لگتاہے کہ ایک بار پھر پاکستان
کے عوام کا مینڈیٹ چوری کرلیا گیا۔ ملک بھر کے عوام بڑے جوش و جذبے سے اپنی
تقدیر بدلنے نکلے تھے۔ انہوں نے یہ سوچ لیا تھا کہ مفاد پرستوں، دہشت گردوں،
بھتہ خوروں اور گزشتہ پانچ سال تک عوام کی گردن پر سوار رہنے والے دھوکے
بازوں کو اپنے ووٹ کی طاقت سے اقتدار سے باہر کردینگے۔ اور پورے ملک میں
ایسا ہوا دراصل بھتہ اور ٹھپہ مافیا نے اس دفعہ یہ محسوس کرلیا تھا کہ اگر
کہیں بھی ڈھیل دکھائی گئی تو پھر بھاگنے کا بھی راستہ نہیں ملے گا۔ دوسری
طرف دہشت گردوں کو اندازہ تھا کہ کیا ہونے والا ہے ، اس لیے پہلے تو انہوں
نے کوشش کی کہ کسی طرح الیکشن کو آگے بڑھایا جائے، اس میں ناکامی کے بعد
مظلومیت کا ڈرامہ کھیلے گے ۔ یہ بڑی عجیب سی بات تھی کہ جو جماعتیں سب سے
زیادہ مظلومیت کا رونا رو رہی تھیں انہی جماعتوں نے فوج کی نگرانی میں
الیکشن کے مطالبے کو رد کردیا۔ دراصل اس کی وجہ یہی تھی کہ فوج کی نگرانی
میں انتخابات منعقد ہونے کی صورت میں من مانے نتائج حاصل نہیں کیے جاسکتے
تھے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک خودمختار ادارہ ہے جو کہ اسلامی جمہوریہ
پاکستان میں آزاد اور غیرجانبدارانہ انتخابات منعقد کروانے کا ذمہ دار ہے۔
چیف الیکشن کمشنر اس ادارے کا سربراہ ہوتا ہے اورملک میں آزاد اور غیر
جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کے علاوہ ہر امیدوار کی جانچ پڑتال کا بھی
ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کا اس سے الحاق
اور ان کے سیاسی و مالی امور کی نگرانی بھی اس ادارہ کی ذمہ داریوں میں
شامل ہیں۔انتخابات کی عالمی معاونت کی تنظیم نے 16 عالمی تنظیموں کی جانب
سے مرتب کردہ 32 نکات پر مشتمل ترجیحات و اصلاحات الیکشن کمیشن آف پاکستان
کے لیے مختص کی ہیں۔ اکتوبر 2009ء میں ہونے والی ایک مجلس میں یہ تجاویز
پیش کی گئیں۔ اسی تنظیم نے تجاویز و اصلاحات کمیشن کو پیش کرنے کے علاوہ
ایک ذیلی کمیٹی بھی تشکیل دی جس کا مقصد ان اصلاحات و تجاویز کو نافذ کرنے
کے دوران پیش آنے والی ممکنہ مشکلات بارے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی
معاونت کرنا ہے۔الیکشن سے قبل آئین کی دفعہ 62-63کے ان کی روح کے مطابق
اطلاق کی گونج سے بلا تخصیص اور بلا امتیاز ہر سیاسی پارٹی کے اندر کہرام،
طوفان اور افراتفری کی کیفیت تھی۔ جو لوگ اس شق کے اطلاق کے بڑے حامی تھے ،انہیں
بھی اس آرٹیکل کے غلط استعما ل سے انتقام کی بو آرہی تھی۔ پہلے اس کے عدم
نفاذ کا رونا ،پھر جب اس پر عمل ہونے لگاتو انتقام کا واویلا! 62-63 کے
ممکنہ اطلاق سے اس کی زد میں آنیوالوں کی نیندیں حرام ہو چکی تھیں۔
بتایاجاتاہے کہ جس روز سے نئی حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے اسی دن سے انرجی
بحران کے خاتمے کے لئے عمل پیرا ہیں اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے دن رات
کوششوں میں مصروف ہیں ۔ لیکن پھر بھی لاہور سمیت کئی شہروں میں بجلی کا
بحران برقرار رہا اور بدترین لوڈشیڈنگ کا سلسلہ بھی جاری جس کیخلاف کئی
شہروں میں احتجاجی مظاہرے جاری رہے جبکہ کئی شہروں میں سحر و افطاری اور
تراویح کے اوقات کے دوران بھی بجلی بند رہی جس پر روزہ داروں کو شدید
مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ کئی شہروں میں پانی کی بھی قلت رہی۔
عارفوالہ میں احتجاج کے دوران مظاہرین نے واپڈا دفتر میں گھس کر توڑ پھوڑ
کی۔ ملتان میں مظاہرین اورمیپکو اہلکاروں میں تصادم ہوگیا جس میں 3 افراد
زخمی ہوگئے۔گزشتہ روز وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے بجلی اور گیس چوروں
کے خلاف سخت ترین کارروائی کا حکم دیتے ہوئے اعتراف کیا کہ توانائی بحران
متعلقہ اداروں کی کرپشن، لائن لاسز بجلی و گیس چوری اور سابقہ حکومتوں کی
طرف سے توانائی بحران پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے حد سے بڑھ چکا ہے جس پر
مختصر ٹائم فریم میں قابو پا کر صارفین کو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کریں
گے۔ لہٰذا بجلی اور گیس چوروں کے خلاف سخت ترین کارروائی کا ہر حال میں
آغاز ہو جانا چاہئے۔ بجلی چور اور گیس چور کسی بھی نرمی کے مستحق نہیں
انہیں نشان عبرت بنا دیں گے۔ وزیراعظم پکڑی جانے والی ایک مل سے 27 کروڑ
روپے سالانہ کی گیس چوری کا معاملہ دیکھنے کے لئے خود فیصل آباد آئے ہیں۔
اس موقع پر وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف اور فیصل آباد سے تعلق
رکھنے والے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے علاوہ وفاقی وزرا بھی موجود
تھے۔اسی دوران میاں محمد نوازشریف نے صنعت کاروں سے بھی ملاقات کی اور
انہیں اعتماد میں لیا اور انہیں بتایا کہ وہ دن دور نہیں جب ہماری صنعت کا
پہیہ چلے گا، ملک ترقی کرے گا اور پھر ہم آہستہ آہستہ انرجی بحران پر قابو
پا لیں گے۔ ایک بار پھر انہوں نے کہا ہے کہ ہمارا ملک مختلف مسائل میں گھرا
ہوا ہے اور ہم وعدہ کرتے ہیں کہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ملک
کو بحرانوں سے انشاء اﷲ نکالنے میں کامیاب ہوں گے۔ اس دوران متعلقہ حکام نے
وزیراعظم کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ بیشتر مل مالکان گیس اور بجلی چوری
میں ملوث ہیں۔ وزیراعظم کو بتایا گیا کہ فیکٹری مالکان مبینہ طور پر 270
ملین روپے کی گیس چوری کر رہے ہیں۔ سوئی ناردرن گیس پائپ لائن لمیٹڈ کی طرف
سے حال ہی میں شروع کئے گئے گیس چوری کے خلاف آپریشن کے دوران کمرشل ملوں
اور فیکٹریوں پر متعدد چھاپے مارے گئے ہیں جس کے دوران بھاری مقدار میں گیس
چوری کیسز سامنے آئے۔ وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کو ایک ٹیکسٹائل مل کا
دورہ کرایا گیا جو گیس چوری میں ملوث تھی۔ اس مل پر جب چھاپہ مارا گیا تو
یہ گیس چوری میں ملوث پائی گئی تو اسے مجموعی طور پر 11 بلین روپے کا
جرمانہ کیا گیا۔اور مل کے مالک کے خلاف مقدمہ درج کروایا جا چکا ہے اور اس
ملز کی بیشتر مشینری کو قبضے میں لے کر سیل بھی کیا گیا۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کا اس موقع پر یہ کہنا کہ ہر ایک
کو اپنی جیب کی فکر ہے عوام کا درد نہیں سب لوٹنے میں لگے ہوئے ہیں۔ پوری
کوشش ہے کہ جو جن بوتل سے باہر نکل گیا ہے قابو میں لایا جائے۔ نئے منصوبے
لگانے کے لئے ہمارے پاس رقم نہیں ہے۔ قرض ادا کرنے کے لئے مزید قرض لینا پڑ
رہا ہے۔ عوام صبر کا دامن نہ چھوڑیں، ہم لائن لاسز کو کم کرنے کی طرف توجہ
دے رہے ہیں۔ بجلی اور گیس کی چوری ان محکموں کی ملی بھگت سے ہوتی ہے۔ بجلی
کا مسئلہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ہماری ساری توجہ بجلی کے بحران کو
حل کرنے پر مرکوز ہے۔ ہماری حکومت میں کرپشن کا کوئی سکینڈل نہیں ہو
گا۔ماہرین کا خیال ہے کہ درجنوں کرپشن کے کیس زیر سماعت ہیں ۔کئی ملزم فرار
ہوچکے ہیں۔ شایدحکمرانوں کیلئے قرض لینا آسان اورفرائض پورا کرنامشکل
لگتاہوں اس لیے باربار پریس کانفرنسوں اور اجلاسوں میں قرض لینے کی بات کی
جاتی ہے لیکن مسلم لیگ ن کو قرض کی بجائے فرائض پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔تاریخ
گواہ ہے کہ اگر حکومت وقت قانون پر عمل درآمد کروائے تو چند دنوں میں
بحرانوں پر قابو پاسکتی ہے۔ |