دو قومی رہنما قومی سلامتی کے لیے متحد

وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد پہلی بار وزیر اعظم میاں نواز شریف نے 14 سال بعد جمعرات کے روز ملک کی سب سے اہم خفیہ ایجنسی کے ہیڈ کواٹرز کا دورہ کیا اور وہاں کئی گھنٹے گزارے۔ اس موقع پر آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی، خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز، وزیر داخلہ چودھری نثار، وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف بھی موجود تھے۔ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام اور دیگر اعلیٰ حکام نے ملکی سلامتی کو درپیش سنگین چیلنجز، اندرونی و بیرونی خطرات، بلوچستان، فاٹا اور افغانستان سمیت خطہ کی صورتحال، ملک کے اندر دہشت گردی میں ملوث بیرونی عناصر کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی۔ کئی گھنٹے جاری رہنے والی اس بریفنگ میں افغانستا ن سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاءکے بعد کی صورتحال بھی زیر بحث آئی۔ آئی ایس آئی حکام کی طرف سے وزیراعظم کو سانحہ نانگا پربت میں ملوث عناصر کے بارے میں بھی بریفنگ دی گئی۔ وزیراعظم نے اس موقع پر ملک میں ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنے والے چینی اور دیگر غیر ملکی ماہرین اور کارکنوں کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایک مربوط اور جامع حکمت عملی ترتیب دینے کی ہدایت کی اور کہا کہ اہم قومی امور پر وزیراعظم آفس کو اپ ڈیٹ رکھا جائے۔

وزیر اعظم میاں نوازشریف نے اس موقع پر کئی سوالات کیے۔ نئی مجوزہ سیکورٹی پالیسی بھی زیر بحث آئی۔ نوازشریف نے کہا کہ تمام انٹیلی جنس اور قومی سلامتی سے وابستہ ادارے اپنے باہمی رابطوں اور تعاون کو بڑھائیں تو ملک دشمن عناصر کے عزائم کو ناکام بنا کر پاکستان کو ایک بار پھر ایک پرامن ملک بنا سکتے ہیں۔ ملک دشمن عناصر صرف اور صرف پاکستان کو ایک ناکام ریاست بنا نا چاہتے ہیں مگر ہمیں فخر ہے کہ پاک افواج اور اس کے ذیلی ادارے ان کو منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف قوم کو متحدہ ہونا پڑے گا اور اس ناسور کے خاتمے میں پوری قوم کو سیاسی و فوجی قیادت کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہونا پڑے گا۔ قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ میاں نوازشریف نے کہا کہ ہم بات چیت کا دروازہ کھلا رکھنا چاہتے ہیں مگر ہماری اس کوشش کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔ دہشت گردی کے خلاف قومی پالیسی کی تشکیل کے لیے کل جماعتی کانفرنس بلائی جائے گی۔ تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت بھی ضروری ہے۔ ہماری حکومت معیشت کو پیروں پر کھڑا کرنا چاہتی ہے مگر اس کے لیے شدت پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ بہت ضروری ہے۔ ماضی میں بہت غلطیاں ہو چکیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے ہم ایسی پالیسی بنائیں جس کا فائدہ آنے والی نسل کو ہو۔ پاکستان میں ماضی میں بھی شدت پسندی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے کئی پالیسیاں اور اجلاس منعقد ہوئے مگر اس ضمن میں کوئی ٹھوس اور واضح حکمت عملی اس لیے سامنے نہیں آ سکی کیونکہ حکمرانوں کے قول و فعل میں تضاد تھا۔

ذرائع کے مطابق فوجی قیادت نے آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر میں بریفنگ کے دوران وزیراعظم کو آگاہ کیا کہ خیبر پی کے اور بلوچستان میں سیاسی قیادت کی طرف سے فوجی آپریشن کی شدید مخالفت کے باعث انسداد دہشت گردی اور باغیوں کے خلاف مہم بری طرح متاثر ہو رہی ہے اور یہی ایک بڑی وجہ ہے کہ پرتشدد کارروائیوں میں کوئی کمی نہیں آ رہی۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور ریاستی اداروں کے درمیان باہمی تعاون اور روابط کے ذریعے دہشت گردی کو شکست دی جائے گی۔ وزیراعظم نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کو دہشت گردی کے خطرے کی پیشگی اطلاع دینے کا جامع میکنزم بنانے کی ہدایات بھی دیں۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے لاپتہ افراد سے متعلق بھی آئی ایس آئی حکام سے استفسار کیا جبکہ ایبٹ آبا د کمیشن کی رپورٹ کا حوالہ دے کر انٹیلی جنس ایجنسیز کے کردار پر بھی بات چیت ہوئی۔ یاد رہے کہ وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کو یہ بریفنگ ایک ایسے موقع پر دی گئی ہے، جب اسامہ بن لادن کی شہادت کے بارے میں قائم کمیشن کی لیک کی گئی رپورٹ ملکی اور غیر ملکی میڈیا کی شہہ سرخیوں میں ہے۔ اس رپورٹ میں ملک میں مضبوط سیکورٹی اداروں کی موجودگی کے باوجود پاکستان میں امریکی فوجیوں کا گھس کر ایک گھنٹے سے زائد آپریشن کرنا فوج، قانوں نافذ کرنے والے اداروں اور آئی ایس آئی سمیت خفیہ ایجنسیوں کی "نالائقی" قرار دیا گیا ہے۔ حکومت نے اس رپورٹ کے افشا کیے جانے کی تحقیقات کا اعلان بھی کیا ہے۔ خیال رہے کہ پیپلز پارٹی کی سابق حکومت نے آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کے لیے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا تھا جسے بعد ازاں ”دباؤ“ کے سبب چوبیس گھنٹوں میں واپس لینا پڑا تھا۔

دوسری جانب وزیرِ اعظم محمد نواز شریف نے جمعرات کے روز انٹر سروسزانٹیلی جنس یعنی آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹرز کا دَورہ کیا کِیا تو اطراف و جوانب سے بھنویں سکیڑلی گئی ہیں۔ بعض ناقدین نے اِس دورے کو حیرت انگیز بھی کہا ہے اور اِسے اچنبھا بھی قرار دیا ہے، حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ اِس میں حیرت و استعجاب کی بات ہے نہ کسی کو بھنویں سکیڑنے کی ضرورت۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم محمد نواز شریف نے آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹرز کا دورہ اچانک نہیں کیا ہے بلکہ یہ ان کا ایک پارٹ آف شیڈول تھا۔ وہ اِس دورے کے بعد کئی دوسرے اہم ترین شعبوں اور اداروں کا بھی دَورہ کریں گے تاکہ براہِ راست یہ جان سکیں کہ پاکستان کی سلامتی و معیشت کو مضبوط بنانے والے ادارے دراصل کہاں کھڑے ہیں۔ آئین و دستور اور قانون نے منتخب وزیرِ اعظم کو یہ حق تفویض کیا ہے۔ وزیرِ اعظم نواز شریف نے آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹرز کا دَورہ کر کے سب پر واضح کر دیا ہے کہ وہ پاکستان کی سلامتی اور سیکورٹی اداروں کے بارے میں کس قدر فکر مند ہیں۔ اِسی لیے انھوں نے آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹرز کو سب اداروں پر ترجیح دی ہے۔ وزیرِ اعظم پاکستان نئی سیکورٹی پالیسی بنانے کے لیے جس لگن اور جانفشانی سے کام لے رہے ہیں، آئی ایس آئی کے مرکزی دفاتر کے دورے کو اِس کی ایک کڑی قرار دیا جا سکتا ہے۔ آئینی اعتبار سے بھی آئی ایس آئی کا ادارہ وزیرِ اعظم کے ماتحت ہے، چنانچہ انہیں حق پہنچتا ہے کہ وہ جب چاہیں، اِس قابلِ فخر ادارے کا دَورہ کرسکیں، آئی ایس آئی کا سربراہ اگر وزیرِ اعظم کو پاکستان کی سیکورٹی کے بارے میں بریفنگ دینے کے لیے وزیرِ اعظم ہاﺅس جاتا ہے تو اِس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے اور نہ ہی کسی کو اِس بارے میں مشوش ہونے کی ضرورت ہے کہ وزیرِ اعظم آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹرز کیوں پہنچے؟۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701368 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.