یہ حضور اقدس ﷺ کی سب سے پہلی
رفیقۂ حیات ہیں آپ کے والد کا نام خویلدبن اسد اور آپ کی والدہ کا نام
فاطمہ بن زائدہ ہے ۔یہ خاندان قریش کی بہت ہی معززاور نہایت دولت مند خاتون
تھیں ۔ اہل مکہ ان کی پاکدامنی اور پارسائی کی بناء پر ان کو ’’طاہرہ‘‘کے
لقب سے یاد کرتے تھے ۔انھوں نے حضور ﷺکے اخلاق وعادات ،اورجمال صورت وکمال
سیرت کر دیکھ کر خود ہی حضور اقدس ﷺ سے نکاح کی رغبت ظاہرکی اور پھر
باقاعدہ نکاح ہوگیا ۔علامہ ابن اثیر اور امام ذہبی کا بیان ہے کہ اس بات پر
تمام امت کا اجماع ہے کہ رسول اﷲ ﷺپر سب سے پہلے یہی ایمان لائیں ۔ اور
ابتدا ء اسلام میں جب کہ ہر طرف سے آپ کی مخالفت کا طوفان اٹھ رہا تھا ایسے
کٹھن وقت میں صرف انھیں کی ایک ذات تھی جو رسول اﷲ ﷺکی مونس حیات بن کر
تسکین خاطر کا باعث تھی ۔انھوں نے اتنے خوفنا ک اور خطر ناک اوقات میں جس
استقلال اوراستقامت کے ساتھ خطرات ومصائب کا مقابلہ کیا ۔اور جس طرح تن من
دھن سے بارگاہ ِنبوت میں اپنی قربانی پیش کی ۔اس خصو صیت میں تمام ازواج
مطہرات پر ان کو ایک خصوصی افضلیت حاصل ہے ۔چنانچہ ولی الدین عراقی کا بیان
ہے کہ قول صحیح اور مذہب مختار یہی ہے کہ امہات المومنین میں حضرت خدیجۃ
الکبری سب سے زیا دہ افضل ہیں ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے راوی ہیں کہ حضرت جبریل علیہ السلام حضور ﷺکے
پا س تشریف لائے اور عرض کیا کہ اے محمد ﷺ!یہ خدیجہ ہیں جو آپ کے پاس ایک
برتن لے کر آرہی ہیں جس میں کھانا ہے ۔جب یہ آپ کے پاس آجائیں تو آپ ان سے
ان کے رب اور میرا سلام کہدیں اور ان کو یہ خوشخبری سنا دیں کہ جنت میں ان
کے لئے موتی کا ایک گھر بنا ہے جس میں نہ کوئی شور ہوگا نہ کوئی تکلیف
ہوگی(بخاری، ص؍۵۳۹ باب تزویج النبی ﷺ) امام احمدوابوداؤد ونسائی ، حضرت
عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ سے راوی ہیں کہ اہل جنت کی عورتوں میں سب سے افضل
حضرت خدیجہ وحضرت فاطمہ وحضرت مریم و حضرت آسیہ رضی اﷲ عنہن ہیں(زرقانی،
ص۲۲۳تا ۲۲۴) ایک مرتبہ جب حضرت عا ئشہ رضی اﷲ عنہا نے حضور ﷺ کی زبا ن
مبارک سے حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کی بہت زیا دہ تعریف سنی تو انھیں غیرت
آگئی اور انھوں نے یہ کہہ دیا کہ اب تو اﷲ تعالےٰ نے آپ کو ان سے بہتر بیوی
عطا فرما دی ۔یہ سن کر آپ نے ارشاد فرما یا کہ نہیں ۔خدا کی قسم! خدیجہ سے
بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی ۔جب سب لو گوں نے میرے ساتھ کفر کیا اس وقت
وہ مجھ پر ایمان لائیں اور جب سب لوگ مجھے جھٹلارہے تھے اس وقت انھوں نے
میری تصدیق کی اور جس وقت کوئی شخص مجھے کوئی چیز دینے کیلئے تیا ر نہ
تھا۔اس وقت خدیجہ نے مجھے اپنا سا را مال دے دیااور انھیں کے شکم سے اﷲ
تعالےٰ نے مجھے اولا د عطا فرما ئی(زرقانی،جلد ۳ ص۲۲۴) حضرت عائشہ رضی اﷲ
تعالیٰ کا بیان ہے کہ ازواج مطہرات میں سب سے زیا دہ مجھے حضرت خدیجہ کے با
رے میں غیر ت آیا کرتی تھی حا لا نکہ میں نے ان کو دیکھا بھی نہیں تھا ۔غیرت
کی وجہ یہ تھی کہ حضور ﷺ بہت زیا دہ ان کا ذکر فر ماتے رہتے اور اکثر ایسا
ہو اکرتا تھا کہ آپ جب کو ئی بکری ذبح فرما تے تو کچھ گوشت حضرت خدیجہ کی
سہیلیوں کے گھروں میں ضرور بھیج دیا کرتے تھے۔اس سے میں چڑھ جا یا کرتی تھی
اور کبھی کبھی یہ کہہ دیا کرتی تھی کہ’’دنیا میں بس ایک خدیجہ تو آپ کی
بیوی تھیں ‘‘میرا یہ جملہ سن کر آپ فرما تے تھے کہ ہاں ،ہا ں بیشک وہ تھیں
،وہ تھیں ۔انھیں کے شکم سے تو اﷲ تعالیٰ نے مجھے اولا د عطا فرما ئی ۔ (بخاری
جلد ۱ ص۵۳۹ )
امام طبرانی نے حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے ایک حدیث نقل کی ہے کہ
حضور ﷺنے حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو دنیا میں جنت کا انگو ر کھلا یا
۔اس حدیث کو امام سہیلی نے بھی نقل فرما یا ہے (زرقانی ص۲۲۶)حضرت خدیجہ رضی
اﷲ تعالےٰ عنہا پچیس سال تک حضورﷺ کی خد مت گذاری سے سرفراز رہی ۔ہجرت سے
تین برس قبل پینسٹھ برس کی عمر پا کر۱۰؍ ما ہ رمضان کو مکہ معظمہ کے میں آپ
نے وفات پائی۔ حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے مکہ کے مشہور قبرستان حجون (جنت
المعلٰی) میں خود بہ نفس نفیس ان کی قبر میں اتر کر اپنے مقدس ہا تھوں سے
ان کو سپردِ خاک فرما یا ۔چونکہ اس وقت تک نماز جنازہ کا حکم نازل نہیں ہوا
تھا اس لئے آپ نے ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھی ۔ |