مولانا عطاء الرحمن شہید……کچھ یادیں ،کچھ باتیں

دو چاروزقبل ہی کی بات ہے ،جامعہ بنوری ٹاؤن کے سامنے سے میں ایسے ہی کسی کام سے پیدل جارہاتھا،حضرت مولاناکسی کے ساتھ بائک پرہم رکاب تھے ،دیکھ کرفوراًاترگئے اوراپنے بارونق ،پرُوقار،پرُبہاراورنہایت بابرکت چہرہ انورکے ساتھ اپنے خاص ہنس مکھ اندازمیں راقم سے گویاہوئے : یہیں کہیں ہو، مگرکہیں نظرنہیں آتے ۔ارے بھائی کبھی کبھارغلطی سے توجامعہ میں تشریف لایاکریں ۔عرض کیا:حضرت اقدس جہانگیرروڈکے ایک غارمیں ریٹارمنٹ کی زندگی گذاررہاہوں ،آپ حضرات کاایک ایک لمحہ قیمتی ہے ،کیوں ضائع کروں ۔فرمانے لگے یہی توآپ کامغالطہ ہے ،اسلام اوراسلامی خدمات کی انجام دہی میں ریٹائرمنٹ کانام ونشان نہیں ہے ،یہ ڈیوٹی آخری دم تک کی ہے ۔

شہادت کی خبرسنتے ہی وہ پورامنظرمیری آنکھوں میں ایک فلم کی طرح گھومنے لگا،میں پھوٹ پھوٹ کررونے لگا،حضرت مولانامحمدیسین چغرزئی صاحب کاایک شعرخودبخودوِردزبان بن گیا:
مائے مخ تہ زوَر زیر کتلی نہ وو۔چہ یار مخ پہ کفن پٹ کڑو ارمان راغے
(یعنی میں نے ان کے چہرہ پرُانوارپرٹِک کرنگاہ کیوں نہ ڈالی ،اب جب ان کاچمکتادمکتاچہرہ روپوشِ کفن ہواتوارمان آنے لگا)

مذکورہ ملاقات سے قبل ایسے ہی ایک اورآمناسامنابھی یادآنے لگا،راقم،مولاناعبدالرحمن سندھی ،علامہ سعیدالحسنی اور یاسرعرفات نقشبندی کسی ضروری کام کیلئے دفترالمظفرسے نکلے ،قاری محمداقبال ناظم امورعامہ جامعہ بنوری ٹاؤن کوبھی لیناتھا،مجلس دعوت وتحقیق اسلامی کے سامنے کھڑے تھے کہ حضرت اقدس شہیدآکرہمارے پاس بائک سے اترے ،علیک سلیک کے بعد راقم کے ظاہری جبے ّقبے پرطائرانہ نظرڈالتے ہوئے گویاہوئے :کیابااااات ہے !کیاجچ رہاہے ،میں نے عرض کیا،ایک شومیں جاناہے ،کہا:اﷲ اکبر،شو،،،کیاکہہ رہے ہو،میں نے ہنس کرکہا،حضرت دعوت میں قاری اقبال صاحب مہمان خصوصی ہیں ،ہم دیگرساتھی طفیلی ہیں ،سوچاکہ لوگ کھانہ ظاہری لباس کودیکھ کر کھلاتے ہیں ، اس لیے ذرابن ٹن کے نکلے ہیں ۔کہا:حالات کاکوئی پتہ نہیں چلتا،ذرااحتیاط ۔

آج یہ سطورلکھتے ہوئے حیران ہوں کہ ان اﷲ والوں کوشایدکچھ دن قبل ہی رفیق اعلی ٰسے ملنے کاپتہ چل جاتاہے ۔آپ غورفرمائیں ان کے ان الفاظ پراوران کے آخری دم تک ریٹائرمنٹ نہ ہونے کے کلمات پر، جمعرات تک آن ڈیوٹی رہے ،تدریس ،تعلیمات ،امامت اورجمعے کے دن آخری خطابت اوراس کے بعداپنی بیمارہمشیرہ کوگھرپہنچانے کیلئے اسی دن بعدازامامت وخطابت اگلے روز فرائض کی انجام دہی کیلئے واپسی کی فکر،ہم جیسے غافلوں کوکیاسبق دے رہے ہیں ،شایدان ہی کیلئے کہاتھا کسی نے :
جب کبھی اہل وفایادکریں گے ہم کو
جانے کیاکیامیری رودادکے عنواں ہوں گے

۱۴۰۸ھ سے جب جامعہ فاروقیہ کراچی میں راقم کاتقررہوا، تب سے مولاناامداداﷲ اورمولاناعطاء الرحمن شہیدسے قریبی برادرانہ ،بے تکلفانہ اوروفاق المدارس کے امورسے متلعق متشاورانہ تعلق رہا،جوروزبروز گہرااوربڑہتاہی رہا،امتحانی معاملات ،امتحانی کمیٹی ،نصا ب کمیٹی ،شوری وعاملہ کی مجالس ،مختلف مراکزامتحان میں ایک ساتھ نگرانی ،مختلف مراکزکے دورے ایسے بہت سے امورتھے ،جن میں صحبت کے مواقع بہم نصیب ہوئے ،مجال ہے ان کی پیشانی پرکسی لمحہ بھی بل نظرآئے ہوں ،ہمہ وقت ’’قربان زلبِ یار گہے گل گہے غنچہ‘‘کی تصویربنے ہوتے ۔شفقت ،مہربانی اورحوصلہ افزائی توان کی خمیرکاحصہ تھیں ،صالح مسجداورجامعہ بنوری ٹاؤن پررشک آتاتھاکہ ایسے ایسے ظاہروباطن کے محاسن وکمالات کے حاملین یہاں جلوہ افروزہیں ۔

حضرت مفتی نظام الدین شامزئی شہیدرحمۃ اﷲ علیہ کی شہادت کے بعدسماحۃ الامام الشیخ سلیم اﷲ خان صاحب کی ایک مجلس میں جامعہ بنوری ٹاؤن کے حوالے سے کچھ گفتگوہوررہی تھی ،حضرت صدروفاق نے فرمایا:ارے بھائی مفتی صاحب کاخلاتوپُرہونایقینامشکل ہے ،لیکن وہاں حضرت مولاناعطاء الرحمن صاحب جیسے لائق فائق حضرات جب تک ہیں ،فکرکی ضرورت نہیں ہے ،پھر فرمانے لگے :مولاناعطاء الرحمن صاحب بخاری ترمذی ،سمیت درس نظامی کے ہرفن مولی ٰہیں ۔میں نے کسی مناسب موقع پرحضرت الامام کے یہ کلمات بابرکات ان کونقل کئے ،جھوم اٹھے ،اورکہنے لگے ’’من آنم کہ من دانم ‘‘پرحضرت اقدس کے یہ تأثرات میرے لئے سرمایہ حیات ہیں ۔

ادب و عربیت میں ان کوکمال حاصل تھا ،ایسی شستہ اور رواں عربی بولتے کہ آدمی عش عش کے رہ جائے ،عالم عربی کی معلومات ،وہاں کے اسفار،عرب شیوخ کے خاص خاص مقام پرچیدہ چیدہ تعبیرات ان کی نوک ِزبان ہوتے تھے ،عرب اورعربی زبان کی فضیلت ،اھمیت ،وسعت اورہمہ گیریت پرجب کلام فرماتے توایک بحربیکراں ٹھاٹھیں مارتاہواظاہرہوتے ۔مصری لہجہ ،سعودی لہجہ اورفصحی عربی میں بسااوقات بے ساختہ شروع ہوجاتے ،جامعہ بنوری ٹاؤن میں جامعۃ الازہرکے مبعوث شیوخ کواپنے مختلف دوروں اورامتحانی ھالوں میں نگرانی کے لئے ساتھ رکھتے ،علمی نکات اورظرافت ولطافت کے چشمے رواں دواں ہوتے ،اب یہ وقت بتائے گاکہ ان کے دوستوں ،تلامذہ اورمتوسلین میں کون کون ان کے کردار،اخلاق اوراعلی علمی صلاحیت کواپناکران کے مشن کی تکمیل کرے گااورکون ان کے اوصاف حمیدہ کوچھوڑکرماتم کرنے والوں کی طرح صرف آہ و زاری پراکتفاکرے گا۔ان کی شہادت اپنے پسماندگان کویہ دعوت فکردیرتک دیتی رہے گی ۔

سال گذشتہ ان کے گاؤں بابوزئی میں سالانہ جلسہ میں دیگراکابرورفقاء کے ساتھ اس ناچیز کوبھی انہوں نے اورحضرت مولاناامداداﷲ صاحب نے دعوت دی تھی ،مولاناشہیدکے رفیق سفروحضراورخادم خاص مولوی عرفان میمن شھید بھی ہمارے ہمراہ تھے ،ان میں بھی حضرت کی روح رچ بس گئی تھی ،ہمہ تن خادم اورہشاش بشاش ،روزنامہ اسلام میں ا س سفرکے احوال ہم نے اپنے شکستہ اورناپیوستہ اندازمیں ان دنوں نذرقارئین کردئے تھے ۔

لیکن یہاں اتنی بات ضرور عرض کروں گاکہ مہمان نوازی ،اعلی ظرفی ،وسعت قلبی ،فقیری میں بادشاہی اورحسن اخلاق کے جوکرشمے ہم نے ہمیشہ سے حضرت مولانامیں دیکھے تھے ، ان کی پختگی کے سرچشمے ان کے والدماجداورخانوادے سے پھوٹ تے تھے ’’طہارۃ الاخلاق من کرم الاعراق ‘‘یعنی حسن اخلاق کاتعلق نسلوں کی شرافت سے ہم رشتہ ہوتی ہے۔کیاچھوٹے ،کیابڑے، سب ہی مکارم اخلاق اورحسن معاشرت کے مینارتھے ۔

اب سمجھ میں نہیں آرہاہے کہ ان کی تعزیت کس سے کی جائے ،ان کے خاندان سے ،جامعہ بنوری ٹاؤن سے ،مولاناامداداﷲ صاحب اورحضرت شہیدکے صاحبزادگان سے ،یاپورے ملک اورعالم اسلام سے ۔ کہ دنیامیں ایسی ہستیاں توصدیوں میں بھی پیدانہیں ہوتیں ۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ورپیدا

Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 882934 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More