کشمیر کی جنت کا اک رنگ ،نیلم ویلی

اس مرتبہ مظفر آباد کا یہ سفر اس لحاظ سے مختلف تھا کہ یہ دورہ بچوں؂ کی طرف سے چھٹیوں کی سیر پہ جانے کے اصرار کے تناظر میں تھا۔کوہالہ کے مقام پر1992ء کے بڑے سیلاب میں تباہ ہوجانے والے ڈوگرہ دور کے پرانے پل کی جگہ بنے عارضی پل سے دریائے جہلم عبور کرتے ہوئے آزاد کشمیر میں داخل ہو ئے تو معمول کے راستے کی جگہ دان گلی بائی پاس کا راستہ اختیار کرنا پڑا کیونکہ کوہالہ کے قریب ہی برسالہ سے پہلے راستہ پہاڑ کا ایک بڑا حصہ لینڈ سلائیڈنگ میں تبدیل ہونے کی وجہ سے بند ہے اور وہاں راستہ بنانے کا کام جاری ہے۔ نئی تعمیر کردہ دان گلی بائی پاس روڈ کے شروع اورآخر کا کچھ حصہ پختہ جبکہ باقی حصہ عارضی کچے راستے کی مانند ہے۔اس تنگ سڑک پہ بڑی گاڑیوں کی آمد سے ٹریفک بار بار رکتی رہی۔بائی پاس کے اس سفر میں ایک گھنٹہ لگ گیا۔10جولائی کوواپسی پہ دیکھا کہ اس سلائیڈ پہ راستے کو کشادہ کیا جا رہا ہے اور اسی کام کی وجہ سے ٹریفک کو ایک ایک گھنٹے بند اور کھولا جاتا ہے۔
سخت گرمی میں شام کے وقت مظفر آباد میں بہترین تفریح دریا پہ جانا ہے،یہ میرے بچپن کا تجربہ تھا جو 2013ء میں بری طرح ناکام رہا کیونکہ بچوں کو دریا پر لیجا کر شرمندگی ہی ہوئی۔مجھے اپنے لڑکپن کا وہ زمانہ یاد ہے جب ہم رات کو کھانے کے بعد ریڈیو سٹیشن کی سڑک سے نیچے اتر کر پرانا پل عبور کر کے سامنے موجود دکانوں سے سرکنڈوں سے بنی ٹوکریوں میں آم لیتے،ختم شدہ نیلم پارک جا کر دریائے نیلم(کشن گنگا) کے کنارے برفانی ٹھنڈے پانی میں ٹوکری رکھ کر اسے تند موجوں میں بہہ جانے سے بچانے کے لئے پتھروں میں دبا دیتے،نیلم کے ٹھنڈے پانی میں زیادہ دیر تک کھڑا رہنے کا مقابلہ کرتے ،شدید گرمی میں بھی نیلم پار ک میں سردی محسوس ہوتی تھی۔یہ سلسلہ نیلم پارک قائم رہنے تک چلتا رہا اور اس پارک کے اجڑنے کے دوران بھی میں وہاں خاص طور پہ جاتا رہا۔نیلم دریا پر ڈوگرہ دور کا پرانا پل آزاد کشمیر کی بڑی برادریوں،قبیلوں میں ایک ایسی ’’ اقلیت‘‘ کی مانند نظر آتا ہے جسے کسی اچھوت کی طرح الگ تھلگ اور نظر انداز کر دیا گیا ہو۔

نیلم دریا کے کسی کنارے جانے کا سوچا لیکن کوئی مناسب جگہ نہ سوجھی۔اس پر بچوں کو گڑھی دوپٹہ روڈ پہ دریائے جہلم کے کنارے لیجانے نکلے۔نیلم اور جہلم دریاؤں کے ملاپ کی مناسبت کے نام دومیل کے قائد اعظم برج کو عبور کر کے بائیں مڑے تو سامنے جگہوں کے ناموں کے آخر میں چکوٹھی اور پھر سرینگر لکھا ہوا تھا، اس پر مجھے خیال آیا کہ چکوٹھی سے آگے تو اوڑی آتا ہے،بارہمولہ آتا ہے اور پھر سرینگر ۔دومیل میں ڈوگرہ دور کے تاریخی پل اور اس سے ملحقہ بارہ دری کی ابتر حالت دیکھ کر بہت افسوس ہوا کہ آزاد کشمیر میں تاریخی ،قدیم جگہوں کو محفوظ اور بہتر رکھنے پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ سالہا سال پہلے اس وقت کے وزیر اعظم سردار سکندر حیات خان نے دومیل کی اس تاریخی بارہ دری کو خصوصی طور پر بہتر بناتے ہوئے اسے ایک اچھے سیاحتی مقام میں تبدیل کر دیا تھا ۔اس وقت پرانی تاریخی عمارات کی مرمت کے انداز میں بارہ دری کی ٹوٹی ہوئی ٹائلوں کی مرمت کی گئی۔بارہ دری کا ایک حصہ جہاں سیاحوں کے بیٹھنے کی جگہ تھی،سیلاب برد ہونے کے بعد سے تا حال تباہ و برباد ہے ۔دوسرا حصہ بھی خستہ حالی کا شکار اور آزاد کشمیر حکومت کی بے اعتنائی کی مثال بنی ہوئی ہے۔کرولی کے مقام پر مناسب جگہ دیکھ کر دریائے جہلم کے کنارے اترے، میں اپنے بچپن کی یاد تازہ کرنے کے شوق میں ساتھ آم خرید لایا تھا۔اشتیاق میں جہلم کے پانی میں ہاتھ ڈالا تو بہت مایوسی ہوئی ، ٹھنڈے پانی کی توقع تھی لیکن نیم گرم قسم کے پانی سے واسطہ پڑا۔آم کا تھیلا دریا میں رکھ کر اس پر پتھر رکھنے لگا تو پھر احساس ہوا کہ اس گندے سے گرم سے پانی میں آم رکھنے کا کیا مقصد؟ دریا کے پتھر پھسلن والے چکنے۔بھائی نے کہا کہ میں نے تو پہلے کہا تھا کہ جہلم میں تمام کشمیر کی گندگی آتی ہے جو جہلم کے کناروں کے پتھروں پہ بھی دیکھی جا سکتی ہے۔مجھے یاد ہے کہ 1991-92ء میں اسی مقام پردریائے جہلم کاپانی نیلم دریا جتنا تو نہیں لیکن کافی ٹھنڈا اور اب کے مقابلے میں صاف ہوتا تھا۔مجھے دریائی کنارہ تو کیا آم سے بھی نفرت سی محسوس ہونے لگی۔
اگلے روزپیر چناسی جانے کا ارادہ تھا،سامان گاڑی میں رکھ دیا گیا لیکن گاڑی میں بیٹھتے بیٹھتے نیلم ویلی جانے کا پروگرام بن گیا۔مظفر آباد سے نیلم ویلی کے ضلعی ہیڈ کواٹر اٹھمقام،کیرن جانے والی سڑک تو اچھی بن گئی ہے لیکن اس روڈ پر نئے سلائیڈنگ ایریا ز بھی بن گئے ہیں۔مظفر آباد سے نکلتے ہی سڑک پہ لینڈ سلائنڈنگ والے کئی حصے آتے ہیں جہاں ہر وقت پتھر گرنے ،لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ رہتا ہے۔پٹہکہ بلکہ دیولیاں تک نئی لینڈ سلائیڈنگ کے متعدد خطرناک حصے بن گئے ہیں۔جاتے ہوئے تو راستہ ٹھیک ہی تھا لیکن واپسی پہ بارشوں کے بعد سلائینڈنگ کے نئے حصے سامنے آئے جس سے ٹریفک گھنٹوں پھنسی رہی۔دیولیاں کے مقام پہ چین کی ایک کمپنی بجلی پیدا کرنے کے منصوبے پہ کام کر رہی ہے۔یہ مقام عبور کرتے ہی وادی نیلم کی رنگینیاں جلوہ افروز ہونے لگتی ہیں۔دریائے نیلم جس کا قدیم نام کشن گنگا ہے، سڑک کے دائیں ہاتھ بہتا جاتا ہے۔وادی نیلم کی رنگینیوں کے ساتھ ہی کنٹرول لائین کے نام سے غیر انسانی بے انصافی پر مبنی کشمیر اور اس کے باشندوں کی جبری تقسیم کی المناک صورتحال بھی نظروں کے سامنے آ جاتی ہے۔دوپہر کا کھانا راستے میں سڑک کنارے ایک ایسے مقام پہ کھایا جس کے سامنے مقبوضہ کشمیر کے علاقے کا پہاڑتھا۔ دوپہر کے بعد اٹھمقام پہنچے، پی ڈبلیو ڈی ریسٹ ہاؤس میں چائے کے بعد کیرن روانہ ہوئے۔کیرن ریسٹ ہاؤس سے پہلے ٹینٹ ولج سائٹ سے ملحقہ جگہ پہ دریا کنارے اترے۔دریا کا پانی ٹھنڈا اور اس کا زورداربہاؤ کنارے پہ بیٹھ کر ہیبت ناک لگتا تھا۔چند سال قبل کیرن ریسٹ ہاؤس سے پہلے دریا کنارے ایک دیوار تعمیر کرنے سے یہ تمام کچی جگہ وجود میں آئی ہے۔اس کے سامنے ہی بھارتی مقبوضہ کشمیر کا علاقہ ہے جہاں ریسٹ ہاؤس کی طرح کی کئی عمارات کے علاوہ مقامی آبادی کے گھر بھی نظر آتے ہیں۔دریا کے دونوں طرف رشتہ دار بستے ہیں لیکن عالمی برادری کی آشیر باد میں بھارت و پاکستان کی قائم کردہ کنٹرول لائین نے انہیں فوج کے ذریعے ایک دوسرے سے ملنے سے روکا ہوا ہے۔وہ ایک دوسرے کو دیکھ تو سکتے ہیں لیکن بات نہیں کرسکتے۔رات کو کٹن کے مقام پر قائم ہائیڈرو لیکٹرک بورڈ کے ریسٹ ہاؤس میں قیام رہا۔کٹن ریسٹ ہاؤس میں سیاحوں کی بھرمار ہے لیکن فقط چند ہی ملازم رکھنے کی وجہ سے سیاحوں کو کھانا پینا گھنٹوں انتظار کے بعد ملتا ہے اور ریسٹ ہاؤس گندگی سے اٹا ہوا ہے ۔کنڈل شاہی میں نالہ جاگراں کی گزشتہ دنوں کی تباہ کاریوں کا نشانہ بننے والی دکانیں بھی دیکھیں،نالہ جاگراں کی اس طغیانی میں کٹن اور جاگراں پاور سٹیشن روڈ کو بھی شدید نقصان پہنچاہے۔کنڈل شاہی سے کٹن تک کی شاندار سڑک اب خطرناک سے کچے راستے میں تبدیل ہو چکی ہے۔کنڈل شاہی میں ایک چھوٹا پاور سٹیشن بھی ہے جس کے لئے جاگراں نالے سے پانی موڑنے کے مقام پر قائم مصنوعی آبشار سیاحوں کے لئے ایک دلکش جگہ ہے۔لو ہے کے بنے ایک چھوٹے پل کو عبور کر کے نالے کے دوسرے جانب جاگراں کے پانی اور اس کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کی ایک اچھی جگہ ہے۔اگلے روز اتفاق سے اٹھمقام کے پہاڑوں کی کچھ بلندی پہ بنے ایسے چندایسے گھر دیکھنے کا موقع ملا جو بہک میں جانور چرانے کے مقصد سے گرمیوں کے سیزن میں رہنے کے لئے بنائے جاتے ہیں۔لکڑی سے بنے ان گھروں کی ایک الگ ہی دنیا تھی۔اس کے بعد کیرن سے ہوتے ہوئے پہاڑ کے اوپر نیلم گاؤں گئے۔نیلم گاؤں کی بلندی سے دریا پار مقبوضہ کشمیر کے علاقے کے خوبصورت مناظر دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم کوئی بہت بڑی بہت خوبصورت سینری کا پوسٹر دیکھ رہے ہوں۔نیلم گاؤں میں بنے ٹورازم کے ریسٹ ہاؤسز اورنجی گیسٹ ہاؤسز میں کراچی،پنجاب وغیرہ کے سیاحوں کی بڑی تعداد نظر آئی۔نیلم گاؤں کے پہاڑ سے نیچے اتر کر شاردہ کی جانب چند ہی کلومیٹر فاصلے پہ واقع نگدر پہنچے ۔نگدر نالے کا پانی نیلا اور دودھیا ہے،یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے نالے میں دودھ بہہ رہا ہو۔تین چار لکڑی کی بنی دکانوں اور ایک لکڑی سے بنے ہوٹل پر مشتمل نگدر بازار میں گاڑی کے عقب میں بیٹھے ہم چائے پی رہے تھے کہ سامنے کی دکان سے ایک بزرگ آئے،ان سے باتیں ہوئیں،انہوں نے کہا کہ میں یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ یہ کون بازار میں اس طرح بیٹھ کر چائے پی رہا ہے کیونکہ پنجاب اورسندھ وغیرہ سے آنے والے سیاح ان بازاروں میں اس طرح نہیں ٹہرتے۔میں نے جب ان سے یہ کہا کہ میں بھی کشمیری ہوں ،یہ جگہ مجھے اپنے گھر کی طرح ہی محسوس ہوتی ہے اور اسی لئے مجھے اس بازار میں رکنا کوئی عجیب نہیں لگا ،تو وہ بزرگ بہت خوش ہوئے۔ ڈوبتے سورج کے لمحات اٹھمقام کے پی ڈبلیو ڈی ریسٹ ہاؤس کے لان میں گزرے۔ریسٹ ہاؤس کے باہر کے گھنے درختوں کی چھاؤں میں خوبصورت سڑک پہ چلنا پر لطف رہا۔دل تو کیا کہ رات کے وقت اٹھمقام کی مرکزی سڑک پہ دریا کے ساتھ ساتھ چہل قدمی کی جائے لیکن دور سے ہی معلوم ہو گیا کہ بازار میں آوارہ کتوں کے غول دندناتے پھر رہے ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں تو آوارہ کتوں کو مارنا قانونا جرم ہے ،اب معلوم نہیں کہ اٹھمقام کے بازار میں پھرنے والے ان آوارہ کتوں کو کس کی پشت پناہی حاصل ہے۔اگلے روز کیرن میں نیلم اور کشن گنگا سے اجتماعی ملاقات اور کنڈل شاہی میں دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد واپس مظفر آباد کی جانب روانہ ہو گئے۔دیولیاں سے آگے پٹہکہ سے پہلے چند مقامات سے سڑک لینڈ سلائنڈنگ کی وجہ سے بند تھی۔تقریبا ایک گھنٹے انتظار کے بعد راستہ کھل گیا۔

نیلم ویلی کو اگر قدرتی حسن کا شاہکار کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا۔حسین جھیلوں،دلکش رنگوں، نظاروں،چھوٹی وادیوں،ندی نالوں ،دریائے نیلم کی اس سرزمین سے مجھے ہمیشہ عشق سا محسوس ہوا۔عوام کو عموما وادی نیلم کے آخری علاقے شونٹر اور دوسری طرف ہلمت ،تاؤبٹ بتائے جاتے ہیں لیکن یہاں سے آگے منی مرگ اور آگے دیوسائی کا میدان بھی ہے جس کے قدرتی حسن کے جلوے دیومالائی تاثر لئے ہوئے ہیں لیکن شاید منی مرگ اور دیو سائی اور اس طرف جانے والے راستے آزاد کشمیر حکومت کے اختیار اور دلچسپی سے خارج ہیں۔آزاد کشمیر میں سیاحت کو فروغ دینے کا چرچا تو بہت کیا جاتا ہے لیکن عملا آزاد کشمیر حکومت نظر کی اس خوبصورتی سے بھی محروم نظر آتی ہے جو آزاد کشمیر کے سیاحتی علاقوں میں سیاحتی ضروریات کے مقامات تیار کر سکے ۔مثال کے طور پر دریائے نیلم اور جہلم کے کسی مقام پر سیاحوں کے بیٹھے کے لئے مناسب اور مخصوص جگہوں کی تیاری پر کوئی توجہ نہیں ،دریا تو ہیں لیکن سیاحوں کو اس کے کنارے بیٹھنے کی کوئی جگہ میسر نہیں۔سیاحوں کو نہ تو علاقے کے بارے میں معلومات میسر ہیں اور نہ ہی میدانی علاقوں سے آنے والوں کو وادی نیلم داخل ہوتے وقت ڈرائیونگ سے متعلق ضروری ہدایات دی جاتی ہیں ۔ تیز رفتاری اور غفلت سے ڈرائیونگ کے نتائج حادثات کی صورت نظر آتے ہیں۔مظفر آباد ڈویژن سیاحت کے حوالے سے آزاد کشمیر کا اہم ترین علاقہ ہے لیکن سیاحت کے فروغ اور سیاحتی سہولیات کے حوالے سے حکومت کی کاروائیاں ناکافی ہیں۔یہ تو ہر علاقے کی بلدیہ کا کام ہے کہ وہ اپنے علاقے میں خصوصا دریاؤں کے کنارے سیر گاہیں قائم کریں لیکن بلدیاتی ،ترقیاتی ادارے اور حکومت کی طرف سے فروغ سیاحت کے اقدامات ہنوز منتظر عمل ہیں۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 700458 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More