امت کا محسن طبقہ

بقلم:مفتی محمد زبیر حق نوازـــ۔۔۔۔سرکار دو عالم ﷺ پر جب پہلی وحی آئی، تو چونکہ ان کے لئے یہ وحی کا پہلا تجربہ تھا، اس لئے اسکی وجہ سے آپ پر ایک خاص قسم کا اثرہوا اور گھبراہٹ طاری ہوئی ،اسی حالت میں آپﷺ اپنی غمگسار بیوی ام المومنین حضرت خدیجہ کے پاس تشریف لائے ،اس موقع پر حضرت خدیجہ نے جو تاریخی جملے ارشاد فرمائے، وہ خاص طور پر امت کے طبقۂ علماء اور اہل ثروت کو اپنے دل پر نقش کرلینے چاہئیں، فرمایا آپ نہ گھبرائیں، اﷲ کبھی آپکو ضائع نہیں ہونے دیگا ،کیونکہ آپ ﷺبے سہاروں کا سہارا بنتے ہیں ، محتاجوں کی مدد کرتے ہیں، صلہ رحمی کرتے ہیں اور مہمانوں کی خدمت کرتے ہیں ۔

اس قصہ میں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ حضرت خدیجہ کے یہ تاریخی جملے نبوت کا پہلا تعارف ہیں، کیونکہ اس اہم موقع پر حضرت خدیجہ نے نبی ﷺ کی نماز ،ذکر مراقبہ یا نبی کی کسی اور صفت کا ذکر نہیں فرمایا ،بلکہ نبی کی خدمت خلق کا ذکر فرمایا،گویا نبوت کا پہلا تعارف ہی یہی ہے کہ مخلوق خدا کی خدمت کی جائے۔

علماء چونکہ نبی کے وارث ہیں ،لہذا اس وراثت کی بناء پر علم کے علاوہ خدمت خلق علماء کے اولین فرائض میں شامل ہے ۔حال ہی میں متاثرین سوات کے سلسلے میں امت کے مختلف طبقے اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ یہ مبارک فریضہ انجام دینے والا امت کا ہر فرد یقینا نہایت قابل قدر ہے ،خدا ان خدام کے اعصاب مضبوط فرمائے ۔ تاہم خاص طور پر امت کے طبقۂ علماء کا اس سلسلے میں بڑا اُجلا اور نمایاں کردار سامنے آیا ہے، ان علماء نے اپنے ان مسلمان بھائیوں کی جس طرح خدمت کی اور کررہے ہیں ،اسکی مثال نہیں ملتی ،لیکن چونکہ یہ غیرسیاسی خالص تدریسی علماء ہیں، جو اشتھارات ،پوسٹر ، بینر اور پبلسٹی کی روایتی دنیا سے کوسوں دوررہتے ہیں اور انہیں ستائش اور صلہ کی تمنا ہوتی ہے نہ یہ لوگ ووٹ کے طالب ہوتے ہیں، اس لئے یہ اپنے امدادی کیمپوں کا کسی صحافی کو دورہ کرانے اور میڈیا کے تکلفات سے آزاد ہوتے ہیں۔ یہ روایتی این جی اوز اور حکومتی وزیروں کی طرح امدادی سامان اور رقوم کی ترسیل کے اخباری مناظر اور تقسیم امداد کی تصویر کشی کو پسند نہیں کرتے اور ان جھنجٹوں سے دور رہ کر صرف اور صرف کام پر یقین رکھنے والے عمل پسند لوگ ہیں۔ سرحد کے کئی مدارس کے علاوہ کراچی کے بعض ممتاز دینی اداروں نے اس سلسلے میں قیادت اور اپنے بڑے پن کا خوبصورت مظاہرہ کیا، خاص طور پر دارالعلوم کراچی ،بنوری ٹاؤن ،جامعہ فاروقیہ ، جامعہ بنوریہ ،جامۃ الرشید اور دارالعلوم الصفہ اور انکے علماء امت کیلئے شجر سایہ دار کے طور پر سامنے آئے ۔ ان دینی اداروں سے واقف ہر قریبی شخص جانتا ہے کہ کشمیر کا زلزلہ ہو، یا زیارت کا ،یا سوات اور بونیر کے متاثرین کا معاملہ ہو انہوں نے کس طرح دلسوزی ، کڑھن اور ہمدردی کے اعلی جذبات کے ساتھ اپنے مسلمان بھائیوں کی خدمت کی۔ ان اداروں نے متعلقہ علاقوں میں اپنے شاگردوں کے توسط سے رہائشی اور میڈیکل کیمپس ، راشن ڈپو ز،عارضی مساجد اور ، قرآنی تعلیم کے عارضی مکاتب قائم کئے اور منظم ترتیب قائم کی، وہاں کے کئی مدارس ومکاتب کے طلبہ بھر پور انداز میں انتہائی لگن اور تندہی کے ساتھ اپنے اساتذہ کی زیرنگرانی میں شب وروز متاثرین کے قیام وطعام کے انتظام میں مصروف عمل ہیں۔ کراچی کے علمائے حق میں مفتی محمد رفیع عثمانی اور مفتی محمد تقی عثمانی عالم اسلام کی عظیم علمی وفقہی شخصیات ہونے کے علاوہ امت کیلئے دل درد مند رکھتے ہیں ،وہ امت پر آئی ہر ایسی قدرتی آفت یا مصیبت کے موقع پر تڑپ جاتے ہیں اور خاموشی کے ساتھ انسانیت کیلئے مرہم کا سامان فرماتے ہیں۔بنوری ٹاؤن کے علماء میں مولانا امداد اﷲ ،مولانا عطاء الرحمن ، مفتی عاصم زکی ،جامعہ فاروقیہ کے مولانا ولی خان المظفر جامعۃ الرشید کے مفتی عبد الرحیم ،مفتی ابو لبابہ ، بنوریہ کے مفتی محمد نعیم ،مولاناغلام رسول ،دارالعلوم الصفہ کے مولانا حق نواز ، مولانا فداء اﷲ ،مولانا اعجاز نے انتہائی مربوط اور منظم انداز میں بھر پور خدمات انجام دیں اور دے رہے ہیں۔ جامعہ بنوریہ کے علماء نے اپنے ریڈیو امریکہ پر ہونے والے ہفت روزہ بیانات میں سے احقر کے دوبیانات صرف اسی مقصد کیلئے مختص کرکے امریکی مسلمانوں سے چندہ کرکے انہیں خود متاثرہ علاقوں میں تقسیم کرنے کی دعوت دی اور اسکا انتظام کیا ۔لیکن خاص طور پر جامعہ فاروقیہ کے مولانا ولی خان المظفراپنی علمی وادبی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ حال ہی میں ’’ خدمت خلق ،، کے حوالہ سے نمایاں طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں ،انہوں نے بتیس سو سے زائد خاندان یعنی دس ہزار افراد کو پناہ اور ٹھکانہ مہیا کیا ہے اور اس کیلئے سب سے پہلے اپنے گھر سے ابتداء کی پھر اپنے جاننے والوں سے عارضی رہائش کیلئے ’’ مکانات کا چندہ ،، کیا۔ کراچی کی نیک طبیعت عوام نے اپنے مکانوں کی چابیاں مولانا کو فراہم کیں مولانا متاثرین کو ان میں ٹھہراتے رہے، پھر انکے لئے راشن اور میڈیکل کا بھی نہایت مربوط انتظام کیا ،اب انکے ساتھ انکے جفاکش رفقاء متاثرین کی خدمت میں جتے ہوئے ہیں۔ امت کے محسن مذکورہ علماء کی تین ایسی بنیادی خصوصیات اور صفات ہیں ،جو خاص طور پر فلاحی خدمت کرنے والوں کیلئے بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں جنہیں خدمت کے شعبے سے وابستہ ہر ادارہ اور فرد کو اپنانا چاہئے، نمبر ایک یہ کہ جو رقوم اور اموال وصول کئے جائیں، انہیں نہایت امانت داری اور احتیاط کے ساتھ مستحقین پر خرچ کرنا۔ آج کل چونکہ امانت کا معیار بہت پست ہوگیا ہے اور ہر طرف خیانت کا دور دورہ ہے، اس لئے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مختلف حکومتی اداروں ،این جی اوز اور فلاحی تنظیموں میں یہ وباء عام ہوگئی ہے کہ یہ اموال اور رقوم جمع کرنے کے بعد’’ ایدمنسٹریشن فیس،، کے نام پر بھاری رقوم علیحدہ کرلی جاتی ہیں ۔اور اﷲ بچائے ایسے سنگین مواقع پر بھی اپنوں کو نوازنے کے مختلف چور دروازے کھول لئے جاتے ہیں، سفر خرچ انتظام ،اور اسٹاف وعملہ کے قیام وطعام اور ہوٹلنگ کے بھاری اخراجات اور بل ،ان امانتی رقوم سے نکال کر ایسی ’’ مہذب خیانت،، کی جاتی ہے کہ جسکی عطیہ دھندگان کی طرف سے کسی طور اجازت نہیں ہوتی ۔ یہ البتہ درست ہے کہ مستحقین تک امداد پہنچانے کی حد تک واجبی اور ضروری اخراجات کی شاید فتوی کی رو سے گنجائش نکل سکتی ہو، مگر متاثرین کی امداد کے راستے سے اپنے جسم کی امداد ، تکمیل خواہشات ،اور نامی گرامی ہوٹلوں میں پر تعیش رہن سہن اور پر تکلف کھانوں پر ان رقوم سے مسرفانہ اخراجات کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ اس حوالہ سے بھی مذکورہ علماء کا کا کرادر لائق تحسین ہے اور معاشرہ کیلئے قابل تقلید ۔ صرف نقدی کی صورت میں معقول رقم کی امداد لیکر جانے والی ایک جماعت علماء میں جانے سے پہلے’’ سستے ذریعہ ٗسفر کی تلاش،، خاصا موضوع بحث رہا، پھر قدم قدم پر اس جماعت علماء نے دیانت کی خوبصورت مثالیں قائم کیں، انمیں سے ایک بزرگ نے متاثرہ علاقوں میں پہنچنے کے بعد خود راقم سے فون کرکے یہ مسئلہ پوچھا کہ کیا شرعاًاس ا مدادی رقم سے یہاں کی ضرورت کے پیش نظر اپنے موبائل میں ( محض سو روپے کا) فون کارڈ ڈال سکتا ہوں ؟ اسی طرح ایک اور موقع پر ہوٹل سے خریدے جانے والے کھانے کی نوعیت بتاکر اس کی رقم کی ادائیگی کا سوال پوچھا گیا ،اس پرفتن دور میں امانت ودیانت کی ایسی مثالیں بہت کم ہوگئیں ہیں ۔دوسری صفت ان علماء کی یہ ہے کہ عام طور پر ایسے مواقع پر صحیح مستحق اور مصرف تک پہنچانا بھی خاصا دشوار ہوتا ہے ،عموماً دیکھا یہ گیا ہے کہ امداد تو بڑے جوش وخروش سے جمع کرلی جاتی ہے، مگر تقسیم میں ’’کوئی حقدار چھوٹے نہ اور غیر حقدار لینے نہ پائے ،، کے اصول کا لحاظ نہیں رکھاجاتا، ایسے کئی مواقع پر مشاہدہ کیا کہ بس امدادی سامان کا ٹرک لیجا کر کھڑا کردیا گیا اور دیکھتے ہی لوٹ کا بازار گرم ہوگیا، بلکہ بعض جگہوں پر دیکھنے میں آیا کہ امدادی خدمت گاروں نے متعلقہ علاقہ میں سامان اس طرح اتارا ،گویا سر سے بلا اتاردی ۔اس کے بجائے یہ علماء ماشاء اﷲ خود مقامی رہبر علماء سے مل کر دور دراز پہاڑی اور مضافاتی علاقوں میں کئی ایسے خاندانوں تک پہنچے ،جنکا نہ کوئی ٹھکاتھا نہ کوئی رشتہ دار اور کوئی پرسان حال، ایک بھوکا پیاسا خاندان جو تازہ تازہ ٹریکٹر کے ذریعہ پہنچا تھا اور روڈ کے کنارے اس سوچ میں کھڑا تھا کہ اب کہاں جائیں ایسے لوگوں کو ان علماء نے مدد اور ٹھکانہ فراہم کیا اور ایسے ہی کئی خاندانوں کی کھود کرید اور گہری تحقیق کرکے صحیح مصرف تک امداد پہنچائی گئی ،یہ چیز تمام فلاحی خدمت انجام دینے والے ہر ادارہ اور فرد کیلئے لازم ہے، کیونکہ تجربہ یہی بتاتا ہے کہ امداد جمع کرنے سے زیادہ مشکل کام صحیح مستحقین تک پہنچانا ہے ۔ تیسری صفت جسے اپنا کر یہ علماء خدمت انجام دے رہے ہیں ،وہ ہے متاثرین ومستحقین کی ذاتی توقیر وعزت نفس کا خیال رکھنا، اس وقت بھی حصول امداد کیلئے متاثرین کی لمبی لائنیں ،جن میں طویل اوقات تک کھڑے رہنے کی بے عزتی اور اذیت کے تکلیف دہ مناظر سامنے ہیں، ذرہ سے منظم سسٹم سے ایسی تکلیف دہ صورتحال سے بچا جاسکتا ہے، ان علماء نے مستحقین کو بلانے اور قطاروں میں کھڑا کرنے کی بجائے، اپنے مقامی رہبر علماء کے ذریعہ تحقیق کروانے کے بعد خود متاثرہ افراد کے ٹھکانوں پر جاکر امدادی رقوم کے لفافے تسلی کے کلمات کے ساتھ تقسیم کئے اور قبول کرنے پر متاثرین کا شکریہ ادا کیا ۔ یہی اسلام کا مزاج ہے شریعت میں زکاۃ کی ادائیگی سے زیادہ تقسیم زکاۃ کے طریقے کو باعزت اور باوقار بنانے کا حکم ہے، کیونکہ مستحق انسان مسلمان کی عبادت کا محل اور ذریعہ ہے، جس طرح مسجد انسان کی عبادت نماز کی ادائیگی کا محل اور زریعہ ہونے کی وجہ سے لائق احترام ہے۔ اسی طرح مستحق بھی انسان کی زکاۃ وصدقہ جیسی عظیم عبادات کا ذریعہ ہونے کی وجہ سے لائق توقیر ہے، لہذا اسکی تحقیرکے بجائے توقیر کا خیال رکھنا لازم ہے، بلکہ انسان کو شکر گذار ہونا چاہئے کہ اس کے ذریعہ سے اسکی عبادت ادا ہوئی ۔ بہر حال آج کی نشست میں خدمت خلق کے حوالہ سے علماء کے ان زریں اصولوں( ریاکاری سے احتراز ،امانتوں میں احتیاط ،صحیح مصرف تک پہنچانے کی فکر اور اہتمام) کو پیش نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ امت کے اس مخلص طبقہ کی قدردانی کا بھی عزم کرنا چاہئے ۔ آج علماء کے اس طبقہ نے علم کے ساتھ ساتھ خدمت خلق میں وراثت انبیاء کا کردار ادا کیا ہے، ہمارے کئی تجدد پسندوں کی زبانیں صبح وشام علماء پر دراز ہوتی رہتی ہیں، کیا انہیں اپنی چشم بینا سے علماء کا یہ اجلا کردار نظر آتاہے ؟ ا ن سے درخواست ہے کہ کچھ دیر کیلئے تنقید وتردید سے بالاتر ہوکر متاثرہ علاقوں میں خود جاکر مکاتب ومدارس کے طلبہ کی خدمت ،جانفشانی اور متاثرین سے محبت بھرے برتاؤ کانظارہ فرمائیں۔سلام ہو امت کے ان مخلص محسنین پر ۔ مولانا محمد الیاس رحمہ اﷲ فرمایا کرتے تھے اخلاص والے ہدایت کے چراغ ہوتے ہیں خدا ان چراغوں کو روشن رکھے ۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 832822 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More