رمضان اور خطبۂ نبویﷺ

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
رمضان المبارک کے روزے 2 ہجری میں فرض ہوئے، چنانچہ رمضان المبارک 2 ہجری کے آغاز سے ایک روز قبل رسول اﷲﷺ نے نہایت جامع خطبہ ارشاد فرمایا۔ یہ خطبہ مشکوٰۃ المصابیح کی کتاب الصوم، فصل ثالث، صفحہ: 173 پر صحابی رسول حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ کی روایت سے موجود ہے۔ جس میں رسول اﷲﷺ نے فرمایا:
’’ اے لوگو! تحقیق تم پر ایک بڑی عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے، یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اﷲ تعالیٰ نے اس کے روزے فرض اور اس کی راتوں کو قیام (عبادت) نفل فرما یا ہے، جو شخص اس میں ایک نیکی (نفل کام) کرے وہ اس کی طرح ہے جس نے اس ماہ کے سوا کسی اور ماہ میں فرض کام کیا اور جس نے اس ماہ میں ایک فرض ادا کیا تو وہ اس کی طرح ہے جس نے اس ماہ کے سوا کسی اور ماہ میں ستر فرض ادا کئے اور وہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے اور ایک دوسرے کی غمخواری کا مہینہ ہے اور ایسا مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق زیادہ کردیا جاتا ہے جو شخص اس میں روزہ دار کو افطار کروائے تو یہ عمل اس کے گناہوں کی بخشش اور دوزخ سے اس کی گردن کی آزادی کا سبب ہے اور اس کے لئے بھی روزہ دار کے برابر ثواب ہے اس کے بغیر کہ اس کے ثواب میں کوئی کمی ہو۔ ہم نے عرض کیا: یارسول اﷲ! ہم میں سے ہر شخص روزہ دار کی افطاری کی استطاعت نہیں رکھتا؟ تو رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اﷲ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی عطا فرماتا ہے جو لسی کھجور یا محض پانی سے کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرادے اور جو شخص کسی روزہ دار کو پیٹ بھر کھلائے تو اسے اﷲ تعالیٰ میرے حوض سے ایسا پانی پلائیں گے جس کے بعد جنت میں داخل ہونے تک وہ کبھی پیاس محسوس نہیں کرے گا۔ اور وہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کا پہلا عشرہ رحمت دوسرا بخشش اور تیسرا جہنم سے آزادی کا ہے اور جو شخص اس میں اپنے غلام کے کام میں تخفیف کرے اﷲ تعالیٰ اس کی بخشش فرمائے گا اور اسے دوزخ سے آزادی دے گا۔‘‘

نبی اکرم ﷺ نے حدیث بالا میں رمضان المبارک کو شہر عظیم اور شہر مبارک کے نام دیئے ہیں۔ اور اس کی چند وجہ درج ذیل ہیں:
رمضان میں قرآن (لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر) نازل کیا گیا۔

رمضان میں ایک رات ہے جس کی عبادت ایک ہزار ماہ، یعنی 83سال اور چار ماہ کی عبادت سے افضل ہے۔

رمضان میں جو شخص لیلۃ القدر کو ایمان کی حالت میں اور ثواب پانے کی نیت سے عبادت کرتا ہے اﷲ کریم اس کے پہلے گناہ معاف فرمادیتے ہیں۔

رمضان میں روزہ رکھنے والے کے منہ کی بو اﷲ تعالیٰ کے نزدیک کستوری سے زیادہ اچھی ہے۔

رمضان میں جس نے آخری دس روز اعتکاف کیا تو وہ دوحجوں اور دو عمروں کا ثواب پاتا ہے۔

رمضان میں رکھے گئے روزہ کی جزا خود اﷲ تعالیٰ دیتے ہیں یا خود اﷲ تعالیٰ ہیں۔

رمضان میں ایمان کی حالت میں اور ثواب پانے کی نیت تراویح ادا کرنے والے کے پہلے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔

رمضان میں ایک نفل کام کرنے والے کو فرض کام جتنا ثواب ملتا ہے۔

رمضان میں ایک فرض ادا کرنے والے کو ستر فرضوں کا سا ثواب ملتا ہے۔ اور

رمضان میں جو شخص کسی روزہ دار کو پیٹ بھر کھلاتا ہے اسے اﷲ تعالیٰ ایسا پانی پلائیں گے جس کے بعد وہ جنت میں داخل ہونے تک پیاس محسوس نہیں کرے گا۔

بہر حال رمضان کو دیگر مہینوں میں ایک خصوصی مقام حاصل ہے۔ اور روایات سے ثابت ہے کہ صحائف ابراہیم علیہ السلام اور توریت، زبور اور انجیل کا نزول بھی ماہ مقدس رمضان المبارک میں ہوا ہے۔

رمضان کی سب سے اہم عبادت روزہ ہے۔ اور صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور جنسی کاموں سے پرہیز کرنا روزہ کہلاتا ہے۔ روزہ کی حالت میں چغل خوری، غیبت، جھوٹ، گالی، جھگڑا، اور کسی بھی ناجائز قول وفعل سے روزہ مکروہ ہوجاتا ہے۔

جو شخص جان بوجھ کر بغیر عذر شرعی روزہ توڑے اس پر لازم ہے کہ رمضان المبارک کے بعد روزہ کی قضا کرے اور کفارہ ادا کرے۔ کفارہ یہ ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو دو ٹائم کھانا کھلائے، یا ساٹھ روزے مسلسل رکھے اور رقم کی صورت میں یہ ہے کہ سوا دوسیر گندم ساٹھ بار یا اس کی قیمت ایک یا زائد ضرورتمندوں یا دینی مدارس کے طلبہ کو دے دے۔

جو شخص 57میل اور 3فرلانگ یا اس سے لمبے سفر کے لئے گھر سے نکلے یا بیمار ہو یا بیمار ہونے یا بیماری لمبی یا شدید ہوجانے کا قوی اندیشہ ہو یا دودھ پلانے والی عورت یاحاملہ عورت کو روزہ کی صورت میں بچے یا جنین (پیٹ میں بچہ) کے بارے میں خطرہ ہو تو ایسے لوگ روزہ افطار کرسکتے ہیں، لیکن بعد میں قضاء لازم ہے۔ حیض اور نفاس کی حالت میں عورت پر روزہ رکھنا حرام ہے البتہ بعد میں قضاء لازم ہے۔

وہ بوڑھا جو کمزوری کی وجہ سے روزہ اور اس کی قضا پر قادر نہ ہو روزہ افطار کرسکتا ہے، لیکن اس پر لازم ہے کہ ہر روزے کے بدلے فدیہ دے۔ یعنی ایک مسکین کو دو ٹائم کھانا کھلائے یا سوا دوسیر گندم یا اس کی قیمت فی روزہ کے حساب سے ضرورتمندوں یا دینی مدارس کے طلبہ کو دے۔

روزہ کے مسائل تفصیل کے ساتھ جاننے کے لئے ’’بہار شریعت‘‘ جلد: 1، حصہ:5۔ کا مطالعہ فرمائیں۔ بلکہ دیگر مسائل شرعیہ سے واقفیت کے لئے یہ معتبر کتاب اپنے گھر ضرور رکھیں۔ نیز ’’بہار شریعت مکمل (20حصے) آپ ہماری ویب سائٹ www.ahlesunnat.info پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

روزہ رمضان کی فضیلت کے بارے میں حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’اﷲ عزوجل نے فرمایا: انسان کا ہر عمل اس کا ہے مگر روزہ میرا ہے اور میں اس کی خود جزاء دیتا ہوں یا میں ہی اس کی جزاء ہوں، اور روزہ (دوزخ سے) ڈھال ہے، پس جب تم میں سے کسی ایک کا روزہ ہو تو وہ رفث (جو شوہر اور بیوی آپس میں محبت وپیار کرتے ہیں یا بیہودہ باتیں) نہ کرے اور نہ ہی شور وغل کرے، پس اگر اسے کوئی گالی دے تو کہے میں روزہ دار ہوں۔ مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد ﷺ کی جان ہے روزہ دار کے منہ کی بو اﷲ تعالیٰ کے نزدیک کستوری سے زیادہ اچھی ہے، روزہ دار کے لئے 2خوشیاں ہیں جس سے وہ لطف اندوز ہوتا ہے: جب افطار کرتا ہے تو افطاری سے لطف اندوز ہوتا ہے، اور جب اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو روزہ (کے اجر وثواب) پر لطف اندوز ہوگا۔‘‘

ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ’’جہاد کرو تم غنیمت پاؤگے، روزہ رکھو تم صحت مند ہوجاؤ گے، سفر کرو تمہیں غنا حاصل ہوگا۔‘‘

ایک اور حدیث نبوی ہے کہ ’’روزہ اور قرآن قیامت کے روز بندے کے لئے شفاعت کریں گے۔‘‘

رمضان کی ایک دوسری عبادت نماز تراویح ہے۔ حدیث بالا میں ہے: ’’اﷲ تعالیٰ نے اس کی راتوں کا قیام تطوع (نفل) فرمادیا ہے۔‘‘

قیام لیل سے مراد نماز تراویح ہے۔ تطوع کا اطلاق سنت مؤکدہ، سنت غیر مؤکدہ اور جملہ نمازوں پر ہوتا ہے جو فرض یا واجب نہیں۔ نماز تراویح سنت مؤکدہ ہے اور جماعت سے پڑھنا سنت غیر مؤکدہ ہے اور جماعت تراویح میں ایک قرآن مجید ختم کرنا سنت متواتر ہے۔

نماز تراویح کے بارے میں ارشاد نبوی ہے: ’’جس نے رمضان میں قیام کیا (یعنی تراویح ادا کی) ایمان کی حالت میں اور ثواب پانے کی نیت سے اس کے پہلے گناہ معاف ہوگئے۔‘‘

اور مصنف ابن ابی شیبہ جلد نمبر 2، صفحہ نمبر 394، سنن کبریٰ بیہقی، اور جامع ترمذی میں حدیث پاک ہے:

’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ رمضان المبارک میں وتر کے علاوہ 20رکعت ٓ(نماز تراویح) ادا فرماتے تھے۔

اور مصنف عبد الرزاق جلد نمبر 4 ، صفحہ نمبر 261 پر امام بخاری ومسلم کے داد استاد محدث عبد الرزاق رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:
’صحابی رسول حضرت سائب فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دور میں 20رکعت نماز تراویح ادا کرتے تھے۔

جبکہ مرقات شرح مشکوٰۃ المصابیح میں شارع مشکوٰۃ علامہ علی قاری مکی فرماتے ہیں کہ تمام صحابہ کا اس امر پر اجماع منعقد ہوچکا ہے کہ نماز تراویح 20رکعت ہے۔ اور یہی آئمہ اربعہ کا موقف ہے۔

رمضان المبارک کی خاص عبادات میں سے ایک عبادت اعتکاف ہے۔ اعتکاف کا لغوی معنیٰ’’ ٹھہرنا‘‘ ہے۔ اور شرع شریف میں اعتکاف کا معنیٰ کسی ایسی مسجد میں عبادت کی نیت سے ٹھہرنا ہے جہاں اذان وجماعت کا انتظام موجود ہو۔

نفلی اعتکاف کے لئے کوئی مدت مقرر نہیں، نفلی اعتکاف چند منٹوں کا بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن سنت اعتکاف کی مدت 20رمضان المبارک غروب آفتاب سے لے کر عید الفطر کا چاند ثابت ہونے تک ہے۔

سید الشہداء حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے: ’’رسول اﷲﷺ نے فرمایا: جس نے رمضان المبارک کے دس روز اعتکاف کیا تو وہ دوحجوں اور دو عمروں کی مثل ہے۔‘‘

اعتکاف کی حالت میں پیشاب، پاخانہ، فرض غسل، اور نماز جمعہ کے سوا مسجد سے نکلنا ممنوع ہے۔ معتکف کو چاہئے کہ فضول اور بے مقصد گفتگو سے پرہیز کرے، قرآن مجید کی تلاوت، درود شریف اور دینی کتب کے مطالعہ اور تعلیم وتعلم میں مشغول رہے۔

رمضان میں ایک رات ہے جس کی عبادت ایک ہزار ماہ، یعنی 83سال اور چار ماہ کی عبادت سے افضل ہے۔ احادیث مبارکہ صحیحہ میں نبی اکرم ﷺ نے رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں یعنی اکیسویں، تیئسویں، پچیسویں، ستائیسویں اور انتیسویں راتوں میں اس مبارک رات کو تلاش کرنے کا حکم دیا ہے۔ تلاش کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر ان پانچ راتوں میں شب بیداری کی جائے تو لیلۃ القدر کی عبادت کا یقینا ثواب مل جاتا ہے۔ اسی طرح اعتکاف بیٹھنے والوں کو بھی یقینی طور پر لیلۃ القدر کی عبادت کا ثواب مل جاتا ہے کیونکہ معتکف کا سونا بھی عبادت شمار ہوتا ہے۔

ماہ رمضان میں زکوٰۃصدقات اور خیرات کا ثواب ستر گنا بڑھ جاتا ہے۔ جیساکہ حدیث بالا میں ارشاد نبوی ہے۔ لہذا رمضان المبارک کی اس برکت کو حاصل کرنے کے لئے بہت سے مسلمان زکوٰۃ کا فریضہ رمضان المبارک میں ادا کرتے ہیں اور احادیث مبارکہ میں آیا ہے کہ بہت سے صحابہ کرام صدقۃ الفطر (جو کہ عید الفطر کی صبح صادق کے وقت واجب ہوتا ہے) رمضان المبارک میں ہی ادا کردیا کرتے ہیں۔

صدقۃ الفطر کی مقدار فی کس سوا دو سیر گندم یا اس کی قیمت ہے۔ حدیث پاک میں آیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ رمضان المبارک میں کھلی ہوا سے بھی زیادہ سخاوت فرماتے تھے۔ لہذا مسلمانوں کو ماہ مقدس رمضان المبارک میں جملہ امور خیر اور بالخصوص دینی مدارس اور قریبی رشتہ داروں میں دل کھول کر پیسہ خرچ کرنا چاہئے۔

رمضان المبارک میں قرآن مجید اور دیگر آسمانی کتب کا نزول ہوا ہے، لہذا رمضان المبارک میں خصوصی طور پر قرآن مجید کی تلاوت زیادہ سے زیادہ کرنی چاہئے۔ حدیث پاک میں آیا ہے کہ مضان المبارک میں حضور نبی اکرم ﷺ جبریل علیہ السلام کے ساتھ قرآن مجید کا دور کیا کرتے۔ اس لئے ہر مسلمان کو کم از کم ایک بار قرآن مجید کی تلاوت ضرور مکمل کرنی چاہئے۔

ہمارے امام اعظم نعمان بن ثابت ابوحنیفہ رضی اﷲ عنہما رمضان میں 61بار قرآن مجید کی تلاوت مکمل فرماتے تھے۔ اﷲ تعالیٰ عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔ وصلی اﷲ علی حبیبہ سیدنا محمد وعلیٰ آلہٖ وصحبہٖ اجمعین۔
Pir Muhammad Afzal Qadri
About the Author: Pir Muhammad Afzal Qadri Read More Articles by Pir Muhammad Afzal Qadri: 27 Articles with 56007 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.