدہ لوگ ہوں
گے ۔بہت جلد ایسا ہونے والا ہے جسے موجود ہ نسلیں دیکھیں گی اور بعد والوں
کے لیے محفوظ کر یں گی۔ظلم کی وہ عمارت گر نے والی ہے جس کی تعمیر میں
مظلوموں کا خون اور بنیاد میں ان کی ہڈیاں شامل ہیں ۔جشن مناؤ مسلمانو !جشن
مناؤ عشرت جہاں کا خون رنگ لارہا ہے ۔گجرات کے لاکھوں مقتولوں کا خون رنگ
لارہا ہے ۔ معصوموں بچوں کی آہیں اثر انگیز ہو رہی ہیں اور عالم نوجوانی
میں بیوگی کی چادر اوڑھنے والی ماؤں ‘بہنوں اور بیٹیوں کی کر اہیں آسماں
گیر ہورہی ہیں ۔
احساس
oکیا گجرات میں جو ایک بار ہوا ہے وہ قیامت تک کے لیے کافی نہیں ہے۔کیا پھر
گجرات کی تاریخ دہرانے کے ارادے کیے جارہے ہیں؟ایسے دانشور یا درکھیں کہ
کچھ زخم ‘حادثے اور سانحے ایسے ہوتے ہیں جو ایک ہی بار ہوتے ہیں اور ان کا
درد ‘ٹیس اور صدمے تاعمر بلکہ رہتی دنیا تک باقی رہتے ہیں ۔2002کی گجرات کی
قیامت اسی قبیل کی ہے اسے کسی بھی طرح بھلایا نہیں جاسکتا۔
oایسے دانشوروں کی عقلوں پر ماتم کرنے کو دل کر تا ہے۔اس درسگاہ کو زمیں
بوس کرنے کوجی کر تا ہے جس نے انھیں ’’دانشوری ‘‘کی ڈگری عطا کی ہے۔اس نظام
کو تہس نہس کر نے کو دل کر تا ہے جو ان لوگوں کودانشور بناتا ہے ۔اس مودی
کو بم سے اڑانے کادل کر تا ہے جس کی دولت نے انھیں ایمان فروش بنادیا۔اس بی
جے پی کو صفحہ ہستی سے مٹانے کو جی کرتا ہے جو مسلمانوں کا بے دریغ قتل کر
نے اور ان کا ملّی تشخص ختم کر نے منصوبے بنا نے کے باوجود انھیں اپنے جال
میں پھنسارہی ہے۔ |