تحریر محمد عظیم دت
ایڈووکیٹ
قارئین کرام ! ریاست جموں کشمیر کے دونوں طرف ایک جیسی مقبولیت رکھنے والے
عالمی شہرت یافتہ آزادی پسند رہنما محمد عبالخالق انصاری ایڈووکیٹ جو گذشتہ
دنوں حکم الہٰی سے اس دنیا سے انتقال کر گئے ہیں ۔ انہوں نے ستاسی سال سے
ساڑھے چار ماہ کم زندگی پائی اپنی پوری زندگی بھرپور انداز میں گذاری بچپن
سے ہی غلامی سے نفرت تھی ڈوگرہ سامراج کے خلاف اس طرح بولتے تھے کہ سسنے
والے ان کی زندگی کاآخری دن سمجھتے ،سیاست میں ان کا ایک اعلیٰ مقا م اس
وجہ سے تھا کہ ان کے دامن پر مفاد پرستی کا ایک بھی چھینٹا نہ تھا ان کی
سیاست صرف اور صرف رضائے الٰہی کے لئے تھی وہ بلا تفریق انسانوں کی خدمت
اور آزادی پر یقین رکھتے تھے سیاست دان کے ساتھ ساتھ ایک انتہائی زیرک قسم
کے قانون دان بھی تھے راقم بچپن سے ہی ان سے متاثر تھا ان کے ساتھ زندگی کے
پچاس سال ہوش و حواس میں گذارے ہیں بتیس سال ان کی شاگردی میں وکالت بھی کی
ہے ان کے ساتھ تقریباًدوسال تک جیل میں اور دو سال غیر دیار میں بھی رہا
ہوں ان کی مذہبی، سیاسی، قانونی اور تصانیفی خوبیاں بے شمار ہیں ان پر پھر
کسی وقت کوشش کر کے لکھوں گا آج میں محمدعبدالخالق انصاری کے تعزیتی ریفرنس
میں آزاد کشمیر احتساب بیورو کے چیئر مین جناب سردار رفیق محمودکا پڑھا
جانے والا مقالہ قارئین کی خدمت میں پیش کروں گا جس میں رفیق محمود صاحب نے
انتہائی اختصار کے ساتھ مرحوم کی زندگی کے ہر شعبہ کو زیر بحث لا کر نئی
نسل کو ایک مسقتل در س دے دیا ہے سردار رفیق محمود فرماتے ہیں مجھ سے قبل
مقررین حضرات نے جناب انصاری صاحب مرحوم و مغفور کے بارہ جس خوبصورتی سے
اظہار خیال کیا۔ اُس کے بعد میرے لیئے کچھ کہنے کی گنجائش تو نہیں مگر پھر
بھی رسمِ دنیا ہی پوری کرنے کی کوشش کرتا ہوں انصاری صاحب اور میرپور کے
دیگر وکلاء صاحبان سے میری شناسائی جب میں 1975 میں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل
تعینات ہوا۔ اُس وقت سے چلی آ رہی ہے۔ یہ عرصہ کوئی گیارہ سال پر محیط ہے
اِس کے بعد بھی بوجہ وکالت یہ سلسلہ جاری رہا۔ جب رایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل
تھا تو ہر ماہ کے آخر میں دس دن کے لئے عدالت العظمیٰ یا ہائی کورٹ کا سرکٹ
میرپور آیا تھا اور مجھے یہاں آنا پڑتا تھا میں نے میرپور کی وکلاء برادری
سے بہت کچھ سیکھا۔ اس وقت جناب جسٹس عبدالمجید ملک، چوہدری شیرزمان صاحب،
جناب انصاری صاحب (مرحوم)، راجہ محمد صدیق صاحب، چوہدری تاج صاحب، راجہ
اسلم صاحب (مرحوم)، راجہ لہراسب (مرحوم) اپنے پیشہ وکالت میں عروج پر تھے
اُن کے مقابلہ میں اکثر و بیشتر فریقین پاکستان لاہور سے وکیل لاتے تھے۔
انصاری صاحب اپنے پیشہ وکالت کے اعتبار سے بہت بڑے وکیل قانون دان جیورسٹ
تھے وہ میرے دور کے سینئر ترین وکیل تھے اُن کو قانون اور اُس کی توضیع و
تشریح پر عبور حاصل تھا۔ مذہبی نقطہ نظر سے بھی ایک بہت بڑے عالم اور سکالر
تھے۔ انہوں نے اپنے دور میں مذہب پر جو کتاب کئی جلدوں میں لکھی اور صرف ’’توبہ‘‘
کی جو تعبیر و تشریح کی اُسکا کوئی جواب نہیں اور یہ دین کی بڑی خدمت ہے۔
اس میں جو لکھا وہ قرآن کریم اور احادیث کے حوالہ سے لکھا۔ جو بڑی محنت اور
جانفشانی کا کام ہے۔ اﷲ تعالیٰ اُن کو اس کی جزا عطا کرے۔ انصاری صاحب
سیاست میں ایک نظریہ رکھتے تھے اُس پر کاربند رہے اُس پر بے شمار لکھا۔
کشمیر کی آزادی کے لئے تحریری اور تقریری کام کیا مرتے دم تک اس جدوجہد کو
جاری رکھا۔
کشمیر کی آزادی کے سلسلہ میں آزادکشمیر اور پاکستان کی حد تک انہیں لوگوں
کے بے حسی کی شکایت تھی۔ کسی ملک کی آزادی کے لئے جو جذبہ ہونا چاہیے وہ
ہمارے لوگوں میں موجود نہیں اکثر کہتے تھے اگر یہی روش جاری رہی تو ایک وقت
آئیگا کہ مسئلہ کشمیر کی اہمیت نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی۔
وہ حدمتارک کے اُس پار کے لوگوں کی جدوجہد کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے
تھے وہ انسانی حقوق کی تنظیموں کو دعوت دیتے رہے کہ وہ کشمیر کے بے بس
مجبور و مظلوم لوگوں کے حق آزادی کو اجاگر کریں۔
انصاری صاحب نے وقت گزرنے کے ساتھ اپنے سیاسی نظریے کو مزید آگے بڑھانے میں
کوئی کثر نہ چھوڑی۔ اُن کے پاس اس قدر مواد موجود تھا کہ وہ اپنے نظریہ کی
مکمل Justification پیش کرتے تھے اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ 1947 کا قانون
آزادیِ ہند بین الاقوامی Charter of Human Rights کی خلاف ورزی ہے جس میں
ایک طرف یہ قرار دیا گیا کہ جہاں جہاں مسلم آبادی ہے وہاں پاکستان بنے گا
اور دوسری طرف اسی ایکٹ میں ایک شق ریاستوں کے بارہ میں ہے کہ وہاں کی عوام
نہیں بلکہ وہاں کا راجہ مہارجہ فیصلہ کریگا۔ یہ بات ایسی ہے جس کا جواب کسی
کے پاس نہیں۔
انصاری صاحب کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ حق بات بڑی دلیری، جرأت مندی
سے کرتے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں آیا ہے۔
خلق الانسان علمہ البیاں
خدا نے انسان کو پیدا کیا، اُسکو بولنا سکھایا تاکہ وہ اپنا مدعا اور
دردِدل بیان کر سکے۔ جو بھی انسان اِس بولنے کی صلاحیت اور حق کو نظرانداز
کرتا ہے گویا وہ اﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت سے انکار کرتا ہے۔ بولنے سے
مراد صرف یہ نہیں کہ وہ بات کرے، اپنی ذاتی تمنا کا اظہار کرے۔ قرآنِ حکیم
کے مطابق وہ حق یہ ہے کہ انسان حق اور سچ بات کرے۔ جس سے انسان کے پیدائشی
بنیادی حق کی نشاندہی ہو۔
انصاری صاحب نے اپنی زندگی کو اِس حق کی ادائیگی کے لئے وقف کر رکھا جو
میرے نزدیگ ایک انتہائی مشکل کام ہے۔ انسان جس ماحول او رمعاشرے میں رہتا
ہے۔ اُس میں محبتیں، نفرتیں، رقابتیں، رفاقتیں، رنجشیں سب کچھ موجود ہوتا
ہے اِس کے علاوہ انسانی دکھ سکھ، ناانصافیاں، جبروتشدد، چھینا جبٹی، بھوک
ننگ، افلاس یہ بھی معاشرہ کا حصہ ہیں جس پر ہر کسی کی نظر نہیں پڑتی۔ مگر
انصاری صاحب جیسے اہل نظر، اہل دل نے اِس پہلو کو نظرانداز نہیں کیا۔
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے
اب بھی ترا حسن دلکش ہے مگر کیا کیجئے
اِس کی اصلاح و بیخ کنی کے لئے جدوجہد کو اپنا مشن بنائے رکھا۔ اِس مشن کو
جاری رکھنا اور تمام تر مشکلات کے باوجود اِس پر ڈٹے رہنا کوئی اسان بات
نہیں۔ مگر انصاری صاحب نے اپنی عملی زندگی میں ایسا کر کے ایک مثال قائم کی۔
زندگی میں ہر انسان کی تگ و دو اِس لیئے ہوتی ہے کہ اُسے اپنے دور میں
ہمعصر لوگوں میں پذیرائی حاصل ہو۔ اِس مقصد کے لئے وہ اپنا سب کچھ داؤ پر
لگا دیتا ہے اگر سیاست میں ہے تو حالات و واقعات کو مدِنظر رکھ کر سیاست
کرتا ہے، ہوا کا رخ دیکھتا رہتا ہے، ایک پارٹی چھوڑ کر دوسری میں چلا جاتا
ہے۔ کل تک جس سیاسی جماعت میں تھا اس کے گیت گاتا تھا۔ آج کسی اور جماعت
میں شامل ہو گیا تو پہلے والی کو بُرا بھلا کہتا ہے۔ لعن طعن کرتا ہے۔
انصاری صاحب ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ خود ایک سیاسی نظریے کو
زندگی کا مشن بنائے ہوئے تھے۔ اُس کے حصول کی جدوجہد کرتے رہے،جیلیں کاٹی،
جلاوطنی دیکھی، دکھ درد سہے مگر لغزش نہیں آئی۔
کسی ایک مشن، کسی ایک اصول کو اپنائے رکھنے کیلئے بیشمار خواہشوں، تمناؤں
کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ انسان کی زندگی میں سب سے مشکل کام اپنے آپ کی اور
اپنے مشن کی چوکیداری کرنا ہے۔ انسان ہتھیاروں سے ملک کی چوکیداری کر سکتا
ہے۔ مگر اس ہماہمی، چیل پہل کی دنیا میں اپنے آپ کو صبر کے ہتھیار سے قابو
رکھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ انصاری صاحب نے اِس مشکل پر عملی طور قابو
پاکر اوروں کیلئے ایک نشانِ راہ کا تعین کیا جو رہتی دنیا تک اوروں کے کام
آئیگا، یہاں یہ کہنا درست معلوم ہوتا ہے۔
وہ کون تھے جنکا شیوہ تھا جھوٹے باب نہ لکھنا
اوروں کے دکھ لکھتے رہنا اپنا عذاب نہ لکھنا
مجھے پتہ ہے حاضرین میرے ریفرنس کو سننے کی خواہش سے زیادہ اِس کی اختتامی
چاہتے ہیں لہذا اس دعا کے ساتھ
تری نیکیاں قائم تیری خوبیاں زندہ۔
اﷲ تعالیٰ انصاری صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ و عرفا مقام عطا کرے۔ |