عجیب شخص ہے۔۔۔۔!


اس شخص سے میری شناسائی کب ہوئی یہ میں بھی نہیں جانتا ہاں! اتنا ضرور جانتا ہوں جیسے جیسے میں شعور کی منزلیں طے کرتا چلا گیا میرا اس سے تعلق مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔ یار لوگ اس کے بارے میں ناجانے کیا کیا کہتے رہتے تھے ہر ملاقات سے پہلے میں سوچتا تھا کہ اس شخص میں کوئی برائی یا خامی ایسی ڈھونڈ نکالوں گا یا اب کی بار اس سے کچھ ایسا پوچھوں گا کہ یہ تلملا اٹھے اور کچھ بول ڈالے۔لیکن ہر مرتبہ ناکامی کا سامنا کرنا پرتا تھا ہر مرتبہ میں کسی مغرور آدمی کی تلاش میں نکلتا تھا لیکن ہر مرتبہ اس شخص میں سے کوئی نیا انسان برآمد ہوتا تھا کبھی اس مغرور شخص کو ڈھوندتے ڈھونڈتے عاجزی و انکساری سے بھرپور درویش سے ملاقات ہو جاتی کبھی کبھی اس شخص کو دیکھ کر رشک بھی آتا ہے اور غصہ بھی ۔۔ ! اﷲ نے اسے کتنی عزت ،دولت،شہرت سے نوازا ہے سب کی طرح یہ مغرور کیوں نہیں۔۔کبھی کبھی اس شخص کو دیکھ کر کسی اور ہی مخلوق کا گمان ہونے لگتا ہے آج کے اس زمانے ایسے شخص سے ملاقات ہونا کسی معجزے سے کسی طور پر کم بھی نہیں۔کافی دنوں سے ملنے کا پروگرام تھا لیکن اس کی اپنی مصروفیات تھیں کچھ دن پہلے رات گئے فون آیا وہ معذرت کرنے لگا میں ہکا بکا تھا یہ معذرت نہ بھی کرتا پھر بھی تو میں نے ملنا تھا اگلے دن صبح کال آگئی فرخ آج میرے پاس وقت ہے کوئی ریکارڈنگ نہیں اگر تم صبح جلدی آجاؤ تو گپ شپ ہو جائے گی میں تو اس گھڑی کے انتظار میں تھا سو صبح میں اس کے گھر پہنچ گیا باتوں کا سلسلہ چل نکلا اس نے ایک نیا اخبار جوائن کر لیا تھا اس کی کالم نگاری کی عمر شاید کچھ زیادہ نہ تھی لیکن اس نے کتنی تیزی سے کالم نگاری کے میدان کے نام نہاد سرخیلوں کی موجودگی میں اپنا ایک علیحدہ مقام بنا لیا تھا اور یہ بات ان بزرگوں کو کتنی ناگوار گزری تھی اس بات کا احساس مجھے ان محفلوں میں شرکت کے بعد ہونے لگا تھا جہاں آج کل صرف اسے ہی ’’ڈسکس‘‘ کیا جارہا تھا کالم نگاری کے یہ جید استاد پریشان سے دکھائی دینے لگے تھے۔اس کی شاعری کا تو پورا زمانہ معترف تھا وہ انسان بھی ایسا ہے جو عاجزی اور انکساری اس کی شائشتہ گفتگو سے ٹپکتی ہے وہ کسی کا بھی دل موہ لینے کے لئے کافی ہے شاید اسی لئے اس سے ملنے والا ہر شخص اس کا گرویدہ ہو جاتا ہے اور اس کے گن گانے لگتا ہے وہ شخص ہے ہی اسی قابل کہ اس کے گن گائیں جائیں۔آج بھی جب سینکڑوں آنکھیں وصی کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے ترستی ہیں تب بھی اس میں رتی بھر غرور کے آثار ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملتے ۔۔! وصی زندگی کے تجربات ،احساسات و مشاہدات کو الفاظ کی فضول خرچی کئے بغیر اشعار کے روپ میں ڈھال دیتا ہے وصی کے الفاظ تاثیر بھی رکھتے ہیں وصی اپنے اشعار کے ذریعے دل میں اترنے کا ہنر بھی جانتا ہے۔وصی اپنی محبت کی دنیا میں گم نظرآتا ہے۔ جو شخص لوگوں کو محبت دینا جانتا ہو وہ اتنا ہی محبت کا حقدار ہے شاید اسی لئے آج لوگ جھولیاں جھولیاں بھر بھر کر اس پر اپنی محبت نچھاور کر رہے ہیں۔ وصی کے الفاظ کیسے سیدھے جا کر دل میں اتر جاتے ہیں۔۔

جبر کا موسم کب بدلے گا
ہم بدلیں گے تب بدلے گا
ساری عمر یہ آس رہی ہے
وہ اب بدلے گا اب بدلے گے
میری عمر تو بیت گئی
وہ اب کیا پنا ڈھب بدلے گا

آج میں جب ان شعراء کی طرف نظر دوڑاتا ہوں جو خود کو شاعری کے میدان کا سرپنچ سمجھے بیٹھے ہیں اور وصی شاہ کو شاعر ماننے سے انکاری پر ہیں دوسری طرف میں وصی کو دیکھتا ہوں جس کے ایک ایک لفظ کو لوگ مقدس مانتے ہیں اور کتنی طلب کے ساتھ اس کی طرف بڑھتے ہیں اس وقت میرا دل یہ فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگاتا کہ وکٹری سٹینڈ پر کون کھڑا ہے۔ شعراء اسے شاعر نہیں مانتے کالم نگار اسے قبول کرنے کو تیار نہیں اینکر پرسنز اسے کھا جانے والیٰ نظروں سے دیکھ رہے ہیں اور یہ اطمینان سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ میں نے اسے کہا وصی بھائی! آپ نے شاعری کے میدان میں جھنڈے گاڑے تو شعراء نے آپکو شاعر ماننے سے انکار کر دیا آج آپ کالم نگاری کے میدان میں ’’سکسر‘‘ لگارہے ہیں تو کالم نگار ’’لٹھ‘‘ لے کر آپ کے پیچھے پڑ گئے ہیں اس نے ایک نظر میری طرف دیکھا لمحہ بھر کے لئے خاموش رہا پھر مجھ سے مخاطب ہوکر بولا میں کتنا کامیاب شاعر ہوں یا میں کتنا کامیاب کالم نگار ہوں اس بات کا فیصلہ ان لوگوں کو نہیں بلکہ ’’پبلک‘‘ نے کرنا ہے اگر میں ان کے جواب دینا شروع کردوں تو میں اپنے کام کے ساتھ کیسے انصاف کر پاؤں گا اﷲ ان کو خوش رکھے۔۔!ًًًًًًًٍ میں نہیں جانتا وصی کتنا اچھا شاعر ہے یا کتنا اچھا کالم نگار ہے میں جانتا ہوں تو بس اتنا کہ وصی ایک اچھا انسان ہے۔۔۔ یہ لوگ اس پر’’ پھبتیاں‘‘ کسنے میں مصروف ہیں اور یہ مسلسل ان کے لئے دعا کرنے میں مصروف ہے۔
ہے نا عجیب شخص!

وصی کے اشعار اس ’’عجیب شخص‘‘ کے نذر کرنے کو جی چاہتا ہے۔

یہ کب کہا تھا نظاروں سے خوف آتا ہے
مجھے تو چاند ستاروں سے خوف آتا ہے
میں دشمنوں کے کسی وار سے نہیں ڈرتا
مجھے تو اپنے ہی یاروں سے خوف آتا ہے
خزاں کا جبر تو سینے پہ روک لیتے ہیں
ہمیں اداس بہاروں سے خوف آتا ہے
ملے ہیں دوستو بیساکھیوں سے غم اتنے
مرے بدن کو سہاروں سے خوف آتا ہے
میں التفات کی خندق سے دور رہتا ہوں
تعلقات کے غاروں سے خوف آتا ہے
 
Farrukh Shahbaz Warraich
About the Author: Farrukh Shahbaz Warraich Read More Articles by Farrukh Shahbaz Warraich: 119 Articles with 126932 views


فرخ شہباز

پنجاب یونیورسٹی سے جرنلزم میں گریجوایٹ ہیں۔انٹرنیشنل افئیرز میں مختلف کورسز کر رکھے ہیں۔رائل میڈیا گروپ ،دن میڈیا گروپ اور مختلف ہ
.. View More