امن کا مہینہ رمضان المبارک

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: "اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم کا ہر کام، اس کے لیے ہے، مگر روزہ میرے لیے ہے اور میں خود اس کا بدلہ دوں گا۔ روزہ ڈھال ہے اور جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ اس دن فحش بات نہ کرے، شور نہ کرے، اگر کوئی اسے گالی دے یا لڑائی لڑے تو دو مرتبہ کہہ دے کہ میں روزے دار ہوں۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، روزے دار کے منہ کی مہک اﷲ کے نزدیک مشک کی بو سے زیادہ خوشبو دار ہے۔ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں:جب افطار کرتا ہے تو افطار پر خوش ہوتا ہے اور جب اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزے پر خوش ہوگا"(الفتح الربانی:ترتیب مسنداحمد) ۔ حدیث نبویؐ کی روشنی میں رمضان کے مہینہ کی فضیلت، روزہ کی اہمیت اور اس کے فوائد،اﷲ سے قربت اور اس کے مخصوص حکم کی بجاآوری کے نتیجہ میں رب العالمین کی تجلی اور اس سے حاصل ہونے والی لا محدود خوشی کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ مسلمان کے لیے روزہ نہ صرف عبادت ہے بلکہ اس کی فلاح ،ترقی اور ارتقاء کا ذریعہ ہے۔روزہ کے دوران اس کی شخصیت خود اس کے لیے اور عالم انسانیت کے لیے امن و امان کا ذریعہ بنتی ہے وہیں اس میں یہ بات بھی پوشیدہ ہے کہ امن و امان کے قیام کے بغیر انسان کا ارتقاء رک جاتا ہے، وہ ترقی نہیں کر پاتا اور نہ ہی وہ اﷲ کا قرب حاصل کر پاتا ہے۔ حدیث میں یہ بات بہت صراحت کے ساتھ کہی گئی ہے کہ جب تم روزہ کی حالت میں ہو اور کوئی تم سے بد کلامی کے ساتھ پیش آئے یا لڑائی کرے تو اس سے کہہ دیا جائے کہ میں روزہ سے ہوں۔ روزہ سے ہوں یعنی اس حالت میں نہیں ہوں کہ تم سے تمہارے اس غلط رویہ کا غلط انداز سے جائز بدلہ لوں بلکہ بہتر یہ ہے کہ تم روزہ جیسی مخصوص عبادت میں خلل نہ ڈالو ۔میرا تعلق اس وقت راست اﷲ سے منسلک ہے اور میں دوران ِعبادت اس تعلق کو منقطع نہیں کرنا چاہتا۔

روزہ دن بھر کی عبادت:
ہم جانتے ہیں کہ جب بندہ نماز میں اﷲ کے سامنے ظاہری و باطنی طور پر تعلق استوار کر لیتا ہے تو دورانِ نماز وہ لوگوں سے بات چیت نہیں کرتا، اﷲ کی جانب رخ کرنے کے بعد اِدھر اُدھر نہیں دیکھتا ،اگر کوئی بدکلامی کرنے یا لڑنے جھگڑنے پر آجائے تو بحالت نماز اس سے پرہیز کرتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح روزہ کی حالت میں بھی بندہ عبادت میں ہوتا ہے، اﷲ سے اس کا تعلق استوار ہو چکا ہوتا ہے،لہٰذا روزہ کی حالت میں وہ لڑائی جھگڑے،بدکلامی وغیرہ سے پرہیز کرتا ہے اور اپنی عبادت میں خلل ڈالنے والوں سے نرمی اختیار کرتے ہوئے کہہ دیتا ہے کہ میں روزہ سے ہوں یا میں روزہ دار ہوں ۔سلامتی ہو تم پر اور اﷲ تعالی تم کو ہدایت عطا فرمائے ۔اگر ایک مرتبہ ایسا کرنے پر وہ اپنے رویہ سے گریز نہیں کرتا تو اس کو دو بار ہ متوجہ کیا جاتا ہے۔اسی طرح روزے کے ڈھال ہونے کا مطلب یہ بھی ہے کہ روزہ نفسانی شہوت سے بچانے کابہترین ذریعہ ہے۔ روزہ کا مقصد صرف کھانا پینا ترک کر دینا نہیں،بلکہ دوسرے گناہوں اور اخلاقی خرابیوں سے بھی گریز کرنا ہے۔ حدیث میں روزے کے ڈھال ہونے کابیان ہے اور کہا گیا کہ جب تم روزے سے ہو تو فحش بات نہ کرواور شور و شغب نہ کرو۔پھر جب تم کوپرہیز کرنے کی عادت ہو جائے گی تو یہی تمہاری ڈھال ہوگی جو تمہاری حفاظت کرے گی ہر اس برائی سے جس سے اﷲ اور اس کا رسول (صلی اﷲ علیہ وسلم )منع کرتا ہے۔

رمضان کے عشروں کی حقیقت:
رمضان کے مہینہ کو اﷲ رب العزت نے تین عشروں میں تقسیم کیا ہے۔ اور ہر عشرہ(دس دن) کی خاص فضیلت ہے۔پہلا عشرہ رحمت کا ہے،دوسرا مغفرت کا اور تیسرا عذاب جہنم سے نجات کا ہے۔ پہلے عشرہ کی ابتداہی سے اﷲ رب العالمین کی بے انتہا رحمتوں کا نزول شروع ہوجاتا ہے۔ جس کا ظاہری مشاہدہ اس طرح ہوتا ہے کہ امت مسلمہ سے تعلق رکھنے والا ہر عام و خاص بندہ اﷲ کی عبادت میں ہمہ تن مصروف ہو جاتا ہے۔اس کو اس مشینی دور میں جہاں ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے اور انسان مادّی ترقی کے لیے جنونی حد تک سرگرم عمل ہے، اﷲ تعالیٰ اس کو توفیق بخشتا ہے کہ وہ اس بھنور سے نکل کر نیکی کے موسمِ بہار میں عبادت کی جانب راغب ہو،نیکی کے کام انجام دے، روزے داروں کا روزہ کھلوائے، برائیوں اور معصیت کے کاموں سے پرہیز کرے،غریبوں،مسکینوں، حاجتمندوں کی مدد کرے،بے انتہا فیاضی کا مظاہرہ کرے اوراﷲ تعالیٰ کی رحمتیں سمیٹتا چلا جائے۔اس طرح جب وہ ان کاموں میں مصروف ہو جائے گا اور اﷲ کی عبادت کو شعوری طور پر انجام دینے والا بن جائے گا تو نہ صرف رحمت بلکہ اس کی مغفرت بھی کی جائے گی۔صراط مستقیم پر خود چلنے اور معاشرہ میں لوگوں کو تعاون کرنے کے نتیجہ میں جو معاشرہ وجود پذیر ہوتا ہے اس کا لازمی تقاضہ ہے کہ ایسے افراد کو جہنم سے بچا لیا جائے۔مزید اس آخری عشرہ میں شب قدر کی تلاش، اﷲ سے اپنے گناہوں کی معافی،آئندہ اپنی زندگی کو اﷲ کے بتائے طریقہ پر استوار کرنے کا عہد،قرآنِ حکیم کا مطالعہ،یہ سب مل کر اس کے لیے نجات کا سامان بہم پہنچانے کا ذریعہ بن جاتے ہیں ۔اس طرح اﷲ تعالیٰ رمضان المبارک کے مہینہ کے اختتام پر اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیتا ہے۔
تقویٰ کیا ہے؟

زندگی کا یہ راستہ جس پر انسان سفر کر رہا ہے، دونوں طرف افراط و تفریط، خواہشات اور میلاناتِ نفس، وساوس اور ترغیبات، گمراہیوں اور نافرمانیوں کی خار دار جھاڑیوں سے گھرا ہوا ہے۔ اس راستے پر کانٹوں سے اپنا دامن بچاتے ہوئے چلنا اور اطاعتِ حق کی راہ سے ہٹ کر بد اندیشی و بد کرداری کی جھاڑیوں میں نہ الجھنا، یہی تقویٰ ہے ۔اور یہی وہ عظیم مقصد ہے جس کے حصول کے لیے اور اس پر آئندہ کار بند رہنے کی تیاری کے لیے اﷲ تعالیٰ نے روزے فرض کیے ہیں۔ یہ وہ مقوی دوا ہے جس کے اندر خدا ترسی و راست روی کی قوت بخشنے کی خاصیت ہے۔ مگر فی الواقع اس سے یہ قوت حاصل کرنا انسان کی اپنی استعداد پر موقوف ہے۔ اگر آدمی روزے کے مقصد کو سمجھے اور جو قوت روزہ دیتا ہے اس کو لینے کے لیے تیار ہو اور روزے کی مدد سے اپنے اندر خوف خدا اور اطاعتِ امر کی صفت کو نشو و نما دینے کی کوشش کرے تو یہ چیز اس میں اتنا تقویٰ پیدا کر سکتی ہے کہ صرف رمضان ہی میں نہیں بلکہ اس کے بعد بھی سال کے باقی گیارہ مہینوں میں وہ زندگی کی سیدھی شاہراہ پر دونوں طرف کی خار دار جھاڑیوں سے اپنے دامن کو بچائے ہوئے چل سکے۔ اس صورت میں اس کے لیے روزے کے نتائج(ثواب) اور منافع(اجر) کی کوئی حد نہیں۔لیکن اگر وہ اصل مقصد سے غافل ہو کر محض بھوک پیاس ہی کوروزہ سمجھے اور تقویٰ کی صفت حاصل کرنے کی سعی و جہد نہ کرے تو ظاہر ہے کہ وہ اپنے نامۂ اعمال میں بھوک پیاس اور رات جگے کے سوا اور کچھ نہیں پا سکتا۔ اسی لیے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: "آدمی کا ہر عمل خدا کے ہاں کچھ نہ کچھ بڑھتا ہے، ایک نیکی دس گنا سے سات سو گنا تک پھلتی پھولتی ہے۔ مگر اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزہ مستثنٰی ہے، وہ میری مرضی پر موقوف ہے، جتنا چاہوں اس کا بدلہ دوں"(متفق علیہ)۔یعنی بحالت روزہ جس شعور اور مشقت سے وہ نبرد آزما ہو گا اسی قدر اس کا اجر اس کو حاصل ہو گا۔

عبادات کی حکمت:
اسلام میں جو اعمال اور عبادات فرض یاواجب کیے گئے ہیں ان میں بے انتہا حکمتیں پوشیدہ ہیں۔دراصل اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر مخصوص توجہ فرماتے ہوئے اُن کے لیے وہی اصول و ضوابط مقرر فرمائے ہیں جو بندے کی دنیا وی اور اخروی کامیابی و سعادت کا ذریعہ بنے۔ اﷲ تعالیٰ کے دربار میں مقبول عبادت کا سب سے اہم اور بنیادی قاعدہ خلوصِ نیت ہے۔ اگر عبادت کا بنیادی محرک رضائے الٰہی نہ ہو تو اس عبادت کی نہ کوئی حیثیت ہے اور نہ ہی کوئی ثواب ۔ اﷲ کے رسولؐ فرماتے ہیں"کتنے ہی روزہ دار ہیں جنھیں ان کے روزے سے سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں ملتا"۔دوسری اہم بات یہ کہ اسلام عبادت گزاروں کو نا قابل برداشت مشقت میں نہیں ڈالتا بلکہ عبادت میں آسان شرائط کے ساتھ رخصت بھی فراہم کرتا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی بیمار ہے تو مخصوص دنوں میں روزہ سے رخصت کی آزادی ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ اس کو صحت مند کردے تو اس کی تلافی کرے۔اگر تندرستی کی امید نہیں ہے تو فدیہ ادا کرے۔لیکن یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ بلا عذر عبادات سے محرومی دراصل انسان کی ابدی محرومی کا سبب بنتی ہے اور یہی محرومی انسان کو دنیا و آخرت کے خساروں سے بھی دوچار کرے گی ۔آخری بات یہ کہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی پر اُن تمام عبادات کے گہرے اثرات مرتب ہونے چاہیں جو وہ شب و روز انجام دیتا ہے۔ یہ فرائض محض عبادت برائے عبادت نہیں، بلکہ اُخروی فلاح کے ساتھ ساتھ دنیاوی کامیابی و کامرانی پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ اسلام نے کوئی ایسا عمل فرض نہیں کیا جس کے نتائج انسان کی عملی زندگی میں ظاہر نہ ہوں۔ شریعت نے اگر کسی چیز کا حکم دیا ہے تو وہ سراسر خیر ہی ہے اور بندوں سے اس کا راست تعلق ہے اور اگر کسی عمل سے منع کیا ہے تو صرف اس لیے کہ وہ انسان اور انسانی معاشرہ کے لیے ضرر رساں ہے۔ ارشاد ربانی ہے:"(پس آج یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے) جو اس پیغمبرنبی امی صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور بندشیں کھولتا ہے، جن میں جکڑے ہوئے تھے" (اعراف:۷:۱۵۷)۔

رمضان کا پیغام:
معلوم ہوا کہ یہ مہینہ ہدایت حاصل کرنے اور کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہونے کا ہے۔اس ماہ مبارک میں معاشرہ میں ایک ایسی فضاء قائم ہو جاتی ہے جس میں ہر طرف بندے سکون و عافیت اورمحبت و ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔لڑائی جھگڑے اور بدکلامی سے گریز کرتے ہیں،آپس میں ملتے جلتے اور روزہ داروں کے افطار کا اہتمام کرتے ہیں۔قرآنِ حکیم کی نہ صرف تلاوت کرتے ہیں بلکہ اس کا شعوری طور پر مطالع بھی کرتے ہیں ۔قرآنی احکامات کو اپنی زندگی میں رائج کرتے ہوئے تقویٰ کی اعلی صفت سے ہمکنار ہونے کی سعی و جہد کرتے ہیں۔ نتیجتاً ایک ایسا معاشرہ وجود میں آتا ہے جو اسلامی معاشرہ کا عکاس ہے۔یہ مہینہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ برادرانِ وطن کے لیے بھی یہ پیغام رکھتا ہے کہ دراصل اسلام ہی امن و امان کے قیام کا ذریعہ بن سکتا ہے۔اس امن و امان کو قائم اورباقی رکھنے کے لیے لازم ہے کہ پہلے مسلمان اور بعد میں دیگر اقوام اسلامی نظام کے قیام میں سعی و جہد اور تعاون پیش کریں۔اس امید کہ ساتھ کہ یہ امن و امان جو رمضان المبارک میں قائم ہے وہ آئندہ گیارہ مہینہ بھی برقرار رہ سکتا ہے گرچہ اُن سازشوں کو منظر عام پر لانے خود مشکوک نہ ٹھہریں جن پر ریاستی سطح پر امن و امان برقرار رکھنے کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
Muhammad Asif Iqbal
About the Author: Muhammad Asif Iqbal Read More Articles by Muhammad Asif Iqbal: 218 Articles with 161858 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.