وزیر خزانہ کا یہ بیان کہ آئی
ایم ایف سے قرض اپنی شرائط پر لیں گے پڑھ کے لوگوں کو عجیب سا لگا کیونکہ
قرض دینے والے کی مرضی زیادہ مقدم ہوتی ہے نہ کہ لینے والے اندر کی بات یہ
ہے کہ پاکستان کا وہ بچہ جو پہلے ساٹھ سے ستر ہزار کا مقروض تھا اب اس کا
قرضہ بڑھ کے اسی سے پچاسی ہزارپر پہنچ گیا ہے جس میں مذید اضافے کی توقع ہے
پاکستان کی نئی حکومت نے آنے سے پہلے آئی ایم ایف سے کوئی قرضہ نہ لینے کا
اعلان کیا تھا اور کشکول کو توڑ کر ملکی وسائل سے کام چلانے کی باتیں ہو
رہی تھیں مگر پھر اچانک کیا ہوا کہ خزانے کو عارضی طور پر بھرنے کے لئے آئی
ایم ایف سے رجوع کرنا پڑا پاکستان کی نئی نویلی حکومت نے آئی ایم ایف سے
قرضہ لے کر ثابت کر دیا کہ کشکول ابھی ٹوٹا نہیں بلکہ اور زیادہ لمبا ہو
گیا ہے کیونکہ پاکستان نے جتنے بڑے قرض کی رقم لی ہے اس کو چکانے میں اس
حکومت کا سارا ٹائم پیریڈ ختم ہو جائے گا اور اس کا سارا بوجھ اگلی آنے
والی حکومت پر ہو گا اس نئے قرضے کی وجہ سے وہ تمام امیدیں جو پاکستان کے
عوام نے ووٹ دے کر اور نئی حکومت بنا کر پیدا کر لی تھیں وہ ٹوٹ رہی ہیں
نئی آنے والی حکومت نے پہلے ہی پاور پلے میں ہی عوام کے پسینے نکال دیے ہیں
اور ابھی پینتالیس اوور کا میچ باقی ہے اس صورتحال سے عوام کی پریشانی نظر
آ رہی ہے مجھے سابق وزیر اعظم گیلانی کی وہ تقریر آج بھی یاد آ رہی ہیں جس
میں انھوں نے فرمایا تھا کہ حکومت اپنے پہلے سو دن کی کرکردگی سے ہی عوام
کو مطمئن کر دے گی مگر پھر کیا ہوا تھا پاکستان کے عوام اچھی طرح جانتے ہیں
اب بھی صورتحا ل اسی طرف جا رہی ہے نئی حکومت بنی ہے اور کچھ بھی نہیں بدلا
ماسوائے حکمران چہروں کے نہ بے روزگاری کا کچھ بن سکا نہ لوڈ شیدنگ کا نہ
امن و امان کا اور نہ ہی ملکی معاشی صورتحال کا الٹا لوگوں کے لئے حالات کو
اور زیادہ مشکل بنا دیا گیا ہے رہی سہی کثر عوام پر لگائے جانے والے نئے
ٹیکسوں نے پوری کر دی پاکستان کا ایک عام آدمی جو کہ ان دنوں بہت مشکل سے
جی رہا ہے اور اس کے شب و روز جس مشکل صورت حال کا شکار ہیں ان کا ادراک
حکمران اور اعلیٰ اشرفیہ کو نہیں ہے ایک عام مزدور آدمی پورا دن مزدوری
کرنے کے بعد بمشکل تین سو سے چار سو روپے کما پاتا ہے اب ان چار سو روپوں
کا اگر کنجوسی کے ساتھ بھی استعمال کیا جائے تو وہ اپنے پورے دن کے اخراجات
کو کنٹرول نہیں کر سکتا کیونکہ مہنگائی اتنی زیادہ ہے کہ وہ چاہتے ہوئے بھی
اپنی لیے کچھ بچت نہیں کر سکتا اس کے لیے دو وقت کی روٹی کو اتنا مشکل کر
دیا گیا ہے کہ سوائے موت کے اور کوئی حل اس کو نظر نہیں آتا چار سو روپے جو
اس نے پورے دن میں کمائے تھے تین وقت کا کھانا کھانے کے بعد کم پڑ جاتے ہیں
۔ ملکی اداروں کا یہ حال ہے جس کو دیکھو خسارے میں کوئی دس ارب کا مقروض تو
کوئی سو ارب کا اب ان اداروں کا قرض اتارنے کے لیے مزید قرض لے لیا جاتا ہے
جوکہ ادارے پر مزید بوجھ بن جاتا ہے نئی حکومت آنے کے بعد ایک اچھے بجٹ کی
نوید سنائی جا رہی تھی اور کہا جا رہا تھا یہ ایک مثالی بجٹ ہو گا پاکستان
کے اکثریتی عوام بجٹ کو لفظوں کا ہیر پھیر سمجھتی ہے کیونکہ بجٹ ہوتا ہے
پورے سال کے لیے ہوتا ہے مگر کھانے پینے اور روزمرہ کی اشیاء کی قیمتوں میں
تو ہر روز اضافہ کر دیا جاتاہے جن چیزوں پر سبسڈی دی جاتی ہے وہ بجٹ کے کچھ
ہی دنوں بعد ختم کر دی جاتی ہے اور نئے نئے طریقے دریافت کر کے عوام سے
پیسے نکلوائے جاتے ہیں جس کو عام الفاظ میں منی بجٹ کہا جاتا ہے اور
پاکستان میں آئے روز اس قسم کے منی بجٹ آتے رہتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں ڈنگ
ٹپاؤ کی پالیسی رائج ہے جہاں ضرورت پڑے آئی ایم ایف سے بھاری سود پر قرضہ
لے کر وقت گزاری کر لی جاتی ہے پھر ان کی دی جانے والی شرائط پر عمل کر کے
ٹیکسوں کے بوجھ تلے عوام کو پیسا جاتا ہے اور نتیجہ مہنگائی کی صورت میں سب
کے سامنے آتا ہے اور حکمرانوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی انہیں تو
اپنے مفادات کو تحفظ دینا ہے اور اپنے لیے پاکستان کے عوام کے پیسوں سے
خریداری کرنا اور حج اور عمرے کرنا سیر سپاٹے کرنا اور جب اس کام پر تنقید
کی جائے تو کہا جاتا ہے کہ جمہوری حکومت کے خلا ف سازش ہیں اور کہا جاتا ہے
کہ یہ لوگ جمہوریت کے دشمن ہیں اب بھلا کوئی یہ بتائے کہ جمہوریت ہوتی ہے
عوام کی بھلائی کے لیے اس کی وجہ سے عوامی ترقی کے راستے کھلتے ہیں لیکن
یہاں گنگا الٹی بہہ رہی ہے اب پاکستان کی عوام بھی اب اس صورتحال سے کافی
پریشان نظر آرہی ہے کیونکہ ان کو اس نئی حکومت سے بہت سی توقعات تھیں کہ ان
کے زخموں پر مرہم رکھا جائے گا مگر صورت حال اس کے برعکس ہے عوام کی
مہنگائی کی وجہ سے چیخیں نکل رہی ہیں مگر کوئی سننے والا نہیں کیونکہ یہاں
کے حکمران جب اقتدار میں ہوں تو وہ بہرے ہو جاتے ہیں لیکن پھر بھی پاکستان
کے عوام بہتری کی امید رکھتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایسی ہی صورتحال
پورے ملک کی ہے اور ان حالات کو بدلنے کے لئے انھوں نے جو کرنا تھا کر لیا
اب نئی قائم ہونے والی حکومت کا کام ہے کہ وہ عوام کو ریلیف دے اور ان تمام
مسائل پر قابو پائے - |