عجب رنگ ہیں

خبر ہے کہ گلشن اقبال بلاک 6(کراچی )میں گلشن چورنگی پرواقع النساءمیرج ہال میں مخیرحضرات کی جانب سے رمضان شریف کی آمدکے سلسلے میں مفت راشن کی تقسیم کے دوران بدنظمی کی وجہ سے بھگدڑ مچ گئی۔وجہ یہ سامنے آئی ہے کہ عقب سے آنے والی خواتین نے قطارمیں موجودخواتین کودھکے دیئے جس کی وجہ سے سے دو خواتین دم توڑ گئیں اور سات زخمی ہوئیں۔ہماری دانست میں اسکے تین پہلوہیں۔اول:
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم 1947سے لے کر اب تک کہیں بھی کسی بھی مقام پر قطارنہیں بناپائے ۔چونکہ قطاربنانے کیلئے صبر کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ ہمارے ہاں تیزی سے ناپید ہوتاجارہاہے۔قطار صرف غریب ہی نہیں توڑتے بلکہ ملازم طبقہ ‘سیاسی طبقہ ‘صنعت وزراعت سے منسلک لوگ الغرض ہماری پوری قوم اس مرض میں مبتلاہے۔سیاسی بھی جب چاہتے ہیں سنیارٹی کی قطار کوتارتارکرکے عقب سے آنے والوں کو آن کی آن میں کہاں سے کہاں پہنچادیتے ہیں۔اورکبھی کبھارہم خود آگے بڑھ کرسیاست دانوں کے پاﺅں پکڑکریانیلے پیلے کاغذ کی مدد سے اپنے سے سنیئر کوروندڈالتے ہیں۔قطارسے یاد آیاکہ میرے کزن صابرحسین کہتے ہیں کہ لندن میں ہمارے ایک دوست قطارتوڑنے لگے تو انگریز نے کہا”ایسامت کیجئے ہم نے ایک صدی لگائی ہے قطاربناتے بناتے “۔جناب انگریز نے قطاربناکرہی ترقی کی ہے۔اور اس حساب سے ہمارے کوئی 36برس رہ گئے ہیں جیسے ہی ایک صدی مکمل ہوگی ہم قطار بناناسیکھ جائیں گے۔دوم:قطار میں موجود لوگ جانتے ہیں کہ یہاں دھکے دے کر‘ دوسروں کو روند کرہی اپناحق مل سکتاہے ۔کم وبیش پچھلے پینسٹھ سال سے میرٹ نام کی چیز نہیں ہے۔پولیس جائے وقوعہ پرتو پہنچ گئی۔لیکن کیاہی اچھاہوتاکہ پولیس عوام سے اتنی فرینک ہوتی کہ مخیرحضرات انھیں پہلے ہی بلواسکتے ۔اور اتنے اچھے کردار کی حامل ہوتی کہ لوگ ان کی بات آسانی سے مان جاتے۔یہ محض گلشن اقبال کا معمولی واقعہ نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کی جیتی جاگتی تصویرہے۔پولیس اور ہم میں جودوریاں ہیں وہ نظام کی خرابی ہیں۔کوئی بھی ادارہ برانہیں ہوتااسے سیاسی مداخلت خراب کرتی ہے۔اگر سفارش‘رشوت‘اقرباپروری سے اس ادارے کوپاک کردیاجائے اورشفاف بھرتیاں ہوں تو اس ادارے کو چارچاند لگانے والے لوگ اب بھی اس میں ہرسطح پر موجودہیں۔سوم:اگر تصویرکادوسرارخ دیکھاجائے تو اس غریب عوام کی بے صبری سمجھ میں آتی ہے۔ہمارے ہاں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جویہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ منظم اندازسے امدادبھی نہیں لے سکتے ۔ہماراجواب یہ ہے کہ ذرادیر کو لوڈ شیڈنگ سے بے نیاز‘اس نازک‘ملوک طبقے کو بے سروسامان کرکے دیکھیں‘یہ نسل درنسل غریب عوام سے زیادہ اودھم مچائیں گے ۔وہاں تو خواتین ہجوم تلے روندیں گئیں۔یہ تو اپنے سے آگے والوں کی گردنیں مارکے آگے بڑھنے میں کوئی کسرنہ اٹھارکھیں گے۔میں یہ نہیں کہتاکہ ان عورتوں نے کچھ اچھاکیابلکہ یہ کہتاہوں کہ ان کاحق چھیناگیا۔انھیں بے سروسامان کیاگیا۔انھیں ستایاگیا۔انکے بچے سسکتے ہیں ‘بلکتے ہیں‘ترستے ہیں تو پھر وہ کیوں نے بے صبرے ہوں۔میں سوچ رہاہوں کہ اگرمشرف کاساتھ دینے والوں کو سزاملنی چاہیئے (کیونکہ لوگ کہتے ہیں انھوں نے مشرف کی مدد کرکے اسے اس مقام تک پہنچایاکہ وہ آئین توڑ سکے)تو پھر جس جس نے پاکستان کی تاریخ میں ان لوگوں کوغریب سے غریب تر کرنے کیلئے اقدام اٹھائے ہیں ‘اس ہجوم کی مجرم خواتین کے ساتھ ساتھ انھیں بھی لٹکایاجایا۔عقب سے آنے والے ہرشخص کومجرم ٹھہراکرسزادی جائے۔عجب رنگ ہیں اس دنیا کے بھی کہ وجہ نزاع کو چھوڑکرثانوی واقعات کودیکھاجاتاہے۔سرائیکی میں کہتے ہیں”گراں آلے بھج گئے تے چھوڈیاں آلے نپے گئے“۔یعنی تربوز کھانے والے چوربھاگ گئے جب کہ تربوز کے چھلکے کورگڑرگڑ کے کھانے والے پکڑے گئے۔میں بھگدڑ کے مجرموں کاہرگز حامی نہیں ‘انہیں قانون کے مطابق سزاملنی چاہیئے لیکن تربوز والوں کو کب ملے گی؟ آخر کب؟؟۔جسے ہماری منطق اچھی نہ لگے سو اسکی مرضی ہمیں جن الفاظ میں یادکرے لیکن یادرہے تخت کسی کانہیں رہتا۔

حیرت کی بات ہے کہ لوگ تصویر کا ایک ہی رخ دیکھے جاتے ہیں۔یاتوان کے اذہان فریج میں رکھے سانچے کی مانند ہوتے ہیں کے بس اپنی ہی حدود میں رہناہے۔سانچے میں موجود پانی برف بنتاہے اوراسکاہمسایہ پانی بھی مگر سب اپنی اپنی حدودمیں تعینات رہتے ہیں۔وہ پانی بے بس ہوتاہے ۔اسی طرح کچھ افراد کے ذہن بھی مفقود‘جامد‘اوربلاک ہوجاتے ہیں اور وہ کسی بھی خبر کو دوسرے زاویے سے نہیں پرکھ سکتے ۔
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 188623 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.